ہیں کام کاج اتنے بدن سے لپٹ گئے
ہیں کام کاج اتنے بدن سے لپٹ گئے
لوگوں کے شہر بھر سے روابط ہی کٹ گئے
منظر تھے دور دور تو کتنے حسین تھے
تصویر زوم کی ہے تو پکسل ہی پھٹ گئے
چہرے جھلس چکے ہیں تماشائے عشق میں
اے عشق کس طرح ترے معیار گھٹ گئے
میں خواب خامشی مرا سایہ ہوئے ہیں جمع
جب لوگ اپنے اپنے گروہوں میں بٹ گئے
قدرت کا کینوس نہ مکمل دکھائی دے
کتنے ہی رنگ میری نگاہوں سے ہٹ گئے
اک زہر ہے سماج کے اندر بھرا ہوا
اتنی سموگ ہے کہ تنفس الٹ گئے
آنکھیں بھلا چکی ہیں خد و خال روشنی
بادل تو آسمان سے کب کے ہیں چھٹ گئے
ذیشانؔ اسے خیال میں رکھا تھا مستقل
آہستگی سے باقی خیالات ہٹ گئے