ہیں اہل چمن حیراں یہ کیسی بہار آئی
ہیں اہل چمن حیراں یہ کیسی بہار آئی
ہیں پھول کھلے لیکن ہے رنگ نہ رعنائی
ان کے رخ رنگیں سے اس ساعد سیمیں سے
پھولوں نے پھبن پائی سورج نے ضیا پائی
سب میکدے ویراں ہیں سنسان گلستاں ہیں
کہنے کو گھٹا چھائی کہنے کو بہار آئی
مدہوشی و مستی کا انداز نرالا ہے
مے رندوں نے پی کم ہی پیمانوں سے چھلکائی
تنہائی میں رہ کر بھی تنہا نہیں ہوتے ہم
تنہائی میں یادوں کی جب چلتی ہے پروائی
اس دور میں جینا بھی کچھ کم نہیں مرنے سے
ناکردہ گناہوں کی جیسے ہو سزا پائی
ہنستے ہوئے مرنے کو تیار جو رہتے ہیں
ایسے ہی جیالوں نے جینے کی ادا پائی
اس دور کے انساں کا انداز نرالا ہے
اپنے کو عدو سمجھیں غیروں سے شناسائی