ہے یہ تو خزاں نے روپ بھرا ہم جس کو بہاراں کہتے ہیں
ہے یہ تو خزاں نے روپ بھرا ہم جس کو بہاراں کہتے ہیں
بس ایک نظر کا دھوکا ہے سب جس کو گلستاں کہتے ہیں
عزت بھی ہے دولت بھی پر آدمیت کا نام نہیں
ہم کس کو ہندو کہتے ہیں ہم کس کو مسلماں کہتے ہیں
کچھ دیر ہو تو ہم صبر کریں اندھیر نہیں دیکھا جاتا
ہے اپنے گھر میں آگ لگی سب جس کو چراغاں کہتے ہیں
اے ساتھ سفر کرنے والو ٹھہرو نہ یہاں آگے کو بڑھو
ہم جس کو منزل سمجھے ہیں سب بھول بھلیاں کہتے ہیں
جب عقل مجھے سمجھاتی ہے بے ہوش نہ ہو نادان نہ بن
دل سے غم جاناں کہتا ہے اس کو غم دوراں کہتے ہیں
ہیں دفن یہاں دولت والے طاقت والے عزت والے
قدرت کا دفینہ ہے جس کو ہم گور غریباں کہتے ہیں
پی غافل اب پرہیز نہ کر کچھ تلخ سہی کچھ تیز سہی
لے دے کہ یہی ہے ایک دوائے گردش دوراں کہتے ہیں
میخانے کے پھیرے کرتا ہے اب واعظ بیخودؔ سنتے ہیں
اس نے بھی شاید باندھ لیا پیمانے سے پیماں کہتے ہیں