ہے مجھ میں بھی کوئی نگہبان جیسا
ہے مجھ میں بھی کوئی نگہبان جیسا
میں اپنے میں رہتا ہوں میزان جیسا
ہمیشہ ہی اک پھول کھلتا رہے گا
مری شاخ دل پر بھی ایمان جیسا
تہ خاک ہونا ہے گلزار ہونا
بظاہر یہ سودا ہے نقصان جیسا
کسی اژدہے کا نہ سایہ ہو اس پر
ہرا پیڑ ہو کر ہے ویران جیسا
بہر حال ہم زندگی جی کے دیکھے
یہ مضموں نہیں اپنے عنوان جیسا
سنا ان سنا کر دیا ہے سبھی نے
میں لوگوں میں ہوتا ہوں اعلان جیسا
میں کیا قتل کرتا کہ جاویدؔ اس میں
کوئی چھپ کے بیٹھا تھا انسان جیسا