ہے کوئی
کشادہ بازار کے پہلو میں اونگھتی تنگ گلی میں پندرہ بیس دکانیں سانس لے رہی تھیں۔ دکانوں میں مال زیادہ اور گاہک کم تھے۔ بازار سے اس گلی میں داخل ہوتے ہی اچانک ایسے محسوس ہونے لگتاہے جیسے انسان کسی اوردنیامیں آنکلا ہے۔ یہ گلی اپنے وجود کے اعتبار سے ایک مکمل ریاست کی طرح تھی۔ دورویہ دکانوں میں اک دنیا آبادتھی۔ بھانت بھانت کی بولی سننے کو ملتی۔ ہردکان دار کی اپنی ایک الگ دنیا تھی اورسب کی سوچ کا اپنا منطقہ..... ان ہی دکانوں کے بیچ ایک دکان مروت کی بھی تھی۔ جس میں بکنے کو کوئی چیز نہ رکھی گئی تھی۔ مروت گاہک بھی خود تھا اوردکان داربھی۔ دکان میں نصب اکلوتے پنکھے کے پَر اس کی قسمت کی مانند ساکت تھے۔ پَرجنبش کرتے نہ اس کا نصیب۔ وہ باہر کی تازہ ہوا کا منتظررہتا۔ پنکھا صرف اس وقت چلایاجاتا جب کوئی گاہک آنکلتا۔ کیونکہ بجلی کے کمرشل ریٹ کے نئے ہوش ربا ٹیرف نے پوری گلی کے اوسان خطاکررکھے تھے۔ مروت دن بھرگلی سے گزرنے والی ریڑھیوں، سائیکلوں، موٹرسائیکلوں اورپیدل گزرنے والوں کو تکتارہتا۔ وہ ہرگزرنے والے کوپُرامید نظروں سے جانچنے کی سعی کرتا۔ مبادا ان میں سے کوئی میرامقدر اپنی جیب میں لیے پھررہاہو۔
وہ علی الصبح جھاڑو لگاکرسیمنٹ کے تھڑے پراپنی خستہ کرسی سجادیاکرتا۔ دکان میں چھڑکاؤ کرتا۔ بالٹی بھرپانی کا چھڑکاؤ گرد بٹھانے کو گلی میں کردیتا۔ سلائی مشین کی جھاڑ پونچھ کرکے تیل کے دوچارقطرے اسے پلادیتا۔ دکان کے اندرنصب پڑچھتی پرفوم کے ٹکڑے ترتیب سے رکھتا، صوفوں سے اُترے ہوئے بوسیدہ کپڑوں کوترتیب سے رکھتے ہوئے اس کے ذہن میں کئی خیالات اُترتے۔ وہ راتوں رات امیرہونے کے خواب دیکھتا۔ لیکن ہرصبح غریب اٹھتا۔
اس کی دکان کے بالمقابل جلیل درزی کی دکان تھی۔ جلیل کی کمرنصف صدی سے کپڑے سیتے سیتے خمیدہ ہوگئی تھی۔ جلیل کے پاس آنے والے گاہکوں میں سے چندعمررسیدہ گاہکوں نے اس کی دکان پر’’مجلسِ دانش وراں‘‘ کی تختی آویزاں کردی۔ شام سے ذراپہلے ایک ایک کرکے دانش وردکان میں اکٹھے ہونے لگتے۔ تھوڑی دیربعد دکان سے مغلظات کا لاوابہہ نکلتا۔ مروت سوچتا یہ کیسے دانش ورہیں جو شام ڈھلے روزانہ اکٹھے ہوتے ہیں، اونچی آواز میں چیختے اور گالیاں بکتے ہیں۔ اخبارات کی خبریں چباچباکردکان کے سامنے بہنے والی گندی نالی میں پھینکتے رہتے ہیں۔ اخلاق اورمروت سے عاری، نرمی اورملائمت سے ناآشنا..... یہ کیسے دانش ورہیں؟ ان کے منہ سے ہروقت خبروں کے بھبوکے اٹھتے رہتے ہیں۔ ملکی سیاست سے لے کر گلی میں سے گزرنے والی کالی چمارن تک کو یہ چباجاتے ہیں..... ہونہہ..... دانش ور..... اسے توعورتوں کی مانند سرپرلٹکتی لٹوں والا دانش وربالکل ہی نہیں بھاتاتھا جو ہرعورت کے گزرنے پرغیرضروری خارش سے گزرنااپنا فرض سمجھتاتھا۔
جلیل درزی کی دکان کے پہلومیں ایک چھوٹاساہوٹل تھا۔ لمبوترے چہرے اورتنگ ماتھے والا ایک شخص اونچی آواز میں دوہڑے، ماہیوں کی کیسٹ لگاکرچھ عدد کرسیوں کی روزانہ مرمت کرتا۔ ہوٹل اس کے ماتھے کی طرح تنگ اورلباس کی طرح میلاتھا۔ صفائی کرتے ہوئے میزوں کرسیوں پرمیل کی تہہ صاف ہونے کی بجائے اورجم جاتی۔ دہی پر دِن بھرباریک کپڑے کے باوجود مکھیاں بھنبھناتی رہتیں۔ وہ مکھیوں کی بھنبھناہٹ سے بے خبراپنے خیالوں میں مگن اکڑوں بیٹھاجانے کیا گنگناتارہتا۔ اِکا دُکا گاہک کے آنے پردہی تولنے کے بعدوہ پھر اس آسن میں لوٹ جاتا۔ اس کی دن بھرکی لاگت دہی کی تین پراتیں تھیں۔ کسی پیالی کی مٹھ سلامت نہیں تھی۔ چائے بناتے ہوئے وہ پتیلی میں پرانی پتی پھینٹتارہتا۔ اسے دیکھ کرمکھیاں بھی کراہت محسوس کرتی تھیں۔ اس نے ایک دن مجلسِ دانش وراں میں قدم رنجہ فرمانے کی کوشش کی۔ اگلے دن اسے دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کرپھینک دیاگیا۔
اُلو کا پٹھا..... حرامی..... سارادن خصیئے کھجاتااورانہی ہاتھوں سے چائے بناتاہے۔ ایک دانش ورنے کہا۔
شکل دیکھی ہے اس..... مداری والے بندر کی طرح، چلاہے دانش وروں کی مجلس میں دانش وری بگھارنے! وہ کٹورے میں دہی تولتے ہوئے سوچتارہا، دانش ور چائے تومیرے ہاتھ کی پیتے ہیں، مجھے اپنے ساتھ بٹھانے میں انہیں کیوں عارہے۔ یہ ایک ایسا سوال تھا جس کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ طبقاتی کشمکش اس نے دہی میں تول دی اور خود اونچی آواز میں دوہڑے سننے لگا۔
جلیل درزی کے بائیں جانب ایک ڈسکو نائی کی دکان تھی...... اس گلی میں صبح جھاڑولگانے کے بعد دکان دارسب سے پہلا کام یہی کرتے کہ اپنی اپنی کرسی سجاتے اوردن بھردکان داری کم اورنظربازی زیادہ کرتے۔ نائی بھی اپنے اوزارسجانے کے بعد بال سنوارتا۔ ٹیپ ریکارڈرمیں جھنکاروالی کیسٹ ڈال کرباہرکرسی پرآبیٹھتا۔ اسے دن بھرسرخ ساٹن کے پائینچوں سے جھانکتے کالی پمپی میں دھرے سفید پاؤں کا انتظاررہتا۔ آئینہ اس نے ایسے رخ لگایاتھا کہ گلی کی نکڑ سے وہ جیسے ہی داخل ہوتی اس پرنظرپڑتے ہی ایک مکروہ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں تلے اٹھلاتی، گھنی مونچھوں میں ناچتی کودتی..... شیو بناتے ہوئے استرے پرصابن کی جھاگ لیے وہ سیٹی بجاتے ہوئے دکان سے نکلتا۔ نالی میں جھاگ پھینکتا اورلوٹ کرگنگناتے ہوئے گاہک کے چہرے پرپھٹکڑی ملنے لگتا۔
جس روز مروت کی دکان سے دودکانیں چھوڑ کرڈینٹل کلینک کھلا سب دن بھراپنی بتیسیاں آئینے میں دیکھتے رہے اور گلی میں نئی دکان کھلنے پرمفت معائنے کواپناحق جانتے ہوئے ڈاکٹرسے ہنس ہنس کرملتے رہے۔ گلی میں ڈاکٹرکی روزی بھی چل نکلی۔ مریض کوکرسی پرلٹاکروہ اس کا معائنہ کرتا۔ چھ انچ کے فاصلے سے جھانکتے ہوئے بلب کی زرد روشنی میں معائنہ کرنے کے بعد وہ ہاتھ جھٹک کردوقدم پیچھے ہٹتااورکہتا:
’’بربادہوگئے جی..... مکمل برباد..... ککھ نہیں رہا دانتوں میں..... یہ توDentureبنانا ہو گا..... ماپ لیں گے.... دوسیٹ لگیں گے..... نہیں توموجود دانتوں کا بھی اﷲ حافظ ہے۔ معاوضے کا سن کر اکثرگاہک کرسی سے اُترکرکھسک جاتے..... ہوا کا رخ پہچان کراس نے معاوضہ کم کرنا شروع کردیا..... تودکان میں رونق بڑھنے لگی۔ وہ چوڑے ماتھے والا ایک شریف النفس انسان تھا۔ اسے کبھی کسی نے کوئی چھچھوری حرکت کرتے نہیں پکڑا۔ وہ اجلے کپڑے پہن کرآتا اوربے داغ لوٹ جاتا۔
ایک دن جب سورج کی حدت دکانوں کے آگے لگے ٹین کے چھجوں سے اُترکردکانوں اوردلوں میں اُتررہی تھی، سہ پہرگزارکے ڈاکٹرنے جلیل درزی کی دکان میں قدم دھرا۔ جلیل نے ٹھنڈے سادہ پانی اورچائے سے اس کی تواضح کی۔ ایک ایک کرکے حسبِ معمول دانش وراکٹھے ہونے لگے۔ اسی شام متفقہ رائے کی روشنی میں انہوں نے ڈاکٹرکومجلس کی رکنیت دے دی..... جب دانشوروں نے ڈاکٹرکواظہارِ خیال کا کہا توڈاکٹرنے کھنکارکرگلاصاف کیا..... مایہ لگے سوٹ کی سلوٹوں پر ایک نظرڈالی..... عینک کے شیشے صاف کیے اورکہا..... ہمیں گلی کے مسائل حل کرنے کے لیے اوراسے منظم طریقے سے چلانے کے لیے ایک ایسا نظام وضع کرناچاہیے جو ساری مشکلات کے حل میں معاون ثابت ہو۔ ہمیں جمہوری طریقِ کارکو اپناتے ہوئے پوری گلی سے رائے لے کر صدر، سیکرٹری اوردیگرعہدیداران کا چناؤ کرناچاہیے۔
فر..... ہم جوچاہے کرتے پھریں..... ایک دانش ورنے قہقہہ لگایا۔
اوئے فتنے..... بیچ میں مت بولاکر..... دوسرابولا۔
آخر کارایک دن مجلس کا قیام عمل میں آگیا۔ ووٹ تولنے کی بجائے گن لیے گئے..... ایساگھن چکرچلا کہ وہی دانش ورعہدوں پرمتمکن ہوگئے اورگلی کے سیاہ وسفید کے مالک ٹھہرے۔ گلی والے مطمئن تھے کہ کوئی مسئلہ توحل ہوگا۔ جلیل درزی بھی خوش تھا کہ نصف صدی سے سلائی مشین کی ہتھی گھماتے گھماتے اس کے ہاتھ کی لکیریں ہی گھس گئی ہیں، اب بھلے سے سلائی مشین کو موٹرلگ جائے گی..... اﷲ کرے گا میرے دائیں ہاتھ کی لکیریں دوبارہ ابھرآئیں گی۔ یہ بھی طے پایا کہ ہرمہینے مجلس کا اجلاس باقاعدگی سے منعقدہواکرے گا تاکہ مسائل سے آگاہی رہے۔
اسی دوران گلی کے آخری سرے پردونئی دکانیں کھل گئیں۔ ایک دکان پربچوں کے ریڈی میڈ کپڑے لہلانے لگے، دوسری پربچوں کے کھلونے اوراسٹیشنری کی چیزیں گاہکوں کی توجہ کامرکز بن گئیں۔ جس روز ان دکانوں میں روزی کا در کھلا، ایک دانش ورنے کہا..... گلی کی شمالی سمت والی دکانوں میں آسیب ہے۔ ان میں کوئی ایک ماہ سے زیادہ ٹک ہی نہیں سکتااوراکثرہوابھی یہی..... شمالی سمت دونوں اطراف کی چارچاردکانیں طوائف کی طرح گاہک بدل لیتیں۔ جب مروت نے دکان لی تھی تواسے بھی جلیل درزی نے یہ دکان لینے سے منع کیاتھا اوربُلاکرسمجھایاتھا کہ یہ دکان مت لو۔ اس کی بنیادوں میں کالے بکرے کی سری دفن ہے..... مروت حیرت سے جلیل درزی کا کالاسر دیکھتارہاتھا۔ وہ سوچنے لگاتھا کہ جب وہ نیانیایہاں آیاتھا تواسے کتنی پذیرائی ملی تھی، نائی نے اس کی شیو اوربال مفت تراش دیے تھے۔ ہوٹل والے نے لسّی کے پیسے لینے سے انکارکر دیا تھا۔ ڈاکٹرنے اس کی کھوکھلی داڑھ مفت میں نکال دی تھی، لیکن جلیل درزی نے سوٹ کی سلائی پوری لی تھی اورگن گن کرنوٹ اپنے سلوٹ زدہ کُرتے کی بغلی جیب میں ڈالے تھے..... اسے بکرے کی کالی سری سے خوف آنے لگا۔
مروت نے ایک بڑے شہرسے صوفوں کے کشن، پردوں کی سلائی اورکاروں، موٹرسائیکلوں کے سیٹ کورز کی ڈیکوریشن کا کام سیکھاتھا۔ وہ بھالو، اونٹ اورہاتھی بنانے کے فن سے بھی آشناتھا۔ اس کے ہاتھ میں نفاست تھی۔ بڑے شہر میں اس کے بھالو، اونٹ اورہاتھی بہت اچھی قیمت پرنکل جایاکرتے تھے۔ لیکن دکان کا مالک آٹے میں نمک کے برابر معاوضہ اس کی ہتھیلی پررکھتاتھا۔ اس نے بھی یہ سوچ رکھاتھا کہ جب بھی اپناکام الگ شروع کرے گا، ایسی چیزیں بنانے سے اس پربابِ رزق کھل جائے گا۔
اس نے یقینِ کامل سے دکان کھول کر نئی زندگی کاآغاز کیاتھا۔ شروع کے دنوں میں اسے پچاس کرسیوں اور صوفوں کے کشن کاکام ملا تو اس نے اپنے اندرمستقبل کی نامعلوم خواہشوں کے دیپ جلالیے۔ وہ پُرامیدتھا لیکن مہنگائی کی وجہ سے گاہک اب کم ہی گلی کا رُخ کرتے تھے۔ دوسرے مہینے وہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھارہا۔ لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری۔ اس کا یہ بھی یقین تھا کہ میرے مقدرکی بنیادوں میں کہیں کالے بکرے کا سرنہیں ہے۔ وہ جنات، بھوت پریت، آسیب اورسایوں پریقین نہیں رکھتاتھا۔ اس کا اﷲ پرکامل یقین تھا۔ بچپن سے سویرے اٹھنا اس کا معمول رہا، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ صبح کا سونارزق کم کرتاہے۔ اسے رزقِ حلال کمانے اورکھانے کی تعلیم ماں نے گھٹی میں دی تھی۔ وہ بڑی بڑی مارکیٹیں، چمکتی دمکتی دکانیں، صرافہ بازارسے گزرتے ہوئے سونے کی چمک دمک، نئے ماڈل کی ایک سے ایک کاردیکھ کر سوچتا کیا یہ سب اکلِ حلال سے ممکن ہے؟دولت کہاں سے آرہی ہے.....؟ کالادھن کیسے سفیدہوتاہے؟ لاینحل سوالات اسے الجھاکررکھ دیتے اوروہ پھراپنی ڈگرپرچل نکلتا۔
جب بہت دنوں مندارہا تو اسے جلیل درزی کی بات ڈسنے لگی۔ سر بہ زانو واہمے اس کے اندرڈیرہ ڈال کربیٹھ گئے۔ اس نے کتنی ہی آیات کا ورد کیا، لیکن ایک نامعلوم ساخوف اس کے ذہن میں رینگنے لگا..... ایک صبح اس نے دکان کھولی توایک عفریت کنڈلی مارے بیٹھاتھا۔ وہ سہم گیا۔ عفریت انگڑائی لے کربیدارہوا اوردکان میں گھومنے لگا۔ پنکھے کے پَرساکت تھے۔ وہ کرسی پربیٹھاآنکھوں میں خوف سمیٹے اسے دیکھ رہاتھا۔ وہ اس کی طرف بڑھنے لگا..... اس نے آیت الکرسی کا ورد تیز کردیا..... عفریت غائب ہوا، لیکن دوسرے ہی لمحے وہ اسے پنکھے کے پروں سے چمٹانظرآیا۔ اس نے اٹھ کر بٹن دباناچاہا کہ پروں ہی میں وہ کٹ کرمرجائے لیکن تاروں میں حرارت ہی نہ تھی۔ دوماہ سے بجلی کا بل ادانہ کرنے کی وجہ سے لائن مین کا بے رحم پلاس تاریں کاٹ گیاتھا۔ اس سے پہلے کہ وہ عفریت اس پرحملہ آورہوتا، وہ دانش وروں کے پاس آ بیٹھا۔
دانش ور اخبارسامنے پھیلائے قہقہے لگارہے تھے۔ وہی خبریں چبانے کا ایک سا عمل..... دہشت گردی، خوف، گینگ ریپ، قتل، اغوا، زنابالجبر، مہنگائی، بدامنی، اغوا برائے تاوان، مسجدکے صحن میں نمازیوں کی لاشیں، بس اورٹرین میں دھماکے، نسلی تعصبات..... وہ سوچنے لگا لوگ اخبارکامطالعہ کیوں کرتے ہیں.....؟ اخبارات ہمیں کیادے رہے ہیں، بے چینی، خوف وہراس، مستقبل کے اندیشے، بے چینی کی فضا..... کیا..... کیا.....؟ ایک کیڑا اخبارکی سطورمیں رینگنے لگا..... پھر اس نے لاتعداد کیڑے رینگتے دیکھے..... اس کا رنگ لٹھے کی طرح سفیدہونے لگا۔ اس سے پہلے کہ دانش ور اخبارکی بجائے اس کا چہرہ پڑھ لیتے وہ وہاں سے اٹھ آیا۔ ہوٹل والے سے ایک کپ چائے کاکہا اوربوسیدہ کرسی پربیٹھ گیا۔ اس کو دیواروں پرخوف رینگتاہوامحسوس ہوا۔ چائے کی پیالی میں پتی دیکھ کروہ کانپنے لگا..... اتنی چیونٹیاں، کہیں یہ بھی زہریلی نہ ہوں..... میں مرنہ جاؤں..... وہ نائی کے پاس گیا، اخبارالٹ پلٹ کردیکھا..... رنگین تصاویرسے خون بہنے لگا..... دہشت اس کی رگوں میں بیٹھنے لگی..... آخر میں جاؤں کہاں.....؟ جائے اماں ملے گی کیا.....؟ مگر کہاں.....؟ دکانوں کے باہر لٹکتے کھلونے چیخ رہے تھے، کھلونوں کے پیٹ پھول گئے تھے اوران سے پیپ بہہ رہی تھی..... اس نے گلی میں موجود دکان داروں اوردانش وروں کو بتلاناچاہا کہ اخبارات میں زہریلے کیڑے رینگ رہے ہیں، رنگین تصاویرسے لہو بہہ رہاہے۔ عفریت گلی میں گھس آیاہے۔ کھلونوں کے پیٹ سے پیپ بہہ رہی ہے۔ لیکن وہ چپ رہا..... رو سکا نہ چیخ..... آنسو حیران پتلیوں میں پھرتے رہے اورچیخ ہونٹوں کے مرقد میں دفن ہوگئی..... اس ڈر سے کہ لوگ اسے پاگل کہہ کرپتھر نہ مارنے لگیں..... وہ چپ رہا.....
مروت کو ابھی بہت سے کام کرنے تھے۔ بڑی بہن عمر کی اس دہلیزپرکھڑی تھی جہاں رشتے آنابندہوجاتے ہیں۔ آنگن میں اس کے ساتھ سٹاپو کھیلتی لڑکی جوانی کے دروازے میں ایستادہ اسے پُرامیدنظروں سے تک رہی تھی۔ اسے کتنے ہی کام کرنے تھے۔ اپنا مستقبل سنوارناتھا، بہن کی شادی کرنی تھی۔ اسے زندہ رہناتھا اوراپنے حصے کا رزق تلاش کرناتھا۔ اسے معلوم نہیں تھا، اﷲ کی بجائے لوگوں نے رزق کی تقسیم اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔ وہ سورج، چاند، ستاروں اورسمندروں پر قابض ہوکرروشنی اورپانی کا بیوپارکرنے لگے ہیں۔
وہ اپنی دکان پرآکربیٹھ گیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اگلے مہینے دانش وروں کی مجلس کے اجلاس میں اپنا مسئلہ ضرور اٹھائے گا۔ وہ انہیں آگاہ کرے گا کہ ایک عفریت گلی میں گھوم رہاہے۔ اس کا سدّباب کیا جائے۔ وہ گھروں کی دیواروں، چھتوں اورآنگنوں میں اُترتا اورخوف پھیلاتارہتا ہے۔ اب وہ گلی کی ہردکان میں مکین ہورہاہے۔ وہ گلی، گلی میں موجود دکانوں اورانسانوں کو ہڑپ کرجائے گا۔
اجلاس میں اس کی بات کو سگریٹ کے دھویں میں اڑادیاگیا۔ دانش وروں نے اس کے خوف کو ردکرتے ہوئے اسے اس کا ذہنی عارضہ قراردیا۔ کیونکہ ان میں سے کسی کے گھر، دفتر، کھیت کھلیان یا دکان میں آسیب نہیں اُتراتھا۔ ڈاکٹر نے مروت کی بات پرتوجہ دینے کو کہا کہ ممکن ہے اس نے وقت کی نبض پہچان لی ہو۔ ہمیں کوئی لائحۂ عمل طے کرناچاہیے..... کبوتر کے آنکھیں بندکرلینے سے بلی معدوم نہیں ہوجاتی۔ وہ ایک اٹل حقیقت کی طرح موجود رہتی ہے اور تَر نوالہ کبوترہی بنتاہے.....
نقارخانے میں طوطی کی کون سنتا.....
ہوٹل والے نے ہمت کرکے کہا..... مروت کی بات کو وزن دیاجائے، نہیں توہم ہڑتال کردیں گے۔
اوئے..... تو..... کیا پدی اورکیاپدی کا شوربہ..... تجھے بھی زبان مل گئی....
بات بڑھنے لگی..... ہر کوئی اپنی اپنی بولی بول رہاتھا..... اس تُو تکار میں دانش ور آپس میں دست وگریباں ہو گئے..... وہ اودھم مچا کہ الامان والحفیظ..... مروت سوچتارہا یہ کیسے دانش ور ہیں۔ ان کو تو گلی کی قسمت سنوارنی تھی..... یہ آپس میں دست وگریباں ہوگئے..... انہیں کون سمجھائے.....؟ کون عقل دلائے.....؟یہ توفیصلے کرنے والے لوگ ہیں، ان کا فیصلہ کون کرے گا؟
بڑی مشکل سے بیچ بچاؤ کرایاگیا۔ لمحوں میں یہ خبرگلی کی ریاست سے نکل کربڑے بازار سے ہوتی ہوئی پورے شہرمیں گردش کرنے لگی۔ جس نے سُنا، انگشت بدنداں رہ گیا اورکفِ افسوس ملنے لگا.....
مروت بوجھل قدموں سے اپنے دکھ اورمسائل کاندھوں پراٹھائے دکان پرآن بیٹھا۔ کیا کبھی کوئی آئے گا.....؟ ابنِ مریم..... اذنِ مسیحائی لے کر اوریہ بوجھ ہمارے کاندھوں سے اتارے گا۔ ہرآنے والے دن کے ساتھ بوجھ بڑھتا جا رہا ہے..... گلی کی نالی سے تعفن اٹھ رہاہے، کوڑے کرکٹ کے ڈھیرلگ رہے ہیں.....پہروں بجلی نہیں ہوتی..... ہوش رباگرانی میں سانس کی گھٹن، یہ سارے مسائل کون حل کرے گا.....؟ کون..... کون.... کون.....؟ مروت کے ذہن میں جھکڑچلنے لگے.....
وہ گلی میں گزرتے چہروں پہ پیوست یبوست زدہ تحریریں پڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ کیایہ چہرے زندہ ہیں.....؟ ان پرمردنی کی سی کیفیت کیوں چھائی ہے.....؟ خوف کاشت کرنے والے ہاتھوں کو قلم کیوں نہیں کر دیا جاتا.....؟ وہی ذہن کے پردوں پر رینگتا لامتناہی سوالات کا سلسلہ.....!
ان پردوں کی سلائی کرنی ہے.....
وہ ایک دم چونکا..... نقاب سے مسکراہٹ چھلکی۔
جی.....!
لیکن ذراجلدی کیجیے گا۔ اگلے ہفتے میری چھوٹی بہن کی شادی ہے۔
فکرمت کیجیے..... انشاء اﷲ کام سولہ آنے اورستھراہوگا۔
مروت نے مشین کی ہتھی گھمائی۔ سوئی کے ناکے میں دھاگہ ڈالا۔ پنکھے کے پرہلنے لگے اوروہ اپنے کام میں مگن ہو گیا۔
نائی نے اسے سلام کیا تووہ چونکا۔ کیونکہ نائی پہلی بار اس کی دکان پرآیاتھا۔ اس نے نائی کے لیے چائے کا کہا.... اوراپنے کام میں کھوگیا.....
بادشاہو..... خیر توہے..... آج بڑی محنت سے کام ہورہاہے.....
یار شادی سے پہلے پہلے یہ پردے تیارکرکے دینے ہیں۔
کس کی شادی سوہنیو..... مکھناں والیو.....
گاہک تھی کوئی..... میں جانتا تونہیں۔
پر..... ہم توجانتے ہیں نا، جی..... مروت.... جی..... مونچھوں تلے شیطانی مسکراہٹ کسمسائی۔
مغز نہ چاٹو، جاؤ اپنا کام کرو۔
کام توہوتارہے گا، نا..... میری مانو تو اسے یہ مفت میں سی دو.....
کیوں بھلا.....؟
پھر وہ تمہیں موج کرائے گی.....
مروت کو نائی سے گھن آنے لگی..... لیکن نائی کی زبان استرے کی طرح چلتی رہی۔
اوئے بادشاہو..... وہ توگوشت اسی طرح لیتی ہے موج کراکے..... ایک بار اس پرمرغی والے کا ادھارچڑھ گیا، جب ادھاربہت زیادہ ہوگیا ناں جی، تومرغی والا غصے سے لال پیلا ہوگیا..... وہ مرغی والے کو ساتھ لے گئی اورسارا ادھار اتاردیا۔ وہ توکپڑے مفت سلواتی ہے اوردہی اس کے گھرپہنچ جاتی ہے..... اس کے بچوں کی حجامت میں گھرجاکرمفت ہی بنا آتاہوں، حرج ہی کیا ہے.....؟
مشین رُک گئی، پنکھاساکت ہوگیا، کونے میں سربہ زانو عفریت نے انگڑائی لی۔ مروت کا رنگ لٹھا ہوا۔ بہت سے سؤر اورکتے اس کی دکان میں گھس آئے۔ ان کی رال ٹپک رہی تھی۔ سؤروں اورکتوں نے پردے پھاڑ دیے اور..... وہ کئی سال سے یہ ٹکڑے لیے دکانوں پرگھومتا اور پوچھتا پھرتا ہے..... ہے کوئی اﷲ کا بندہ جو اِن ٹکڑوں کو جوڑدے.....