حاصل عمر رواں وہ ایک پل
حاصل عمر رواں وہ ایک پل
جس میں تھا پہلی نظر کا روپ چھل
دیدہ و دل کے لیے ہیں رہنما
یہ جھجک نیچی نظر ابرو پہ بل
پیاس لگتی ہے تو کیوں بجھتی نہیں
آپ آئے تو ہوئی الجھن یہ حل
کیا برا تھا بند ہی رہتی نظر
زندگی بے کیف سی ہے آج کل
نامۂ اعمال ابھی بے رنگ ہے
چار دن کی چاندنی جائے نہ ڈھل
کام تیرا ہے گھنی چھاؤں میں کیا
تو مسافر ہے تجھے چلنا ہے چل
پھر کہیں سے اک ذرا آواز دے
سر پہ آئی موت بھی جاتی ہے ٹل