حالی کے مقدمہ شعر و شاعری کی معنویت

حالیؔ کی بات ہو تو سجاد انصاری کایہ قول ضرور یاد آتا ہے کہ ’’میں اس حالیؔ کا قائل ہوں جس نے پہلے شاعری کی اور پھر مقدمہ لکھا۔‘‘ یعنی حالیؔ کی تنقید اس باشعور فن کار کی تنقید ہے جس نے اردو شاعری کو ایک نیا موڑ دیا۔ جو غالبؔ کا معتقد اور میرؔ کا مقلد ہے اور زمانے کی ہوا کو پہچانتا ہے۔ حالیؔ کے تنقیدی نظریات ان کی تخلیق کے آتش کدے کی آنچ کہے جا سکتے ہیں۔ ہر اہم نقاد کے یہاں تخلیق کی اس لو کی کرن ملتی ہے خواہ اس کی اپنی تخلیق نظم کاروپ اختیار کرے یا نثر کا۔ وہ آداب مستی پر اس لئے گفتگو کرنے کا حق رکھتاہے کہ وہ رازدرونِ میخانہ کا محرم ہے۔ وہ اپنی خودی میں ڈوب کر ابھر سکتا ہے اور اقبال کے الفا ظ میں یہ ’’مرد ہیچ کارہ کا حوصلہ‘‘ نہیں۔
حالیؔ کی وہ غزلیں جو دیوان میں قدیم کہی گئی ہیں، بہت سے گوہر آبدار رکھتی ہیں۔ ان کی جدید غزلوں سے اقبالؔ کے نئے رنگ و آہنگ کے لئے راستہ ہموار ہوتا ہے۔ نظم جدید کی جو راہ آزاد نے نکالی تھی، اسے حالیؔ نے مسدس اور دوسری چھوٹی بڑی نظموں سے ایک شاہراہ بنا دیا۔ وہ مجموعہ نظم حالیؔ اور مسدس دونوں کے دیباچے میں اپنے نظریۂ شعر کی طرف اشارہ کرچکے تھے مگر اپنے دیوان پر مقدمے میں انہوں نے تفصیل سے اس موضوع پر اظہار خیال کی ضرورت محسوس کی اور یہ حصہ اتنا ضخیم ہوگیاکہ انہیں اسے الگ شائع کرنا پڑا۔ حضرت یحییٰ نے حضرت عیسیٰ کے آنے کی بشارت دی تھی۔ آزاد اردو تنقید کے پیش رو ہیں مگر اردو کے پہلے نقاد حالی ؔ ہی ہیں۔ یہاں شاعری کا ایک نظریہ بھی ملتا ہے اور اس نظریے کی روشنی میں اصناف سخن پر تنقید بھی۔ حالیؔ کی تاریخی اہمیت بھی ہے اور ادبی اہمیت بھی۔ اردو تنقید آج ان سے آگے کی منزلوں کا سفر طے کر چکی ہے مگر ان سے بے نیاز نہیں ہو سکتی۔ تنقید کے لئے ان کااسلوب ہی سب سے زیادہ موزوں ہے۔ یہ بات کلیم الدین احمد جیسے ان کے معترض بھی مانتے ہیں۔ ادھر کچھ حلقوں میں اس بات پر بڑا زور دیا جاتاہے کہ ہمیں نوآبادیاتی دور کے ترک و اختیار اور ردوقبول کے معیاروں کو چھوڑ کر اپنے کلاسیکی دور کے معیاروں کی روشنی میں ادب اور ادبیات کو سمجھنا اور سمجھانا چاہیے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اٹھارویں صدی کے وسط سے جو میلانات مغرب کے اثر سے زندگی اور ادب پر انداز ہوئے ان کو نظر انداز کرکے ہم اپنے آج کے ادبی سرمائے کو ازمنہ وسطیٰ کے معیاروں سے پرکھیں۔ دو سو سے کچھ اوپر برسوں کی مدت میں ادھر زندگی اور ادب میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں انہیں نظرنداز کردیں۔ ادب کو زندگی کی طرح تغیر پذیر نہ سمجھیں۔ حرکت اور ارتقاء کے فطری قانون کو بھول جائیں۔ لکیر کے فقیر بنے رہیں۔ اس بغاوت کو جو بالآخر نئی روایتوں کو جنم دیتی ہے، اہمیت نہ دیں، تقلید کو سب کچھ سمجھیں اور اجتہاد کی ضرورت سے انکار کر دیں۔ یہ اپنا اور پرایاپن، یہ شرق و غرب کا سطحی اورسستا تصور، یہ ادب اور زندگی کو خانوں میں بانٹنے کا ادعا کج بینی اور کج فہمی ہے۔ شاعر اور ادیب اپنے انفرادری وژن سے اپنے دور اور ماحول کے احساس کے ساتھ آنے والے دور کے امکانات بھی دیکھ لیتا ہے۔ ہاں اپنے دور کے ماحول کے احساس میں ماضی کا احساس بھی شامل رہتا ہے۔ جس طرح مطلقیت (Absolutism) غلط ہے اسی طرح صرف تاریخیت (Historicism) بھی ناقص ہے۔ ضرورت تناظریت (Perspectivism) کی ہے۔ مطلقیت آج کے معیاروں کی روشنی میں ان ان گنت کرنوں کو نظر انداز کر دیتی ہے جن سے آج کا افق منور ہے۔ تاریخیت ہر دور کے معیار کو تسلیم کر لیتی ہے اور بالآخر ایک ادبی مزاج کو جنم دیتی ہے۔ تناظریت بقول رینی ویلک ایک فن پارے کا مطالعہ اس دور کی قدروں کے حوالے سے اوراس کے علاوہ بعد کے تمام دوروں کے حوالے سے کرتی ہے۔ ایک فن پارہ ابدی بھی ہے یعنی ایک مخصوص شناخت رکھتا ہے اور تاریخی بھی یعنی ایک ایسے ارتقاء سے گزرتا ہے جس کی نشاندہی کی جا سکے۔ یہ تاریخیت یا اضافی نظریہ ادب کی تاریخ کو الگ الگ حصوں میں بانٹ دیتا ہے۔ جب کے مطلقیت کے بیشترمظاہر یا تو وقتی مقاصد کی علم برداری کرتے ہیں یا پھر نئے انسان دوستوں یا مارکسیوں کی طرح مجرد غیر ادبی آدرش پر مبنی ہوتے ہیں جو ادب کے تاریخی تنوع اور تمول کے خلاف جاتا ہے۔ تناظریت کا مطلب یہ بات ماننے کے ہیں کہ شاعری اور ادب ایک کلیت ہے جس کو ہر دور میں پہچانا جا سکتا ہے، جو ترقی کرتا ہے، اپنے آپ کو بدلتا ہے اور جس کے امکانات لامحدود ہیں، ادب نہ ان فن پاروں کا ایک سلسلہ ہے جن میں کوئی قدر مشترک نہیں، نہ وہ صرف دوروں کے خانوں میں بٹا ہوا ہے۔ یہ یکسانیت اور جمود کی وہ دنیا ہے جو پرانی کلاسکیت کا آدرش تھا۔ تناظریت ہی جو ادب میں تسلسل اور تغیر دونوں کوملحوظ رکھنے مشعلِ ہدایت ہو سکتی ہے۔ اس تناظریت کی روشنی میں ادب میں روایت کی اہمیت تسلیم کی جاتی ہے مگر روایت پرستی کی نہیں۔ کلاسیکی، ادبی معیاروں کو نظر انداز تو نہیں کیا جاتا مگر انہیں سب کچھ نہیں سمجھا جاتا۔ ادب کے ارتقاء کو زندگی کے تغیر کی روشنی میں دیکھا جاتاہے۔ حسن صداقت، خیر کی بصیرت تو ادب کے ہر دور میں ہے مگر حسن صداقت اور خیر کی ابدی جستجو ان کے نئے امکانات، نئے مظاہر، نئے روپ دیکھتی اور دکھاتی ہے۔ یعنی بات تو وہی رہتی ہے کہنے کے انداز بدل جاتے ہیں۔ سائنس میں ایک حقیقت کی نفی کرکے ہی دوسری کا اثبات ہوتاہے۔ ادب میں ہم کسی پرانی بصیرت کو رد کرکے کسی نئی بصیرت کی داغ بیل نہیں ڈالتے، ہر نئی بصیرت ایک اضافہ ہوتی ہے جو پرانی بصیرت کے ساتھ چلتی ہے مگر اپنی بصیرت کو ایک نیا روپ ضرور دے دیتی ہے۔ تذکروں میں ایک تنقیدی شعور ملتا ہے۔ اس تنقیدی شعور پر عربی، فارسی، سنسکرت، جمالیات کا اثر ہے اور عربی فارسی کی جمالیات پر یونانی افکار کا بھی پرتو ہے۔ گویا یہ بصیرت اتنی مقامی نہیں جتنی ہماری سہل پسندی کی وجہ سے سمجھی جاتی ہے مگر تذکرے بہر حال شعراء کے منتخب اشعار جمع کرنے، ان اشعار کے پس منظر کو روشن کرنے، کچھ حالات زندگی اور شخصیت کے کچھ نقوش اور کلام کے متعلق ایک مجموعی تبصرہ کرنے پرقناعت کرتے تھے۔ تذکرہ نگاروں نے شاعری کی تعریف، اس کے زندگی سے تعلق، اس کے مختلف اصناف اور شاعر کے کلام کا اس طرح تجزیہ کہ جذبے کی آنچ، فکر کی پرواز اور الفاظ کے رنگ محل کا علم ہوسکے، کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی کیوں کہ ان کے نزدیک اس کی ضرورت نہ تھی۔ اصول مقررہ تھے۔ زبان کے استعمال کے طور طریقوں میں بحث کی زیادہ گنجائش نہ تھی۔ جانو مانو اور دہراؤ کا از منہ وسطیٰ کا اصول زندگی اور شاعری کا رہنما اصول تھا۔ بازار کے چلن اور خانقاہوں کے تہذیبی اور اخلاقی ماحول سے شاعری دربار کی صناعی اور رزم و بزم کے حرف وحکایت تک آ گئی تھی۔ عوامی بساط کی گل کاریوں سے زیادہ اشراف کے نقش و نگار پر مائل ہو رہی تھی اور اس میں مگن تھی۔ بات کو استعارے میں کہنے کی عادی تھی۔ رمز وضاحت سے زیادہ عزیز تھا۔ مثنوی، قصیدہ، قطعہ، رباعی سب کا چلن تھا مگر غزل زیادہ مقبول تھی۔ ہندستانیت پر عجمیت حاوی ہوتی جا رہی تھی۔ موزونیت کا تصور مقررہ بحروں تک محدود ہوتا جارہا تھا۔ موضوعات میں بھی خواص پسندی نمایاں ہوتی جارہی تھی۔ محدود خیالات کو نئی طرح بیان کرنا کافی سمجھا جاتا تھا۔ نئے پہلوؤں، نئے جلووں پر توجہ کم تھی۔ نظیرؔ اکبرآدی کی پوری تہذیبی بساط کی سیر پسند نہ تھی۔ ناسخ کی شاہراہ محبوب ہو گئی تھی۔ تنقید بہر حال اپنے دور تک کی تخلیق کا جائزہ لے کر آئندہ تخلیق کے امکانات روشن کرتی ہے۔ یہ نہ صرف ماضی و حال کا جائزہ لے کر معیاروں کا تعین کرتی ہے بلکہ نئے معیاروں کی ضرورت بھی واضح کرتی ہے۔ تخلیق کی تنظیم اور درجہ بندی کرکے فن کاروں کے لئے نئی راہیں، نئے افق مہیا کرتی ہے۔ مروجہ ذوق اس کی بے اطمینانی کو سمجھ نہیں پاتا۔ اسے نقاد کی کج روی قرار دیتا ہے۔ وہ آنکھ بند کئے ایک ڈگر پر چلا جارہا ہے۔ جب کوئی نقاد پکارتا ہے کہ یہ راستہ کعبہ کو نہیں ترکستان کو جاتا ہے تو وہ حیران بھی ہوتا ہے اور پریشان بھی اور اکثر اس کی بات سننے سے انکار کر دیتا ہے۔ نقاد در اصل وہ مہذب قاری ہے جو مرتب اور منظم ذہن رکھتا ہے۔ وہ جلووں میں تصویریں، سفر میں منزلیں تلاش کرتا ہے۔ وہ کیا، کیوں اور کیسے قسم کے سوالات کرکے فن کار کوذہنی طور پراور بیدار بناتا ہے۔ اس کی تخلیقی توانائی سے اور بجلی پیدا کرنے کے رموز سکھاتا ہے۔ نقاد فن کار کااستاد نہیں۔ وہ تخلیق کے اضطراب اور ہیجان سے آشنا ہوتا ہے۔ وہ تماشائی نہیں شریک جستجو ہے۔ مگر وہ فنکار کے بیدار ذہن سے زیادہ جامع ذہن رکھتا ہے۔ فن کار وژن دیتا ہے۔ نقاد اس وژن کو معنی، مقصد اور معیار عطا کرتا ہے۔ حالی ہمارے پہلے بزرگ نقاد ہیں۔ وہ بڑے نقاد اس لئے ہیں کہ اچھے شاعر بھی ہیں اور تخلیق کی دنیا میں ان کا کارنامہ اپنے ہم عصروں یعنی داغؔ، امیرؔ، جلال سے زیادہ تازہ کار اور لالہ کار ہے۔ ان کی تنقید در اصل ان کی شاعری کے بنیادی افکار کی تشریح اور تنظیم ہی ہے۔ ہر تخلیقی فن کار میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے شعلے کو چراغاں کے تناظر میں دیکھ سکے۔ حالیؔ میں یہ صلاحیت تھی۔ انیسویں صدی کے نصف آخر کے آغاز تک آتے آتے زندگی کا ڈھرا خاصا بدل گیا تھا۔ سیاسی اقتدارکے علاوہ مغرب کے تہذیبی اثرات سبھی نفوذ کررہے تھے۔ مغرب کے اثر سے ہندوستان کی پھر سے دریافت شروع ہو گئی تھی۔ انگریزی کے ذریعے سے نئے علمی و ادبی افکار کانوں میں پڑنے لگے تھے۔ آج کچھ لوگ اسے نو آبادیاتی دور کا انحراف سمجھتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ انحراف نہیں توسیع تھی۔ اصلاح کے نعرے میں نئے حالات، نئی فضا، نئے تقاضوں سے ہم آہنگی کی فطری کوشش تھی۔ عالمی، عقلی، سائنسی، تعلیمی اور تہذیبی میلانات سے ہم آہنگی کی سعی تھی۔ جاگیردارانہ دور کے سادہ انسانی رشتوں کی گرمی کو تسلیم کرتے ہوئے ابھرتے ہوئے متوسط طبقے کے منچ پر آنے کی نوید تھی۔ یاد ماضی میں محو رہنے کے بجائے ماضی کے سنہرے نقوش سے حال کے آشوب میں مدد لے کر ایک روشن مستقبل کو خوش آمدید کہنے کی آرزو تھی۔ فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج، غالبؔ اور سرسید کی دور بینی کو سمجھنے کی کوشش تھی۔ داغؔ نے دہلی کا مرثیہ ضرور لکھا لیکن پھر اپنی رنگ رلیوں میں مگن ہو گئے۔ حالیؔ کہتے ہیں، پر ملی ہم کو مجال نغمہ اس محفل میں کمراگنی نے وقت کی لینے دیا ہرگز نہ دمنالہ و فریاد کا ٹوٹا کہیں جاکرنہ سمکوئی یاں رنگیں ترانہ چھیڑنے پائے نہ ہمسینہ کوبی میں رہے جب تک کہ دم میں دم رہاہم رہے اور قوم کے اقبال کا ماتم رہاہاں قوم کے اقبال کے ماتم نے حالیؔ کی دور بین نظر کو زندگی کے آداب کی خاطر شاعری کے آداب پر اظہارِخیال کرنے کے لئے مجبور کیا۔ مقدمہ شعرو شاعری اسی فریضے کی ادائیگی کا دوسرا نام ہے۔ دیوان کے دیباچے میں حالیؔ نے کہا ہے کہ’’مقدمہ میں مطلق شاعری پرکسی قدر تفصیلی بحث ہو چکی ہے اور چند باتیں جو خاص اس مجموعہ سے علاقہ رکھتی ہیں وہ اب دیباچے میں بیان کی گئی ہیں۔‘‘ یعنی پہلی بات جو مقدمہ کے سلسلے میں ذہن نشین ہونی چاہیے وہ مطلق شاعری پر کسی قدر تفصیلی بحث ہے۔ شعر کی مدح و ذمشاعری کا ملکہ بیکار نہیں ہے۔ شعر کا تاثر مسلم ہے، جیسے عنوانات آج ہمیں غیرضروری معلوم ہوتے ہیں، لیکن حالیؔ کے حلقہ کو اصل موضوع کی طرف متوجہ کرنے کے لئے ضروری تھے۔ ظاہر ہے کہ مغربی افکار حالیؔ تک کچھ انگریزوں اور کچھ انگریزی داں دوستوں کی وساطت سے پہنچے تھے۔ خود انگلستان میں تعلیم یافتہ طبقہ در اصل زیادہ تر اٹھارویں صدی کے نوکلاسیکی دور کے افکار سے متاثر تھا۔ رومانی تحریک کے اثر سے جو فکری انقلاب رونما ہوا وہ اس وقت تک ذہنی فضا پر زیادہ گہرا اثر نہ ڈال سکا تھا۔ جو تعلیم یافتہ انگریز ہندوستان آئے تھے اور تعلیمی اور انتظامی حلقوں میں کام کر رہے تھے، ان کی کائنات ہی نوکلاسیکی فکر تھی۔ کولرج کا نام ضرور لیا جانے لگا تھا مگر اس سے پورا استفادہ کم کیا جاتا تھا۔ اس لئے حالیؔ کے یہاں مکالے اور اس قبیل کے دوسرے اشخاص کے حوالے ہی ہوسکتے تھے۔ شاعری کے ناشائستگی کے زمانے میں ترقی کرنے کا ذکر حالیؔ نے اسی اثر کے تحت کیا ہے مگر وہ خود اس کے قائل معلوم ہوتے ہیں کہ ’’جب تک نیچر کی کان کھلی ہوئی ہے، اس بات کا خوف کم ہے کہ شاعر کاذخیرہ نبڑ جائےگا۔‘‘ حالیؔ کا یہ خیال کہ ’’شعر اگرچہ براہ راست علم اخلاق کی طرح تلقین اور تربیت نہیں کرتا لیکن از روئے انصاف اس کو علم اخلاق کا نائب مناب اور قائم مقام کہہ سکتے ہیں‘‘ معرض بحث رہا ہے۔ کلیم الدین اس پر معترض ہیں لیکن حالیؔ کے ذہن میں اخلاق کا محدود تصور نہیں مجموعی خیر کا تصور ہے۔ شاعری نجات کا راستہ واقعی نہیں دکھاتی ہاں انسان کوصداقت، حسن اور خیر کی قدروں کے ذریعہ انسانیت کی روح سے آشنا کراتی ہے۔ یہ کبھی محدود اور رسمی اور وقتی اخلاق سے بلند ہے مگر بالآخر اخلاقی ہوتی ہے۔ حالیؔ اس نکتے کو واضح نہیں کرسکے مگر انہیں اس کا احساس ضرور ہے۔ شاعری اورسماج کے تعلق پر حالیؔ نے سب سے پہلے نظر ڈالی تھی۔ ان کی اس اولیت کااعتراف ضروری ہے۔ شاعر کا کارنامہ ضرور ایک فرد کا کارنامہ ہوتا ہے مگر یہ فرد کسی سماج میں وجود میں آتا ہے۔ چونکہ شاعر ایک عام فرد سے زیادہ حساس اور دوربین ہوتا ہے اس لئے ضروری نہیں کہ شاعر مروجہ طریقوں، مانوس جلووں اور مقررہ دستور کی پیروی کرے۔ اس کی انفرادیت اسے مانوس جلووں میں نیا حسن اور عام واقعات میں نئی معنویت ظاہر کرنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔ حالیؔ چونکہ ایک اور اخلاقی نظریہ رکھتے تھے اس لئے انہوں نے شاعر کے لئے سماجی خبر اور قومی اخلاق کی درستی ضروری سمجھی۔ شاعر فوری ضروریات، وقتی مصلحتوں اور سامنے کے حقائق کی آئینہ داری بھی کرتا ہے مگر اس کا کام انسانیت کو نیا وژن دینا ہے تاکہ ان کا افق ذہنی وسیع ہو اور وہ وقتی تقاضوں سے بلند ہوکر وسیع آفاقی امکانات کی نشاندہی کرسکے۔ حالیؔ نے شاعر اور سماج کے تعلق کا جو نظریہ پیش کیا ہے بہر حال اردو میں اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ آزاد کے یہاں اس کا کچھ احساس ہے مگر وہ صرف تبدیلی کی ضرورت کا احساس ہے۔ اس میں شاعر اور اس کے سماج سے رشتے پر اس طرح نظر نہیں ڈالی گئی ہے۔ حالیؔ نے صحیح سوال کئے ہیں گو ان کے جواب ہمارے لئے تسلی بخش نہیں۔ حالؔی کے اس انقلابی نظریے پر کہ وزن پر شعر کاانحصار نہیں، کما حقہٗ توجہ نہیں دی گئی۔ تعجب ہے کہ کلیم الدین احمد نے اس کا تذکرہ بھی ضروری نہیں سمجھا۔ حالیؔ کا یہ کہنا کہ ’’شعر کے لئے وزن ایک ایسی چیز ہے جیسی راگ کے لئے بول جس طرح راگ فی حد ذاتہ الفاظ کا محتاج نہیں۔ اسی طرح نفس شعر وزن کا محتاج نہیں۔‘‘ شعر کی اس تعریف کو رد کر دیتا ہے کہ شاعری کلام موزوں ہے۔ در اصل موزونیت شعر کا ایک روپ ہے اور اس کی اہمیت سے انکار بھی غلط ہوگا مگر جس طرح حسن کی ادائیں ان گنت ہیں اسی طرح شعریت صرف موزونیت (یعنی مقررہ بحروں کی پابندی) میں اسیر نہیں کی جا سکتی۔ شعر اور نثر کافرق در اصل الفاظ کے استعمال کا فرق ہے۔ حالیؔ نظم کے لئے وزن ضروری سمجھتے ہیں شعر کے لئے نہیں۔ اب یہ بات بھی تسلیم کی جاتی ہے کہ آزاد نظم اور نثری نظم کے تجربے سب شاعری کے دائرے میں آتے ہیں اور وزن کی قید یہاں ضروری نہیں ہے۔ قافیے کو بھی حالیؔ نے نظم کے لئے ضروری سمجھاہے اور یہاں بھی وہ نسبتاً محدود نظر کا ثبوت دیتے ہیں مگر بڑی بات یہ ہے کہ وہ شاعری کی روح سے آشنا ہیں اور اس چیز کو جسے ان کے معاصرین حسن کہتے تھے، ایسا زیور سمجھتے ہیں جس کی کثرت حسن میں افزائش کے بجائے بدنمائی کا باعث ہو سکتی ہے۔ کلیم الدین اور دوسروں نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ حالیؔ شاعری کی تعریف میں مکالے سے آگے نہیں جاتے یعنی اسے نقالی ہی سمجھتے ہیں۔ بے شک شاعری زندگی کی نقالی نہیں تخلیق نو یاتنظیم نو ہے مگر حالیؔ کا یہ کہنا ’’شاعری ایک سلطنت ہے جس کی قلم رو اسی قدر وسیع ہے جس قدر خیال کی قلمرو۔‘‘ ظاہر کرتا ہے کہ وہ شاعری کو صرف نقالی نہیں سمجھتے۔ شاعری میں کمال حاصل کرنے کے لئے حالیؔ نے بجاطورپر سب سے مقدم تخیل کوقرار دیا ہے۔ ان کایہ کہنادرست ہے کہ اگر شاعر کی ذات میں یہ ملکہ موجودہے اورباقی شرطوں میں جوکمال شاعری کے لئے ضروری ہیں، کچھ کمی ہے تو وہ اس کمی کاتدارک اس ملکہ سے کرسکتا ہے لیکن اگر یہ ملکہ فطری کسی میں موجود نہیں ہے تو اورضروری شرطوں کا کتنا ہی بڑا مجموعہ اس کے قبضے میں ہو وہ ہرگز شاعر کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔ تخیل کی تعریف کے سلسلے میں کلیم الدین حالیؔ کی نظرکا اعتراف تو کرتے ہیں مگر یہ کہے بغیر نہیں رہتے کہ کولرج نے اس کی بہترین تعریف کی ہے۔ کولرج سے یہاں حالیؔ کے موازنے کی قطعی ضرورت نہ تھی۔ معلومات کے ذخیرے کو مکرر ترتیب دے کر ایک نئی صورت بخشنے اور الفاظ کے ایسے دلکش پیرائے میں اسے جلوہ گر کرنے پر زور دینے میں جو معمولی پیرایوں سے الگ ہوتا ہے، حالیؔ نے مرکزی خصوصیت کی طرف اشارہ کر دیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ انہوں نے واہمہ اور متخیلہ میں فرق کے متعلق کچھ نہیں کہا مگر وہ متخیلہ کی صورت گری اور مختلف چیزوں کو متحد چیزوں سے مختلف خاصیتیں اخذ کرنے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور چونکہ وہ جانتے ہیں کہ قوت متخیلہ کوئی شے مادے کے بغیر پیدا نہیں کر سکتی۔ اس کے لئے مطالعہ ٔ کائنات کی اہمیت واضح کرنے کے بعد حالیؔ نے تفحص الفاظ پر توجہ کی ہے۔ ان کا یہ کہنا درست ہے کہ اگر شاعر زبان کے ضروری حصے پر حاوی نہیں ہے تو محض قوت متخیلہ کچھ کام نہیں آ سکتی۔ آمد اور آورد کی بحث حالیؔ کے زمانے میں عام تھی اس لئے انہوں نے اس پر اظہار خیال ضروری سمجھا۔ اسی طرح الفاظ اور معنی کی اہمیت کی بات چھیڑی۔ ظاہر ہے کہ وہ چونکہ اپنے حلقے کے افق ذہنی کو وسیع کرنا چاہتے تھے، اس لئے انہوں نے اس سلسلے میں ہرپہلو کو ملحوظ رکھا مگر غور سے دیکھا جائے تو وہ جذبے کے فوری اظہار کے مقابلے میں جذبے کی ترتیب و تہذیب کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ دراصل یہاں آمد اور آورد کے ساتھ فطری اور بے ساختہ اور غور و فکر کے بعد موزوں ترین الفاظ کے انتخاب، یعنی الفاظ کی تراش خراش کا جو ایک طور پر بے ساختہ کے مقابلے میں مصنوعی یا لائی ہوئی ہوتی ہے، موازانہ ہے اور حالیؔ کی رائے مؤخرالذکر کے حق میں ہے۔ یہ اصطلاحیں اب ہمارے لئے اپنی معنویت کھو چکی ہیں۔ ہم آج موضوع اور مواد، معنی اور لفظ کی وحدت پر زور دیتے ہیں۔ ہاں حالیؔ نے قوت متخیلہ کو قوت ِ ممیزہ کے تحت رکھنے پر جو زور دیا ہے وہ ان کی سلامت روی کی دلیل ہے کیوں کہ تخیل کی بے اعتدالی بالآخر یا تو اہمال یا کوہ کندن وکاہ برآوردن تک لے جاتی ہے۔ حالیؔ نے شعر کی خصوصیات کے بیان میں ملٹن سے مدد لے کر سادگی، اصلیت اور جوش پر زور دیا ہے۔ میرے نزدیک یہاں حالیؔ کا اصلاحی نقطہ نظر انہیں یک طرفہ بنا دیتا ہے۔ دراصل سادگی یا مشکل پسندی دونوں شاعری میں اضافی ہیں۔ مسئلہ خیال کے موزوں اظہار اور ابلاغ کا ہے۔ زبان کے خاص استعمال کا ہے، تازہ کاری اور لالہ کاری کا ہے۔ ملٹن کا تعلیم کے سلسلے میں شاعری کی خصوصیات کی طرف سرسری طور پر اشارہ ہمارے لئے مشعلِ راہ نہیں ہوسکتا۔ غالباً حالیؔ کے انگریز دوستوں نے یہ نکتہ ان تک پہنچایا اور چونکہ اس سے حالیؔ کو اپنی بات کہنے میں مدد ملتی تھی، اس لئے انہوں نے اس سے کام لے لیا۔ ہمیں تو یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ حالیؔ کا سادگی اور اصلیت کا تصور اتنا سادہ اور میکانکی نہیں ہے جتنا سادہ ذہنوں کو معلوم ہوتا ہے اور جوش کی وضاحت میں بھی انہوں نے جوشیلے الفاظ کے مقابلے میں میٹھی چھری اور ٹھنڈی سانس کی طرف اشارہ کرکے اپنی بات کہہ دی۔ اسی لئے حالیؔ نے سادگی، اصلیت اور جوش کی جو مثالیں دی ہیں، ان سے ان کے نظریے پر رائے قائم کرنا زیادہ مناسب ہوگا نہ کہ صرف ان اصطلاحوں کے سلسلے میں کچھ حضرات کی موشگافیوں پر۔ حالیؔ کی نکتہ سنجی اور بصیرت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ انہوں نے شاعر کے عام کلام کے ہموار اور اصول کے مطابق ہونے کے ساتھ ایسے حیرت انگیز جلووں پر بھی زور دیا ہے جن کی وجہ سے شاعر کا کلام خاص و عام کے دلوں پر نقش ہو جائے مگر ان کا یہ کہنا کہ شعر میں جہاں تک ممکن ہو حقیقت اور راستی کا سر رشتہ ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے، در اصل اسی اصلاحی جذبے کے غلبے کی وجہ سے ہے۔ حقیقت اور راستی کا دو اور دو چار کا تصور شاعری میں کام نہیں دیتا۔ ان دونوں اصطلاحوں کے بجائے معنی خیز اور علامتی اظہار یا بقول جگرؔ ماورائے سخن اظہار پر زور دینا چاہیے جس میں مبالغے کی نہ صرف گنجائش بلکہ ضرورت بھی آ جاتی ہے۔ نیچرل شاعری کے متعلق حالیؔ نے جو کچھ کہا ہے اسے تہذیب الاخلاق کے سرسید کے مضامین کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔ یہ اصطلاح بذات خود ایک وقتی رجحان کو ظاہر کرتی ہے۔ ہاں حالیؔ نے اس سلسلے میں متقدمین و متوسطین اور متاخرین کے متعلق جو خیالات ظاہر کئے ہیں وہ ضرور قابلِ غور ہیں۔ اس کے علاوہ زبان کے سلسلے میں ان کی یہ رائے کہ عربی اور فارسی میں کم سے کم متوسط درجے کی لیاقت اور ہندی بھاشا میں فی الجملہ دستگاہ ہو، بہر حال وقیع ہے۔ عربی اور فارسی سے اردو کے شعراء کا شناسا ہونا اور ہندی سے اچھی واقفیت جو اردو کی بہن کہی جاسکتی ہے، ظاہر ہے کہ اظہار کے لئے ایک بڑے سرمائے کی موجودگی کی ضمانت ہے۔ اسی کے ساتھ عربی، فارسی، انگریزی کے الفاظ برتنے میں اردو کے چلن کا لحاظ اور متروکات پر اصرار کے بجائے بول چال کے سارے سرمائے سے کام لینے پر توجہ حالیؔ کے نظریہ کی صحت کی اچھی مثالیں ہیں۔ حالیؔ کے یہاں صرف ایک سنجیدہ اور قابلِ قدر نظریۂ شاعری ہی نہیں، اصنافِ شعری میں سے غزل، قصیدہ، مرثیہ، مثنوی پر خاصی تفصیل سے اظہار خیال بھی ہے۔ ایک واضح نظریۂ شعر کے بغیر کسی کو شاعری کا نقاد نہیں کہا جا سکتا مگر نظریاتی تنقید کے ساتھ اصناف پر محاکمے اور گویا عملی تنقید کے نمونے بھی ضروری ہیں۔ حالیؔ نے ان دونوں پہلوؤں پر جو کچھ کہا ہے اس سے جابجا اختلاف کے باوجود ان کی معنویت مسلم ہے۔ بڑا نقاد اپنی بصیرت کی وجہ سے ادب کا وژن بدل دیتا ہے اور ہمارے ادبی شعور اور ادبی حسیت میں تبدیلی پیدا کرکے ہمیں ادب اور زندگی کو اس طرح دیکھنے اور دکھانے پر مائل کرتا ہے جس طرح پہلے نہ دیکھا گیا تھا۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ذوق اور شعور میں تبدیلی کے باوجود اسی وژن سے کچھ نہ کچھ بصیرت برابر ملتی رہتی ہے۔ ادب میں کوئی سنجیدہ نظریہ یکسر رد نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ کون سا نظریہ مرکزی مسائل پر روشنی ڈالتا ہے اور کون سا لکیری مسائل پر۔ حالیؔ کا نظریہ شعر مرکزی مسائل پر توجہ کی وجہ سے جابجا اختلاف کے باوجود برابر اہم رہےگا اور حالیؔ نے تنقید کے لئے جو زبان اور اسلوب اختیار کیا ہے وہ مستقل قدر و قیمت کا مالک رہےگا۔ گزشتہ سو سال میں تنقید میں بہت سی راہیں کھلی ہیں مگر حالیؔ کی شاہراہ کلیم الدین اور سلیم احمد کے فرمودات کے باوجود اردو تنقید کے لئے صراط مستقیم کہی جا سکتی ہے۔ بڑا نقاد وہ ہے جس سے اختلاف تو کیا جا سکے مگر جس سے انکار ممکن نہ ہو اور جس سے ہر دور میں بصیرت ملتی رہے۔ ہاں اسے پرکھنے کے لئے تاریخیت یا مطلقیت کے بجائے تناظریت کو رہبر بنانا ہوگا۔