حالت حال سے بیگانہ بنا رکھا ہے
حالت حال سے بیگانہ بنا رکھا ہے
خود کو ماضی کا نہاں خانہ بنا رکھا ہے
خوف دوزخ نے ہی ایجاد کیا ہے سجدہ
ڈر نے انسان کو دیوانہ بنا رکھا ہے
منبر عشق سے تقریر کی خواہش ہے ہمیں
دل کو اس واسطے مولانا بنا رکھا ہے
ماتم شوق بپا کرتے ہیں ہر شام یہاں
جسم کو ہم نے اذاں خانہ بنا رکھا ہے
وقت رخصت ہے مرے چاہنے والوں نے بھی اب
سانس کو وقت کا پیمانہ بنا رکھا ہے
جانتے ہیں وہ پرندہ ہے نہیں ٹھہرے گا
ہم نے اس دل کو مگر دانا بنا رکھا ہے