حال میں اپنے مگن ہو فکر آئندہ نہ ہو

حال میں اپنے مگن ہو فکر آئندہ نہ ہو
یہ اسی انسان سے ممکن ہے جو زندہ نہ ہو


کم سے کم حرف تمنا کی سزا اتنی تو دے
جرأت جرم سخن بھی مجھ کو آئندہ نہ ہو


بے گناہی جرم تھا اپنا سو اس کوشش میں ہوں
سرخ رو میں بھی رہوں قاتل بھی شرمندہ نہ ہو


ظلمتوں کی مدح خوانی اور اس انداز سے
یہ کسی پروردۂ شب کا نمائندہ نہ ہو


میں بہر صورت ترا کرب تغافل سہہ گیا
اب مجھے اس کا صلہ دے صرف شرمندہ نہ ہو


زندگی تشنہ بھی ہے بے رنگ بھی لیکن سرورؔ
جب تلک چہرہ فروغ مے سے تابندہ نہ ہو