ہائے وہ مسکرائے جاتے ہیں

ہائے وہ مسکرائے جاتے ہیں
دو جہاں لڑکھڑائے جاتے ہیں


آتشیں حسن درخشندہ جبیں
مہ و انجم پہ چھائے جاتے ہیں


اف وہ تاروں کی مست چھاؤں میں
آپ ہی مسکرائے جاتے ہیں


ہر تبسم ہے ایک افسانہ
جس کو ہنس کر سنائے جاتے ہیں


ہائے ان مست انکھڑیوں کی قسم
دو جہاں کو پلائے جاتے ہیں


میرے رنگین شعروں کو پرویزؔ
مجھ سے چھپ کر وہ گائے جاتے ہیں