ہائے کیا پر فریب سازش ہے

ہائے کیا پر فریب سازش ہے
شہر کا شہر نذر آتش ہے


جام جمشید زیر گردش ہے
دیکھتے جائیے نمائش ہے


عام ظلم و ستم کا چرچا کیوں
خاص لطف و کرم کی بارش ہے


پوچھتی ہے زبان خنجر کی
کیا ابھی زندگی کی خواہش ہے


خوف و دہشت کے سونے جنگل میں
صبر و ہمت کی آزمائش ہے


عقل کے دشمنوں کو کیا کہیے
علم کے مخزنوں پہ بندش ہے


کیا ابھی سانس لے رہے ہو ظفرؔ
جی حضور آپ کی نوازش ہے