ہائے کس درجہ بے مکان ہوں میں
ہائے کس درجہ بے مکان ہوں میں
دو زمانوں کے درمیان ہوں میں
جو لکھی جا رہی ہے کل کے لئے
وہ ادھوری سی داستان ہوں میں
جس کی قیمت نہیں ہے اب کوئی
اس روایت کا پاسبان ہوں میں
آئینہ دیکھ کر یہ سوچتا ہوں
کچھ حقیقت ہوں کہ گمان ہوں میں
زندگی اب تو مجھ کو جانے دے
کب سے مصروف امتحان ہوں میں
گیت گائے تھے جس کی الفت کے
اسی نگری میں بے امان ہوں میں
جیت آخر میں حق کی ہونا ہے
ہاں ابھی اتنا خوش گمان ہوں میں