گزرے جو اپنے یاروں کی صحبت میں چار دن

گزرے جو اپنے یاروں کی صحبت میں چار دن
ایسا لگا بسر ہوئے جنت میں چار دن


عمر خضر کی اس کو تمنا کبھی نہ ہو
انسان جی سکے جو محبت میں چار دن


جب تک جیے نبھائیں گے ہم ان سے دوستی
اپنے رہے جو دوست مصیبت میں چار دن


اے جان آرزو وہ قیامت سے کم نہ تھے
کاٹے ترے بغیر جو غربت میں چار دن


پھر عمر بھر کبھی نہ سکوں پا سکا یہ دل
کٹنے تھے جو بھی کٹ گئے راحت میں چار دن


جو فقر میں سرور ہے شاہی میں وہ کہاں
ہم بھی رہے ہیں نشۂ دولت میں چار دن


اس آگ نے جلا کے یہ دل راکھ کر دیا
اٹھتے تھے جوشؔ شعلے جو وحشت میں چار دن