گزرا ہوا زمانہ

برس کی اخیر رات کو ایک بڈھا اندھیرے گھر میں اکیلا بیٹھا ہے۔ رات بھی ڈراونی اور اندھیری ہے۔ گھٹا چھا رہی ہے۔ بجلی تڑپ تڑپ کر کڑکتی ہے۔ آندھی بڑے زور سے چلتی ہے، دل کانپتا ہے اور دم گھبراتا ہے۔ بڈھا نہایت غمگین ہے مگر اس کا غم نہ اندھیرے گھر پر ہے، نہ اکیلے پن پر اور نہ اندھیری رات اور بجلی کی کڑک اور آندھی کی گونج پر۔ اور نہ برس کی اخیر رات پر۔ وہ اپنے پچھلے زمانے کو یاد کرتا ہے اور جتنا زیادہ یاد آتا ہے اتنا ہی غم بڑھتا ہے۔ ہاتھوں سے ڈھکے ہوئے منہ پر آنکھوں سے آنسو بھی بہے چلے جاتے ہیں۔


پچھلا زمانہ اس کی آنکھوں کے سامنے پھرتا ہے۔ اپنا لڑکپن اس کو یاد آتا ہے جبکہ اس کو کسی چیز کا غم اور کسی بات کی فکر دل میں نہ تھی۔ روپیے اشرفی کے بدلے ریوڑی اور مٹھائی اچھی لگتی تھی۔ سارا گھر، ماں باپ، بھائی بہن اس کو پیار کرتے تھے۔ پڑھنے کے لیے چھٹی کا وقت جلد آنے کی خوشی میں کتابیں بغل میں لے مکتب میں چلا جاتا تھا۔ مکتب کا خیال آتے ہی اس کو اپنے ہم مکتب یاد آتے تھے۔ وہ اور زیادہ غمگین ہوتا تھا اور بے اختیار چلا اٹھتا تھا، ’’ہائے وقت، ہائے وقت، ہائے گزرے ہوئے زمانے۔ افسوس کہ میں نے تجھے بہت دیر میں یاد کیا۔‘‘


پھر وہ اپنی جوانی کا زمانہ یاد کرتا تھا۔ اپنا سرخ سفید چہرہ، سڈول ڈیل، بھرا بھرا بدن رسیلی آنکھیں، موتی کی لڑی سے دانت، امنگ میں بھرا ہوا دل۔ جذبات انسانی کے جوشوں کی خوشی اسے یاد آتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں اندھیرا چھائے ہوئے زمانے میں ماں باپ جو نصیحت کرتے تھے اور نیکی اور خدا پرستی کی بات بتاتے تھے اور یہ کہتا تھا، ’’آہ ابھی بہت وقت ہے۔‘‘ اور بڑھاپے آنے کا کبھی خیال بھی نہیں کرتا تھا۔ اس کو یاد آتا تھا اور افسوس کرتا تھا کہ کیا اچھا ہوتا اگر جب ہی میں اس وقت کا خیال کرتا اور خدا پرستی اور نیکی سے اپنے دل کو سنوارتا اور موت کے لئے تیار رہتا۔ آہ وقت گزر گیا۔ آہ وقت گزر گیا۔ اب پچھتائے کیا ہوتا ہے۔ افسوس میں نے آپ اپنے تئیں ہمیشہ یہ کہہ کر برباد کیا کہ ’’ابھی وقت بہت ہے۔‘‘


یہ کہہ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور ٹٹول ٹٹول کر کھڑکی تک آیا۔ کھڑکی کھولی، دیکھا کہ رات ویسی ہی ڈراؤنی ہے، اندھیری گھٹا چھا رہی ہے۔ بجلی کی کڑک سے دل پھٹا جاتا ہے۔ ہولناک آندھی چل رہی ہے۔ درختوں کے پتے اڑتے ہیں اور ٹہنے ٹوٹتے ہیں۔ تب وہ چلا کر بولا، ’’ہائے ہائے، میری گزری ہوئی زندگی بھی ایسی ہی ڈراؤنی ہے جیسی یہ رات۔‘‘ یہ کہہ کر پھر اپنی جگہ آبیٹھا۔


اتنے میں اس کو اپنے ماں باپ، بھائی بہن، دوست، آشنا یاد آئے جن کی ہڈیاں قبروں میں گل کر خاک ہو چکی تھیں۔ ماں گویا محبت سے اس کو چھاتی سے لگائے آنکھوں میں آنسو بھرے کھڑی ہے یہ کہتی ہوئی کہ ہائے بیٹا وقت گزر گیا۔ باپ کا نورانی چہرہ اس کے سامنے ہے اور اس میں یہ آواز آتی ہے کہ کیوں بیٹا ہم تمہارے ہی بھلے کے لئے نہ کہتے تھے۔ بھائی بہن دانتوں میں انگلی دیئے ہوئے خاموش ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جا ری ہے۔ دوست، آشنا سب غمگین کھڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب ہم کیا کر سکتے ہیں۔


ایسی حالت میں اس کو اپنی وہ باتیں یاد آتی تھیں جو اس نے نہایت بے پروائی اور بے مروتی اور کج خلقی سے اپنے ماں باپ، بھائی بہن، دوست، آشنا کے ساتھ برتی تھیں۔ ماں کو رنجیدہ رکھنا، باپ کو ناراض کرنا، بھائی بہن سے بے مروت رہنا، دوست، آشنا کے ساتھ ہمدردی نہ کرنا یاد آتا تھا۔ اور اس پر ان گلی ہڈیوں میں سے ایسی محبت کا دیکھنا اس کے دل کو پاش پاش کرتا تھا۔ اس کا دم چھاتی میں گھٹ جاتا تھا اور یہ کہہ کر چلا اٹھتا تھا کہ ’’ہائے وقت نکل گیا، ہائے وقت نکل گیا۔ اب کیوں کر اس کا بدل ہو۔‘‘


وہ گھبرا کر پھر کھڑکی کی طرف دوڑا اور ٹکراتا لڑتا کھڑکی تک پہنچا۔ اس کو کھولا اور دیکھا کہ ہوا کچھ ٹھہری ہے اور بجلی کی کڑک کچھ تھمی ہے پر رات ویسی ہی اندھیری ہے۔ اس کی گھبراہٹ کچھ کم ہوئی اور پھر اپنی جگہ آبیٹھا۔


اتنے میں اس کو اپنا ادھیڑ پنا یاد آیا جس میں نہ وہ جوانی رہی تھی اور نہ وہ جوانی کا جوبن۔ نہ وہ دل رہا تھا اور نہ دل کے ولولوں کا جوش۔ اس نے اپنی اس نیکی کے زمانہ کو یاد کیا جس میں وہ بہ نسبت بدی کے نیکی کی طرف زیادہ مائل تھا۔ وہ اپنا روزہ رکھنا، نمازیں پڑھنی، حج کرنا، زکوٰۃ دینی، بھوکوں کو کھلانا، مسجدیں اور کنوئیں بنوانا یاد کر کے اپنے دل کو تسلی دیتا تھا۔ فقیروں اور درویشوں کی جن کی خدمت کی تھی، اپنے پیروں کو جن سے بیعت کی تھی، اپنی مدد کو پکارتا تھا۔ مگر دل کی بے قراری نہیں جاتی تھی۔ وہ دیکھتا تھا کہ اس کے ذاتی اعمال کا اسی تک خاتمہ ہے۔ بھوکے پھر ویسے ہی بھوکے ہیں۔ مسجدیں ٹوٹ کر یا تو کھنڈر ہیں اور پھر ویسے ہی جنگل ہیں۔ کنوئیں اندھے پڑے ہیں۔ نہ پیر اور نہ فقیر۔ کوئی اس کی آواز نہیں سنتا اور نہ مدد کرتا ہے۔ اس کا دل پھر گھبراتا ہے اور سوچتا ہے کہ میں نے کیا کیا جو تمام فانی چیزوں پر دل لگایا۔ پچھلی سمجھ پہلے ہی کیوں نہ سوجھی۔ اب کچھ بس نہیں چلتا اور پھر یہ کہہ کر چلا اٹھا،


’’ہائے وقت، ہائے وقت، میں نے تجھ کو کیوں کھودیا۔‘‘


وہ گھبرا کر پھر کھڑکی کی طرف دوڑا۔ اس کے پٹ کھولے تو دیکھا کہ آسمان صاف ہے۔ آندھی تھم گئی ہے۔ گھٹا کھل گئی ہے تارے نکل آئے ہیں۔ ان کی چمک سے اندھیرا بھی کچھ کم ہو گیا ہے۔ وہ دل بہلانے کے لئے تاروں بھری رات کو دیکھ رہا تھا کہ یکایک اس کو آسمان کے بیچ میں ایک روشنی دکھائی دی اور اس میں ایک خوبصورت دلہن نظر آئی۔ اس نے ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھنا شروع کیا۔ جوں جوں وہ اسے دیکھتا تھا وہ قریب ہوتی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ وہ اس کے بہت پاس آگئی۔ وہ اس کے حسن و جمال کو دیکھ کر حیران ہو گیا اور نہایت پاک دل اور محبت کے لہجے سے اس سے پوچھا،


’’کہ تم کون ہو۔‘‘


وہ بولی کہ ’’میں ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی ہوں۔‘‘


اس نے پوچھا کہ’’تمھاری تسخیر کا بھی کوئی عمل ہے۔‘‘


وہ بولی، ’’ہاں ہے۔ نہایت آسان، پر بہت مشکل۔ جو کوئی خدا کے فرض اس بدوی کی طرح جس نے کہا، ’’واللہ لا ایزید ولا انقص۔‘‘ ادا کر کہ انسان کی بھلائی اور اس کی بہتری میں سعی کرے۔ اس کی میں مسخر ہوتی ہوں۔ دنیا میں کوئی چیز ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے۔ انسان ہی ایسی چیز ہے اخیر تک رہے گا۔ پس جو بھلائی کہ انسان کی بہتری کے لیے کی جاتی ہے وہی نسل در نسل اخیر تک چلی آتی ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اسی تک ختم ہو جاتا ہے۔ اس کی موت ان سب چیزوں کو ختم کر دیتی ہے۔ مادی چیزیں بھی چند روز میں فنا ہو جاتی ہیں مگر انسان کی بھلائی اخیر تک جا رہی رہتی ہے۔ میں تمام انسانوں کی روح ہوں۔ جو مجھ کو تسخیر کرنا چاہے، انسان کی بھلائی میں کوشش کرے۔ کم سے کم اپنی قوم کی بھلائی میں دل و جان و مال سے ساعی ہو۔ یہ کہہ کر وہ دلہن غائب ہو گئی اور بڈھا پھر اپنی جگہ آبیٹھا۔‘‘


اب پھر اس نے اپنا پچھلا زمانہ یاد کیا اور دیکھا کہ اس نے اپنی پچپن برس کی عمر میں کوئی کام بھی انسان کی بھلائی اور کم سے کم اپنی قومی بھلائی کا نہیں کیا تھا۔ اس کے تمام کام ذاتی غرض پر مبنی تھے۔ نیک کام جو کئے تھے ثواب کے لالچ اور گویا خدا کو رشوت دینے کی نظر سے کئے تھے۔ خاص قومی بھلائی کی خالص نیت سے کچھ بھی نہیں کیا تھا۔


اپنا حال سوچ کر وہ اس دل فریب دلہن کے ملنے سے مایوس ہوا۔ اپنا اخیر زمانہ دیکھ کر آئندہ کرنے کی بھی کچھ امید نہ پائی۔ تب تو نہایت مایوسی کی حالت میں بے قرار ہو کر چلا اٹھا،


’’ہائے وقت، ہائے وقت، کیا پھر تجھے میں بلا سکتا ہوں۔ ہائے میں دس ہزار دیناریں دیتا اگر وقت پھر آتا اور میں جوان ہو سکتا۔‘‘

یہ کہہ کر اس نے ایک آہ سرد بھری اور بے ہوش ہو گیا۔


تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ اس کے کانوں میں میٹھی میٹھی باتوں کی آواز آنے لگی۔ اس کی پیاری ماں اس کے پاس آ کھڑی ہوئی۔ اس کو گلے لگا کر اس کی بلائیں لیں۔ اس کا باپ اس کو دکھائی دیا۔ چھوٹے چھوٹے بھائی بہن اس کے گرد آ کر کھڑے ہوئے۔ ماں نے کہا کہ بیٹا کیوں برس کے برس دن روتا ہے، کیوں تو بیقرار ہے۔ کس لئے تیری ہچکی بندھ گئی ہے۔ اٹھ منہ ہاتھ دھو، کپڑے پہن۔ نوروز کی خوشی منا، تیرے بھائی بہن تیرے منتظر کھڑے ہیں۔ تب وہ لڑکا جاگا اور سمجھا کہ میں نے خواب دیکھا اور خواب میں بڈھا ہو گیا تھا۔ اس نے اپنا سارا خواب اپنی ماں سے کہا۔ اس نے سن کر اس کو جواب دیا کہ بیٹا بس تو ایسا مت کر جیسا اس پشیمان بڈھے نے کیا بلکہ ایسا کر جیسا تیری دلہن نے تجھ سے کہا۔


یہ سن کر وہ لڑکا پلنگ پر سے کود پڑا اور نہایت خوشی سے پکارا،


’’او یہی میری زندگی کا پہلا دن ہے۔ میں کبھی اس بڈھے کی طرح نہ پچتھاؤں گا اور ضرور اس دلہن کو بیاہوں گا جس نے ایسا خوبصورت اپنا چہرہ مجھ کو دکھلایا اور ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی اپنا نام بتلایا۔ او خدا او خدا تو میری مدد کر۔ آمین۔


پس اے میرے پیارے نوجوان ہم وطنو! اور اے میری قوم کے بچو! اپنی قوم کی بھلائی پر کوشش کرو تاکہ اخیر وقت میں اس بڈھے کی طرح نہ پچھتاؤ۔ ہمارا زمانہ تو اخیر ہے اب خدا سے یہ دعا ہے کہ کوئی نوجوان اٹھے اور اپنی قوم کی بھلائی میں کوشش کرے۔ آمین