گونجتا شہروں میں تنہائی کا سناٹا تو ہے

گونجتا شہروں میں تنہائی کا سناٹا تو ہے
بے کسی کا ہم نوا اب تک وہی سایا تو ہے


ٹوٹتی جاتی ہیں امیدوں کی زنجیریں مگر
ٹھوکریں کھانے کو مجبوری کا اک صحرا تو ہے


چاند کیا نکلے گا خوابوں کی اندھیری رات ہے
دور تک تارا خیالوں کا مگر چمکا تو ہے


بوڑھے سرکش زرگری میں رہزنوں کے ساتھ ہیں
انقلاب نو کا وہ پندار اب ٹوٹا تو ہے


ان خطیبوں کا طلسم لن ترانی توڑ دے
اس ہجوم بے نوایاں میں کوئی ایسا تو ہے


قصۂ آدم کی تلخی زندگی کے ساتھ ہے
جنتیں لاکھوں بنا کر آدمی تنہا تو ہے


شور ہے ڈوبیں ہزاروں عظمتیں تاریخ کی
کتنی خاموشی سے بہتا وقت کا دھارا تو ہے


مسکرا کر زیر لب شاید یہی کہتے ہیں وہ
لاکھ سودائی سہی باقرؔ مگر اپنا تو ہے