گستاخ کی سزا
سنا ہے مسلمان دنیا میں انتہا پسند مشہور ہونے لگے ہیں! سنا ہے کہ ہر دہشت گردی میں ایف آئی آر کسی مسلمان کے خلاف کاٹنے کا چلن عام ہونے لگا ہے! سنا ہے فرانس میں رسالت مآب کے خاکے بننے لگے ہیں! سنا ہے کہ یورپی ممالک میں قرآن پاک نظر آتش کیا جا رہا ہے! سنا ہے کہ ہمارے دوست اور دشمن کسی بات پر متفق نہیں، سوائے اس بات پر کہ اسلام کے نام لیواؤں پر زمین تنگ کر دی جائے! سنا ہے کہ ڈیڑھ ارب مسلمان سمندر کی جھاگ نظر آتے ہیں! سنا ہے کہ ان مسلمانوں سے بابری مسجد کی حفاظت ہی ہوتی ہے، نہ کشمیر و فلسطین آزاد ہوتے ہیں۔ نہ چیچن کے مسلمانوں کی داد رسی ہی ہوتی ہے، نہ ان کی کوئی آواز بنتی ہے، نہ ہی ان کی کوئی سنتا ہے!
یہ سب اتنا سنا ہے کہ جی چاہتا ہے کہ خدا کے حضور رو رو کر حالِ دل کہوں!
رحمتیں ہیں تیری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
بت صنم خانوں میں کہتے ہیں مسلمان گئے
ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے
خندہ زن کفر ہے، احساس تجھے ہے کہ نہیں
اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں
یہ شکایت نہیں، ہیں ان کے خزانے معمور
نہیں محفل میں جنہیں بات بھی کرنے کا شعور
اب وہ الطاف نہیں، ہم پر عنایات نہیں
بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں
طعنِ اغیار ہے، رسوائی ہے، ناداری ہے
کیا تیرے نام پر مرنے کا عوض خواری ہے
جی تو چاہتا ہے کہ اقبال کی طرح یہ سب کہہ ڈالوں۔ لیکن پھر منظر بدلتا ہے۔ خدا کے نام پر، خدا کی زمیں پر، خدا کے سامنے، خدا کے نام لیوا: بغض پالتے ہیں، دشمنیاں ڈالتے ہیں۔ پھر خدا کے رسول ﷺ کی ناموس کی حفاظت کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ مگر وہ یہ حفاظت کرتے کیسے ہیں؟
آگ سلگتی ہے، جذبات بھڑکتے ہیں، ہجوم بپھرتا ہے اور تماشہ لگتا ہے۔ زد میں کبھی دو نوجواں ہوتے ہیں، کبھی مشال خان۔ کبھی شمع اور شہزاد مسیح اور کبھی سری لنکا کا شہری پریاینتھا کمارا۔
جب مَیں یہ سب مناظر دیکھتا ہوں تو مسلمانوں کی زبوں حالی کے وہ سب قصے ، وہ سب گلے ، میری قوم کے مذاق بن جانے کے شکوے، میرے سب نوحے ، وہیں تڑپ کر رہ جاتے ہیں۔ مجھے میرے سوالات کا جواب مل جاتا ہے، مجھے اقبال کا جواب شکوہ پڑھنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔