غرور کی ہار
اک پھول کی کہانی بچو سناؤں تم کو
یہ بات کام کی ہے آؤ بتاؤں تم کو
اک پھول تھا چمن میں معصوم پیارا پیارا
ہر پھول سے چمن کے تھا رنگ اس کا نیارا
ہر پھول دل سے اس کی تعظیم کر رہا تھا
اور اس کی برتری کو تسلیم کر رہا تھا
کرتا تھا پیار ہر دم سارا ہی باغ اس کو
حاصل تھا سب غموں سے یعنی فراغ اس کو
اپنے کو پا کے تنہا اک دن یہ اس نے سوچا
کرتا ہے میری عزت ہر پھول ہی چمن کا
یعنی میں اس چمن میں ہوں سب سے خوب صورت
شاید اسی لئے سب کرتے ہیں میری عزت
یہ بات اس نے سوچی مغرور ہو گیا وہ
نیکی کے راستے سے پھر دور ہو گیا وہ
انداز جب چمن کے پھولوں نے اس کا دیکھا
یہ فیصلہ کیا ہم ہوں گے نہ اس پہ شیدا
پھر یوں ہوا کہ روٹھی اس سے چمن کی بستی
معلوم ہو گئی پھر اس گل کو اپنی ہستی
القصہ اس نے بچو اپنا غرور توڑا
الفت گلے لگائی نفرت کو دور چھوڑا
وہ پھول ہو گیا پھر سارے چمن کو پیارا
اور بن گیا چمن میں آنکھوں کی سب کے تارا