غنچۂ وصل سر شام کھلا دے آ کر
غنچۂ وصل سر شام کھلا دے آ کر
ہجر کی رت میں کوئی مژدہ سنا دے آ کر
رقص جاری ہے لہو کا مری شریانوں میں
بربط روح میں آواز ملا دے آ کر
لوگ مر جاتے ہیں بے چارہ گری کے ہوتے
دم عیسیٰ بھی نہیں اب کہ جلا دے آ کر
اسی امید پہ سب اہل کرم بیٹھے ہیں
کوئی سائل کی طرح آئے صدا دے آ کر
مسکرا کر مری غزلوں کو پڑھا کرتا ہے
شعر اپنے بھی کبھی یار سنا دے آ کر
ناؤ کاغذ کی لئے بیٹھا ہوں جانے کب سے
آ ادھر سیل رواں اس کو بہا دے آ کر