گمنام سپاہی کی قبر پر
سپاہی آج بھی کوئی نہیں آیا
کسی نے پھول ہی بھیجے
نہ بستی کے گھروں سے آشنا گیتوں کی آوازیں سنائی دیں
نہ پرچم کوئی لہرایا
سپاہی! شام ہونے آئی اور کوئی نہیں آیا
فنا کی خندقوں کو جان دے کر پار کر جانا بڑی بات
جہاں جینے کی خاطر مر رہے ہوں لوگ اس بستی میں مر جانا بڑی بات
مگر پل بھر کو یہ سوچا تو ہوتا
تمہارے بعد گھر کی منتظر دہلیز کو جاگے ہوئے دل کی نشانی کون دے گا
ہواؤں سے الجھتی روشنی کو اعتبار کامرانی کون دے گا
در و دیوار سے لپٹی ہوئی بیلوں کو پانی کون دے گا