گلوں کو چھو کے شمیم دعا نہیں آئی
گلوں کو چھو کے شمیم دعا نہیں آئی
کھلا ہوا تھا دریچہ صبا نہیں آئی
ہوائے دشت ابھی تو جنوں کا موسم تھا
کہاں تھے ہم تری آواز پا نہیں آئی
ابھی صحیفۂ جاں پر رقم بھی کیا ہوگا
ابھی تو یاد بھی بے ساختہ نہیں آئی
ہم اتنی دور کہاں تھے کہ پھر پلٹ نہ سکیں
سواد شہر سے کوئی صدا نہیں آئی
سنا ہے دل بھی نگر تھا رسا بسا بھی تھا
جلا تو آنچ بھی اہل وفا نہیں آئی
نہ جانے قافلے گزرے کہ ہے قیام ابھی
ابھی چراغ بجھانے ہوا نہیں آئی
بس ایک بار منایا تھا جشن محرومی
پھر اس کے بعد کوئی ابتلا نہیں آئی
ہتھیلیوں کے گلابوں سے خون رستا رہا
مگر وہ شوخیٔ رنگ حنا نہیں آئی
غیور دل سے نہ مانگی گئی مراد اداؔ
برسنے آپ ہی کالی گھٹا نہیں آئی