غلام گردش
خوشی
عدم کے کسی جھروکے
کی اوٹ سے جھانکتی نظر کا فریب کوئی
طویل بے رحم راستوں پر سراب کوئی
تمام شب جگنوؤں کو چننے کا خواب کوئی
خوشی
وہ رہ رہ کے چند لمحوں کو سانس لیتا حباب کوئی
اداس تاروں کو چھیڑتی انگلیوں کے زخموں
سے اٹھتے سر کے خیال میں گم رباب کوئی
خوشی
کہ میزان کے جزیروں سے دور اک بے نشان ساحل
زمانے بھر کی خلیج حائل
ابھرتی موجوں میں
غرق ہونے کی داستانوں کی جھلملاہٹ
جو چھونا چاہو
تو دسترس میں
کوئی جزیرہ نہ کوئی ساحل
یہ خاک اور آب کا توازن
یہ بند مٹھی سے ذرہ ذرہ پھسلتی مٹی
نظر میں کولاژ اک مجرد
ادھر گماں کی منڈیر پر کچھ نشان
عنقا کے بیٹھنے کا فریب جیسے
تو اس کنارے ترازو تھامے
مجسمے کی سفید آنکھوں پہ معنویت کی کالی پٹی
وہی سیاہی
اندھیرے کا ہے جو پیش خیمہ
وہ سنگ آنکھیں
کہ جن میں پتلی کبھی نہیں تھی
وہ جن کی تہ میں
کسی کرن کا گزر نہیں ہے
خوشی ہے کیا منصفی ہے کیا
کچھ خبر نہیں ہے