گلاب کی موت
آج سارے چمن میں ماتم ہے
موت نے حسن اس کا لوٹا ہے
جاں چمن کی تھی تازگی جس کی
شاخ سے وہ گلاب ٹوٹا ہے
اس کے دم سے تھی ساری رعنائی
اس چمن کا شباب تھا نہروؔ
خود بہاریں نثار تھیں جس پر
وہ شگفتہ گلاب تھا نہرو
اس سے کتنا تھا پیار لوگوں کو
اس کسوٹی پہ اب پرکھنا ہے
اس نے آدرش جو دیا تھا ہمیں
سامنے اس کو سب کے رکھنا ہے