گویا زبان حال تھی ساحرؔ خموش تھا
گویا زبان حال تھی ساحرؔ خموش تھا
یہ سعئ ضبط تھی وہ تقاضائے جوش جوش تھا
پردے میں لن ترانی تھی رگ رگ میں جوش تھا
چمکی جو برق حسن نہ میں تھا نہ ہوش تھا
میخانۂ خیال میں مستی کا جوش تھا
گل تھا چراغ عقل میں گم کردہ ہوش تھا
وصوت تھا میرا نظارہ و کلام
راز و نیاز بے اثر چشم و گوش تھا
کیفیتیں ہیں کچھ مجھے جوش جنوں کی یاد
بیٹھا جو کوئی نیش رگ جاں میں نوش تھا
تیرے قتیل غمزہ کو تن تھا وبال جاں
تیرے شہید ناز کو سربار دوش تھا
دل کان معرفت کا تھا اک جوہر لطیف
گو عنصری وجود میں یہ خاک پوش تھا
کیا مستیاں تھیں شب نگہ مست ناز سے
ساقی بہ غمزہ بغچہ مے فروش تھا
مینا نے گوش ام میں جھک کر کہا یہ راز
حق حق نوید وصل و پیام سروش تھا
کیا کیا تھیں حسن و عشق میں باہم اشارتیں
تھا کوئی سخت گیر کوئی سخت کوش تھا
صرف نظارہ چشم تھی وقف کلام گوش
دل جلوہ مست اور لب ساحرؔ خموش تھا