گویا ہر کام مصلحت کے ساتھ

گویا ہر کام مصلحت کے ساتھ
خودکشی بھی مشاورت کے ساتھ


تم نے پھول ابتدا میں دیکھا تھا
اب کھلا ہے نئی پرت کے ساتھ


علم تھا غار کی طوالت کا
صرف کی روشنی بچت کے ساتھ


ہے الگ فیض ہم درختوں کا
راستوں کی مناسبت کے ساتھ


جیسے دیوان میرؔ پڑھتے ہو
دل بھی پڑھتے ہو کیا لغت کے ساتھ


آخری ساعتوں کی خوشیاں ہیں
لگ گئے ہیں غبارے چھت کے ساتھ


آؤ اک دوسرے کو دیکھتے ہیں
آئینے کی معاونت کے ساتھ


غزل اپنی زمین میں لکھی
روح غالبؔ سے معذرت کے ساتھ