حُسن کسے کہتے ہیں؟ ریاضی دان سے پوچھیے

حُسن کی تعریف میں شاعروں نے دیوان بھر دیے. جس کی کھوج میں فلسفیوں نے عمریں گنوا دیں۔ کتابوں کی کتابیں لکھ ماریں۔ لیکن شاعر کا کہنا ہے کہ حسن جاناں کی تعریف ممکن نہیں۔ کیا واقعی حُسن کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔۔۔آخر یہ حُسن ہے کیا۔۔؟

کسی نے کہا، حسن ترتیب کا نام ہے ۔۔۔

کسی نے کہا،حسن تناسب کا نام ہے۔۔

کوئی بولا، حسن تکمیل کا نام ہے ۔۔

کوئی بولا، حسن دائمی خوشی اور سرشاری کا نام ہے ۔۔

کوئی بولا، حسن دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے

غرض ہر کسی نے استفسار پر حسن کا ایک نیا مطلب اور ایک نیا مفہوم دریافت کرنے کے والے کے روبرو پیش کردیا ۔

جب ریاضی دان سے حُسن کے بارے میں سوال کیا گیا تو جواب ملا ۔۔۔"1.618"

کیا واقعی حُسن کو حساب کتاب میں ناپا جاسکتا ہے۔۔۔جی بالکل اور بھی 1.618 کے تناسب میں۔۔۔

اس نمبر کو دنیا کا خوبصورت ترین نمبر بھی کہا جاتا ہے اور عرف عام میں یہ گولڈن ریشو کہلاتا ہے۔ اس گولڈن ریشو کا حسن کے معیار کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔

ہم اپنے ارد گرد اگر نظر دوڑائیں تو ہمیں کائنات کی ہر چیز میں ایک ترتیب، ایک توازن اور ایک نظم و ضبط نظر آتا ہے۔ ریاضی دانوں نے یہ مشاہدہ کیا کہ انسانی اعضاء میں ایک تناسب پایا جاتا ہے، جو بار بار حساب لگانے پر 1.618 پر ہی منتج ہوتا ہے۔

 مثال کے طور پر ہماری انگلیوں کی پوروں سے کلائی تک کی لمبائی اور کلائی سے کہنی تک کی لمبائی کے درمیان نسبت 1.618 کے قریب قریب آئے گی۔ کہنی سے کلائی اور بازو سے کہنی تک کی لمبائیوں کے درمیان بھی یہی نسبت ملے گی۔

اسی طرح ہماری ٹانگ کے دونوں حصوں میں بھی یہی نسبت موجود ہے۔

انسانی چہرے کی لمبائی اور چوڑائی کے درمیان بھی یہی نسبت ملتی ہے۔ ہونٹوں کے پھیلاؤ اور ناک کے پھیلاؤ میں، ٹھوڑی سے منہ کے دہانے اور منہ کے دہانے سے ناک کی تک کی لمبائیوں میں،  ناک سے اوپر پیشانی کی لمبائی اور پیشانی سے نیچے تھوڑی تک کی لمبائی میں۔۔۔۔ ہر جگہ ہمیں 1.618 کے قریب قریب کا تناسب نظر آتا ہے۔ حتیٰ کہ جدید تحقیقات نے ثابت کیا ہے کہ انسانی ڈی این اے کی ساخت میں بھی یہ ریشو کارفرما نظر آتی ہے۔ اس لیے ریاضی دانوں نے اس گولڈن ریشو کو انسانی چہرے کے خدوخال میں حسن کے معیار کے طور پر تسلیم کیا ہے ۔

ڈاکٹر سٹیفن مار کارڈٹ نے اسی گولڈن ریشو کو استعمال میں لاتے ہوئے ایک چہرے کا سانچہ تیار کیا، جسے مار کاٹ بیوٹی ماسک کہا جاتا ہے ۔ اب کمپیوٹر ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ہم کسی بھی چہرے کے خد و خال کا اس مثالی چہرے کے سانچے کے خدوخال سے موازنہ کر کے اس کے چہرے کےحسن کی مقدار فیصد میں معلوم کر سکتے ہیں۔

 عموما انسانی چہرے کے مختلف حصوں میں نسبت نکالنے سے جواب بالکل 1.618 کے برابر تو نہیں لیکن اس کے آس پاس آتا ہے۔ یہ جواب جس قدر گولڈن ریشو کے قریب ہوگا اسی قدر خدوخال متناسب گردانے جائیں گے۔ ہمارے دماغ کو چہرے کے خدوخال کی نسبت نکالنے میں اس قدر کم محنت کرنا پڑے گی جس قدر یہ نسبت گولڈن ریشو کے قریب ہو گی۔ ایک متناسب خدوخال کے حامل چہرے کی ریشو نکالنے میں کم دشواری ہونے سے ہمارے ذہن میں ایک خوشگوار تاثر پیدا ہوتا ہے ۔ اس خوشگوار تاثر کو ہم حسن سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ بقول جان کیٹس:

“A thing of beauty is a joy forever."