گو سر ارتقا و بقا میرا جسم ہے
گو سر ارتقا و بقا میرا جسم ہے
سنتا ہوں تو فنا کی سدا میرا جسم ہے
میں ہوں ازل سے وقت کی گردش کا راز دار
یہ بزم کائنات ہے کیا میرا جسم ہے
ایسا رہا چمن میں کہ محسوس یہ ہوا
جو گل کھلا جو سبزہ اگا میرا جسم ہے
آنکھوں کے ماورا جھلک اٹھتا ہے گاہ گاہ
وہ شوخ جس کی سادہ قبا میرا جسم ہے
میری تلاش میری طلب بے حد و حساب
میری حدود میری سزا میرا جسم ہے
شب کی دبیز تیرگیوں کے جواب میں
یہ ایک ٹمٹماتا دیا میرا جسم ہے
اک مشتعل ہجوم سر رہ گزار تھا
پوچھا کہ کیا ہے میں نے کہا میرا جسم ہے