گلوبل ولیج

خبر آئی.....
ساری بستی کی بینائی جاتی رہی۔
اک کہرام مچ گیا۔ سب ایک دوسرے کو ٹٹولتے، چیختے، دیواروں سے سرپھوڑتے اور پوچھتے تھے یہ کیاہوگیاہے.....؟ رات میں ہم سوئے تواچھے بھلے تھے۔ صبح دم آنکھ کھلی توہرگھرمیں دبادبا شورتھا اورپھر پوری بستی شورکی لپیٹ میں آگئی۔ سب کو اپنے اپنے حصے کا گناہ معلوم تھا لیکن وہ سوچ رہے تھے کہ ایساکون سا اجتماعی گناہ ہواہے جس کی پاداش میں پوری بستی کی بینائی جاتی رہی۔ بستی کے معالج بھی بصارت سے محروم ہوگئے تھے۔
ایک نابینا نے ٹٹول ٹٹول کر ایک فون نمبرملایا اوربولا۔
ڈاکٹرتمہیں خبرہے بستی پررات بھرمیں کیا قیامت گزرگئی.....؟
ہاں معلوم ہے.....!
ڈاکٹرتم کچھ کرو..... تمہارے کلینک پرتوایسی ایسی ادویہ سجی ہیں کہ تم کہاکرتے تھے کہ ہم خوابوں کا بھی علاج کرتے ہیں۔ تمہاراتویہ بھی کہنا تھا کہ بستی میں کوئی وباپھوٹ پڑے توہمارے طریقۂ علاج کا یہ کمال ہے کہ پانی کی سپلائی لائن میں ایک قطرہ دوائی کا ڈال دیں توپوری بستی شفایاب ہوجائے۔ آج پوری بستی کی بینائی جاتی رہی ہے، کچھ توکرو۔
دوائی تو ہے..... لیکن ہزاروں ادویہ میں رکھی اس دوائی کے نام کی شناخت کیسے ہو.....؟
ڈاکٹرکی آواز میں لرزش تھی۔
ڈاکٹر..... ڈرو اس وقت سے جب سماعتیں اورقوتِ گویائی بھی چھن جائے گی۔
اسی طرح ساری بستی رانگ نمبرملا کر ایک دوسرے سے حال احوال پوچھتی رہی کہ شاید کہیں، کسی کی آنکھ میں بینائی کی رمق باقی ہو۔
اگلی صبح پھرکہرام مچ گیا.....
پوری بستی کی حاملہ عورتوں کے پیٹ بنجرہوگئے۔
توکیا اب کوئی کوکھ ہری نہیں ہوگی۔ زمین پرنسلِ انسانی قحط کا شکارہوجائے گی؟ نسلِ انسانی عنقاہوگئی توپھرکرۂ ارض پرکون رہے گا.....؟ کوئی نئی مخلوق یا اسے ریزہ ریزہ کردیاجائے گا....؟ کیا اِذَالشَّمْسُ کُوِّرَتْ کا لمحہ آن پہنچاہے؟ ہم ذکرِ الٰہی سے اپنی زبانوں کو تَرتورکھتے تھے..... ان کے پاس اپنے ہی سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔
وہ سماعت اورقوتِ گویائی کی سلامتی پرربّ العالمین کے شکرگزارتھے.....
بہت دن گزرگئے..... سال یا شاید صدیاں.....!
اچانک بستی میں ایک ایسی خبراُڑی کہ خوشی سے نابیناؤں نے آسمان سرپراٹھالیا۔
کہیں یہ خبرجھوٹی نہ ہو.....؟
کیا سچ مچ ایساہوگیاہے.....؟
رب نے ہماری دعائیں سن لی ہیں..... ہماری بینائی لوٹ آئے گی.....؟
خبریہ تھی کہ بستی میں ایک عورت کی گود ہری ہوگئی ہے۔ وہ اس بات سے بہت خوش تھے کہ آنے والا نومولود جب سنِ رشد کو پہنچے گا توہمیں کرۂ ارض کی پوری خبردے گا۔ شاید کمپیوٹر، کینسر اورایڈز کے علاج کے بعد سائنس نے کوئی ایسی دوا ایجاد کرلی ہو جو پوری بستی کی بینائی کے لیے بیناثابت ہو۔
جب نومولود سنِ رشدکو پہنچا، اس کی ماں نے ٹٹول ٹٹول کر اُس کے خدوخال دیکھے۔ اس کی آنکھوں کو چُوما۔ بستی میں وہی ایک بیناتھا۔ اس نے بستی کے سارے لوگوں کو جمع کیا۔ ان سب کو کہولت نے آلیاتھا۔
دیکھ بیٹا.....! تودنیا کے سفرپرنکلنے والاہے۔ ہم صدیوں سے اندھیرے میں سانس لے رہے ہیں۔ ہم اس بات سے بے خبرہیں کہ سورج طلوع ہوتا ہے کہ نہیں؟ رات کو چاند چاندنی بکھیرتاہے یا نہیں.....؟ ستاروں کی چادرآسمان پرتنی رہتی ہے یا نہیں.....؟ ہمیں صرف اتنا یاد ہے کہ جب ہماری بینائی چھن گئی تھی اس وقت کرۂ ارض ایٹم بم کی زد میں تھا۔ دنیا کے سات ممالک نے کامیاب ایٹمی دھماکے کرکے اپنا لوہا منوالیا تھا۔ ہیروشیما اورناگاساکی کے بعد پاکستان اورہندستان ایٹمی جنگ کے دہانے پرکھڑے تھے۔ برّاعظم ایشیا سلگ رہاتھا۔ بیسویں صدی کو کمپیوٹرکی صدی قراردے دیاگیاتھا۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں DNAکوتو دریافت کرلیاگیاتھا لیکن ایڈزاورکینسرجیسے مہلک امراض کا علاج ابھی دریافت نہیں ہواتھا۔ کلوننگ کے کامیاب تجربے کے بعد اس پرپابندی لگ چکی تھی۔ ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے تجربے کے بعد بہت سی ماؤں کی گود ہری ہونے لگی تھی۔ مریخ سے تصاویرآچکی تھیں۔ مریخ کی پتھریلی چٹانوں کی تصاویرمیں نظرآنے والی دراڑوں سے سائنس دان اندازے لگارہے تھے کہ شاید وہاں پانی اورہواہے۔ لیکن وہ کسی حتمی نتیجے پرنہیں پہنچے تھے۔ نت نئے میزائلوں اورتباہ کن ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات بچوں کا کھیل تھے۔ بڑے ممالک اپنے مفادات کی خاطرچھوٹے ممالک پرچڑھ دوڑتے تھے اوردہشت گردی کے نام پرانہیں کچلنا اپنا حق سمجھتے تھے۔
اس دورمیں دونام بڑی اہمیت کے حامل تھے۔ IMFاورورلڈ بینک..... ان دونوں نے پسماندہ اورترقی پذیرممالک کے ساتھ معاشی جنگ کا آغازکیا اورانہیں کنگال کرکے رکھ دیا۔
سن رہے ہو..... نا.....؟
اس وقت روس ٹکڑے ٹکڑے ہوچکاتھا۔ ریاستیں آزاد توہوگئی تھیں لیکن حکمران کٹھ پُتلی تھے۔ گلف میں بھی یہی صورتِ حال تھی۔ تیل کے کنوؤں پرعالمی طاقتیں پنجے گاڑے بیٹھی تھیں..... اس عہد میں جھوٹ، فریب، رشوت اورملاوٹ کا چلن عام تھا۔ کاروبارِ زندگی میں جھوٹ، فریب اوررشوت اتنی ہی ضروری قراردے دی گئی جتنی زندہ رہنے کے لیے سانس لینا ضروری ہے۔ کرۂ ارض کو گلوبل ولیج قراردے دیاگیاتھا اوراس میں سودی کاروبار اورسودی قرضہ جات کو قانونی اورحکومتی تحفظ حاصل تھا۔ تعلیم اورعلاج جیسے شعبے بھی خدمتِ خلق کے دائرے سے نکل کرمکمل طورپرکمرشل اورکاروباری ہوگئے تھے۔ جاں بلب مریضوں کے ورثا سے لاکھوں روپیہ بٹورلینے کا چلن عام تھا۔ بے حیائی اورفحاشی شرافت کے زمرے میں شمارہونے لگی تھی۔ اسے فنونِ لطیفہ کے نام سے فروغ دیاجاتاتھا۔
پھر ہماری بینائی چھن گئی..... ہماری آخری کاشت یہی تھی جو تمہیں تفصیل سے بتادی ہے..... اب تم دنیا کے سفرپر نکلو اوردیکھو انسان کہاں پہنچاہے.....؟
وہ دنیا کے سفرپرنکلا..... جوں جوں سفرطے کرتاگیا خوف اس کی رگوں میں منجمدہونے لگا۔ وہ جس برّاعظم میں بھی جااترا، وہاں کھیتوں میں تھوراُگاہواتھا۔ خاردارجھاڑیاں اورپودے کانٹوں سے اٹے تھے۔ کارخانے بنجرپڑے تھے۔ کہیں کوئی متنفس دکھائی نہیں نہ دیتاتھا۔ جنگل جانوروں سے اورآبادیاں پرندوں سے خالی تھیں۔ جانے وہ کہاں نقل مکانی کرگئے تھے.....؟ وہ دنیا کے تمام بڑے اوربارونق شہروں میں گیا۔ سب ویران پڑے تھے۔ ہرطرف اُلّو بول رہے تھے۔ دریا، سمندرخشک اورپانی کے کنوؤں کے پیندے سیاہ تھے۔
زمین پربڑے بڑے ہولناک گڑھے اس بات کا ثبوت تھے کہ پوراکرۂ ارض ایٹمی جنگ کی لپیٹ میں رہاہے۔ اسے کہیں کسی آبادی کا نشان نہ ملا۔ ہولناک سنّاٹا تھا۔ وہ سوچتارہا، یہ کیا ہے....؟ خوف کے رتھ پہ سوارجب اس نے پورے کرۂ ارض کا چکرمکمل کرلیا، توسوچنے لگا.....
یہ سب وہ ہے جو ہمارے آباؤ اجداد نے ہمارے لیے کاشت کیا۔
اُسے بس ایک جگہ ایسی مخلوق نظرآئی جسے انسان نہیں کہا جاسکتاتھا۔ وہ تھوراورکانٹے دارجھاڑیاں کھارہے تھے۔
وہ ان کے پاس پہنچا اورپوچھا
تم کون لوگ ہو.....؟
ہم اس کرۂ ارض پربسنے والی انسانی مخلوق کی آخری باقیات میں سے ہیں اوروہ کاٹ اورکھا رہے ہیں جو ہمارے آباؤ اجداد نے کاشت کیا۔
وہ الٹے پاؤں ہانپتاکانپتاسفرکی صعوبتیں جھیلتابستی میں پہنچا۔
بستی کے لوگ اکٹھے ہوگئے۔
کوئی خبر.....؟ ان کے بے نُورچہروں پرسوال تنے تھے۔
خبر ہے.....!
کیا.....؟
میں نے اپنی آنکھوں میں گرم سلائی پھیرلی ہے.....!