گریۂ مسرت
احباب سے چھپ چھپ کے بھی رویا ہوں میں اکثر
پر آج بھری بزم میں
رونے کا مزہ اور ہی کچھ ہے
احباب کو حیرت کہ مرے قہقہہ بردار لبوں پر
کیوں لے گئیں سبقت مری بھیگی ہوئی پلکیں
مرے تپتے ہوئے آنسو
شاید مرے احباب کو معلوم نہیں ہے
اظہار مسرت کبھی ہوتا ہے جو رو کر
سو بار کا ہنسنا بھی اسے چھو نہیں سکتا
آنسو ہیں وہ موتی
پلکوں کے صدف سے جو نکلتے ہیں اسی دم
جب دل کے سمندر میں
خوشی کا کوئی طوفان بپا ہو
طوفان سما سکتا نہیں صرف ہنسی میں
آنسو ہی اسے اپنی تراوٹ میں سمیٹیں تو سمیٹیں
آنسو کہ جسامت میں ہیں قطرے سے بھی کچھ کم
اظہار مسرت میں سمندر سے بڑے ہیں
بے حس مرے احباب ہیں
کاش ان کو بتائے کوئی ہمدم
حاصل جو خوشی آج ہوئی ہے مرے دل کو
شاید وہ تبسم میں سمیٹی ہی نہ جاتی
ہونٹوں پہ تبسم بھی بہت خوب ہے لیکن
آنکھوں میں ترشح کی فضا اور ہی کچھ ہے
اس بزم میں رونے کا مزہ اور ہی کچھ ہے