گرویدہ جس کے حسن کا سارا جہان ہے

گرویدہ جس کے حسن کا سارا جہان ہے
کرتے ہیں جس سے عشق وہ اردو زبان ہے


اللہ رے زبان کی کیا آن بان ہے
اقبالؔ کی ہے روح تو غالبؔ کی جان ہے


دلی کا مرثیہ ہو یا دل میں وفور غم
دیکھیں کلام میرؔ کو کیا اس کی شان ہے


سوداؔ اسی خیال میں دن رات محو تھے
ان کا خیال تھا ابھی اردو جوان ہے


وہ لطف وہ مٹھاس کہاں سب کو ہے نصیب
نظم و نثر کو دیکھ لو شیریں بیان ہے


خوشبو ہر ایک پھول کی موجود اس میں ہے
ہر پھول رنگا رنگ ہے اک گلستان ہے


تہذیب مشترک کی فضیلت لئے ہوئے
نازاں اسی پہ کشور ہندوستان ہے


امید ہے کہ اس کو ملے گا فروغ خاص
سرکار اس کے حال پہ کچھ مہربان ہے


اردو پڑھیں پڑھائیں لکھیں بولتے رہیں
احقرؔ یہی تو آپ کے شایان شان ہے