غلام کون؟
''غلام'' وہ نہیں، جن کو حالات کے جبر نے غلامی کی بیڑیوں میں جکڑ لیا ہو۔
''غلام'' تو وہ ہیں، جن پر سماج کا کوئی جبر ہے، نہ معاش کی سختی۔
کھاتے پیتے اور آسودہ حال ہوتے ہوئے خود کو سجا سنوار کر غلاموں کی منڈی میں رضاکارانہ طور پر پیش کرتے ہیں۔
''غلام'' تو وہ ہیں جن کے مسکن حویلیاں اور محلات ہیں۔ مربعوں اور جاگیروں کے مالک ہیں۔ جن کے لئے روزگار کی کمی ہے، نہ حلال کمانے اور کھانے میں کوئی رکاوٹ۔ نہ تو ان کے مال و دولت پہ کسی کا زور آور کا زور چلتا ہے ، نہ ان کی زندگی کسی کے رحم و کرم کی محتاج ہے۔
مگر اس سب کے باوجود یہ پورے اخلاص کے ساتھ ''آقاؤں'' کے در پر بھیڑ کیے رکھتے ہیں۔ ''غلامی'' کے حصول اور آقاؤں کی خدمت کا موقع پانے کے لیے مسلسل دھکم پیل کرتے ہیں۔ ان کے نصیب جاگ اٹھتے ہیں ،اگر ذلت کا طوق گلے میں پہننے کو میسر آ جائے یا پیروں میں ڈالنے کو بیڑیاں کبھی مل جائیں! یہ غلام ، ان غلامی کے تمغوں کو پا کر جھوم جھوم جاتے ہیں!
اگر کبھی ایک آقا ان کو دھتکار دے، تو یہ مِثلِ ماہیِ بے آب کسی دوسرے آقا کی غلامی میں جانے کے لئے پھڑپھڑانے لگتے ہیں۔ کبھی ان میں سے کوئی ایک ذلیل کرکے غلامی سے نکالا جائے تو ہزاروں کو اپنی قسمت کے جاگ اٹھنے کی آس لگ جاتی ہے۔
غالباً ان کو ذلت کی ایک اضافی حس حاصل ہوتی ہے۔ اگر ان پر کوئی ایسا وقت آ جائے جب انہیں کسی کی غلامی کا اعزاز حاصل نہ ہو، تو ایسے میں انہیں اپنا آپ ادھورا لگنے لگتا ہے۔ غلامی کی ذلت کی طلب میں ان کا حال بُرا ہو جاتا ہے۔ عزت و آبرو سے رہنا ان کے لیے ایک بوجھ بن جاتا ہے جو ان کے کاندھے دہرے کر دیتا ہے، انہیں اس بوجھ سے آزاد ہو کر ہی چین آتا ہے ۔
غلام وہ نہیں ہیں جن کی پیٹھوں پر آزادی غصب کرنے والوں کے تازیانے برستے ہیں۔ غلام تو وہ ہیں جن کی گردنیں بظاہر آزاد ہوتی ہیں لیکن جن کے دل غلام بنانے والوں کی عقیدت سے سرشار ہوتے ہیں۔ غلامی جن کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتی ہے۔
غلام وہ ہیں جن کی آنکھیں آزادی کی روشنی سے چندھیانے لگتی ہیں اور وہ اس آزادی سے بھاگ کر غلاموں کے باڑے کو ہی جائےعافیت جانتے ہیں!
آزادی لینے کی خواہش ، طلب اور عمل کو یہ غلامانہ طبعیت کے حامل لوگ بغاوت جانتے ہیں۔ خود داری ان کی نظر میں ایک انحراف ہے اور عزت نفس باقاعدہ ایک جرم!
بشکریہ ایقاظ (Eeqaz)
سید قطب شہید رحمہ اللہ کی ایک لازوال تحریر ، " غلام" سے ماخوذ