گھل سی گئی روح میں اداسی

گھل سی گئی روح میں اداسی
راس آئی نہ ہم کو خود شناسی


ہر موڑ پہ بے کشش کھڑی ہے
اک خوش بدنی و کم لباسی


لالچ میں پروں کے پیر چھوٹے
اب رخت سفر ہے بے اساسی


نفس مضموں اسی میں ہے گو
مضمون نفس ہے اقتباسی


آئی بھی تو کیا نگار تعبیر
اوڑھے ہوئے خواب کی ردا سی


جادو سا الم کا کر گئی سازؔ
ان آنکھوں کی ملتفت اداسی