گھوڑا

میں گھوڑے کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں
وہ اولین شجر ہے
وہ بانس کے جنگل کی طرح راتوں رات اگتا ہے
اور ہواؤں کو سنسناتے ہوئے گزرنے کی اجازت دیتا ہے


گھوڑے کو خدا نے افضالؔ احمد سید کی نظم کی طرح بنایا ہے
خوب چوڑا
سیاہ مٹی سے پھوٹتا ہوا
سیاہ آسمان سے اترتا ہوا
پرواز پر آمادہ


خدا نے ایک الوہی غصے
پسینے
اور دھوپ بھرے گھاس کے میدان کو گوندھ کر
اس کی ہنہناہٹ ترتیب دی ہے
اس کی ٹاپوں کی دھمک میں
قضا و قدر کے بے مروت فیصلے جڑ دئے ہیں
اور اس کی رفتار کے دائیں بائیں
وہ دھندلے منظر پھیلا دئے ہیں
جن میں ٹھیک سے کچھ پتا نہیں چلتا کہ کیا ہو رہا ہے


خدا نے گھوڑے کی رفتار کے سامنے بھی منظر پھیلائے ہیں
بالکل سیدھ میں دیکھو تو وہ واضح اور طے شدہ نظر آتے ہیں
یہاں تک کہ
وہ نیم ہو کر
دائیں اور بائیں تقسیم نہ ہو جائیں
اور دھندلا نہ جائیں
خدا نے گھوڑے کی رفتار کے عقب میں
نیستی بچھا دی ہے
یا ایک آواز کہ
سروم دکھم دکھم
اور گھوڑا ان سب باتوں سے مل کر بنا ہے