یہ شب مجھ سے کنارہ کر رہی ہے
یہ شب مجھ سے کنارہ کر رہی ہے
بڑا گھاٹے کا سودا کر رہی ہے
نہ پوچھو میری رُسوائی کا عالم
چلو ، خلقت تماشا کر رہی ہے
ہجومِ شہرِ نا پرساں میں ہم کو
محبت کیسے تنہا کر رہی ہے
میں ڈھلتی شام کا منظر ہوا ہوں
سحر اب مجھ سے پردہ کر رہی ہے
ذرا چکھ لیجیے ناں حضرتِ شیخ
یہ مے کب سے تقاضا کر رہی ہے
جو ذِکرِ کربلا نہ کر رہی ہو
بھلا وہ زندگی کیا کر رہی ہے؟
نگاہِ شوق کا عالم نہ پوچھو
طوافِ رُوئے زیبا کر رہی ہے
نہیں حمّاد، چارہ ساز کوئی
شبِ غم خود دلاسا کر رہی ہے
۔۔۔۔
حماد یونس