غزل کی زبان اور اقبال کی غزل کی زبان

اقبالؔ کا ایک شعر ہے،
نہ زباں کوئی غزل کی نہ زباں سے باخبر میں
کوئی دل کشا صدا ہو، عجمی ہو کہ تازی


تو کیا واقعی غزل کی زبان کی کوئی خصوصیت نہیں ہے؟ کیا یہ صرف شاعرانہ زبان ہے یا اس شاعرانہ زبان کی کچھ خصوصیات بھی ہیں۔


اردو غزل کا سرمایہ خاصا شاندار ہے اور اس میں قابل ذکر شعرا کی تعداد بھی بہت ہے لیکن اگر ایسے چند شعرا کا نام لینا ضروری ہے جنہوں نے غزل کے معیار، مزاج، لب و لہجے اور زبان کا تعین کیا ہو تو ہمیں ولیؔ، میرؔ، سودا، دردؔ، مصحفیؔ، جرأتؔ، آتشؔ، غالبؔ، مومنؔ، ذوقؔ، ظفرؔ، شیفتہؔ، داغؔ، شادؔ عظیم آبادی، حسرتؔ موہانی، ثاقبؔ لکھنوی، آرزوؔ لکھنوی، فانیؔ بدایونی، اصغر گونڈوی، جگر مرادآبادی، یگانہ چنگیزی، فراق گورکھپوری، حفیظؔ ہوشیارپوری، فیض احمد فیضؔ، جذبیؔ، مجروحؔ، ناصر کاظمی، خلیل الرحمن اعظمی اور شہریارؔ کی طرف اشارہ کرنا ہوگا۔ فہرست سازی میرا شعار نہیں۔ اس لئے ان ناموں کو صرف ایک سلسلے کی نشان دہی سمجھنا چاہئے۔ اس سلسلے کی مدد سے غزل کی زبان کے متعلق چند باتیں ضرور کہی جاسکتی ہیں۔


موضوع اور زبان کا رشتہ بہت گہرا ہوتا ہے۔ موضوع ہی اپنے لئے مناسب زبان لاتا ہے۔ غزل کا موضوع ابتدا میں حسن و عشق کی واردات تھی۔ غزل گویا حدیث دلبری تھی، یا صحیفہ عشق، پھر اس میں تصوف اور فلسفہ اخلاق اور رفتہ رفتہ سیاسی مضامین بھی داخل ہو گئے۔ غزل چونکہ اپنی جگہ مکمل اشعار کا گلدستہ ہے اور بحر، قافیے اور اکثر ردیف سے اس کی ہیئت متعین ہوتی ہے۔ اس لئے غزل کے ہر شعر میں ایک بھرپور اور ایک مکمل نقش، ایک گہرا تجربہ, ایک اہم روداد، گویا زندگی کا ایک افسانہ یا افسوں مل جاتا ہے۔ اس حد بندی اور بساط کے اس قدر مختصر ہونے کی وجہ سے اس میں وضاحت و صراحت کے بجائے بلاغت، تفصیل کے بجائے اشارے اور اشارے کی ضرورت کی وجہ سے رمز و ایما سے کام لینا پڑتا ہے۔


غزل دروں بینی کا فن ہے، یعنی خارجی مظاہر کی اہمیت نہیں۔ اہمیت اس داخلی تجربے کی ہے جو ان مظاہر کے اثر سے وجود میں آیا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ غزل شروع سے اپنے بیان میں ایک خاص انداز بیان پر زور دیتی ہے۔ اس انداز بیان کا نام تغزل ہے۔ رفتہ رفتہ تغزل سے نظم میں بھی کام لیا گیا مگر تغزل بہرحال غزل کی روح ہے۔ اس تغزل نے اگرچہ حسن و عشق سے زیادہ سروکار رکھا اور جذبے کی زبان میں اپنی بات کہی۔ مگر رفتہ رفتہ تصوف خصوصاً وحدت الوجود کے اثر سے کائنات کی ہر شئے میں حسن دیکھا اور دکھایا اور یہ عمل عشق و عاشقی کی زبان میں ہی کیا۔ میرؔ کے اس شعر پر غور کیجئے،


دہر کا ہو گلہ کہ شکوۂ چرخ
اس ستم گر سے ہی کنایت ہے


گویا بقول فانیؔ،
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک


غزل کی بحر، اس کی موسیقی، آہنگ، اس کی فضا، اس کی بساط کی وسعت متعین کرتی ہے، قافیہ صوتی ہم آہنگی کے ذریعہ سے تسکین عطا کرتا ہے۔ یہاں صوتی ہم آہنگی تکرار کی مدد سے پیدا کی جاتی ہے، قافیہ خیال کے بہاؤ کو ضرور متاثر کرتا ہے مگر عربی کی طرح اردو میں بھی قوافی کی کثرت ہے اس لئے یہ پابندی اچھے شاعروں کے یہاں شعریت کو مجروح نہیں کرتی۔ بقول غالب،


پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور


اچھی غزل مختصر ہوتی ہے۔ پانچ یا سات یا گیارہ اشعار کی طویل غزلیں یا دوغزلے سہ غزلے قدرت کا مظاہرہ ہوں تو ہوں شریعت کا مظاہرہ نہیں۔ ہر قافیے کو نظم کرنے کی روش استادی کا ثبوت کہی جا سکتی ہے، مگر غزل کی شریعت میں مکروہ ہے۔ امیدؔ امیٹھوی نے امیرؔمینائی کے تذکرے میں اسیرؔ لکھنوی کا ایک واقعہ لکھا ہے۔ اسیرؔ ہر رات کو دو تین طویل غزلیں کہہ لیتے تھے، مشاقی کے لئے۔ امیرؔ مینائی نے ان سے پوچھا کہ ہر قافیے کو نظم کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اسیرؔ نے جواب دیا کہ کیا معلوم کب سند کے لئے اس کی ضرورت پڑے۔ گویا شاعری لغت نویسی کی خاطر ہوگی۔


ردیف کی اتنی اہمیت نہیں جتنی قافیے کی ہے۔ ردیف کے بغیر غیرمردف غزلیں بھی لکھی گئی ہیں اور یہ اچھی غزلیں بھی ہیں لیکن عام طور پر ردیف کی مدد سے زمانے یا حالت کو متعین کرکے یا کسی موڈ یا موڑ کو متعین کر کے غزل کی داستان کا مزاج واضح کیا جاتا ہے۔ اس میں یا تو نکلے، کیا ہوا، لے جائے گا، ہے، تھا، ہوگا، جیسے افعال سے ماضی، حال، مستقبل کا احاطہ کیا جاتا ہے یا پھر بعض اسما شمع، بہار کی مختلف کیفیات بیان کی جاتی ہیں مگر افعال سے خصوصاً آخر میں لمبی آوازوں سے زیادہ کام لیا جاتا ہے۔


لمبی لمبی ردیفوں کی روش جو لکھنؤ سے شروع ہوئی اور شاہ نصیر وغیرہ نے جسے ترقی دی، در اصل غزل کے لئے سازگار نہیں ہے۔ ہاں بعض جدید شعرا مثلاً منیر نیازی کے یہاں تو میں نے دیکھا جیسا لمبی ردیف تجربے کی ایک خاص روش کو ظاہر کرتی ہے اور خیال انگیز کہی جا سکتی ہے یعنی غزل کی ہیئت میں بحر، قافیے، ردیف کی مدد سے ایک تجربہ، ایک واردات ایک حسین لمحہ، ایک دلنواز نکتہ، ایک پراثر لے، ایک حرف شیریں، ایک شرار معنوی، ایک نغمہ معرفت، ایک تابناکی خیال، ایک شعلہ جوالہ، ایک درد کی لہر، ایک من کی سوچ، ایک جلوے کی کائنات پیش کی جاتی ہے لیکن جو کچھ کہا جاتا ہے اس سے زیادہ خیال کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جگرؔ نے غلط نہیں کہا ہے،


اے کمال سخن کے دیوانے
ماورائے سخن بھی ہے اک بات


یعنی غزل کا ہر شعر ماورائے سخن بھی بہت کچھ رکھتا ہے۔ میرؔ کا یہ شعر دیکھئے،


کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا


یعنی غزل داخلی صنف ہے، اس میں حسن کی مصوری اور عشق کی کیفیات کے علاوہ دوسرے جذبات و خیالات اور زمین کے ہنگاموں کے تذکرے کے علاوہ اندیشہ ہائے افلاکی کی بھی گنجائش ہے۔ مگر ان کے بیان میں اس حسن بیان کی شرط ہے جو تغزل کہلاتا ہے۔ چونکہ غزل کے مضامین عامۃ الورود جذبات پر مشتمل ہوتے ہیں اور حسن کے جادو اور عشق کی جگر گدازی کا تجربہ آفاقی اور ہمہ گیر تجربہ ہے، اس لئے اس کی مقبولیت مسلم ہے مگر حسن صرف عورت یا مرد کے حسن کا نام نہیں اور عشق صرف جنس کے جبر کو نہیں کہتے بلکہ اس کے مظاہر کائنات میں بے شمار ہیں۔ اس لئے ہر طرح کے حسن اور ہر طرح کے عشق کی غزل میں گنجائش ہے مگر اس کے لئے انداز بیان کا پیرایہ یہاں وہی ہوگا جو مجازی عشق اور اس دنیا کے جیتے جاگتے ماہ پاروں کے تذکرے کی خوشبو رکھتا ہے اور اس میں اس درد و داغ، سوز و ساز، آرزو اور جستجو کی آنچ ہے جو آدمی کا امتیاز ہے۔


میرؔ نے ایک جگہ اس ریختے کی خصوصیات گنائی تھیں جوان کے نزدیک پسندیدہ ہے۔ ان کا قول تھا کہ ’’عرصہ سخن وسیع است۔‘‘ فرماتے ہیں، ’’ایسی تراکیب جو زبان ریختہ کے مزاج اور بول چال کے مطابق ہیں وہ جائز ہیں اور جو ریختہ میں نامانوس ہیں ان کا استعمال معیوب ہے۔ میں نے خود بھی یہی راستہ اختیار کیا ہے۔‘‘ (ترجمہ)


’’ایک انداز فن ریختہ کا وہ ہے جو میں نے اختیار کیا ہے اور وہ تمام صنعتوں مثلاً تجنیس، ترصیع، تشبیہ، صنعات گفتگو، فصاحت و بلاغت، ادابندی خیال وغیرہ پر حاوی ہے۔‘‘


یعنی غزل کی زبان کی بنیاد عام بول چال کی زبان پر ہے۔ میرؔ کے یہاں عام بول چال کی زبان کا معیار جامع مسجد کی سیڑھیوں کی زبان ہے جیسا کہ انہوں نے لکھنؤ کے چند امیرزادوں سے اپنے اس شعر پر تبصرہ کرتے وقت کہا تھا،


عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گئی آرام گیا
جی کا جانا ٹھیر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا


بول چال کی زبان میں عامیانہ الفاظ بھی در آتے ہیں مگر غزل کی تہذیب نے عامیانہ الفاظ کو گوارا نہیں کیا۔ کہیں کہیں اس سلسلے میں بے اعتدالی ہوئی تو اس پر انگلیاں اٹھائی گئیں۔


بول چال کی زبان پر بنیاد کے ساتھ شروع میں غزل پر ہندی الفاظ کے استعمال میں خاصی فراخدلی تھی مگر متروکات کا جو سلسلہ ناسخؔ سے شروع ہوا اس میں لکھنؤ کی تہذیب کی تند جبینی اور دربار داری کے اثرات بھی شامل تھے۔ ان متروکات سے غزل کی زبان بظاہر مہذب اور شائستہ ہو گئی مگر اس کی مقبولیت اور تاثیر پر اثر ضرور پڑا۔ خوشی کی بات ہے کہ ان متروکات میں سے بہت سے جدید غزل گوشعرا کے یہاں پھر بار پا گئے ہیں اور اس طرح زبان کے زیادہ سے زیادہ سرمایہ سے کام لینے کی روش پھر روشن ہوگئی ہے۔


قدما کے یہاں الفاظ کی شیرینی، نرمی، خوش آہنگی پر جو زور تھا وہ اس لئے تھا کہ اس دور میں عشق و محبت کے جذبات کی مصوری پر زیادہ توجہ تھی کچھ لوگوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ، ’’غزل کو صرف قوت منفعلہ کے مظاہر یعنی شیفتگی، فریفتگی، بے خودی، مدہوشی، شوق و حسرت، رنج و غم، درد و الم اور سوز و گداز وغیرہ کا مجموعہ ہونا چاہئے۔‘‘


ظاہر ہے کہ اس دائرے میں وسعت ہوئی اور تصوف، اخلاقی مضامین، فلسفیانہ مسائل اور سماجی موضوعات کی طرف اشاروں کی وجہ سے غزل کی زبان جذبے کی آنچ کی ساتھ فکر کی گہرائی پر بھی قادر ہونے لگی۔ اس فکری عنصر کے لئے فارسی سے قدرتی طور پر مدد لینی پڑی اور غزل کی بڑھتی ہوئی فارسیت، یا لہجہ کی سردمتانت کے خلاف آواز بھی بلند ہوئی۔ شیفتہؔ نے اسلوب میں متانت کو ہی معیار بنایا اور یہ کہا،


شیفتہ کیسے ہی معنی ہوں مگر نامقبول
اگر اسلوب عبارت میں متانت کم ہو


اور یہ بھی فرمایا،
یہ بات تو غلط ہے کہ دیوان شیفتہ
ہے نسخہ معارف و مجموعہ کمال


لیکن مبالغہ ہے تو البتہ اس میں کم
ہاں ذکر خدوخال اگر ہے تو خال خال


فارسیت کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا غزل کی زبان نے اس طرح مقابلہ کیا کہ فارسی تراکیب کی کثرت کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا۔ خصوصاً دوسرے مصرعے میں روانی ایسی پیدا کی کہ پہلے مصرعے کی تراکیب کا آہنگ اس میں ضم ہو گیا۔ اس کے ساتھ آوازوں کے استعمال میں ایک خاص سلیقے کو مد نظر رکھا۔ ایک مثال سے یہ بات واضح ہو جائے گی۔ میرؔ کہتے ہیں،


کچھ نہ دیکھا پھر بجز یک شعلہ پر پیچ و تاب
شمع تک تو ہم نے دیکھا تھا کہ پروانہ گیا


پہلے مصرعے کا نصف حصہ، بجزنیک پرپیچ وتاب فارسی ہے۔ مگرچونکہ صوتی آہنگ نرم وشیریں ہے۔ اس لئے فصاحت لئے ہوئے ہے اور دوسرے مصرعے کی صاف وسلیس بات نے پورے شعر کو معنی کا دفتر اور تجربہ کا ایک لازوال خزانہ بنا دیا ہے۔


چنانچہ اردو غزل نے فارسی تراکیب سے بہت کچھ لیا اور ان کے ذریعہ سے حسن کی آفرینی، معنی آفرینی اور ایجاز و اختصار کی دنیا آباد کی، مگرکچھ شعرا کے یہاں اس معاملہ میں بے اعتدالی بھی ہوئی۔ لکھنؤ کے بعض شعرا اور شاہ نصیر کے اثر سے دہلی کے شعرا نے رعایت لفظی و صنایع کے استعمال میں غلو کیا۔ رعایت لفظی شعر کا حسن ہے عیب نہیں۔ بشرطیکہ بے ساختہ معلوم ہو، آمد لگے آورد نہیں۔ دونوں کی مثالیں ملاحظہ ہوں۔ غالبؔ کے اس شعر میں رعایت لفظی حسن ہے،


خدایا جذبہ دل کی مگر تاثیر الٹی ہے
کہ جتنا کھینچتا ہوں اور کھنچتا جائے ہے مجھ سے


امانتؔ کے اس شعر میں رعایت لفظی عیب ہے،


میری تربت پہ لگایا نیم کا اس نے درخت
بعد مرنے کے مری توقیر آدھی رہ گئی


در اصل ہوا یہ کہ مجموعی طور پر اردو غزل سہل ممتنع کی طرف بڑھ رہی تھی۔ بول چال سے قریب ہو رہی تھی۔ محاورے کے استعمال کو پسندیدہ سمجھتی تھی، بلکہ ذوقؔ کے یہاں تو اس معاملے میں غلو بھی ملتا ہے۔ محاورے در اصل سوئے ہوئے استعارے ہوتے ہیں اس لئے غالبؔ نے اپنے ابتدائی دور میں اپنی شوخی فکر اور رعنائی تخیل کے لئے نئی نئی تراکیب کا سہارا لیا جس کی وجہ سے کلام میں اردوپن کم ہو گیا اور فارسیت غالب۔ غالبؔ کے اسلوب کا جب مشاعروں میں مذاق اڑایا گیا تو اس کے پیچھے یہی نکتہ تھا پھر مشاعروں کی شاعری چونکہ ایک طور پر فوری اپیل اور فوری ابلاغ کی شاعری ہوتی ہے۔ اس لئے غالبؔ کی تراکیب جو معنی کی تہیں رکھتی ہیں اور ابہام سے بھی کام لیتی ہیں، عام مذاق کے مطابق نہ ٹھہریں۔


در اصل غالبؔ ایک اور کام کر رہے تھے۔ وہ غزل کے موضوع کو وسیع کر رہے تھے اور اس میں انسان کی زندگی کے تینوں دور یعنی عالم طفلی کا تحیر، شباب کا جوش و خروش اور رندی و مستی اور پختہ عمر کی سنجیدگی اور عارفانہ نظر کو سمو رہے تھے۔ اس لئے انہیں ایک طور پر مروجہ زبان سے کام لینے کے بجائے اپنی زبان وضع کرنی پڑی۔ اہم بات یہ ہے کہ ’نسخہ حمیدیہ‘ کی شاعری کے بعد جب غالب نے اپنے کلام کا انتخاب کیا تو انہوں نے تراکیب تو رکھیں مگر مجموعی طور پر تخیل کی شعبدہ گری پر تجربے کی گہرائی کو ترجیح دی اور ایسے اشعار منتخب کئے جن میں ایک نیا اردوپن آیا۔


لکھنؤ میں بھی غالبؔ کی فکر اور امیرؔ کی زبان کے امتزاج کی جو لہر انیسویں صدی کے آخر میں شروع ہوئی اس میں اس نئے اردوپن کا احساس تھا۔ اس کی ایک بڑھی ہوئی شکل مسعود حسن رضوی کی ایک روایت ملتی ہے۔ انہوں نے مجھ سے لکھنؤ کی ایک نشست میں بیان کیا تھا کہ ان کے ہم عصر غالبؔ سے بہت خفا تھے اور لکھنوی شعرا خصوصاً آتش کے مداح، مسعود حسن صاحب نے انہیں ایک دفعہ غالبؔ کی یہ غزل سنائی۔


کیوں جل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کر
جلتا ہوں اپنی طاقت دیدار دیکھ کر


وہ خاصی بے دلی اور بیزاری کے ساتھ اس غزل کے اشعار سنتے رہے۔ جب مسعود صاحب نے غالبؔ کا یہ شعر پڑھا،


سر پھوڑنا وہ غالبؔ شوریدہ حال کا
یاد آگیا مجھے تری دیوار دیکھ کر


تو کہنے لگے غالبؔ ایسا ہی کیوں کہتا، یہ گڑمبے کیوں کہتا ہے۔ گڑمبے کی مثال میں انہوں نے غالبؔ کا یہ شعر پڑھا،


ستائش گر ہے زاہد اس قدر جس باغ رضواں کا
وہ ایک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طاق نسیاں کا


پھر انہوں نے آتشؔ کے اس شعر کو بڑی تعریف سے پڑھا،


سرمہ لگا کے یار نے ترچھی نگاہ کی
موت آئی پھر کسی نہ کسی بے گناہ کی


ہمارے نزدیک آتشؔ کا یہ شعر، اچھا تو کیا خود آتشؔ کے شایان شان نہیں۔ اس کا تجربہ بہت سطحی ہے۔ ہاں دوسرے مصرعے میں زبان کا لطف ضرور ہے۔ اس کے مقابلے میں غالبؔ کی ستائش گر باغ رضواں اور طاق نسیاں جیسی تراکیب، ایک نازک اور وسیع خیال کی لہر رکھتی ہیں جس میں انسان کی عظمت ہے۔ یہ مضمون بالآخر ان لازوال اشعار میں مکمل ہوا،


ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے


سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف سب درست
لیکن خدا کرے وہ تری جلوہ گاہ ہو


طاعت میں تار ہے نہ مے وانگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو


اردو غزل عبارت، اشارت اور ادا کا آرٹ ہے۔ اس کے کی زبان اردو تہذیب کی زبان ہے، اس میں عجم کا حسن طبیعت ضرور ہے مگر اس کا مزاج ہندوستانی ہے، اس کی زبان منتخب شعری اور شہری زبان ہے جس میں انسان اور انسان، انسان اور سماج اور انسان اور فطرت کے سارے رشتے مل جاتے ہیں۔ یہ فضا میں پرواز کرتے ہوئے بھی دھرتی سے اپنا رشتہ قائم رکھتی، فصاحت کی خاطر یہ نرم اور شیریں آوازوں، روانی اور سلاست پر زور دیتی ہے اور الفاظ کے معاملے میں کفایت شعاری کی خاطر بلاغت کے اصولوں سے بھی کام لیتی ہے۔ یہ دراصل شاعری کی پہلی آواز ہے۔ مگر دوسری یعنی خطابیہ اور تیسری یعنی ڈرامائی آواز سے بھی کام لیتی ہے۔ خطابیہ لے نمایاں ہونا غزل کی زبان کے آداب کے منافی ہے مگر چونکہ غزل مختلف اور منفرد اشعار کا مجموعہ ہے اور عام طور پر اس میں چند بلند اشعار کے ساتھ چند سطحی یا معمولی اشعار بھی ملتے ہیں اس لئے کہیں خطابیہ لے سے غزل کے مجموعی حسن پر اثر نہیں پڑتا۔


حالیؔ کے الفاظ میں غزل حیرت ناک جلووں کا آرٹ ہے۔ شاعری کی تیسری آواز سے غزل میں اکثر کام لیا گیا ہے اور بہت سے ایسے اشعار مل جائیں گے جن میں محذوفات سے کام لے کر کافی لمبی داستان کی طرف اس طرح اشارے کئے گئے ہیں کہ کہی بات سے زیادہ ان کہی بات کی طرف ذہن جاتا ہے۔ غالبؔ کا یہ شعر ذہن میں رکھئے،


قفس میں مجھ سے روداد چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہو جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو


غزل میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ آپ بیتی کو جگ بیتی، اپنی بات کو سب کی بات اور اپنی داستان کو سب کی داستان کا رتبہ دے سکتی ہے۔ اس لئے غزل کے مصرعے اور اشعار زندگی کے مختلف موقعوں پر دہرائے جاتے ہیں اور نثر کی تفصیل کو ایک شاعرانہ اشارے کے ذریعہ سے اس طرح مکمل کرتے ہیں کہ ذہن مزے لیتا ہے۔ یہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کی خوبی، یہ مبہم مگر کثیر الابعاد نقش، غزل کی بہت بڑی طاقت ہے۔ بحر اس کی موسیقی، قافیہ اس میں خاص آوازوں کی توقع، اور ان کی تکرار سے تسکین، اور ردیف اس میں گونج کی ضامن ہے۔ قدما کی غزل میں تصوف کی اصطلاحیں، متوسطین کے یہاں مہذب اور مجلسی زندگی کے لوازم اور جدید شعرا کے یہاں سیاسی اور سماجی تحریکات کے نقوش، غزل میں براہ راست بھی آئے ہیں۔ مگر غزل کی زبان ان کا اظہار رمز و ایما کے ذریعہ سے کرتی ہے۔ غزل کی زبان میں لہجے کی بڑی اہمیت ہے اور فن کے ایک خاص اسلوب یعنی ہجو ملیح (IRONY) کو غزل نے جس طرح برتا ہے وہ اس کی صلاحیت کی دلیل ہے۔ یہ مصرعہ،


ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے


لغوی معنی میں طنز خفی رکھتا ہے، اسی طرح غالبؔ کا یہ شعر،


کہا تم نے کہ کیوں ہو غیر سے ملنے میں رسوائی
بجا کہتے ہو، سچ کہتے ہو، پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو


زبان میں روانی اور بندش میں چستی کا، غزل کی زبان کو اس قدر احساس ہے اور محاسن سخن اور معائب سخن، جس کی طرف حسرت نے توجہ دلائی ہے، غزل کی زبان کے ایک دستور العمل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اسی لئے غزل بھی کلاسیکی زبان سے گہرا رشتہ رکھتی ہے اور نئے مضامین کی بھرمار کے بجائے رمز و ایما کو نئے ڈھنگ سے برت کر اپنی بات کہتی ہے۔ آج چونکہ غزل کی دنیا بہت وسیع ہوگئی ہے اس لئے اس کی زبان بھی خاصی ہمہ گیر ہے مگر وہ خواص پسند ہوتے ہوئے بھی بقول میر عوام سے گفتگو کے فن کو ملحوظ رکھتی ہے۔ وہ ہر نظارے کے لئے چشم شوق وا رکھتی ہے مگر ایک انداز نظر پر اصرار کرتی ہے۔


غزل کی زبان پر اس عمومی تبصرے کے بعد چند باتیں اقبالؔ کی غزل کی زبان کے سلسلے میں۔ پہلے ان کا یہ شعر ذہن میں رکھئے،


عروس لالہ مناسب نہیں ہے مجھ سے حجاب
کہ میں نسیم سحر کے سوا کچھ اور نہیں


مرا سبوچہ غنیمت ہے اس زمانے میں
کہ خانقاہ میں خالی ہیں صوفیوں کے کدو


اس اندیشہ سے ضبط آہ میں کرتا ہوں کب تک
کہ مغزا دے نہ لے جائیں تری قسمت کی چنگاری


مرے گلو میں ہے ایک نغمہ جبرئیل آشوب
سنبھال کر جسے رکھا ہے لا مکاں کے لئے


میری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی
شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی


مری اسیری پہ شاخ گل نے یہ کہہ کے صیاد کو رلایا
کہ ایسے پرسوز نغمہ خواں کا گراں نہ تھا مجھ پہ آشیانہ


جمیل تر ہیں گل و لالہ فیض سے اس کے
نگاہ شاعر رنگیں نوا میں ہے جادو


نسیم سحر، چنگاری، نغمہ جبرئیل آشوب، پرسوز نغمہ خواں، مینائے غزل، جادو، جیسے الفاظ اقبالؔ کی غزل کی روح کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یعنی اقبالؔ کی غزل میں سوز بھی ہے اور مستی بھی، جمال بھی ہے اور جلال بھی، فکر کا مغز بھی ہے اور جذبے کا گودا بھی، دلوں کی کشاد بھی اور نشریت بھی، ساز طرب بھی اور فریاد کی ٹھیس بھی۔ اس میں ان کی مخصوص اصطلاحوں کی وجہ سے یا موڈ کی وحدت کی وجہ سے بعض اوقات نظم کی شان ضرور پیدا ہوگئی ہے، مگر جذبے کی آنچ مجموعی طور پر انہیں غزل کی زبان سے دور نہیں جانے دیتی۔


اقبالؔ کی زبان کے ذریعہ سے غزل کی زبان کی توسیع ہوئی ہے۔ حدیث دلبری کو صحیفہ کائنات بنانے کا عمل غالبؔ سے شروع ہوا تھا۔ اقبالؔ نے اسے مکمل کیا۔ اقبالؔ میرؔ کے قبیلے کے شاعر نہیں، غالبؔ کے قبیلے کے شاعر ہیں، میرؔ کے یہاں عشق ہی زندگی ہے۔ غالبؔ کے یہاں زندگی سے عشق ہے اور اقبالؔ کے یہاں بامعنی، کارکشا اور کار ساز زندگی سے۔ میرؔ نے اپنی خودی کو عشق پر قربان کر دیا اس لئے ان کی غزل عشقیہ شاعری کی ساری آب و تاب، گرمی اور کیفیت رکھتی ہے۔ غالبؔ صرف زندگی کے عاشق نہیں عارف بھی ہیں اسی لئے ان کے یہاں غزل کی زبان گنجینہ معنی کا طلسم بنتی ہے۔


اقبالؔ کی فکر بلند بھی ہے اور واضح بھی۔ انہوں نے غزل سے شاعری شروع کی مگر بہت جلد نظم کی طرف متوجہ ہو گئے اور اس صنف کو بہت بلند کیا مگر غزل گو اقبال نظم میں بھی اپنے مزاج اور میلان کو برابر ظاہر کرتا رہا۔ ہاں ان کی نظمیں ربط و تسلسل کا اتنا خیال نہیں رکھتیں جتنی پیہم جست کا۔ وہ صرف آگے کی طرف نہیں دیکھتیں، ادھر ادھر بھی دیکھتی ہیں۔ اقبالؔ کی ’’بانگ درا‘‘ کی غزلیں، غزل کی دنیا میں کوئی بلند مقام نہیں رکھتیں۔ اردو غزل میں انہوں نے جو اضافہ کیا ہے وہ ’’بال جبریل‘‘ کی غزلوں میں نظر آتا ہے۔ داغؔ سے انہوں نے عاشقانہ چھیڑ چھاڑ اور لطف زبان کے کچھ آداب سیکھے، مگر داغؔ سے یہ زیادہ گہرا اثر ان پر حالیؔ کی سیاسی فکر اور رعنائی فن کا ہے اور یہ واقعہ ہے کہ داغ ؔ اور حالیؔ سے رشتہ رکھنے کے باوجود وہ غالبؔ کے جانشین بن کر سامنے آتے ہیں۔


باقیات اقبال میں ان کی جو غزلیں ملتی ہیں انہیں اقبالؔ نے بانگ درا میں شامل نہیں کیا۔ ان میں کہیں کہیں اقبالؔ کی فکر کی چنگاریاں ملتی ہیں۔ چند اشعار کو چھوڑ کر اقبالؔ بانگ درا کی غزلوں کی وجہ سے اہم غزل گو نہیں ہیں۔ زیادہ تر بال جبریل اور ایک حد تک ’’ضرب کلیم‘‘ اور ’’ارمغان حجاز‘‘ کی غزلوں کی وجہ سے ہیں۔ بال جبریل جس طرح اقبالؔ کی اردو نظم گوئی کے عروج کو ظاہر کرتی ہے، اسی طرح ان کی غزل گوئی کے عروج کو بھی۔ اس سلسلے میں دو اہم نکتوں کی طرف اشارہ ضروری ہے۔ اول تو ’’زبورعجم‘‘ کی طرح ’’بال جبریل‘‘ میں بھی پہلا حصہ خدا سے خطاب کے لئے وقف ہے، دوسرا حصہ انسان اور کائنات اور اس کے کاروبار شوق کے لئے۔ دوسرے اقبالؔ رفتہ رفتہ غیر مردف غزلوں کی طرف مائل ہوتے جاتے ہیں۔


’’بانگ درا‘‘ کے تین حصوں میں علی الترتیب ۱۲، ۷ اور ۸ غزلیں ہیں۔ یعنی ۲۸ غزلیں ہیں، ان میں کوئی غیر مردف غزل نہیں۔ بال جبریل کے غزلوں کے پہلے حصے میں ۱۶ غزلیں ہیں جن میں ۸ غیر مردف ہیں اور دوسرے حصے میں ۶۱ غزلیں ہیں جن میں سے ۴۲ غیر مردف ہیں۔ ضرب کلیم کی ۵ غزلوں میں سب غیر مردف اور محراب گل افغان کے افکار میں ۱۹ میں سے، ۶ غیر مردف، ارمغان حجاز کے اردو حصےمیں ملازادہ ضیغم لولابی کے بیاض میں ۱۷ غزلیں ہیں اور سب کی سب غیر مردف۔ کئی غزلوں میں مطلع بھی نہیں ہے۔ بال جبریل کی ایک غزل اور ارمغان حجاز کی ایک غزل میں آخری شعر دوسرے ردیف قافیے میں ہے جو غزل کے آداب کے منافی ہے، آپ چاہیں تو اسے ایک تجربہ کہہ سکتے ہیں۔


بانگ درا میں کئی طویل غزلیں ملتی ہیں مگر بال جبریل اور ضرب کلیم کی غزلیں طویل نہیں۔ مسلسل غزلیں بال جبریل میں ملتی ہیں اور وحدت تاثر تو اقبالؔ کی بہت سی غزلوں میں ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ اقبالؔ کی نظم غزل کی زبان سے متاثر ہے اور غزل نظم کی زبان سے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اقبالؔ نے نظم کی زبان سے غزل میں کام لے کر اس کی دنیا کو وسیع کیا۔ اس لئے اقبالؔ کا یہ کہنا کچھ ایسا غلط نہیں کہ غزل کی کوئی زبان نہیں ہے۔ اس میں ہر دل کشا صدا کی گنجائش ہے خواہ وہ عجمی لے سے آئے یا حجازی لے سے، یا ہندی لے سے، چند غزلوں میں انہوں نے ق یا غ کی آوازوں سے بھی کام لیا ہے مگر مجموعی طور پر ان کی غزل کا آہنگ شیریں بھی ہے اور رقصاں بھی۔ تلمیحات، تراکیب، استعارات، تشبیہات کی کثرت کے باوجود ہیرے کی طرح ترشے ہوئے خیال اور فن پر بھرپور قدرت کی وجہ سے ان کی غزلوں کے الفاظ میں زبان پر وہ فتح اور اقلیم معنی پر وہ اقتدار ملتا ہے جو بڑی شاعری کی پہچان ہے۔


اقبالؔ کی غزلوں کا زندگی کے مختلف موقعوں پر مسلسل استعمال ان کی غزل کی زبان کی خوبی کی وہ بین دلیل ہے جس کے بعد کسی اور شہادت کی ضرورت نہیں۔ غزل اور نظم دونوں میں زبان کے کارنامے کی عظمت مسلم ہے۔ کیا ہوا، اگر اقبالؔ نے کہا کہ وہ زبان سے باخبر نہیں۔ میرؔ نے بھی تو کہا تھا کہ ان کو شاعر نہ کہا جائے۔ ہمیں تو شاعر کی بات سے زیادہ شاعری کی بات پر کان دھرنا چاہئے۔