غزل کا تیسرا نام
(۲۸ ستمبر ۶۳ء کوعوامی سنٹر (بمبئی) کی طرف سے ’شب یگانہ‘ منائی گئی، جس میں سردار جعفری نے یگانہ سے اپنی ملاقاتوں کا ذکر کیا۔ ظ۔ انصار ی نے یگانہ کو ایک بڑا کاریگر کہا۔ علی وجد نے یگانہ کو اچھا شاعر تسلیم کیا مگران کی شخصیت پر ناجائز اور بےبنیاد الزامات لگائے۔ صرف صدر جلسہ مجروح سلطانپوری نے یگانہ کی عظمت کا کھلے دل سے اعتراف کیا۔ یہ مضمون ایسے ہی ہنگامہ خیز جلسے میں پڑھا گیا تھا۔)زندگی کے معنی سمجھنے اور برتنے میں کئی منزلوں کے فاصلے حائل ہیں۔ شاعری حسن معنی بھی ہے اور سوز عمل بھی۔ ایک ایسے دور میں جب فرد اور سماج کی کشمکش تیز سے تیزتر ہوتی جا رہی ہو، زندہ رہنے اور شعر کہنے کے لیے ادب سے لگن کے ساتھ ساتھ جرأت رندانہ کی ضرورت بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ ’’صاحب نظری‘‘ منجملہ الزام قرار پا چکی ہے اوریہ واقعہ صرف آج کا نہیں ہے بلکہ ترقی پسند تحریک سے کچھ پہلے کا ہے۔ اس زمانے کے بارے میں رشید احمد صدیقی صاحب کا خیال ہے کہ وہ ’’غزل کا عہدزریں‘‘ تھا اور یہی اس ہنگامہ کا دور تھا جو اقبال اور بعد میں جوش کے عروج کا زمانہ بھی کہلایا جا سکتا ہے۔آج پچھلے چالیس سال کے واقعات پر ایک سرسری نظر بھی ڈالی جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کتنی شمعیں گل ہو گئیں اور کتنے سورج ڈوب گئے لیکن ایک تارا ایسا بھی تھا جو آج تک نظرانداز کیے جانے کے باوجود چمک رہا ہے۔ آج اس کی چمک کل سے دونی ہو گئی ہے اور وہ ن دور نہیں جب اس کی اہمیت اور عظمت کا اعتراف کرنا ادبی فریضہ میں شامل ہوگا۔ لیکن ابھی تو شعوری اور غیرشعوری ادبی بددیانتی کے خلاف مسلسل احتجاج کی ضرورت ہے ورنہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھنے سے ’’دعائیں‘‘ بھی قبول نہیں ہوتیں ۔ کسی کی ادبی اہمیت وعظمت کا منوانا تو بہت بڑی بات ہے۔میں ان لوگوں میں شامل نہیں ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ وقت خود بخود نقادوں کے پہنائے ہوئے تاج اتار کر نئے سرے سے تاج پوشی کرےگا اور پھر اب تو یہ رسم ہی ختم ہو چکی ہے ورنہ کسے بیس سال پہلے یہ خبر تھی کہ نظیر اکبرآبادی اردو کے صف اول کے شعرا میں جگہ پائیں گے اور ان کا نام بھی میر، غالب اور انیس کے ساتھ لیا جائےگا۔ یہی نہیں نئی نسل نے ترقی پسندوں کے کئی مفروضوں کو رد کر دیا ہے۔ اس رد عمل نے جس کو ابھارا ہے وہ یگانہ کی شخصیت اور شاعری ہے۔یگانہ کے انتقال کو سات برس ہو چکے ہیں۔ اس عرصے میں جو مضامین اور کتابیں غزل کے مسئلے اور غزل گو شعرا پر شائع ہوئی ہیں، ان میں یگانہ کا بھی ذکر کیا جانے لگا ہے مگر مجموعی طور سے چند نئے سرکش ادیبوں اور شاعروں کے سوا ان کو اسی طرح سے ’’گمنامی کے غار‘‘ میں ڈالنے کی بے نام کوشش جاری ہے۔ کچھ عرصہ ہوا جگر صاحب کے واسطے سے غزل پر پھر مضامین کا ایک انبار لگایا گیا تھا لیکن اس ہجوم میں بھی ان کا ذکر برائے نام نظر آتا ہے۔ رشید صاحب اب تک چار ستونوں پر جدید غزل کا ایوان تعمیر کیے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں یگانہ کا نام کیوں ہوگا۔ ڈاکٹر یوسف حسین خاں کی بےحد معمولی کتاب ’’اردو غزل‘‘ کا تیسرا ایڈیشن انجمن ترقی اردو (ہند) نے بڑے طمطراق سے شائع کیا ہے۔ یہ نظرثانی کے بعدشائع ہوئی ہے مگر اس میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔سردار جعفری ترقی پسند ادب کی اولیں اشاعت میں یگانہ کا ذکر کرنا بھول گئے تھے۔ دوسری اشاعت میں انہوں نے جو اضافہ کیا تھا وہ انجمن ترقی اردو (ہند) کے کہنے پر کیا تھا۔ اس سلسلے میں ’’نیرنگ خیال‘‘ میں مرزا احسان (اعظم گڑھی) کے مضامین آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اسی مصنوعی لفظی بازیگری کے ردعمل میں جب یگانہ نے لکھنوی شاعری کی حیثیت سے یقین، زندگی اور عمل کی شاعری پوری شاعرانہ صداقت کے ساتھ کی توان ہی لوگوں نے انہیں ’’ہدف ملامت‘‘ بنایا جو کل تک لکھنؤ کی شاعری کو ’’جنازے کی نوحہ خوانی‘‘ کہا کرتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ خود اپنوں نے بھی یعنی لکھنؤ کے شعراء نے بھی یگانہ کی شدید مخالفت کی اور انہیں بزم سے نکال دیا۔یگانہ نے ’’آیات وجدانی‘‘ میں بڑے دلچسپ انداز میں ان معرکہ آرائیوں کا ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے ان کی زندگی تلخ تر ہو گئی تھی۔ ان کا مکمل سوشل بائیکاٹ کر دیا گیا تھا اور یہاں تک کہ ان کی روزی بھی چھین لی گئی تھی مگر یگانہ ان سے گھبرانے والے نہ تھے اس لئے کہ،دل طوفاں شکن پہلے جو آگے تھا سو اب بھی ہے بہت طوفان ٹھنڈے پڑ گئے ٹکراکے ساحل سےیگانہ پر جو شدید الزامات لگائے جاتے ہیں ان میں سرفہرست یہ الزام ہے کہ وہ غالب کے شدید مخالف تھے۔ یہ الزام صحیح نہیں ہے۔ مجھے ’’غالب شکن‘‘ کے دونوں نسخے پڑھنے کا موقع ملا ہے، 1پہلا ۱۹۲۷ء اور دوسرا ۱۹۴۵ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کے دوسر ے ایڈیشن کے صفحہ ۲۲ پر صاف صاف لکھا ہے کہ وہ غالب پرستی کے مخالف ہیں غالب کے نہیں۔ اس میں یہ بھی درج ہے کہ یگانہ کے خلاف ۲۱ صفحے ’’ساقی‘‘ میں لکھے گئے تھے۔ یہ قلمی نام ’’دلی والا‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا اور ’’غالب شکن‘‘ ایک معنی میں اسی کا جوا ب ہے۔یہ ایک طویل مقالے کی حیثیت رکھتا ہے ج وخط کی صورت میں لکھا گیا تھا۔ اس کے مخاطب پروفیسر مسعود حسین رضوی ادیب صاحب ہیں، جو یگانہ کے بڑے مداح اور بہی خواہ ہیں اورانہیں انتہاپسندی کی صعوبتوں سے بچانے کی کوششیں کیا کرتے تھے۔ میکش اکبرآبادی نے اپنے مضمون میں یہ جملے لکھے ہیں، ’’شاید یہ بات تعجب سے سنی جائے کہ وہ مرزا غالب کو نہ صرف یہ کہ برا نہیں سمجھتے تھے بلکہ ایک بڑا شاعر سمجھتے تھے۔‘‘ (یگانہ کے ساتھ چندلمحے، نقوش نمبر ۶۹۔ ۷۰ صفحہ ۲۳۷)اس مضمون کے پڑھنے والے پر یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ یگانہ اتنے تنگ مزاج نہیں تھے جتنا کہ ان کے مخالفین نے انہیں مشہور کر دیا تھا اور پھر یگانہ کے مخالفین ایک دو نہیں بے شمار تھے اور ہیں۔ ایک اور بات بھی معلوم ہو جاتی ہے کہ فانی ان سے دوستی بھی رکھنا چاہتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ فانی کے منوانے والے یگانہ کا ذکر تک کرنا مناسب نہیں سمجھتے جیسے محترمی رشید!یگانہ کو اس کا علم تھا کہ وہ اپنی’’بےباکی وحق گوئی‘‘ کی وجہ سے بااثر علمی وادبی حلقے سے الگ کر دیے گئے ہیں ۔ اس احساس نے ان میں انا کی وہ جولانی پیدا کر دی تھی جس کے بغیر ان کی شاعری اتنی بااثر، پروقار، بلند آہنگ اور آتش سیال نہ بنتی (لیکن مجنوں صاحب صرف یاس کے قائل ہیں اور یگانہ کے نہیں۔ وائے تنقیدی بصیرت) جہاں ان کے انتہاپسند رویے نے انہیں زندگی میں قدم قدم پر بے شمار صعوبتوں سے دوچار کرایا، وہاں ان کے آرٹ کووہ تابناکی بخشی جواس سے پہلے میروغالب کے علاوہ کسی اردو غزل گو کو نصیب نہیں ہوئی تھی۔ ’’آتش‘‘ کے بانکپن کا ان کے ابتدائی کلام ’’نشتر یاس‘‘ پر اثر نظر آتا ہے جب وہ آتش کے ہم نوا کہلانا پسند کرتے تھے۔ مگر اس کے بعد کے کلام میں ان کی اپنی آواز خود ابھر چکی تھی اور نشتریت کے ساتھ شیرینی، دبدبے کے ساتھ نغمگی اور وقار کے ساتھ شعری حسن خود ان کا اپنا تھا، جس پر کسی کا حق نہ تھا۔اگر ان کی تیزی وتندی سے لوگوں کی دل آزاری ہوتی تھی تو اس کی وجہ صرف اتنی تھی کہ وہ اس اخلاق کوبے معنی سمجھتے تھے جس میں مصلحت، صداقت سے بڑی قدر سمجھی جاتی ہو۔ انہوں نے اپنے بڑے بول کے سلسلے میں یہ جملے لکھے تھے، ’’دکھ پہنچانا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے مگر عام ذہنی بیماری کی خطرناک حالت میں بڑا بول بول کر ذہنیت عامہ کو صدمہ پہنچانا ہرگز گناہ نہیں ہے۔ یہ ایک کارگر طریقہ علاج ہے۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے حکیم ہمدانی کا یہ شعر نقل کیا ہے،گر دل ایں مخزن کین است کہ مردم دارند ہرکہ یک دل شکند کعبہ آباد کند(آیات وجدانی ص ۱۹۹)یگانہ کا کلام پرکھنے کے لیے غزل کا وہ کلاسیکی معیار رکھنا ہوگا جس کی تعمیر حافظ، نظیری اور سعدی نے فارسی میں اور اردو میں میروغالب نے کی تھی۔ غزل کا ہر شعر معنوی اور صوتی اعتبار سے قدر اول کہلا سکے۔ جس میں سوزوگداز ہی نہ ہو بلکہ شعری صداقت اثر آفرینی کے ساتھ ہو۔ اس کے ساتھ ہی وہ تفکر بھی ہو جو ذہن کو جلا بخشے اور بصیرت بھی۔ زندگی کے تلخ سے تلخ تجربات شعر میں ڈھل کر وہ آتش سیال بن سکیں جس میں سرشاری ہو، بےخودی نہیں اور سب سے بڑھ کر خیالات، جذبات اور تجربات کا وہ حسین امتزاج بن سکے جس کو اچھی شاعری کا نقطہ عروج کہتے ہیں۔یگانہ کے کلام کو اس معیار پر جانچنے کی کوئی بھی کوشش کرے، کیساہی معیار لائے، صرف ایک چھوٹی سی شرط ہے کہ شعری ذوق بھی رکھتا ہو۔ اس چھوٹی سی شرط کو ہمارے نقاد اب تک تو بہت کم پورا کر سکے۔ یگانہ نے اپنی شاعری کے بارے میں فراق صاحب کو ایک خط لکھا تھا، ’’آپ یگانہ کی غزل میں معاملات حسن وعشق، معصومی، گم شدگی، سپردگی وغیرہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ چند غیرضروری شرطیں اپنی طرف سے بڑھا کر آپ یگانہ آرٹ کو شاعرانہ عظمت سے گویا خالی باور کرنا چاہتے ہیں۔ آپ دھوکے میں ہیں۔ یاد رکھئے ہر جنس کا آرٹ خود اپنے معیار پر پرکھا جاتا ہے، پرانے معیار پر نہیں۔‘‘اس خط میں یہ بھی لکھا ہے، ’’شاعری فقط سپاٹ حقیقت نگاری کا نام نہیں ہے بلکہ حقیقت کو شاعرانہ لذت کے ساتھ بیان کرنے کا نام ہے۔‘‘اس اقتباس سے صرف یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ یگانہ بڑے ہوش مند شاعر تھے۔ ان کے سامنے اعلیٰ شاعری کے نمونے موجود تھے ۔ وہ بڑی شاعری کے لب ولہجہ، موضوع اور قدروں سے واقف تھے۔ جب ہی تو ان کی غزلوں کے بیشتر اشعار میں وہ تندحلاوت پائی جاتی ہے جو ایک بڑے فنکار کی اولین پہچان قرار پا چکی ہے۔ ان کا علم یورپ کی درس گاہوں کا مرہون منت نہ تھا۔ انہوں نے اپنے سامنے پھیلی ہوئی آب جو کی طرح، خاموش تند چشموں کی صاف وشفاف اور سرکش دھاروں کی طرح تیز بہتی ہوئی زندگی میں ڈوب کر اس شعری مزاج کی تشکیل کی تھی جس کی بنیاد صرف انسان دوستی ہی پر رکھی جا سکتی ہے۔ جب ہی تو وہ کہہ سکے،صدرفیق و صد ہمدم، پر شکستہ ودل تنگداور انمی زیبد بال و پر، بمن تنہاان کے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ ہوں،بشرہوں میں، فرشتہ کیوں بنوں، جیسا ہوں اچھا ہوں بغاوت اپنی فطرت سے نصیب دشمناں کیوں ہوسب ترے سوا کافر آخر اس کا مطلب کیاسر پھرا دے انساں کا ایسا خبط مذہب کیابلند ہو تو کھلے تجھ پہ زور ہستی کابڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیاکوئی بندہ عشق کا ہے کوئی بندہ عقل کاپاؤں اپنے ہی نہ تھے قابل کسی زنجیر کےزندان مصیبت سے کوئی نکلے تو کیوں کررسوا سر بازار ہوا بھی نہیں جاتاازل سے سخت جاں آمادہ صد امتحاں آئے عذاب چند روزہ یا عذاب جاوداں آئےاور یہ تو غضب کا شعر ہے،عجب کیا ہے ہم ایسے گرم رفتاروں کی ٹھوکر سے زمانے کی بلند و پست کا ہموار ہو جانایگانہ نے شدید معاشی اور ذہنی پریشانیوں کے باوجود اپنی شاعری میں سوز عمل کی وہ آگ روشن کر دی ہے کہ تاریک سے تاریک لمحوں میں بھی آدمی کو جینے کا سہارا مل جاتا ہے۔ یہ یقیناً ایک کارنامہ ہے۔ میں نے ان کے کلام کا مختلف حالات میں مطالعہ کیا ہے اور اکثر پر امید ہوکر لوٹا ہوں،زمانہ پر نہ سہی دل پر اختیار رہے دکھاوہ زور کہ دنیا میں یادگار رہےتڑپ تڑپ کے اٹھاؤں گا زندگی کے مزے خدا ناکردہ مجھے دل پر اختیار رہےیگانہ حال تو دیکھو زمانہ سازوں کاہوا میں جیسے بگولا خراب وخوار رہےنہ خداؤں کا نہ خدا کا ڈر، اسے عیب جانئے یا ہنروہی بات آئی زبان پر جو نظر پہ چڑھ کے کھری رہیمزاج آپ کا دنیا سے کچھ کشیدہ سہیفریب کھاؤگے پھر بھی، فریب دیدہ سہیمری نظر کی خطا ہوگی یا گلوں کی خطاتمہارے راج میں کانٹے ہی برگزیدہ سہیمنزل کی دھن میں آبلہ پا چل کھڑے ہوئے شور جرس سے دل نہ رہا اختیار میںبے دلوں کی ہستی کیا جیتے ہیں نہ مرتے ہیں خواب ہے نہ بیداری ہوش ہے نہ مستی ہےترک لذت دنیا کیجئے تو کس دل سے ذوق پارسائی کیا فیض تنگ دستی ہےگرفتاران ساحل کود پڑتے ڈر نکل جاتاکبھی تو زیست مشکل آزماتی مرگ انساں کواس پائے کے کتنے ہی شعر یگانہ کے مجموعہ کلام ’’آیات وجدانی‘‘ اور ’’گنجینہ‘‘ سے پیش کیے جا سکتے ہیں۔ سرور صاحب صنف غزل کے ایک اچھے نقاد ہیں، انہوں نے اپنے ایک مضمون میں غالب کے بارے میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ، ’’غالب سے پہلے غزل بڑے درد کی پکار اور گہرے دکھ کی آواز ہے۔ غالب کے یہاں ایک نئی شگفتگی، رندی، زندگی اور زندہ دلی کا احساس ہوتا ہے۔ غالب زندگی پر، انقلاب پر، زمانہ پر، اپنی صورت پر اور اپنی قسمت پر ہنس سکتے ہیں۔ غزل میں یہ خیال انگیز ہنسی اس سے پہلے نہ تھی۔ غالب نے اس کمی کو پورا کرکے غزل کو باوجود اپنی تنگ دامانی کے ایک مہذب ذہن کا جلوہ صد رنگ بنا دیا۔‘‘مجھے اس خیال سے اتفاق ہے ۔ یقیناً غالب کی ہمہ گیر شخصیت کا یہ بھی ایک جاذب نظر پہلو ہے۔ یگانہ کی شاعری تو طنزومزاح سے بھری پڑی ہے۔ ان کے مزاح میں وہ خالص شگفتگی نہیں ہے جو غالب کاخاصہ ہے، اس لیے کہ ان کا مزاح، طنز سے خالی نہیں ہے اور ان کے طنز میں بھی تلخی کی آمیزش ہے۔ لیکن نظیر صدیقی نے اپنے مضمون میں جو یگانہ پر اعتراض کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ یہ مضمون ان کی کتاب ’’تاثرات وتعصبات‘‘ میں ہے۔ وہ لکھتے ہیں، ’’یگانہ کا کلام پڑھتے وقت سب سے پہلے جو بات محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ شاعر کے منھ کا مزہ بگڑا ہوا ہے۔‘‘ تواس کے جوا ب میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ جو صرف شیرینی کے عادی ہوتے ہیں وہ ترشی پسند نہیں کر سکتے۔اعلیٰ پائے کی طنزیہ شاعری کو پرکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ نقاد صرف طنز کی تعریف ہی سے واقف نہ ہو بلکہ اس کا ادبی ذوق بھی بلند ہو ورنہ اس کی تنقید یک طرفہ ہو جاتی ہے۔ یگانہ کے مندرجہ ذیل اشعاراعلیٰ طنزیہ اور مزاحیہ شاعری کے اچھے نمونے کہے جا سکتے ہیں،بات ادھوری مگر اثر دونااچھی لکنت زبان میں آئیکیا خبر تھی یہ خدائی اور ہے ہائے میں نے کیوں خدا لگتی کہیوہ پیمبر نہیں یگانہ سہیاس سے کیا کسر شان میں آئیکیسے کیسے خدا بنا ڈالے کھیل بندے کاہے خدا کیا ہےزہر میٹھا نہ ہو تو زہر ہی کیادوست جب دے تو پوچھنا کیا ہےاتنا تو زندگی کا کوئی حق ادا کرے دیوانہ وار حال پہ اپنے ہنسا کرےاسیر حال نہ مردوں میں ہے نہ زندوں میں زبان کٹتی ہے آپس میں گفتگو کرتےمزہ جب ہے کہ رفتہ رفتہ امیدیں پھلیں پھولیں مگر نازل کوئی فضل الہی ناگہانی کیوں ہوگنہگار محبت کو اسی عالم میں رہنے دے سزا واجب سہی لیکن بہشت جاوداں کیوں ہوکھٹکا نہ لگا ہو تومزہ کیا گناہ میں لذت ہی اور ہوتی ہے چوری کے مال میںجفائے پنجہ خونخوار سے جو بس نہ چلے تو بن کے خشک نوالہ گلے میں پھنستا جاپڑ چکے بہت پالے ڈس چکے بہت کالے موذیوں کے موذی کو فکر نیش عقرب کیاالٹی تھی مت زمانہ مردہ پرست کیمیں ایک ہوشیار کہ زندہ ہی گڑ گیاچلو بھر میں متوالی، دو ہی گھونٹ میں خالییہ بھری جوانی کیا جذبہ لبالب کیامرے فرشتے بھی شاید ہیں آپ کے جاسوسکہ آہ کرتے ہی پرچہ لگے، خبر گزرےنکالے عیب میں حسن حسن میں سوعیبخیال ہی تو ہے جیسا بندھے جدھر گزرےخواہ پیالہ ہو یا نوالہ ہوبن پڑے تو جھپٹ لے بھیک نہ مانگجیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کہ یگانہ کے کلام میں طنز کی بجلیاں کوٹ کوٹ کر بھری پڑی ہیں۔ وہ کوند کوند کر کبھی پڑھنے والے کے دل کو گرماتی ہیں اور کبھی ہنساتی ہیں۔ بہترین غزل گو شعرا کی ایک صفت یہ بھی سمجھی گئی ہے کہ ان کے اشعار ضرب الامثال سمجھے جاتے ہیں۔ یگانہ کے یہاں کتنے ہی شعر ہیں جو زبان زدخاص و عام ہو چکے ہیں مگر افسوس کہ بہت کم لوگوں کوعلم ہے کہ یہ یگانہ کے شعر ہیں،کسی کے ہو رہو اچھی نہیں یہ آزادیکسی کے زلف سے لازم ہے سلسلہ دل کاعجب کیا وعدہ فردا پس فرداپہ ٹل جائے کوئی شام اور آ جائے نہ شام بے سحر ہوکراٹھواے سونے والو سر پہ دھوپ آئی قیامت کیکہیں یہ دن نہ ڈھل جائے نصیب دشمناں ہوکرکلمہ پڑھو تو کیوں پڑھو سب کی نظر میں کیوں چڑھویاد خدا تو دل سے ہے دل سے زباں تک آئے کیوںبیگانہ وار ایک ہی رخ سے نہ دیکھئے دنیا کے ہر مشاہدہ ناگوار کوبرابر بیٹھنے والے بھی کتنے دور تھے دل سے مرا ماتھا جبھی ٹھنکا فریب رنگ محفل سےباز آ ساحل پہ غوطے کھانے والے باز آڈوب مرنے کا مزہ دریائے بے ساحل میں ہےبندہ وہ بندہ جو دم نہ مارے پیاسا کھڑا ہو دریا کنارےعلم کیا علم کی حقیقت کیاجیسی جس کے گمان میں آئیاور اسی طرح کے کتنے شعر ہیں جو مطالعے کے بعد دل میں نشتر کی طرح اتر جاتے ہیں اور اکثر ذہن میں گونجنے لگتے ہیں۔ جس شاعر کی ہر غزل میں دو تین شعر ہی نہیں بلکہ اس سے زیادہ اشعار اچھے پائے جاتے ہیں، اس کو اس طرح نظر انداز کیا جائے، یہ سوچ کر ہی روح تھرا اٹھتی ہے اور مصلحت ساز دنیا سے نفرت ہو جاتی ہے۔ یگانہ کا آرٹ سنگ تراشی کا آرٹ ہے۔ ان جاندار پتھرو ں میں ذہن کے مختلف موڈل کی بےشمار کیفیتیں اور فکر کی تصویریں دل کی دھڑکنوں کے ساتھ ابھر آئی ہیں اور یہ بھی معجزنما شخصیت کا پرتو ہے۔ وقت بڑا سخت نقاد ہے۔ مشہور سے مشہور شاعروں کو ایک لمحہ میں طاق نسیاں کی زینت بنا دیتا ہے اور بقول یگانہ،کون ٹھہرے سمے کے دھارے پرکوہ کیا اور کیا خس وخاشاکمگر اسی سے امید بھی وابستہ کرنی پڑتی ہے کیونکہ،دل ہے پہلو میں کہ امید کی چنگاری ہے اب تک اتنی ہے حرارت کہ جئے جاتے ہیںسرور صاحب نے اقبال کی عظمت کا راز یوں بیان کیا ہے، ’’میرے نزدیک اقبال کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اگر غالب نے اردو شاعری کو ذہن دیا تو اقبال نے اسے وحدت فکر اور ذوق یقین دیا۔‘‘اگر یہی عظمت کا راز ہے تو بڑی بیباکی سے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یگانہ نے اردو شاعری کو جو ولولہ بخشا ہے وہ سرکشوں کی پوری داستان کا عنوان بن سکتا ہے۔ اگر اقبال کی شاعری بقول سرور صاحب ’’ارضیت کا عہدنامہ جدید‘‘ ہے تویگانہ کی شاعری اردو میں ایک باغی کا پہلا کامیاب شعری رجز ہے، جس کی بنیاد ’’مانگے کے اجالے‘‘ پر نہیں رکھی گئی تھی بلکہ جس کا سرچشمہ خود یگانہ کی شخصیت تھی۔ اردو غزل میں میر اور غالب کے بعد تیسرا نام جو سب سے زیادہ احترام اور اہمیت کا مالک ہے، وہ یگانہ کا ہے،خضر منزل اپنا ہوں اپنی راہ چلتا ہوں میرے حال پہ دنیا کیا سمجھ کے ہنستی ہےحاشیہ(۱) پہلا لاہور اور دوسرا حیدرآباد میں شائع ہوا تھا۔