غزل:دوستی کو کتاب کافی ہے
دوستی کو کتاب کافی ہے
دوستی کو کتاب کافی ہے
کہہ دِیا نا!!! جناب ، کافی ہے
اپنی زلفوں میں ٹانک باقی پھول
مجھ کو بس اِک گلاب کافی ہے
کیا کریں ، دشمنی نبھانے کو
دلِ خانہ خراب کافی ہے
بندہ پرور ،مِری سزا کے لیے
رت جگوں کا عذاب کافی ہے
طُور کی کس کو تابِ نظّارہ؟
وہی پہلا جواب کافی ہے
رات کے واسطے چراغ بھی دے
دن کو تو آفتاب کافی ہے
کون مِنّت کشِ فرات رہے
یار،مجھ کو سراب کافی ہے
شہرِ پا بستہ کی رہائی کو
نعرۂ انقلاب کافی ہے؟
ساتھ دیکھیں ندی میں چاند کا عکس؟
نہیں، اک ماہ تاب کافی ہے
تہمتوں کا حساب کون کرے
چاہتِ بے حساب کافی ہے
آؤ حمّاد، مے کدے کو چلیں
اس قدر اجتناب کافی ہے