غالب: تمنا کا دوسرا قدم
ہوں گرمیٔ نشاطِ تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ ہوں دگر خواہی کہ بینی چشمۂ حیواں بتاریکیسواد نظم و نثر غالبؔ معجز بیاں بینیبسومناتِ خیالم در آئی تابینیرواں فروز برو دو شہائے زنّاریمیستیم عام مدان و روشم سہل مگیرناقۂ شوقم وجبریل حدی خوانِ منستغالبؔآسمانوں کی بلندی کو بلا کا ناز تھاپست ہمت جس سے ذوق رفعت پرواز تھارہ گزارِ ماہ وانجم تک کوئی جاتا نہ تھاکوئی شاخ کہکشاں پر زمزمے گاتا نہ تھاعرش پر جبریل کا دمساز ہو سکتا تھا کونطائرِ سدرہ کا ہم آواز ہو سکتا تھا کونجو لگادے آگ کوئی نغمہ زن ایسا نہ تھاتجھ سے پہلے کوئی داؤد سخن ایسا نہ تھاتونے چھیڑے ہیں وہ نغمے شاعری کے ساز پرلحنِ داؤدی کو رشک آئے تری آواز پرتیرا بربط کہکشاں، ناہید ہے تیرا ربابآسماں کیا ہے ترے بحر تخیل کا حبابتیرا نغمہ ساحری، تیرا بیاں پیغمبریتیرے قبضے میں ہے اقلیمِ سخن کی داوریتیری فکرِ نکتہ رس، حسنِ تخیل کی شبابشعر تیرا معجزہ، تیری کتاب، اُم الکتابوہ صداقت، وہ حقیقت وہ جمالِ برق پاشزندگی جس کے لئے قرنوں سے سرگرم تلاشوہ صداقت عکس افگن ہے تری تقریر میں وہ حقیقت جلوہ فرما ہے تری تحریر میں حسن کے جلووں سے جب محروم ہو جاتے ہیں ہمکذب کے ظلمت کدے میں جا کے کھو جاتے ہیں ہمجب کہ ہوتا ہے شبِ غم میں بلاؤں کا ہجومجب نگاہیں پھیر لیتے ہیں مہ و مہر و نجومشعر تیرے جگمگا اٹھتے ہیں اس ظلمات میں جس طرح جگنو چمکتے ہیں بھری برسات میں تو نے دل کو گرم سینوں کو فروزاں کر دیاروح کو روشن دماغوں کو چراغاں کر دیاتو مثالِ شمع ماضی کے سیہ خانے میں ہے نور تیرا حال و مستقبل کے کاشانے میں ہے تیرے گلشن کی بدولت گل بداماں ہم بھی ہیں تیرے نغموں کے اثر سے نغمہ ساماں ہم بھی ہیں تمنا کا دوسرا قدمانسانی ذہن کی وسعتیں لامحدود ہونے کے باوجود ایک فرد کا ذہن کتنا ہی وسیع کیوں نہ ہو پھر بھی محدود رہتا ہے۔ بڑے سے بڑا شاعر اور مفکر بھی اس کلیے سے آزاد نہیں۔ لیکن اس کی تخلیق، شعر یا خواب جسے وہ اپنی ذات سے الگ کرکے آئینے کی طرح دنیا کے سامنے رکھ دیتا ہے، انسانی ذہن کی لامحدود وسعتیں اختیار کر لیتا ہے۔ آنے والی نسلوں کا ہر پڑھنے والا اپنی ذہنی استعداد اور جذباتی شدت کے اعتبار سے اس تخلیق میں نئے معنوں اور کیفیتوں کا اضافہ کر دیتا ہے۔ چنانچہ غالب یا شیکسپیر کا ایک مصرع ہزار مواقع پر ہزار معنی پیدا کر سکتا ہے۔ اس کے دامن میں اتنی وسعت ہوتی ہے کہ وہ آنے والی زندگی کے ہنگاموں کو سمیٹ سکے۔ اس کو تنقید کی زبان میں تعمیم، ہمہ گیری اور تہ داری کے نام دیے ے جاتے ہیں۔ جو جذبات سے عاری اور خیالات سے خالی، لفظی بازی گری سے مختلف چیز ہے اور صرف اس وقت پیدا ہوتی ہے جب شاعر اپنے عہد پر حاوی ہونے کے ساتھ ساتھ لفظوں کے صوتی آہنگ اور معنوی کیفیات سے بھی پوری طرح واقف ہو اور ان کو اس طرح چھیڑ سکے جیسے مطرب ساز کے تاروں کو چھیڑتا ہے۔ ادب کی تاریخ میں چند گنی چنی شخصیتیں اس معیار پر پوری اترتی ہیں۔ غالبؔ ان میں سے ایک ہے۔ غالبؔ اردو کا محبوب ترین شاعر ہے جسے اقبالؔ نے گویٹے کا ہم نوا قرار دیا ہے۔ گزشتہ سو سال میں دیوان غالبؔ کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے ہیں اور بے شمار مضامین لکھے گئے ہیں۔ ہرنقاد اور پڑھنے والے نے اپنے مذاق اور مزاج کے لیے غالبؔ کے اشعار میں گنجائش دیکھی۔ کبھی خراجِ تحسین نے عقیدت کی شکل اختیار کی، کبھی سنجیدہ تجزیہ کی اور کبھی اس مبالغے کی جو آرٹ کا حسین زیور ہے۔ غالبؔ کی شخصیت انتہائی دل آویز اور ہمہ گیر تھی۔ نسلی اعتبار سے وہ ایبک ترک تھا، جس کا دادا اس کی پیدائش (۲۷دسمبر ۱۷۹۷ء) سے تقریباً نصف صدی پہلے سمرقند سے ہندوستان آیا تھا۔ اس خاندان نے غالب کو چوڑا چکلا ہاڑ، لانبا قد، سڈول جسم، بھرے بھرے ہاتھ پاؤں، کتابی چہرہ، کھڑا نقشہ، چوڑی پیشانی، گھنی لانبی پلکیں اور بڑی بڑی بادامی آنکھیں اور سرخ و سفید رنگ دیا تھا جس میں شراب نوشی نے چمپئی دمک پیدا کر دی تھی (مالک رام) غالبؔ کا مزاج ایرانی تھا۔ مذہبی عقائد عربی، تہذیب و تربیت ہندوستانی، اور زبان اردو جس کو غالبؔ نے بارہا ہندی اور ریختے کے نام سے یاد کیا ہے۔ ذہانت، طباعی اور سخنوری کا ملکہ پیدائشی تھا اور زندہ دلی، آزادہ روی اور خوش اخلاقی نے سونے پر سہاگے کا کام کیا جس کی وجہ سے لوگ اس کی انانیت اور خود پرستی کو بھی برداشت کر لیتے تھے۔ شعر کہنا بچپن سے شروع کر دیا تھا اور پچیس برس کی عمر سے پہلے اردو کے بعض بہترین قصائد اور غزلیں کہہ لی تھیں اور تیس بتیس برس کی عمر میں کلکتے سے دہلی تک ایک ہنگامہ برپا کر دیا تھا۔ تعلیم کے متعلق کافی معلومات اب تک فراہم نہیں ہو سکی ہیں، لیکن غالبؔ اپنے عہد کے مروجہ علوم پر حاوی تھا اور فارسی زبان، شعر اور ادب پر گہری نگاہ رکھتا تھا اور پھر زندگی کا مطالعہ اتنا وسیع تھا کہ خود لکھتا ہے کہ ’’ستر برس کی عمر میں عوام سے نہیں خواص سے ستر ہزار آدمی نظر سے گزر چکے ہیں۔ میں انسان نہیں ہوں انسان شناس ہوں۔‘‘ (ایک خط سے اقتباس) بادشاہوں اور امیروں سے لے کر مے فروشوں تک اور ہلی کے علما اور فضلا سے لے کر انگریز حاکموں تک بے شمار لوگ غالبؔ کے ذاتی دوستوں میں تھے۔ جوانی کی رنگ رلیوں کا ذکر بارہا کیا ہے۔ رقص، سرود، شراب، شاہد بازی، جوا، کسی چیز سے پرہیز نہیں کیا (اس سلسلے میں اوباشوں کی صحبت بھی ملی ہوگی) اور جب بیس پچیس برس کی عمر میں رنگ رلیوں سے دل ہٹ گیا تو صوفیانہ آزادہ روی اختیار کی اور ہندو، مسلمان، عیسائی، ہندوستانی اور انگریز سب سے یکساں سلوک کیا۔ نماز پڑھی نہیں، روزہ رکھا نہیں، شراب کبھی ترک نہیں کی، ہمیشہ اپنے آپ کو گنہگار کہا، لیکن خدا، رسول اور اسلام پر پورا پورا ایمان تھا۔ چند چیزوں کا شوق ہوس کی حد تک تھا۔ علم اور عزت کی طلب ایک شدید پیاس بن کر عمر بھر ساتھ رہی۔ کڑوے کریلے، املی کے کھٹے پھول، چنے کی دال، انگور، آم، کباب، شراب، خوبصورت راگ اور حسین مکھڑے ہمیشہ دل کو کھینچتے رہے۔ یوں تو غالبؔ عمر بھر ان چیزوں کے لیے ترستا رہا لیکن اگر کبھی چند چیزیں ایک ساتھ جمع ہو گئیں تو اس وقت غالبؔ کا دماغ آسمان پر پہنچ گیا اور اس نے اپنے آپ کو ہفت اقلیم کا بادشاہ سمجھ لیا۔ اس کی نشاط پرور اور عیش پرست طبیعت کا پورا اندازہ ایک فارسی اور ایک اردو غزل سے ہوسکتاہے۔ اتنی حسین غزلیں حافظ کے بعد صرف غالبؔ نے کہی ہیں اور آج تک کوئی اور شاعر اس کیف و نشاط، لطف و سرور کو الفاظ میں اتنی شدت اور حسن کے ساتھ اسیر نہیں کر سکا ہے۔ فارسی غزلبیاکہ قاعدۂ آسماں بگردانیمقضا بگردشِ رطلِ گراں بگردانیمز چشم و دل بہ تماشا تمتع اندوزیمز جان و تن بمدارا، زیاں بگردانیمبگوشۂ بہ نشینیم و در فراز کنیمبہ کوچہ بر سر رہ پاسباں بگردانیماگر زشحنہ بود گیرو دارنندیشیماگر ز شاہ رسد ارمغاں، بگردانیماگر کلیم شود ہم زباں، سخن نہ کنیموگر خلیل شود میہماں، بگردانیمگل افگنیم و گلابے بہ رہ گزر پاشیممے آوریم و قدح درمیاں بگردانیمندیم و مطرب و ساقی ز انجمن را نیمبکار و بار زن کاواں بگردانیمگہی بہ لا بہ سخن با ادابیا میزیمگہی بہ بوسہ زباں درد ہاں بگردانیمنہیم شرم بیک سود باہم آویزیمبشوخیٔ کہ رخِ اختراں بگردانیمز جوشِ سینہ، سحر را نفس فرو بندیمبلائے گرمیِ روز از جہاں بگردانیمبو ہم شبِ ہمہ را در غلط بیند ازیمز نیمہ رہ رمہ را باشباں بگردانیمبجنگ باج ستانانِ شاخساری راتہی سبد ز درِ گلستاں بگردانیمبہ صلح بال نشانانِ صبح گاہی راز شاخسار سوئے آشیاں بگردانیمز حیدریم من تو زما عجب نہ بودگر آفتاب سوئے خاوراں بگردانیمبمن وصالِ تو باور نمی کند غالبؔبیا کہ قاعدۂ آسماں بگردانیماردو غزلمدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے جوشِ قدح سے بزمِ چراغاں کیے ہوئے کرتا ہوں جمع پھر جگرِلخت لخت کوعرصہ ہوا ہے دعوتِ مژگاں کیے ہوئے پھر وضعِ احتیاط سے رکنے لگا ہے دمبرسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے پھر گرم نالہ ہائے شرر بار ہے نفسمدت ہوئی ہے سیرِ چراغاں کیے ہوئے پھر پرسشِ جراحتِ دل کو چلا ہے عشقسامان صد ہزار نمک داں کیے ہوئے پھر بھر رہا ہے خامۂ مژگاں بخونِ دلسازِ چمن طرازیِ داماں کیے ہوئے باہم دگر ہوئے ہیں دل و دیدہ پھر رقیبنظارۂ وخیال کا ساماں کیے ہوئے دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلبعرضِ متاعِ عقل و دل و جاں کیے ہوئے دوڑے ہے پھر ہر ایک گل و لالہ پر خیالصد گلستاں نگاہ کا ساماں کیے ہوئے پھر چاہتا ہوں نامۂ دل دار کھولناجاں نذر دل فریبیٔ عنواں کیے ہوئے مانگے ہے پھر کسی کو لبِ بام پر ہوسزلفِ سیاہ رخ پہ پریشاں کیے ہوئے چاہے ہے پھر کسی کو مقابل میں آرزوسرمے سے تیز دشنۂ مژگاں کیے ہوئے اک نوبہارِ نازکو تاکے ہے پھر نگاہچہرہ فروغِ مے سے گلستاں کیے ہوئے پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں سر زیرِ بار منّتِ درباں کیے ہوئے جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دنبیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے غالبؔ ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوشِ اشک سے بیٹھے ہیں ہم تہیۂ طوفاں کیے ہوئے چند واقعات غالبؔ کی زندگی میں بہت اہم ہیں۔ بچپن کی یتیمی، دہلی کا قیام اور کلکتے کا سفر اور ان کا اثر اس کی شخصیت اور شاعری پر بڑا گہرا ہے۔ اس کی ابتدائی زندگی اور شاعری کی بے راہ روی مشہور ہے۔ جو بچہ پانچ برس کی عمر میں باپ کی شفقت سے محروم ہو گیا ہو اور جسے کوئی معقول تربیت نہ ملی ہو وہ اپنی ذہانت اور طبیعت ہی کے زور پر آگے بڑھ سکتا تھا اور اس راہ میں بے راہ روی بڑی اہم منزل ہے، جہاں ٹھوکریں استاد کا کام کرتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ میر تقی میرؔ نے غالبؔ کا ابتدائی کلام سن کر کہا تھا کہ کوئی استاد کامل مل گیا تو اچھا شاعر ہو جائےگا، نہیں تو مہمل بکنے لگےگا۔ ایک ایرانی ملا عبد الصمد کے سوا (جس کا وجود مشکوک ہے) زندگی کے تجربات ہی غالبؔ کے استاد رہے۔ غالبؔ کی ابتدائی مشکل اور گنجلک شاعری پر جس کے بعض نمونے مروجہ منتخب دیوان میں بھی باقی رہ گئے ہیں، جب آگرہ والے ہنسے تو غالبؔ کی انانیت انہیں خاطر میں نہ لائی لیکن جب شادی کے بعد قیام دہلی کے دوران میں بڑے بڑے عالموں اور مستند استادان فن سے سابقہ پڑا تو غالبؔ ان کی رائے کو نظرانداز نہ کرسکا اور پچیس برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے طبیعت صحیح شعر کی طرف مائل ہو گئی۔ اپنی جاگیر اور پنشن کے سلسلے میں غالبؔ کو تیس برس کی عمر میں (۱۸۲۷ء) کلکتے کا جو سفر کرنا پڑا اس کی زندگی کا بہت بڑا موڑ ہے۔ وہاں اس نے صرف نئی زندگی کی جھلکیاں ہی نہیں دیکھیں بلکہ اپنی ناکامی کے آئینے میں اپنا منہ بھی دیکھا۔ اس طرح غالب نے مغل تہذیب کی آخری بہار اور نئی صنعتی تہذیب کے ابھرتے ہوئے نقوش اور ان کی کیفیتوں کو اپنی شخصیت میں جذب کر لیا۔ لیکن ان میں سب سے بڑا واقعہ عمر بھر کا افلاس ہے جس نے ہمیشہ غالبؔ کو بےچین اور بے قرار رکھا۔ اب نہ تو آبا واجداد کی شان و شوکت باقی تھی، جن کے قدیم رشتے ایرانی بادشاہوں سے ملتے تھے اور نہ بوعلی سینا کا علم تھا۔ اس لیے اپنے قلم کو غالبؔ نے عَلَم بنا لیا اور اپنے آبا واجداد کے ٹوٹے ہوئے نیزوں کو قلم۔ زندگی نے غالب کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا اور ہمیشہ اس کی روح میں ریگزار ہی انڈیلتی رہی۔ لیکن غالبؔ کی روح نے زندگی کو لالہ زار بخشے۔ اس کی طبیعت کی یہ فیاضی اردو زبان اور ادب کو مالا مال کر گئی۔ یہ سوال اہم ہے کہ غالبؔ کے سامنے کوئی نظریۂ کائنات اور فلسفۂ حیات تھا یا نہیں۔ وہ کسی خاص نظریے کا بانی نہیں ہے۔ اس لیے اس کے یہاں منظم فکر اور پیام کی جستجو غلط ہوگی لیکن غالبؔ کی شاعری کے فکری عناصر اور فلسفیانہ مزاج سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے رسمی خیالات اور غزل کے روایتی موضوعات کے پیدا کیے ہوئے تضادات کے باوجود کائنات اور انسان کے متعلق غالبؔ کے حاوی رحجانات کا اندازہ کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو کا یہ عظیم المرتبت شاعر قدیم صوفیانہ خیالات سے متاثر تھا جو اس کے علمی مطالعے کے علاوہ اسے فارسی اور اردو شاعری سے ورثے میں ملے تھے۔ یہ کہنے کے بعد بھی کہ ’’تصوف نہ زیبد سخن پیشہ را۔‘‘ غالبؔ نے کائنات کو سمجھنے کے لیے اور مذہب کی ظاہر داریوں سے بچنے کے لیے تصوف کے بعض خیالات سے مدد لی اور انھیں سے اپنی آزاد خیالی اور کج اندیشہ فطرت کی تربیت کی۔ وہ وحدت الوجود کا قائل تھا۔ اس نے اپنی فارسی مثنوی ’’ابر گہر بار‘‘ میں کائنات کو ’’آئینہ آگہی‘‘ کہاہے جس کی فضا میں بکھرے ہوئے حسن حقیقت (وجہ اللہ) کے جلوے نگاہوں کو دعوتِ نظاہرہ دے رہے ہیں، نہ محض یہ کہ انسان جس سمت رخ کرتا ہے اس سمت وہی وہ نظر آ رہا ہے بلکہ جس رخ کو انسان چاروں طرف موڑ رہا ہے وہ خود اسی کا رخ ہے،
جہاں چیست، آئینہ آگہیفضائے نظر گاہِ وجہ اللہینہ ہر سو کہ رو آورد سوئی اوستخوں آں را کہ آوردۂ روئی اوستدوسری جگہ فارسی نثر میں یہ کہا ہے کہ ذرّے کی ہستی اس کے اپنے پندار کے سوا کچھ نہیں۔ جو کچھ ہے آفتابِ حقیقت کا نور ہے۔ دریا ہر جگہ بہہ رہا ہے اور اس میں موج اور حباب اور گرداب ابھر رہے ہیں۔ یہ صورتیں اصل دریا ہیں یا اسی کے پیکر سے وجود میں آئی ہیں؟ اگر اس کا علم ہو تو بھی ’’ہمہ اوست‘‘ اور علم نہ ہو تو بھی ’’ہمہ اوست‘‘ یعنی ہر طرف ’’وہی وہ ہے۔‘‘ اپنی ایک اردو غزل میں بھی انہیں علامتوں کے ساتھ اس خیال کی تکرار کی ہے، اصلِ شہود و شاہد ومشہود ایک ہے حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں ہے مشتمل نمود صور پر وجود بحریاں کیا دھرا ہے قطرۂ و موج و حباب میں اور ایک دوسری غزل میں اسی نظریے کو ایک سوال کی شکل میں پیش کیا ہے، جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجودپھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں غمزدۂ وعشوۂ وادا کیا ہے شکنِ زلفِ عنبریں کیوں ہے نگہِ چشم سرمہ سا کیا ہے سبزۂ و گل کہاں سے آئے ہیں ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے چونکہ وجود ایک وحدت ہے اور اصل حقیقت یا اصل ذات یا خدا حادث اور فانی نہیں ہے اس لیے کائنات بھی حادث اور فانی نہیں ہو سکتی۔ غالبؔ نے اس بات کو اتنا کھل کر اور ان الفاظ میں کہیں نہیں بیان کیا ہے۔ لیکن اپنی فارسی تصنیف ’’مہرِ نیم روز‘‘ میں اس عقیدے کا ضرور اظہار کیا ہے کہ عالم کا کوئی خارجی وجود نہیں (یعنی خدا کی ذات سے الگ عالم کا تصور محض وہم و خیال ہے۔ ’’ہرچند کہیں کہ ہے، نہیں ہے۔‘‘ )اس لیے قدم اور حدوث، نوی اور کہنگی کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ صفات عین ذات ہیں اور پرتو آفتاب سے جدا نہیں۔ اس لیے ’’ہر عالم از اعیانِ ثانیہ تا صورِ محشورہ از خویشتن بر خویشتن جلوہ گستر است۔‘‘ قیامت کے بعد نیا آدم پیدا ہوگا اور ایک آدم کے بعد دوسرا آدم ظہور کرےگا اور دنیا یوں ہی چلتی رہےگی۔ غالبؔ کے اس شعر سے بھی اس خیال کی کسی قدر تصدیق ہوتی ہے، آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوزپیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں یہیں سے دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے۔ اگر عالم پر تو ذات ہے تو وہ چیزیں جنھیں بدی، گناہ، مصیبت، تکلیف، درد اور غم کہا جاتا ہے، کہاں سے آتی ہیں۔ تضادات کہاں سے ابھرتے ہیں۔ اس کا بندھا ٹکا جواب تو یہ ہے کہ پرتو اصل ذات سے جتنا دور ہوتا جاتا ہے اتنی ہی اس میں کثافت آتی جاتی ہے مگر اس جواب کی منطقی کمزوری یہ ہے کہ فاصلہ ذات سے الگ چیز بن جاتا ہے اور ’’ہمہ اوست‘‘ کے ہمہ گیر دائرے کو توڑ دیتا ہے۔ اگر پرتو بھی وہی ہے جو اصل ذات ہے اور فاصلہ بھی وہی جو نقطۂ حقیقت تو پھر قرب اور بُعد برابر ہیں۔ غالبؔ نے یہ سوال اٹھایا ضرور لیکن اس کا تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔ خود صوفیا اور فلسفیوں سے یہ سوال نہیں سنبھل سکا تو ایک شاعر سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ اپنی فارسی مثنوی ’’ابرِ گہر بار‘‘ کے مناجات والے حصے میں غالبؔ صرف یہ کہہ سکا ’’صفات کمال‘‘ کے ایک نقطہ سے تمام متضاد چیزیں پیدا ہوئی ہیں۔ ان بیس بائیس شعروں کا لب لباب یہ ہے کہ اسی ایک نقطے سے سیاہ و سپید ابھرتے ہیں اور ہراس اور امید پیدا ہوتے ہیں۔ اسی سے خوشبو ہے اور اسی سے پھول۔ وہیں سے نگاہ میں روشنی آتی ہے اور نفس میں نغمہ، وہیں سے انتہائی شوخی کے ساتھ موجِ رنگ اچھلتی ہے اور وہیں سے موجِ خوں مچلتی ہے۔ وہیں سے سود وزیاں اور کفر ودیں پیدا ہوتا ہے اور وہیں سے داغِ گمان اور فروغ یقین اور یہ ہست وبود جو کچھ ہے صرف اسی کے جمال وجلال کی نمود کے لیے ہے۔ آسمان کا سورج اور دریا کی موج اور انسان کا نطق اور طائروں کا خروش اور نادانوں کا وہم اور داناؤں کا ہوش اور آہو کا رم اور چنگ کی نوا اور باغ کی بہار اور گیسو کا پیچ اور ابرو کی شکن ہر چیز اس کے جمال و جلال کو آشکارا کر رہی ہے۔ لیکن یہ جادو بیانی جو ’’ہمہ اوست‘‘ کی تفصیل ہے اصل سوال کا جواب نہیں ہے (بدی کہاں سے آئی ہے؟ ) اس سے زیادہ شاعرانہ اور تسکین بخش جواب فارسی کے پہلے قصیدے میں ملتا ہے جس میں غالبؔ خدا سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ تو نے ’’وہم غیر‘‘ سے دنیا میں ہنگامہ بپا کر رکھا ہے۔ خود ہی ایک حرف کہا اور خود ہی گمان میں مبتلا ہو گیا۔ یہ خود اور غیر خود کی تقسیم ایسی ہے کہ دیکھنے والا اور دیکھا جانے والا ایک ہوتے ہوئے بھی دو معلوم ہو رہے ہیں اور ان کے درمیان پرستش کی رسم کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ حالانکہ وحدت میں دوئی کی سمائی نہیں ہے۔ پھر آگے چل کر وہ راز نہاں سے پردہ اٹھاتا ہے اور کہتا ہے کہ دکھ درد بھی وہیں سے آتے ہیں مگر اس لیے کہ راحت کی لذت بڑھادیں۔ خزاں کا جواز غالبؔ نے ’’تجدید طرب‘‘ میں ڈھونڈا ہے جو دراصل ’’تجدید بہاراں‘‘ ہے، مصائب ایک طرح کا امتحان ہیں تاکہ دوست دشمن کی نظروں سے پوشیدہ رہے اور مہمان کے راستے میں کانٹے اس لیے بچھائے گئے ہیں کہ جب خستگی کا علاج کیا جائے تو آسائش کا نیا مزہ ملے۔ گویا خود اور غیر خود کی تقسیم ایک ایسے تضاد کا باعث ہے جو زندگی کو زندگی بناتا ہے۔ یہ وحدت ہے دوئی نہیں ہے، لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتیچمن زنگار ہے آئینۂ باد بہاری کایہاں غالبؔ ہیگل کی جدلیت کے قریب پہنچ جاتا ہے اور اقبالؔ کے فلسفۂ خودی کے ابتدائی نقوش قائم کرتا ہے۔ یہاں پہنچ کر بدی نیکی کا حصہ بن جاتی ہے۔ ناقص اور کامل کا امتیاز ختم ہو جاتا ہے ۔ مادہ اور روح، زندگی اور موت سب یکساں ہو جاتے ہیں ۔ مذہب اور مذہبی عقائد کی حیثیت ’’سرابستان‘‘ سے زیادہ نہیں رہتی۔ ترکِ رسوم اور ترک ملت اجزائے ایمان بن جاتے ہیں ۔ مسرت اور غم کی تقسیم بے معنی ہو جاتی ہے۔ بہار وخزاں ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈال دیتی ہیں ۔ بہار اس کا ایک رنگ ہے اور خزاں دوسرا۔ دن اور رات ایک دوسرے کے پیچھے دوڑ رہے ہیں ۔ یہ سب وحدت کا جوش و خروش ہے۔ ایک نقطہ ہے جو تیزی سے گردش کر رہا ہے اور اپنی سرعتِ پرواز سے ناچتا ہوا شعلہ بن گیا ہے ۔ یہ وجود زحمت اور راحت کے تصور سے بے نیاز ہے۔ ڈوبنے والے نے موج کا طمانچہ کھایا اور پیاسے نے پانی پی لیا۔ ویسے دریا نے نہ خود کسی کو ڈبونا چاہا اور نہ پانی پلانا چاہا۔ وہ اپنے آپ میں محو ہے۔ عمل اور رد عمل اس کی موجیں ہیں، جن سے امروز و فردا بن رہے ہیں، ہے طلسم دہر میں صد حشر یاداشِ عملآگہی غافل، کوئی امروز بے فردا نہیں وحدت وجود کے ڈانڈے کہیں تو ویدانت سے جا ملتے ہیں اور کہیں تو فلاطونیت سے۔ یہ فلسفہ اپنے ہزاروں الجھاوؤں کے ساتھ ذاتِ مطلق، نفی صفات اور ترک دنیا سے لے کر تشبیہ سے آراستہ اور صفات سے سجی ہوئی ذات کے تصور تک پھیلا ہوا ہے اور جب اس میں ایرانی اور تاتاری پیگن ازم (کفر) کی آمیزش ہو جاتی ہے تو لذّت طلبی کا پہلو بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ اب یہ اپنی اپنی ہمت پر منحصر ہے کہ آدمی اس منزل پر پہنچ کر دنیا کو تج دے (کبیر داس) یا شوق کا ہاتھ بڑھا کر اس رنگ و نور اور صوت و آہنگ سے ابھرے ہوئے ناچتے کھلونے کو اٹھا لے (حافظ اور غالب)غالبؔ نے یقیناً اس عقیدے سے ایک بڑا رجائی نقطۂ نگاہ اختیار کیا ہے، جو اس کی شاعری میں خون بہار کی کی طرح دوڑ رہا ہے۔ رنج وغم ’’تجدیدِ طرب‘‘ کی بنیادیں ہیں، اس لیے ان سے گریز کرنا موت اور کھیلنا زندگی کی دلیل ہے۔ خود موت زندگی کا مزہ بڑھا دیتی ہے اور نشاطِ کار کا حوصلہ بخشتی ہے ۔ دہر کی سختیاں اس لیے ہیں کہ انسانیت کی تلوار سان پر چڑھ جائے اور جوہر چمک اٹھیں ۔ غالبؔ نے اپنے ایک اور فارسی قصیدے میں کہا ہے کہ میرا جنون مجھے بیکار نہیں بیٹھنے دیتا۔ آگ جتنی تیز ہے اتنی ہی میں اسے ہوا دے رہا ہوں۔ موت سے لڑتا ہوں اور ننگی تلواروں پر اپنے جسم کو پھینکتا ہوں۔ شمشیر وخنجر سے کھیلتا ہوں اور سا طور و پیکان کو بو سے دیتا ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ غالبؔ کے غم اتنے دل آویز ہیں۔ ان میں جو بھرپور نشاط کی کیفیت ہے، وہ اردو کے کسی اور شاعر کے یہاں نہیں ملے گی۔ صرف اقبالؔ اس میں غالبؔ کے قریب آتا ہے لیکن وہاں بھی رجائیت کا فکری پہلو، غالبؔ والی نشاطِ ہستی کی جذباتی کیفیت پر حاوی ہے۔ غالبؔ کی شاعری میں غم و نشاط کو الگ الگ کرنا تقریباً ناممکن ہے اس لیے اس کو صرف غم یا صرف نشاط کا شاعر سمجھنا غلطی ہے۔ وہ دراصل نشاطِ غم کا شاعر ہے یعنی وہ بلاؤں سے دست و گریبان ہوکر سامان طرب حاصل کرتا ہے جیسے شراب کی تلخی گوارا کرکے سرور کی منزل حاصل کی جاتی ہے۔ پھر وہ تلخی خود سرور بن جاتی ہے۔ کبھی کبھی یہ گمان گزرتا ہے کہ غالبؔ نے اپنے احساسِ غم کا حسین و جمیل پیکر اپنے نو بہار ناز معشوق کے پیکر سے ناپ کر تراشا ہے۔ معشوق کے جسم میں رنگ ونور کا ایک طوفان ہے اور احساسِ غم میں خون کی موجیں بل کھا رہی ہیں اور شاعر ان دونوں سے بیک وقت کھیل رہا ہے، اٹھلا رہا ہے اور ہنس ہنس کر بادۂ عیش و نشاط طلب کر رہا ہے۔ سر پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں لیکن وہ کسی طرح اس آستانۂ ظلم و ناز سے اٹھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ دیوان غالبؔ کے ہر صفحے پر ایسے اشعار مل جائیں گے جو اس خیال کی تصدیق کرتے ہوئے معلوم ہوں گے۔ اس کے بعد یہ سمجھنے میں دشواری باقی نہیں رہ جاتی کہ غالبؔ کی کائنات میں انسان کی کیا جگہ ہے۔ یوں تو وہ بھی اور مخلوق کی طرح پرتو ذات ہے لیکن انسان اور کائنات کی باقی چیزوں میں فرق ہے اور یہ بہت بڑا فرق ہے۔ انسان کے پاس آرزو ہے، جذبہ ہے، شوق ہے، تڑپ ہے، اس کے ضمیر میں ایک ہنگامہ ہے جو بحرِ وجود میں پانی کے نم کی طرح ہے اور ریشم کے لچھے میں تار کی طرح۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس کے پاس عقل ہے۔ وہ اپنے ہاتھوں اور دل کے تعاون سے اپنا کردار حاصل کرتا ہے ۔ اور عقل و جان کی آمیزش سے گفتار۔ اس کی عقل محدود سہی لیکن لامحدود عقل کا حصہ ہے۔ غالبؔ نے اپنی مشہور مثنوی ’’مغنی نامہ‘‘ میں اس کو دنیا کی آراستہ کرنے والی قوت کہا ہے جو روحانیوں کی صبح کا نور اور یونانیوں کے شبستاں کا چراغ ہے ۔ دنیا کی ساری رونق اس انسان کی وجہ سے ہے، زما گرم است ایں ہنگامہ بنگر شورِ ہستی راقیامت مید مداز پردۂ خاکی کہ انساں شدغالبؔ کی نظروں میں ایک انسان کی عظمت اتنی زیادہ ہے کہ وہ اسے کائنات کا محور سمجھتا ہے اور دنیا کی تخلیق کا باعث قرار دیتا ہے، ز آفرینشِ عالم، غرض جز آدم نیستبگردِ نقطۂ ما دورِ ہفت پرکار استپردۂ خاک سے اٹھنے والے اس قیامت کے فتنے کی ساری کاوش یہ ہے کہ اس کائنات کو جس میں وہ چاروں طرف سے گھرا ہوا ہے دیکھے اور سمجھے۔ ہر وقت اور ہر رنگ میں گرم تماشا رہے اور اپنی چشمِ تنگ کو نظاروں کی کثرت سے وا کرتا رہے ۔ اپنے گرد وپیش بکھرے ہوئے جلوؤں کے حجاب اٹھائے اور ان کے معنی تک پہنچنے کے لیے دل وجگر کا خون کر ڈالے اور اگر معنی کی گہرائیوں تک پہنچنے کی توفیق نہ ہو تو بھی حسن صورت کے تماشے میں محو ہو جائے ۔ ممکن ہے کہ اس مشتاقِ جمال اور تشنۂ دیدار کے لیے بہار کو فرصت نہ ہو اور نگار کو اس سے الفت نہ ہو۔ نہ سہی، بہار پھر بہار ہے، نگار پھر نگار ہے ۔ ان کے وجود سے انکار ممکن نہیں ہے۔ آرزو کا آتش کدہ تو بہرحال روشن رکھا جا سکتا ہے ۔ اور انتظار کا لطف اٹھایا جا سکتا ہے کیونکہ جب تک تخیل، تصور اور تمنا کی دولت پاس ہے اس وقت تک، ہرچہ در مبادء فیاض بود آنِ من استگل جدا ناشدہ از شاخ بدامانِ من استاس لیے غالبؔ کی شاعری میں ترکِ دنیا، ترکِ لذت اور ترکِ طلب کے مضامین شاذ ونادر ہی ملیں گے اور وہ بھی وہ ہوں گے جو روایتی طور سے چلے آئے ہیں لیکن غالبؔ کے اپنے مزاج کا حصہ نہیں ہیں۔ غالبؔ کا ذوق اپنی لذت کو شی اور لذت اندوزی میں حدود انتہا کا قائل ہی نہیں ہے، وہ حسن کو اس طرح جذب کر لینا چاہتا ہے کہ نگاہوں کو بھی اپنے اور معشوق کے درمیان حائل سمجھتا ہے اور انہیں کانٹے سمجھ کر آنکھوں سے نکال پھینکنا چاہتا ہے۔ اس عالم میں ظاہر ہے کہ نگاہ کی کامیابی اور جلووں کی فروانی بھی اسے سکون نہیں بخش سکتی اور وہ اپنے نامراد دل کی تسلی کے لیے تڑپتا رہ جاتا ہے ۔ جب پینے پر آتا ہے تو خم کو ساغر بنا لینا چاہتا ہے اور جب گناہوں پر اترتا ہے تو گناہوں کے سمندر میں اتنا پانی بھی نظر نہیں آتا کہ اس کے پورے دامن کو بھگو سکے۔ صرف دامن کے کنارے ہی تر ہوتے ہیں۔ سمندر سوکھ جاتا ہے ۔ گناہ جرأتوں کی منزل ہے اور غالبؔ اس جرأت رندانہ کے ساتھ شوقِ فضول کو بھی ضروری سمجھتا ہے اور ایک نہایت لطیف ’’ہوسناکی‘‘ کی منزل میں پہنچ جاتا ہے۔ شاید یہ نکتہ جوانی کے بے راہ روی نے سمجھا دیا تھا کہ آوارگی میں رسوائی سہی لیکن طبیعت سان پر چڑھ جاتی ہے ۔ غالبؔ کی ’’آوارگی‘‘ اور ’’ہوسناکی‘‘ پر شاہد اس کے دلچسپ پیمانے ہیں۔ گریہ کا پیمانہ حسرتِ دل اور حسرت کا پیمانہ ناکرہ گناہ۔ ماندگی کا پیمانہ پورے بیابان کی وسعت بھی نہیں۔ کیونکہ جب بیابان کے بیابان تھکن سے بھر جاتے ہیں تو رفتارِ شوق کی لہروں پر نقش قدم حبابوں کی طرح تیرنے لگتے ہیں اور اس کی تسکین کے لیے دوجہاں بھی کافی نہیں ہیں ۔ سارا دشتِ امکان تمنا کا صرف ایک قدم ہے اور غالبؔ کی شاعری دوسرے قدم کی جستجو۔ جو ایک مسلسل اضطراب، تڑپ، جلن، کسک اور حرکت میں تبدیل ہو گئی ہے۔ ’’شوق عناں گسیختہ دریا کہیں جسے۔‘‘ ایسا مزاج ترکِ دنیا پر مائل ہی نہیں ہو سکتا۔ ہجوم غم سے گھبراکر وہ چیخ سکتا ہے اور اس کی زندگی پر دوزخ کو ترجیح دے سکتا ہے ۔ اور اتنا گستاخ ہو سکتا ہے کہ خدا کی خدائی کو نمرود کی خدائی قرار دے دے ۔ اور یہاں تک کہہ جائے کہ ’’ہم بھی کیا یاد کریں گے خدا رکھتے تھے۔‘‘ لیکن اس کی افتاد طبع یہ کہنے پر مجبور کرتی ہے کہ، جاداد بادہ نوشی رنداں ہے شش جہتغافل گماں کرے ہے کہ گیتی خراب ہے ’’شوق‘‘ غالبؔ کا نہایت محبوب لفظ ہے اور اس خاندان کے دوسرے الفاظ تمنا، آرزو اور خواہش سے اس کی شاعری چھلک رہی ہے ۔ جنون جو شوق کی انتہا ہے، اس کو ہمیشہ اکساتا رہتا ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ شوق انتہائی عاجزی میں بھی انسان کو سر بلند کر دیتا ہے اور ذرے کو صحرا کی وسعت اور قطرے کو دریا کا تلاطم عطا کرتا ہے ۔ اس لیے شوق اور طلب کی راہ میں وہ ایک لمحے کے لیے بھی آسودہ نہیں ہونا چاہتا۔ منزل سے کہیں زیادہ لذت منزل کی جستجو میں ہے کیونکہ منزل آسودگی ہے اور آسودگی روح و دل کی موت۔ جب میں بہشت کا تصور کرتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ اگر مغفرت ہو گئی اور ایک قصر ملا اور ایک حور ملی، اقامت جاودانی ہے اور اس ایک نیک بخت کے ساتھ زندگی ہے۔ اس تصور سے جی گھبراتا ہے اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ہے ہے وہ حور اجیرن ہو جائےگی۔ طبیعت کیوں نہ گھبرائے گی وہی زمردیں کاخ اور وہی طوبیٰ کی ایک شاخ۔ (خط بنام مرزا حاتم علی بیگ ہنرؔ۔ خطوط غالبؔ مرتبہ غلام رسول مہرؔ صفحہ ۲۲۹) اور غالبؔ کے استاد نے ابتدائے جوانی میں یہ نکتہ سکھا دیا تھا کہ شہد کا مزہ چکھ لینا مگر مکھی بن کر شہد پر کبھی نہ بیٹھنا۔ نہیں تو طاقت پرواز باقی نہیں رہےگی۔ اس لیے غالبؔ منزل کا نہیں راہِ منزل کا، آسودگی کا نہیں لذتِ تشنگی کا شاعر ہے، رشک برتشنۂ تنہا روِ وادی دارمنہ بر آسودہ دلانِ حرم و زمزم شاں نیشِ آرزو کی لذت ہی رہگزاروں کی لذت سے آشنا کرتی ہے اور اس چیزنے غالبؔ کی شاعری کو حرکت کے تصور سے سرشار کردیا ہے جس کا اظہار موج، تلاطم، طوفان، شعلہ، سیماب، برق اور پروانہ کے الفاظ کی بہتات سے ہوتاہے۔ یہ تصور رچ بس کر غالبؔ کے جمالیاتی ذوق کا اہم جزو بن گیا ہے۔ چنانچہ غالبؔ کا معشوق بھی برق وشرر ہے اور غالبؔ اس کی رفتار کا پرستار، دیکھو تو دل فریبیٔ اندازِ نقشِ پاموجِ خرامِ یار بھی کیا گل کتر گئیاسی کے ساتھ غالبؔ کی متحرک اور رقصاں امیجری ہے جو تصویر گری کی معراج ہے۔ جب وہ اپنی اچھوتی تشبیہوں اور نادر استعاروں کا جادو جگاتا ہے تو اک ایک حرف نرت کرنے لگتا ہے، ٹھہرے ہوئے نقوش سیّال ہو جاتے ہیں، مجرد خیال ایک پیکر رنگ و بو بن کر سامنے آ جاتا ہے، دشت گرمیِ رفتار سے جلنے لگتے ہیں ۔ بیاباں رہرو کے قدموں کے آگے آگے بھاگنے لگتے ہیں ۔ صحرا کے جسم میں راستے نبضوں کی طرح دھڑکنے لگتے ہیں ۔ بے جان پتھروں کے سینے میں ناتراشیدہ بت ناچنے لگتے ہیں ۔ آئینوں کے جوہروں میں پلکیں لرزنے لگتی ہیں ۔ شراب کے پیالے اٹھائے ہوئے ہاتھوں کی لکیروں میں خون دوڑنے لگتا ہے ۔ معشوق کی گفتار سے دیواروں میں جان پڑجاتی ہے ۔ اور قد کی دل کشی دیکھ کر سرو و صنوبر سائے کی طرح ساتھ گھومنے لگتے ہیں ۔ پھولوں کی ڈالیاں انگڑائی لے کر بلند ہونے لگتی ہیں اور پھول خود بخود گوشۂ دستار کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ غرض ایک صاعقہ و شعلۂ و سیماب کا عالم ہوتا ہے اورعمر اضطراب کی راہوں پر چلتی ہے اور ماہ وسال کی پیمائش آفتاب کی گردش کے بجائے بجلی کی چمک اور تڑپ سے کی جاتی ہے اور جب جوشِ جنوں اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو آرام حرام ہو جاتاہے اور جنگل کے سا یہ دار درخت وحشی چڑیوں کی طرح اڑجاتے ہیں اور تخیل کے سامنے صرف تپتا ہوا ریگستان رہ جاتا ہے۔ غالبؔ کے یہاں تخیل کے چھلاوے بھی اسی حقیقت کی غمازی کرتے ہیں۔ تخیلی جست کہنے کے لئے ایک فنی خصوصیت ہے لیکن حقیقت میں یہ ایک باطنی اضطراب کی ظاہری صورت ہے۔ چونکہ وہ بہت سی باتیں ان کہی چھوڑ دیتا ہے اس لیے شعر مشکل ضرور ہو جاتاہے لیکن اس سے شعر کا حسن بڑھ جاتا ہے اور معنی کا دامن زیادہ وسعت اختیار کر لیتا ہے، تو اور آرائشِ خمِ کا کلمیں اور اندیشہ ہائے دور درازیہ نشاط انگیزی اور لذت اندوزی اور غم نوشی اور آرزو مندی جو سمٹ کر جنبش و حرکت کے تصور اور تخیل کے چھلاوؤں میں تبدیلی ہو گئی ہے، اتفاقی چیز نہیں ہے۔ یقیناً اس میں غالبؔ کی افتادِ طبع اور صوفیانہ شاعری کی ان روایات کو بڑا دخل ہے جو صحت مند ہیں ۔ لیکن بات صرف اتنی نہیں ہے۔ غالب کا نفسیاتی تجزیہ بھی یہ تقاضا کرتا ہے کہ ماحول کے اثرات کو نظرانداز نہ کیا جائے۔ دنیا کو ’’آئینۂ آگہی‘‘ کہنے والا اور اس کے تماشے پر زور دینے والا شاعری کو قافیہ پیمائی کے بجائے معنی آفرینی کا درجہ دینے والا اور قلم کی جنبش پر عقل کی پابندیاں عاید کرنے والا شاعرا پنے گرد وپیش سے بے خبر رہ کر صرف اپنا خونِ دل اچھالنے پر اکتفا نہیں کر سکتا تھا، چاک مت کر جیب بے ایامِ گلکچھ ادھر کابھی اشارا چاہیے جب وہ کہتا ہے کہ انجمن آرزو سے باہر سانس لینا بھی حرام ہے ۔ تو یہ محض چند سکوں، چند پیالوں اور چند بوسوں کی آرزو نہیں ہے بلکہ ایک ناآفریدہ گلشن کی تمنا ہے جس کے نشاطِ تصور نے نغمہ سنجی پر مجبور کر دیا ہے اور اس کے ناآفریدہ گلشن کو صرف ذاتی خواہشات کا گلشن سمجھ لینا غالبؔ کی توہین ہے۔ اس میں سماجی امکانات کا تصور اس لیے شامل ہے کہ غالبؔ کے پاس سماجی ارتقا کا ایک معقول تصور تھا اور حسرتِ تعمیر اس کے سینے میں سب سے بڑا درد۔ غزل کے کسی شعر کے متعلق یہ کہنا کہ اس کا اصل محرک کیا تھا، مشکل ہے۔ کیوں کہ اس پر استعاروں کے حجاب پڑے ہوئے ہیں ۔ لیکن غالبؔ نے اپنے خطوط میں غدر ۱۸۵۷ء کی تباہی کے بعد دہلی کے جو دل دوز مرثیے لکھے ہیں، انہیں میں ایک جگہ حسرتِ تعمیر کا یہ شعر بھی لکھا ہوا نظر آتا ہے۔ دلی کا حال تو یہ ہے،
گھر میں کیا تھا کہ ترا غم اسے غارت کرتاوہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرتِ تعمیر سو ہے (ایک خط)ان چھ لفظوں اور دو مصرعوں کے پیچھے غالبؔ کے خیالات اور جذبات کی ایک دنیا آباد ہے جو غالب کے خطوط میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ۱۸۵۷ء سے بہت پہلے غالبؔ نے یہ اندازہ کر لیا تھا کہ مغل تہذیب اور سماج کا چراغ اب ہمیشہ کے لیے گل ہونے والا ہے، حالانکہ اس کی قدیم قدریں غالبؔ کو بہت عزیز تھیں لیکن اس کو یہ بھی علم تھا کہ اب عمارت بے بنیاد ہو چکی ہے اور جڑیں کھوکھلی ہیں۔ ہوا کا کوئی بھی جھونکا اسے گرا سکتا ہے۔ غالبؔ کے ذاتی حالات بھی اس سے ملتے جلتے تھے۔ جو سوگ گھر میں تھا وہی آگرے اور دہلی پر طاری تھا اور دونوں نے مل کر غالبؔ کو ابتدائے جوانی ہی سے اداس کر دیا تھا۔ لیکن اسی کے ساتھ غالبؔ نے اس نئی دنیا کی بھی جھلک دیکھ لی تھی جو سائنس اور صنعت کے ترقی کے ساتھ آ رہی تھی۔ وہ انگریزی سرمایہ داری کی استحصالی طاقت کا اندازہ نہ کر سکا (اور اگر کیا ہو تو اس کا ثبوت نہیں ملتا) لیکن انگریزوں کی لائی ہوئی سائنس اور صنعت نے اسے اتنا متاثر کیا کہ جب غدر سے کئی سال پہلے سرسید احمد خاں نے آئینِ اکبری کی تصحیح کی اور غالبؔ سے اس پر تقریظ لکھنے کی خواہش ظاہر کی تو غالبؔ نے غزل کے استعاروں کے سارے محابات چاک کرکے صاف صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ، آنکھیں کھول کر صاحبانِ انگلستان کو دیکھو کہ وہ اپنی ہنرمندی میں اگلوں سے آگے بڑھ گئے ہیں۔ انھوں نے ہوا اور موج کو بےکار کرکے آگ اور دھوئیں کی طاقت سے اپنی کشتیاں سمندروں میں تیرا دی ہیں۔ وہ بغیر مضراب کے نغمے پیدا کر رہے ہیں اور ان کے جادو سے الفاظ چڑیوں کی طرح اڑتے ہیں۔ ہوا میں آگ لگ جاتی ہے اور بغیر چراغ کے شہر روشن ہو جاتے ہیں۔ اس زمین کے آگے سارے آئین فرسودہ ہو چکے ہیں۔ جب موتیوں کا خزانہ سامنے ہو تو پرانے کھلیانوں سے خوشہ چینی کی کیا ضرورت ہے۔ یہ کہنے کے بعد غالبؔ نے جو نتیجہ نکالا ہے وہ اہم ہے۔ آئینِ اکبری کے اچھے ہونے میں کیا شبہ ہے۔ لیکن مبدأ فیاض کو بخیل نہیں سمجھنا چاہئے کیوں کہ خوبی کا کوئی انت نہیں ہے۔ خوب سے خوب تر کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس لیے مردہ پرستی مبارک کام نہیں۔ اس کے بعد کوئی شبہ باقی نہیں رہ جاتا کہ غالبؔ کے پاس سماجی ارتقا کا ایک معقول تصور تھا۔ اب یہاں اگر مہر نیم روز کی یہ بات دہرائی جائے کہ ایک آدم کے بعد دوسرا آدم ظہور کرےگا تو یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہ محض تصور وتخیل کی پرواز نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اکبری عہد کے آئین کے مقابلے میں نئے صنعتی نظام کو ترجیح دیتا تھا اور سائنس کی ایجادات اور تصورات کو شاعری میں جگہ دینے کے حق میں تھا۔ غالبؔ کے لیے یہ اندازہ کرنا مشکل تھا کہ اس نئے نظام کے سماجی رشتے کیا ہیں اور اس کی فطرت میں کس قسم کی غارت گری ہے لیکن اس کا ایک شعر ایسا ضرور ہے جو ایک لمحے کے لیے چونکا دیتا ہے، غارتِ گر ناموس نہ ہو گر ہوسِ زرکیوں شاہدِ گل باغ سے بازار میں آوے غزل غنائی اور داخلی شاعری کی معراج ہے۔ اس لیے اس کے اشعار میں ذاتی جذبے اور سماجی اضطراب کے درمیان حد کھینچنا مشکل ہے۔ پھر یہ محسوس کر لینا مشکل نہیں کہ غالبؔ اپنے عہد سے بے انتہا مایوس تھا۔ اس مایوسی میں ذاتی نارسائیوں اور سماجی معذوریوں نے مل کر ایک کیفیت پیدا کردی ہے۔ غالبؔ کو زندگی جس طرح بھگتنی پڑی وہ ایک حساس دل کا خون کردینے کے لیے کافی ہے۔ پانچ برس کی عمر میں باپ کا اور آٹھ برس کی عمر میں چچا کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ایک خوشحال ننہال میں ماں کے بے رنگ آنچل کے نیچے بچپن گزارا اور ابتدائی جوانی کی چند روزہ فرصت گناہ کے بدلے عمر بھر کی ناکامی اور نامرادی، تپش اور جلن ملی۔ اٹھارہ انیس برس کی عمر سے زندگی کی سفاکیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تنہا میدان میں اترنا پڑا۔ آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ باپ اور چچا کی موت کے بعد جو جاگیر پرورش کے لیے ملی تھی، اس کا زیادہ حصہ لوگ کھا گئے اور غالبؔ عمر بھر ہاتھوں میں عرضیاں اور قصیدے لیے ہوئے دہلی، لکھنؤ، کلکتہ، رام پور، در بدر ٹھوکریں کھاتا پھرا نااہل اہل دولت اور انگریز افسران کی جھوٹی تعریف میں خونِ دل اگلا ور اس کے بعد بھی قرض کی شراب پی اور بھیک پر زندگی گزاری۔ مرتے وقت بھی یہ تلخ احساس ساتھ تھا کہ بیوہ بیوی پر مفلسی وناداری میں کیا بیتے گی۔ یہ بھی ہوا کہ قرض خواہوں کی نالش اور ڈگریوں کے ڈر سے گھر میں چھپ کر بیٹھنا پڑا اور کسی دشمن کی سازش سے جوئے (شطرنج اور چوسر) کی لت میں قید خانے کی ذلت برادشت کرنی پڑی۔ مغل دربار میں، جس کی بہار لٹ چکی تھی وہ قدر ومنزلت بھی نہ ملی جو کم تر قسم کے شاعرو ں کو مل رہی تھی اور آخر عمر میں ایک علمی بحث کے جرم میں برسوں مسلسل ماں بہن کی گالیاں کھانی پڑیں۔ جوانی میں جو ان محبوبہ کا جنازہ آنکھوں کے سامنے اٹھ گیا جس کی یادیں عمر بھر تڑپاتی رہیں ۔ گھر میں بچوں کے کھیل کود کے بجائے ان کی لاشیں نظر آئیں، جس بھانجے (عارف) کو گود لیا تھا۔ وہ جوان مر گیا۔ دلی آنکھوں کے سامنے اجڑی۔ دوست احباب آنکھوں کے سامنے قتل ہوئے۔ ہم عصر شعرا اور علما پھانسیوں پر چڑھا دیے گئے اور کالے پانی بھیج دیے گئے اور غالبؔ کے لیے ماتم یک شہر آرزو کے سوا کچھ باقی نہیں رہ گیا۔ ان حالات میں وہ یہی کہنے پر مجبور تھا، نہ گلِ نغمہ ہوں، نہ پردۂ سازمیں ہوں اپنی شکست کی آوازغالبؔ کویہ دکھ تھا کہ ’’قلندری وآزادگی وایثار وکرم‘‘ کے جو جوہر اس کو ودیعت ہوئے تھے، وہ ظہور میں نہ آئے۔ اگر تمام عالم میں نہ ہوسکے نہ سہی، جس شہر میں رہوں اس شہر میں تو بھوکا ننگا نظر نہ آئے۔ خدا کا مقہور، خلق کا مردود، بوڑھا، ناتواں، بیمار، فقیر، نکبت میں گرفتار، میرے اور معاملات کلام و کمال قطعِ نظر کرو، وہ جو کسی کو بھیک مانگتے نہ دیکھ سکے اور خود دربدر بھیک مانگے وہ میں ہوں۔ (ایک خط سے اقتباس) اس خط کے پیچھے غالبؔ کا تصور انسان کارفرما ہے جس کو اس نے اپنے ایک فارسی قصیدے میں پیش کیا ہے ۔ ایک اور جگہ کہتا ہے کہ خدا نے صرف ایمان کا شعلہ روشن کیا ہے۔ تمدن اور شہروں کی نمائش تو انسان سے ہے، آتش افروزیِ یک شعلہ ایماں تجھ سے چشمک آرائی صد شہر چراغاں مجھ سے جب اس انسان کی رسوائی غالبؔ سے برداشت نہ ہو سکی تو کبھی خدا سے فریاد کی، ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسندگستاخیِ فرشتہ ہماری جناب میں اور کبھی یہ کہہ کر دل کو تسکین دے لی، آرائشِ زمانہ زبیداد کردہ اندہر خون کہ ریخت غازۂ روئے زمین شناش مایوسی کا آہنگ غالبؔ کی بے شمار غزلوں اور شعرو ں میں ملتا ہے۔ وہ اس کی انتہائی سادہ اور مؤثر تخلیقات ہیں جو دل سے ایک چیخ بن کر باہر نکلی ہیں۔ یہ آہوں کی طرح ظاہری آرائش سے پاک ہیں۔ لیکن غالبؔ کی عظیم شخصیت اس کی مایوسی کو جذبے کی سطح سے بلند کرکے ذہن کی سطح پر لے آتی ہے اور غالبؔ لڑنے کے لیے اپنے ہتھیار سنبھال لیتا ہے اور اپنی تلخ نوائی کو طنز میں تبدیل کر دیتا ہے، کیا وہ نمرود کی خدائی تھیبندگی میں مرا بھلا نہ ہواوہ انتہائی مشکل حالات میں بھی جی کھول کر ہنسنا جانتا ہے۔ اس پر غالبؔ کے ان گنت لطیفے اور خطوط گواہ ہیں کہ اس نے بھوک، موت، تذلیل ہرچیز کا مقابلہ ایک مردانہ زہر خند سے کیا۔ طنز کے تیر ناداری اور بیزاری کے زہر میں بجھائے جاتے ہیں اور خوداعتمادی اور انانیت کی کمان سے پھینکے جاتے ہیں۔ بہ ظاہر یہ خوش دلی کا معمولی سا عمل معلوم ہوتا ہے لیکن دراصل یہ ایک سپر تھی جسے غالبؔ نے زمانے کے واروں سے بچنے کے لیے تیار کیا اور اس کی چھوٹ غالبؔ کی شاعری پر پڑرہی ہے۔ وہ طنز اور ظرافت کی چھلنی میں آنسوؤں کو چھان دیتا ہے اور چھلنی کے بھیگے ہوئے چھیدوں پر بے شمار مسکراتے ہوئے ہونٹوں کا گمان ہوتا ہے، کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونایہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہویہ بڑالطیف مگر انتہائی تیکھا طنز ہے جو ہنس ہنس کر زخم کھانے کی توفیق عطا کرتا ہے اور اس توفیق ہی میں غالبؔ کی خود داری اور انفرادیت کا راز پوشیدہ ہے جسے زمانے کے مصائب نے انانیت اور خودپرستی میں تبدیل کر دیا ہے، زمانہ سخت کم آزار ہے بجان اسدؔوگر نہ ہم تو توقع زیادہ رکھتے ہیں یہ زیادہ مضبوط سپر تھی۔ اس کے بغیر آشوبِ دہر کا مقابلہ ممکن نہیں تھا۔ غالبؔ کی انانیت کبھی کسی کو خاطر میں نہیں لائی، نہ غمِ عشق کے سامنے اس کا سر جھکا نہ غم روزگار کے، مجنوں ہو یا فرہاد، خضر ہو یا سکندر، زمانہ ہو یا خوبان دل ازار، کوئی غالبؔ کی آنکھوں میں نہیں سماتا۔ وہ خدا کی بندگی میں بھی آزادۂ و خود بین رہا اور بے وفاؤں کے عشق میں بھی۔ اس کا سب سے زیادہ خوبصورت اظہار اس غزل میں ہے۔ ’’بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے۔‘‘ یہ شان قصیدوں میں بھی برقرار رہتی ہے، حالانکہ یہ غالبؔ کی شاعری کا کمزور پہلو ہے لیکن اس کا اعتراف نہ کرنا غلط ہوگا کہ حالات زمانہ سے مجبور ہوکر اس نے اپنا ہاتھ ضرور پھیلایا لیکن اس کو ہمیشہ ذلیل پیشہ سمجھتا رہا۔ (’’غیر کیا خود مجھے نفرت مری اوقات سے ہے۔‘‘) اورپھر کلیات فارسی کی دیباچے میں اس پر افسوس کیا ہے کہ آدھی شاعری نااہلوں کی قصیدہ خوانی پر صرف ہو گئی۔ یہی وجہ ہے کہ قصیدوں کا مدحیہ حصہ کمزور ہے اور تشبیب کا حصہ نہایت زوردار اور شاعرانہ۔ اس کو یہ احساس بڑی شدت سے تھا کہ جس کی قصیدہ خوانی کر رہا ہوں اس سے میرا درجہ بلند ہے اور بعض قصیدوں میں اس کا اظہار کرنے کے لئے غالبؔ نے اپنی تعریف کا پہلو نکال لیا ہے۔ غالبؔ کی آخری پناہ گاہ اس کا تصور اور تخیل ہے۔ کیونکہ’’مفلسوں کا مدارِ حیات خیالات پر ہے۔‘‘ (ایک خط) اس دنیا میں پہنچ کر وہ کائنات پر حکمرانی کرنے لگتا ہے اور زندگی کی ہر کمی کو پورا کر لیتا ہے۔ یہ خوابوں کی دنیا ہے اور یہاں خوابوں کی تخلیق کرنے والے کے سوا کسی کی حکمرانی نہیں چلتی۔ یہاں بادشاہ اژدہے معلوم ہونے لگتے ہیں اور شاعر پیغمبر ہو جاتا ہے اور جبریل اس کے ناقہ شوق کا حدی خواں۔ یہاں سفاکی نہیں ہے، صرف دردمندی ہے۔ حسرتیں نہیں ہیں صرف نشاطِ کا مرانی ہے۔ قدح سازی اور ساقی تراشی ہے۔ پیاس جتنی بڑھتی ہے دریا کا جوش اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ برے حالات میں جینے کا حوصلہ ہوتا ہے اور خونِ جگر پی کر چہرے کی تازگی بڑھ جاتی ہے۔ (مغنی نامہ) تصور ناآفریدہ گلشنوں سے گل چینی کرتا ہے اور بہاروں کے گیت گاتا ہے۔ اس دنیا میں صرف جنبش اور پرواز ہے اور آگے بڑھے جانے کا مستانہ عمل۔ ’’تا باز گشت سے نہ رہے مدعا مجھے۔‘‘ غالب کی یہ ساری خصوصیات مل کر اس کے تصور عشق کو ایک ایسا روپ دیتی ہیں جس سے اردو پہلے ناآشنا تھی۔ حسن کی بے پناہ کشش کے سامنے، جس میں افلاطونیت کم ہے اور جسمانیت زیادہ، انتہائی سپردگی اور نیاز مندی کے باوجود غالبؔ کا عشق خود دار اور سربلند ہے۔ زندگی کے لیے اگر یہ اصول ہے کہ جو نالہ ہونٹوں تک نہیں آیا وہ سینے کا داغ بن گیا۔ اس لیے ضبطِ غم کا حوصلہ تنگ ہونا چاہیے اور غصے کی شدت زیادہ (فارسی شعر) تو عشق کے لیے یہ اصول کہ، عجز ونیاز سے تو نہ آیا وہ راہ پردامن کو اس کے آج حریفانہ کھینچئے اور غزل کی اشاریت کا تقاضہ یہ ہے کہ صرف معشوق کو نہیں بلکہ ہر آدرش کو چاہے وہ نئی زندگی کی تمنا ہی کیوں نہ ہو، اسی طرح دامن کھینچ کر لایا جا سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ غالبؔ نے اپنے آپ کو آئینِ غزل خوانی میں گستاخ کہا ہے۔ اس سے اردو شاعری کو ایک نیا مزا ملا جس کی خود داری میں ہلکی سی بغاوت کی آمیزش تھی۔ یہ کبھی تشکیک کی شکل میں ابھرتا ہے، کبھی طنز کی اور کبھی تخیل کی کمندیں بن جاتا ہے۔ غالبؔ کے ہم عصر اس مزاج کو نہ سمجھ سکے جوخون پی کر مسکراتا ہے اور زندگی اور انسان کو نئی عظمت عطا کرتا ہے۔ غالبؔ سے پہلے خدا اور معشوق پر کس نے طنز کیا تھا۔ ضبط غم کے بند کس نے توڑے تھے، ظلم وستم کی چلتی ہوئی تلوار کو اپنے دریائے بے تابی کی موج خون کس نے بنایا تھا، کس نے غزل کے جذبے میں فکر کی اتنی شدید آمیزش کی تھی، کس نے غزل اور قصیدے کی زبان کا فرق مٹاکر نئی نظم کی بنیادیں استوار کی تھیں، اسی لیے غالبؔ کی غزل کا آہنگ میرؔ کے آہنگ سے اونچاہے۔ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کی ابتدا میں غالبؔ کی مقبولیت میں جو اضافہ ہوا ہے اس میں اور باتوں کے علاوہ اس نئے مزاج کا بھی دخل ہے۔ یہ احساس آزادی سے بیدار ہونے والے نئے ہندوستان کے مزاج سے ہم آہنگ ہے جسے عظمت رفتہ پر ناز بھی ہے اور دکھ بھی ہے اور نئی عظمت کی تلاش بھی ہے۔ غالبؔ نے سیاسی شاعری نہیں کی لیکن نئے عہد کے مزاج کو سمو لیا اور جب نئے طوفان سے کھیلنے والے آئے تو انھوں نے بلاخیز موجوں سے لڑنے کے لیے غالبؔ کی شاعری سے تقویت حاصل کی۔ ’’غالبؔ کے آرٹ کی وجہ سے غزل حدیث دلبری بنتی ہے اور زندگی کے مختلف دوروں، کروٹوں اور انقلابات کا ساتھ دینے لگتی ہے۔‘‘ (آل احمد سرور)یہ اتفاقی بات نہیں ہے کہ اردو کی پرانی شاعری سے بغاوت کرنے والا حالیؔ غالبؔ کا شاگرد تھا اور نئی تعلیم پر زور دینے والا سرسید غدر سے پہلے نئی سائنس اور صنعت کی تعریف غالبؔ سے سن چکا تھا اور یہ بھی اتفاقی بات نہیں ہے کہ وطن پرست شبلی کی غزلوں میں غالبؔ کی صدائے باز گشت ہے اور اقبال کے فکر وفن پر غالبؔ کے فکروفن کے آفتاب کی کرنیں پڑ رہی ہیں۔ جوش ملیح آبادی سے لے کر نئے دور کے شاعروں تک کوئی ایسا نہیں جو کسی نہ کسی شکل میں غالبؔ کا خوشہ چیں نہ ہو۔ غالبؔ کے بے شمار اشعار شمالی ہندوستان میں ضرب المثل بن چکے ہیں اور اردو جاننے والا شاید ہی کوئی گھر دیوانِ غالبؔ سے خالی ہو۔ آج ہمارے ہاتھ میں غالبؔ کی شاعری دو زبانوں کی ترجمان بن کر آئی ہے۔ اس میں ایک عہد کا خمار اور دوسرے عہد کا نشہ ہے۔ جاتی ہوئی رات کا کرب اور طلوع ہوتی ہوئی سحر کا نشاط حل ہو گیا ہے۔ غالبؔ کی عظمت صرف اس میں نہیں ہے کہ اس نے اپنے عہد کے باطنی اضطراب کو سمیٹ لیا بلکہ اس میں کہ اس نے نیا اضطراب پیدا کیا۔ اس کی شاعری اپنے عہد کے شکنجوں کو توڑ دیتی ہے اور ماضی اور مستقبل کی وسعتوں میں پھیل جاتی ہے۔ اس نے اپنے ہر تجربے کو، جو ایک انتہائی لطیف جمالیاتی ذوق رکھنے والے ذہن کی کارفرمائی تھی انسانی نفسیات کی آگ میں تپاکر پگھلایا ہے، کلیے کی کسوٹیوں پر کسا ہے اور پھر شعر کی شکل میں ڈھالا ہے، تب اس کے یہاں ایک عالمگیر اور آفاقی شاعر کالہجہ پیدا ہوا ہے اور وہ زندگی کے ہر لمحے کا شاعر بن گیا ہے۔ وہ انسانی روح کی رنگا رنگ کیفیات سے آشنا ہے، انتہائی نشاط ہو یا انتہائی مایوسی، تشکیک کا عالم ہو یا تصور کی کرشمہ سازی، دقیق فلسفیانہ مسائل ہوں یا حد درجہ عامیانہ چیزیں، بوسوں کی سرشاری ہو یا ہم آغوشی کی لذت، ہر کیفیت میں غالبؔ کی شاعری ساتھ دے گی۔ کمتر درجے کے شعرا اس کی کسی ایک ادا کو اپنا فلسفہ بنا سکتے ہیں لیکن غالبؔ بیک وقت اپنی ساری اداؤں کا جادو ڈالتا ہے۔ اس شاعری سے لطف اندوز ہونے کے لئے صرف لفظی معنوں سے واقف ہونا کافی نہیں ہے۔ شعروں کو بار بار پڑھنا بھی ضروری ہے۔ پھر لفظ حرفوں کے مجموعے کی شکل میں نہیں بلکہ تصویروں کی شکل میں پہچانے جائیں گے، آدمیوں کے چہروں کی طرح وہ آہستہ آہستہ مانوس ہوں گے اور اپنی شخصیت ظاہر کریں گے۔ لفظوں کا صوتی لوچ محسوس ہوگا اور ان کے باہمی ٹکراؤ کی جھنکار سے کان آشنا ہوں گے، تب جاکر معنوی ترنم اور داخلی آہنگ کے دروازے کھیلیں گے۔ اس طرح لفظی مفہوم سے گزر کر شاعرانہ مفہوم تک پہنچنے کا راستہ ملےگا اور وہ وجدانی کیفیت پیدا ہوگی جہاں وفا کا لفظ محبوب کی زلفوں کی طرح مہک اٹھے گا اور سر وچراغاں رقص کرتا نظر آئے گا، عشق ذوق اور عمل بن جائے گا، حسنِ محبوب حسنِ کائنات میں تبدیل ہو جائےگا۔ نازدہ آدرش بن جائےگا جس کے حصول کے لئے دل وجان کی بازی لگانا خوش مذاقی کی دلیل ہے۔ شمشیر وسناں کا جلال اور انداز وادا کا جمال جلوہ گر ہوگا، فراق کا درد، آرزو کی لطافت میں تبدیل ہو جائےگا اور وصال لذتِ طلب کی سرشاری میں، شوق ایک قوت تخلیق بن کر ابھرےگا اور دشت وصحرا امکانات کی وسعتیں اختیار کر لیں گے، جنون جستجو بن جائےگا، جس کی راہیں کبھی زنداں کی زنجیریں روکیں گی اور کبھی دیر وحرم کی دیواریں جنھوں نے اپنے اندرشوق کی واماندگی کوک سجا رکھا ہے اور میخانہ مکمل انسانیت اور مکمل آزادی کی منزل بن کر سامنے آئےگا۔ پھر دیوان غالبؔ کے ہر ورق پر اس کے تخیل کی مخلوق انگڑائیاں لینے لگے گی۔ اس کے سراپا ناز محبوب آنکھوں کے سامنے مسکرائیں گے اور دنیا زیادہ خوبصورت ہو جائے گی اور انسان زیادہ قابلِ احترام۔