غالب، شعر، شہر اور شعور
(غالب اور آگرہ)کبھی شہر دلوں کی طرح دھڑکتے ہیں۔ ان کی آبادی میں ہمیں اپنی آبادی کا اور ان کی ویرانی میں اپنی ویرانی کا سراغ ملتا ہے۔ ایودھیا، کپل وستو، پاٹلی پتر، غرناطہ، یہ اجڑی ہوئی بستیوں کے نام نہیں بلکہ استعارے ہیں جنہیں وقت پامال نہیں کر سکا اور جن کے خدو خال نسلوں کے حافظے میں محفوظ ہو گئے۔ اسی طرح لندن، پیرس، قاہرہ، بغداد، روم، دمشق، ٹوکیو، پیکنگ، ماسکو، لاہور، کلکتہ، دلی اور لکھنؤ بھی استعارے ہیں۔ شہر کے شہر اور خیال کے خیال۔غالب اپنے آفاقی وژن کے ساتھ ساتھ غیر معمولی طور پر رنگا رنگ اور وسیع مکانی تجربوں کے شاعر بھی ہیں۔ ایسے کئی شہر ہیں جو غالب کے لیے واردات بن گئے اور ان کے مجموعی شعور کی تشکیل میں ان شہروں کا عمل دخل بہت نمایاں رہا۔ اس سلسلے میں اکبرآباد، دلی، کلکتہ اور بنارس کا نام خاص طور پر لیا جاسکتا ہے۔ ان بستیوں سے غالب کا رشتہ صرف جسمانی نہیں رہا۔ غالب کے وجدان سے یہ شہر ایک رمز آمیز مابعد الطبیعاتی تعلق کی نشاندہی بھی کرتے ہیں۔شہروں میں شہر اکبرآباد غالب کے شعور کو زمینی پس منظر مہیا کرنے والا پہلا ٹھوس اور مادی حوالہ ہے۔ رشید صاحب نے لکھا تھا کہ مغلوں نے ہندوستان کو تین تحفے دیے۔ اردو زبان، تاج محل اور دیوان غالب۔ یہ اتفاق دلچسپ ہے کہ تاج محل اور غالب دونوں اکبرآباد کے حصے میں آئے اور جہاں تک اردو زبان کا تعلق ہے تو اس زبان سے وابستہ ادبی روایت کی ایک خاص شکل بھی اکبرآباد میں پروان چڑھی جس کا تعلق ایک منفرد طرز احساس، زندگی کے ایک خاص اسلوب اور ایک مختلف فکری رویے سے ہے۔ یہ طرز احساس، یہ اسلوب اور رویہ غالب کی تفہیم اور تجزیے کا ایک زاویہ فراہم کرتا ہے۔سلیم احمد نے کہیں لکھا تھا کہ غالب کی شاعری اس عظیم الشان تخلیقی روایت کا نقطۂ عروج کہی جا سکتی ہے جس کا ظہور ہند اسلامی تہذیب کے عقبی پردے سے ہوا تھا۔ فارسی سے اپنے تمام تر شغف اور ایرانی ثقافت کی تمام تر اثر پذیری کے باوجود، غالب کے بنیادی مزاج کا تعین اس کے ہندی عنصر کی پہچان کے بغیر ممکن نہیں۔ جس طرح تاج محل کی تعمیر صرف ہندوستان میں ہو سکتی تھی، اسی طرح دیوان غالب کی تشکیل و ترتیب کے لیے بھی اسی سرزمین کا جادو درکار تھا۔ شیخ محمد اکرام کے لفظوں میں، شاہ جہاں کا تاج محل اور غالب کی شاعری، فن کی دو مختلف اصناف کے شاہ کار ہیں لیکن دونوں کی تہہ میں ایک ہی روح کار فرما ہے۔ تخیل کی سربلندی و لطافت، تلاش حسن۔ فنی پختگی دونوں میں معراج کمال پر ہے۔ فرق اتنا ہے کہ جب مغلوں کے سامنے خزانوں کے منھ کھلے ہوئے تھے تو ان کے سنہرے خواب اور حسین آرزوئیں سنگ مرمر کے قیمتی لباس میں جلوہ گر ہوئیں۔ لیکن جب یہ خزانے خالی ہو گئے اور آرزوؤں اور خوابوں پر افسردگی چھا گئی تو ان کا اظہار حسین و جمیل الفاظ اور حزین ودل گداز اشعار میں ہوا۔لیکن ہر بڑے شاعر کی طرح غالب بھی نہ تو زمان ومکان کے ایک دائرے میں قید کیے جا سکتے ہیں، نہ ان کی شاعری کے اوصاف اور محاسن کسی ایک تخلیقی روایت کے پابند ہیں۔ بے شک بڑے سے بڑا شاعر بھی دیوار کے آر پار نہیں دیکھ سکتا لیکن وہ دیوار بناتا بھی نہیں۔ جس طرح تاج محل کو سراہنے کے لیے فن تعمیر کے کسی ایک اسلوب اور جمالیاتی فکر کے کسی ایک سلسلے تک اپنی نظر کو محدود رکھنا ضروری نہیں، اسی طرح غالب کی مجموعی شخصیت اور ان کی تخلیقی سرشت کو سمجھنے کے لیے کسی ایک ادبی روایت کی پاسداری ضروری نہیں۔ غالب کی شاعری مختلف روایتوں کے حدود کو عبور کرنے کی طاقت رکھتی ہے اور ایک ساتھ کئی روایتوں کو اپنے فیضان کا سرچشمہ بناتی ہے۔ وہ کلاسیکل بھی ہے، جدید بھی، انڈوٹرکش (Indoturkish) بھی ہے، ایرانی بھی اور ہندی بھی۔ مغل اشرافیہ کی زندگی کے آداب و اسالیب کی پروردہ بھی ہے اور جدید ہندوستانی تہذیبی نشاۃ ثانیہ کی دین بھی۔اب ذرا غالب کی زندگی اور سوانح سے علاقہ رکھنے والے کچھ شہروں پر نظر ڈالیے۔ اکبر آباد، دلی، کلکتہ، بنارس یہ چاروں شہر اپنا اپنا الگ چہرہ رکھتے ہیں۔ ان میں بے شک بہت سی باتیں مشترک رہی ہوں گی، مگر ان کے خلقیے (Ethos) الگ الگ ہیں۔ ان کا مادی، اقتصادی، تہذیبی، جذباتی، لسانی، سماجی پس منظر الگ الگ ہے۔ اپنے مخصوص طبیعاتی حوالوں سے قطع نظر، ان شہروں کی کیمیاوی ترکیب، ان کی مابعد الطبیعات بھی الگ الگ ہے۔ یہ چاروں شہر اپنی اپنی جگہ پر، ایک نہایت مستحکم، مضبوط اور ناقابل تسخیر و تبدل تاریخی اساس رکھتے ہیں۔ ایک طرف دنیا کاسب سے پرانا شہر بنارس ہے جہاں ان دیکھے، پراسرار زمانوں کی دھند میں کبیر کی بانی گونجتی ہے اور جس کے طول و عرض میں سومنات کے دیے کی جوت جگمگاتی ہے۔ دوسری طرف شاہ جہاں آباد ہے، کئی شہروں کا شہر جس کی فصیلوں میں تاریخ کے کئی گم شدہ ادوار کے دریچے کھلے ہوئے ہیں، پھر ہندوستان کا پہلا جدید شہر کلکتہ ہے، جہاں غالب ایک نئے ثقافتی مظہر، جدید کاری کی ایک نئی لہر سے متعارف ہوتے ہیں،پیش ایں آئیں کہ دارد روزگارگشتہ آئین دگر تقویم پارحیات اور مادی کائنات کے ایک نئے آئین کا نمائندہ شہر جہاں نئے تمدن کی برکتوں کو غالب استحسان کی نظر سے دیکھتے ہیں، زمانے کے انقلاب پرتیوریاں نہیں چڑھاتے، حد تو یہ ہے کہ بے چراغ روشن ہونے والے شہر، زخمے کے بغیر پیدا ہونے والے نغمے، طیور کی مانند پرواز کرنے والے حروف اور نازنین بتان خود آرا کی صبر آزمانگاہوں کی داد بھی دیتے ہیں۔ اور ان تینوں شہروں سے الگ وہ نسبتاً خاموش اور سویا سویا سا شہر اکبرآباد ہے جو غالب کے حافظے کی وساطت سے ان کی شعور میں جاگتا رہتا ہے۔ اس شہر کو غالب یاد کرتے ہیں تو اس طرح جیسے اپنے گم شدہ وجود کو یاد کر رہے ہوں۔ یہ شہر ان کا ماضی ہی نہیں، ان کی فکری اور ثقافتی میراث بھی ہے۔ غالب کے شعور پر اس شہر کے اثرات اور نشانات اس وقت مرتسم ہوئے جب انسانی ذہن کی مثال ایک سادہ تختی کی ہوتی ہے۔ دراصل لڑکپن کا یہی دور انسانی شخصیت کے آئندہ خاکے کی تشکیل کا ہوتا ہے، جب شخصیت کی بنیادیں پڑتی ہیں اور فطرت اس کے مزاج اور میلانات کا تعین کرتی ہے۔ افسوس کہ غالب کی زندگی کے اس دور کے بارے میں ہماری معلومات مختصر ہیں، پھر بھی اخیر عمر کا ایک خط، منشی شیو نرائن کے نام بعض دلچسپ معلومات فراہم کرتا ہے،’’تمہارے دادا کے والد عہد نجف خاں ہمدانی، میرے نانا صاحب مرحوم خواجہ غلام حسین خاں کے رفیق تھے۔ جب میرے نانا نے نوکری ترک کی اور گھر بیٹھے تو تمہارے دادا نے بھی کمر کھولی اور پھر کہیں نوکری نہ کی۔ یہ باتیں میرے ہوش سے پہلے کی ہیں۔ مگر جب میں جوان ہوا تو میں نے یہ دیکھا کہ منشی بنسی دھر خاں صاحب کے ساتھ ہیں اور انہوں نے جو کیٹہم گاؤں اپنی جاگیر کا سرکار میں دعویٰ کیا تو منشی بنسی دھر اس امر کے منصرم ہیں اور وکالت اور مختاری کرتے ہیں۔ میں اور وہ ہم عمر تھے۔ شاید منشی بنسی دھر مجھ سے ایک دو برس بڑے ہوں یا چھوٹے ہوں۔ انیس بیس برس کی میری عمر اور ایسی ہی عمر ان کی۔ باہم شطرنج اور اختلاط اور محبت، آدھی آدھی رات گزر جاتی تھی۔ چونکہ گھر ان کا بہت دور نہ تھا، اس واسطے جب چاہتے تھے چلے جاتے تھے۔ بس ہمارے اور ان کے مکان میں مچھیا رنڈی کا گھر اور ہمارے دو کٹرے درمیان میں تھے۔ہماری بڑی حویلی وہ ہے جو اب لکھمی چند سیٹھ نے مول لی ہے۔ اسی کے دروازے کی سنگین بارہ دری پر میری نشست تھی اور پاس اس کے ایک گٹھیا والی حویلی اور سلیم شاہ کے تکیے کے پاس دوسری حویلی اور کالے محل سے لگی ہوئی ایک اور حویلی اور اس کے آگے بڑھ کر ایک کٹرہ کہ وہ گڈریوں والا مشہور تھا اور ایک اور کٹرہ کہ وہ کشمیرن والا کہلاتا تھا۔ اس کٹہرے کے ایک کوٹھے پر میں پتنگ اڑاتا تھا اور راجہ بلوان سنگھ سے پتنگ لڑا کرتے تھے۔‘‘بہ ظاہر آگرہ میں قیام کا دور غالب کی زندگی کا تفریحی، پر تعیش اور بے فکری و آزادہ روی کا دور کہا جا سکتا ہے۔ یوں بھی برج کی دھرتی کا مزاج شمالی ہندوستان کے دوسرے علاقوں، بالخصوص دلی جیسے شہر کے مزاج سے بہت مختلف تھا۔ نظیر کی شاعری سے اکبرآباد کا جو منظر نامہ مرتب ہوتا ہے، اس میں فطری زندگی کے مظاہر کی رونق، رنگینی اور چہل پہل خوب ہے۔ اس شہر میں برج کی لوک روایت اور مغل اشرافیہ کی روایت آپس میں گلے ملتے ہیں۔ یہاں مغل امیروں اور رئیسوں کے کلچر کو وہ بالادستی حاصل نہیں ہے جس نے شاہ جہاں آباد کی عوامی زندگی کو قلعہ معلی کے پس پشت ڈال دیا تھا۔ یہاں موسموں کا جلوس آزادانہ گزرتا ہے۔ پرندے اور جانور، ہاٹ بازار، رسمیں اور روایتیں مشترکہ اور مخلوط تہذیبی مظاہر، درباری کلچر اور شاہانہ رئیسانہ ٹھاٹ باٹ سے زیادہ نمایاں ہیں۔غالب کے سوانح میں خاص طور پر ان کے خطوط کی وساطت سے، ان کی ارضیت، روز مرہ زندگی کے زمینی رشتوں کا جو نقشہ سامنے آتا ہے، وہ ہمیں ایک ترک سلجوقی رئیس زادے کے بجائے ایک عام آدمی سے متعارف کراتا ہے۔ اس عام آدمی زندگی کو چھوٹے چھوٹے غم ستاتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی خوشیاں مسرور کرتی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں کا بیان وہ مزے لے لے کر کرتا ہے۔ جس طرح نظیر اکبرآبادی کی شاعری کی دنیا ہمیں بہت بھری پری، مانوس اور عام انسانی شعور کا حصہ دکھائی دیتی ہے، اسی طرح غالب کے خطوط سے ظہور پذیر ہونے والی دنیا بھی تفکر اور تخیل کی عظمت اور بلندی سے زیادہ اشیا اور زندگی کے جیتے جاگتے، ٹھوس مظاہر کے جلووں سے معمور ہے۔ غالب کے خطوں سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں خیالوں سے جتنی دلچسپی تھی، اتنی ہی ٹھوس چیزوں اور انسانوں سے بھی تھی، اور رفیع و مہیب پر جلال انسانی تجربوں کے ساتھ ساتھ وہ عام بلکہ معمولی انسانی تجربوں کی حقیقت کو بھی سمجھتے تھے۔زندگی کا بیشتر حصہ غالب نے دلی میں گزارا۔ دلی ان کے خون میں رچ بس گئی تھی اور دلی کی زندگی کے نشاط و حزن کا تجربہ وہ اپنے دل کی بدلتی ہوئی کیفیتوں کی طرح کرتے تھے۔ مگر اکبرآبادکی جگہ ان کی شخصیت، شعور اور حسیت میں ہمیشہ محفوظ رہی۔ نواب ضیا الدین خاں آگرہ گئے تو غالب نے ان کے نام خط میں اس شہر کے گلی کوچوں کو بچھڑے ہوئے دوستوں کی طرح یاد کیا۔ اسے اپنا وطن بتایا۔ اس شہر کی مٹی اور ہوا کو یاد کیا۔ خود تو نہیں جاسکے مگر اپنے دیدہ و دل ان کے ساتھ کر دیے،شادم کہ شوق دور اندیش دیدہ ودل رادریں سفر باشمافرستادتاہم درایں غربت داد شادمانی دیدار وطن نیز توانم دادنظیر اکبرآبادی، مولوی محمد معظم، ملا عبد الصمد ہرمزد، میر اعظم علی اکبر آبادی، اسی شہر کے واسطے سے غالب کے تجربے میں آئے۔ ان سے غالب کے تعلق کی نوعیت کتنی حقیقی ہے اور کس حد تک فرضی یا خیالی، یہ مسئلہ تحقیق کا ہے۔ مگر اتنا طے ہے کہ غالب ان سے اپنے روابط کو یاد کرتے ہیں اور اپنی شخصیت کی تعمیر میں بعضوں کے رول کا اعتراف کرتے ہیں۔ غالب نے اپنے ایک خط میں (بنام علائی) اپنی ہستی کے ایک طاقتور میلان کی طرف اشارہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ، ’’قلندری وآزادگی و ایثار و کرم کے جو دواعی میرے خالق نے مجھ میں بھر دیے ہیں، بقدر ہزار ایک، ظہور میں نہ آئے۔ نہ وہ طاقت جسمانی کہ ایک لاٹھی ہاتھ میں لوں اور اس میں شطرنج اور ایک ٹین کا لوٹا مع سوت کی رسی کے لٹکالوں اور پیادہ پا چل دوں۔ کبھی شیراز جانکلا، کبھی مصر میں جا ٹھہرا، کبھی نجف میں جا پہنچا۔‘‘جوگی اور بیراگی بننے کی یہ خواہش یا بہت سے شعروں میں ہندی اسالیب فکر اور طرز احساس سے ایک طرح کی وجدانی قربت، غالب کی شخصیت کے انہی عناصر کا عطیہ ہے جو اکبرآباد کے مخلوط اور ہمہ گیر معاشرے سے مناسبت رکھتے ہیں۔ غالب کے شعور میں مذہبی رواداری، وسیع المشربی، صلح کل اور عدم ادعائیت کے جو پہلو نمایاں ہیں، اسی مشترکہ معاشرتی مزاج کے پیدا کردہ ہیں۔ غالب کے شاگردوں کی تعداد خاصی تھی اور بہتوں سے ان کا مراسلت کا سلسلہ تھا۔ مگر جو خصوصیت وہ اپنے کاشانۂ دل کے ماہ دوہفتہ’’مرزا منشی ہرگوپال تفتہ‘‘ کے ساتھ روا رکھتے تھے اس تک کوئی اور شاگرد نہیں پہنچا۔ تفتہ، غالب کی ذاتی ضرورتوں کا بھی خیال رکھتے تھے۔ تنگ دستی کے دنوں میں انہیں روپے اور کپڑے بھیجتے رہتے تھے۔ مہیش داس انہیں شراب مہیا کرتے تھے۔ ہیرا سنگھ، شیوجی رام اور بال مکند حسب توفیق ہمیشہ غالب کی خدمت کرتے رہے۔ غالب سے پہلے بھی اور ان کے بعد بھی اردو کی ادبی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی، جوفکری اور جذباتی تعلقات کی سطح پر ایسی وسیع المشربی کی حامل رہی ہو۔بہ ظاہر یہ بات دور ازکار دکھائی دیتی ہے لیکن غالب کے حالات زندگی اور ننھیال یعنی اکبرآباد میں ان کی عمر کا ابتدائی دور جو گزرا، اسے سامنے رکھا جائے تو غالب کے شعور سے وابستہ کئی رمز خود بہ خود کھلنے لگتے ہیں۔ چنانچہ اتنا طے ہے کہ غالب نے تو اکبرآباد کی سکونت ترک کر دی تھی مگر اکبرآباد ان کے دل و دماغ میں ہمیشہ موجود رہا اور انہیں اپنے آپ سے دور نہیں جانے دیا۔ جس شخص نے بیس پچیس برس کی عمر تک اپنی شاعری کا بہترین حصہ زمانے کو دیا، اس کے شعور کی تعمیر میں زندگی کے وہ تیرہ چودہ برس جو بالعموم ایک ہی شہر اکبرآباد میں گزرے اور جہاں وہ بعد میں بھی برابر آتا جاتا رہا کہ دلی اور اکبر آباد میں تعلق گھر آنگن کے جیسا تھا، ان کاعمل دخل کتنا رہا ہوگا، یہ اندازہ آسانی کے ساتھ لگایا جا سکتا ہے۔غالب نظیر کے بر عکس ایک مختلف تخلیقی رویہ اور مزاج رکھنے والے تھے۔ ظاہر ہے کہ ہم میر یا غالب جیسے شعرا سے شاعری میں زندگی کے براہ راست تجربوں اورحقیقت کی اوپری یا بیرونی سطح سے تعلق رکھنے والی باتوں کے بیان کی توقع نہیں کر سکتے۔ غالب نے اکبر آباد کا تذکرہ جو کم کیا ہے تو اس سے فرق کیا پڑتا ہے؟ صبح کا اجالا بھلا کب یہ بتاتا ہے کہ وہ سورج سے اترا ہے اور اس سے یہ بات پوچھتا بھی کون ہے؟