غالب کی شاعری کی معنویت
میں حالیؔ کا بڑا احترام کرتا ہوں۔ حالیؔ ہمارے ایک بزرگ شاعر اور پہلے نقاد ہیں۔ حالیؔ کی متین، دھیمی اور باوقار لے نے بیسویں صدی کی کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ حالیؔ نے جو راہیں نکالیں آج وہ شاہراہیں ہیں اور ان پر ایک ہجوم رواں دواں ہے۔
حالیؔ نے ایک تاریخی ضرورت کو پورا کیا۔ انھوں نے شاعری کا تصور بدل دیا اور ادبی تنقید کو چند قابل قدر پیمانے دیے۔ مگر آج اس بات کی ضرورت ہے کہ تنقید میں طرفداری کی لے کو کم کیا جائے اور سخن فہمی کو بڑھایا جائے۔ حالیؔ کے سامنے جو سوالات تھے ان کے بہت سے جوابات زندگی اور ادب نے دے دیے۔ آج ہمارے سامنے جو سوالات ہیں ان کے جوابات کے لیے ہمیں اپنے ادبی نظریات پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔ ہمیں حالیؔ کے شعر و ادب کے تصور کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے شعر و ادب کے ایک زیادہ جامع، زیادہ ہمہ گیر، زیادہ گہرے اور زیادہ معنی خیز تصور کو اپنانا ہوگا اور اس کے لیے عصری حقائق سے مدد لینی ہوگی۔
حالیؔ کی تنقید ان کی تخلیق کے جواز کے طور پر وجود میں آئی۔ اس تخلیق کی اہمیت مسلم، مگر اس سے ہمیں تخلیق کے ایک ہی رنگ کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ یہ رنگ ایک ضرورت کو پورا کرتا ہے مگر تخلیق کے گلشن میں اور رنگ بھی ہیں۔ حالیؔ نے اپنی نظم ’’شعر سے خطاب‘‘ میں اپنا شعری تصور بڑی خوبی سے پیش کیا ہے،
اے شعر دل فریب نہ ہو تو تو غم نہیں
پر تجھ پہ حیف ہے جو نہ ہو دل گداز تو
صنعت پہ ہو فریفتہ عالم اگر تمام
ہاں سادگی سے آئیو اپنی نہ باز تو
وہ دن گئے کہ جھوٹ تھا ایمانِ شاعری
قبلہ ہو اس طرف تو نہ کیجو نماز تو
آپ حیران نہ ہوں اگر میں کہوں کہ دل فریبی، صنعت اور جھوٹ جن سے حالیؔ دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں، شعر و ادب کی شریعت میں اتنے بڑے جرم نہیں جتنے حالیؔ سمجھتے تھے اور دل گدازی، سادگی اور سچائی مطلق اور مقررہ اصطلاحیں نہیں ہیں بلکہ اضافی ہیں۔ حالیؔ ادب کو اخلاق کا نائب مناب اور قائم مقام سمجھتے تھے اور شاعری میں سادگی، اصلیت اور جوش کو سب کچھ جانتے تھے۔ میں اخلاق کی اہمیت سے انکار نہیں کرتا۔ نہ سادگی، اصلیت اور جوش کے خلاف ہوں لیکن عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ فن خود اخلاق ہوتا ہے۔ اخلاق کا نائب نہیں ہوتا۔ شعریت سادگی میں بھی ہوسکتی ہے اور پیچیدگی میں بھی بلکہ چوں کہ زندگی کا قانون یہ ہے کہ سادگی سے پیچیدگی کی طرف ارتقا ہوتا ہے، اس لیے شعریت کو بھی سادگی کے علاوہ زندگی کی پیچیدگی کو جذب کرنا ہوگا۔ اس طرح اصلیت یعنی حقیقت نگاری کو آئیڈیل ماننے کے بہ جائے اسے ایک ادبی اسلوب سمجھنا ہوگا اور اس کے علاوہ علامتی اسلوب کو جس طرح تجریدی آرٹ میں ایک جائز اسلوب مان لیا گیا ہے، اسی طرح شاعری میں بھی ماننا ہوگا اور جوش کی اصطلاح کو سرے سے نظرانداز کر کے فن سے مکمل وفاداری پر اصرار کرنا ہوگا۔
بات یہ ہے کہ قدیم دور اور ازمنۂ وسطیٰ کو ادب کی اپنی مخصوص بصیرت، اپنے جمالیاتی عنصر، زندگی کے مواد سے ایک نئی تخلیق اور اس طرح زندگی کی معنویت کی ایک نئی شکل کے ذریعے سے ذہن کی ایک نئی تربیت اور نئی تنظیم کا احساس نہ تھا۔ ادب پہلے مذہب کا نقیب تھا۔ پھر اخلاق کا مبلغ بنا۔ پھر اسے سیاست کا لاؤڈ اسپیکر مان لیا گیا۔ جب سائنس اور ٹیکنالوجی کو عروج ہوا، اور مشین کی حکومت عام ہوئی تو ادب کی سائنسی اقدار سے مطابقت کی کوشش ہونے لگی۔ غرض ادب وہ رہوار تھا جس پر کوئی نہ کوئی سواری کرتا رہا۔ ادب میں اخلاق، ادب میں مذہبی تصورات، ادب میں تصوف، ادب میں سماجی قدریں، ادب میں انسان دوستی کے ہر نظریے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ادب کا مقصد ان میں سے کسی نقطۂ نظر کی ترجمانی یا اشاعت ہے مگر ادب تلقین نہیں تخلیق ہے۔ یہ saying نہیں making ہے۔ ادب کا مقصد نہ علم میں اضافہ کرنا ہے، نہ معلومات عطا کرنا، نہ واقعات بیان کرنا، اس کا مقصد تخئیلی تجربے کی ترسیل ہے۔
ادب میں بنیادی اہمیت جمالیاتی حظ کی ہے۔ تخلیقی تجربہ ایک حظ عطا کرتا ہے۔ یہ حظ صرف ایک نشہ نہیں دیتا، نشے کے نتیجے کے طور پر عرفان بھی عطا کرتا ہے۔ رابرٹ فراسٹ نے جب کہا تھاکہ شاعری مسرت سے شروع ہوتی ہے اور بصیرت پر ختم ہوتی ہے۔ (poetry begins in delight and ends in wisdom) تو اس کا مطلب تھا، میں مانتا ہوں کہ اچھا ادب جس کا مقصد تجربے کی معنویت کو آشکار کرنا ہے اپنے اثر میں اخلاقی بلندی یا سماجی شعور یا مذہبی کیفیت بھی عطا کر سکتا ہے۔ فن میں بڑائی فن کار کی اپنی نظر سے یا فن سے کلی وفاداری (total commitment) پر مبنی ہے اور اس کے پیچھے ایک مربوط، پختہ اور حقیقی تجربہ پر۔
یعنی سوال کسی اخلاقی یا سماجی نظریے سے اتفاق کا نہیں ہے بلکہ تجربے کی پختگی اور گہرائی اور اس میں پوری طرح غرق ہونے کا ہے یعنی بڑی شاعری، مذہبی، سماجی، متصوفانہ، اخلاقی، فلسفیانہ سبھی کچھ ہوسکتی ہے مگر فن کار کے اپنے من میں ڈوبنے کی وجہ سے نہ کہ کسی بڑے فلسفے یا نظریے کی وجہ سے۔ میرے نزدیک فن کی بڑائی اول تو تجربے کی تہہ داری میں ہے یعنی اس تجربے کی کئی تہیں ہوں اور ان میں سے کسی تہہ سے لوگ متاثر ہو سکتے ہوں، یا ایک تہہ کے آج دریافت ہونے اور دوسری کے کل یا پرسوں یا برسوں بعد، دوسرے یہ بڑائی تجربے کی پیچیدگی میں ہے۔ اس سلسلے میں رچرڈس کا یہ اقتباس دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔
’’حال کے انسان کی ساری فکر اور جذبہ اس تجربے کی شکل میں ہوتا ہے جو مثال کے طور پر ازمنۂ وسطیٰ کے انسان کے تجربے کے مقابلے میں زیادہ مخصوص اور منفرد ہوگا۔ آج ہمارے درمیان ازمنۂ وسطیٰ کے انسان کا اس بڑے پیمانے پر موجود ہونا ہمارے لیے غلط فہمی کا باعث نہیں ہونا چاہیے۔ وہ لوگ جو سب سے زیادہ اور سب سے متنوع دل چسپیاں رکھتے ہوں یعنی وہ لوگ جن کی زندگیاں ہمارے نظریۂ قدر کے مطابق سب سے زیادہ قدر و قیمت رکھتی ہیں، وہ لوگ جن کے لیے شاعر لکھتاہے اور جن کے لیے اپیل سے ہم اسے پرکھتے ہیں، ناگزیر طور پر اپنے ذہنوں کی تشکیل میں پہلے سے بہت زیادہ عناصر سے کام لیتے ہیں اور شاعر جس حد تک ان مواقع سے کام لیتا ہے جو اسے میسرہیں، یہی کرتا ہے۔ یہ مشکل ہی نہیں ناممکن ہے کہ ہم اس بنا پر اسے اپنے قدرتی وسائل سے کام نہ لینے دیں کہ اس کے پڑھنے والے اسے سمجھ نہیں سکیں گے، یہ اس کا صور نہیں اس کے سماجی نظام کا قصور ہے۔‘‘ (ادبی تنقید کے اصول، ص، ۱۹۔ ۲۱۸)
حالیؔ نے جب یادگارِ غالبؔ لکھی تو سرسید کی تحریک کے اثر سے ہمارے ادب میں مقصدیت کی لے تیز ہو چکی تھی۔ شاعر حالی قوم کے اقبال کا ماتم کر رہا تھا۔ نقاد حالیؔ سادگی، اصلیت اور جوش پر زور دے چکا تھا۔ اسے غالبؔ کی جامعیت اور عظمت کا احساس تھا، مگر وہ غالبؔ کے ابتدائی کلام کو ’’بے راہ روی‘‘ کہنے پر مجبور تھا۔ اس لیے غالبؔ کے ابتدائی کلام کو جب بہادر شاہ ظفرؔ اور ذوقؔ کی دہلی نے مشکل کہہ کر نظر انداز کیا تو حالیؔ نے اس کی توجیہ کی ضرورت محسوس کی اور کہا کہ ’’جو محاورے روز مرہ کی بول چال اور بات چیت میں برتے جاتے تھے، انھیں کو جب اہلِ زبان وزن کے سانچے میں ڈھلا ہوا دیکھتے تھے تو ان کو زیادہ لذت آتی تھی اور زیادہ لطف حاصل ہوتا تھا۔‘‘ یعنی عام فہم زبان، مانوس خیالات، فوری ترسیل اور مقصدی لے کے زیر اثر غالبؔ کی ابتدائی شاعری کو حالیؔ نے بھی نظرانداز کیا۔
یہاں یہ بات میرے نزدیک زیادہ اہم نہیں ہے کہ غالبؔ نے خود اس شاعری کو مضامین خیالی کا دفتر کہا اور انتخاب میں بیشتر ایسے اشعار قلم زد کر دیے، صرف نمونے کے طور پر چند رہنے دیے۔ غالبؔ اپنے دور سے آگے دیکھنے کے باوجود اس دور سے بالکل الگ نہیں ہو سکتے تھے۔ مشاعرے کی شاعری نہ کرنے کے باوجود وہ مشاعروں میں شرکت کرنے پر مجبور تھے۔ انھیں تو پہلے اپنے اردو خطوط بھی اپنے شکوہ سخن کے منافی نظر آتے تھے اور یہاں ان کی رائے ان کے خطوں کی مقبولیت ہونے کے بعد بدلی۔
اس لیے غالبؔ پر عمل جراحی کرنے اور اس کے پچیس سال تک کے کلام کو کاٹ کر پھینک دینے کی وجہ سے غالبؔ کی عظمت اور اس کے کلام کی معنویت کا بھرپور احساس نہ ہو سکا اور حالیؔ کے بہت بعد جب مغرب کے اثر سے ادب کی اپنی مخصوص بصیرت کا عرفان بڑھا، جب جمالیاتی قدر کے شعلے کو اخلاقی یا سماجی معنویت کے فانوس میں پیش کرنے کے بہ جائے اس کی اپنی تب وتاب کو تسلیم کیا جانے لگا، جب تخئیل کی پرواز، ذہن کی براقی، تجربے کی گہرائی، جذبے کے جادو، حسن کاری کے آداب کا احساس بڑھنے لگا، جب نفسیات کے علم نے یہ واضح کردیا کہ ذہن پچیس سال کی عمر تک پختہ ہو جاتا ہے، شخصیت اپنا مخصوص روپ بنا لیتی ہے، آدمی جو اسے بننا ہے بن چکتا ہے اور بعد میں وہ اس نقش کو نکھارتا سنوارتا رہتا ہے اور اس کے کھردرے پن کو دور کرتا رہتا ہے تو غالبؔ کے منتخب کلام کی معنویت کا سراغ اس کے ابتدائی کلام سے لگانے کی کوشش شروع ہوئی۔ جب حالیؔ جیسے بالغ نظر نقاد نے ابتدائی کلام کو کوہ کندن کاہ برآوردن کہہ دیا تو انگلی پکڑ کر چلنے والوں نے اس ابتدائی کلام سے سرسری گزر جانا کافی سمجھا۔ حالانکہ اس میں بہ قول میرؔ ایک جہانِ دیگر پوشیدہ تھا۔
دوسرے سادگی کو ایک مطلق معیار ماننے کی وجہ سے اور غالبؔ کی دید و دانش اور فکر و نظر کی شاعری جو قدرتی طور پر مانوس زبان، محاورے کے سوئے ہوئے استعارے اور عام ذہن کی فوری اپیل اور سیدھے سادے جذبے کی شاعری سے مختلف تھی، ایک عام ترسیل کی عینک سے دیکھی گئی۔ یعنی شاعر کا یہ فرض ٹھہرا کہ وہ ایسی بات کہے جو فوراً سمجھ میں آ جائے۔ قاری یا سامع سے کم سے کم مطالبہ کرے اور زیادہ سے زیادہ اسے بہلائے۔ پھر مشرق بہ قول کوئسلر شخصیت اور انفرادیت کو شبہ کی نظر سے دیکھتا تھا۔ یہ مغرب کی دین ہے کہ اس نے شخصیت کی تربیت اور شخصیت کے ذریعے سے انفرادی صلاحیتوں کو پھلنے پھولنے پر زور دیا۔ شخص کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی نظر کی تربیت کرے۔ اپنے شعلے کی حفاظت کرے، اپنے ذہن کی آزادی پر اصرار کرے کیونکہ آزاد ہوکر ہی وہ کائنات کی سیر اور اس کے بھرپور نظارے کا حق ادا کر سکتا ہے۔ ذات جب مکمل ہو تبھی وہ کائنات کو اپنے میں سمو سکتی ہے۔ قطرہ دریا بن سکتا ہے۔ لمحہ ابدیت کا حسن اپنے اندر جذب کر سکتا ہے۔
غالبؔ کی عظمت یہ ہے کہ اس عمر میں جب لوگ جسم کے خطوط، قوسوں اور دائروں میں کھوئے رہتے ہیں وہ خیال کی قوسوں وار دائروں کے عاشق تھے۔ ان کی رومانیت بقول بورا کے تخئیل کے مسلک (cult of imagination) سے وفاداری کا دوسرا نام تھی۔ وہ اپنی نظر، اپنے شوق، اپنی بصیرت کو مکمل کر رہے تھے۔ پروفیسر مجیب نے بڑی خوبی سے اپنے ایک مضمون میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے،
’’شاعر کا یہ منصب ہوتا ہے کہ انسان کی نظر میں وہ قوت پیدا کرے جس سے وہ اپنے آپ کو اور اپنی دنیا کو ہر پہلو سے دیکھ سکے۔ غالبؔ نے اس منصب کا حق ادا کیا۔ شوق کو جو انسانیت کا جوہر ہے، عالم وجود کی سیر کرنا سکھایا اور اسے ہمت دلائی کہ مسکراکر یا خفا ہو کر زندگی کی ایسی تمام شرطوں کو نامنظور کردے جن سے اس کی آزادی محدود ہوتی ہے یا اس کے رتبہ انسانیت میں کمی پیدا ہوتی ہے۔‘‘
سارترؔ اپنی کتاب ’’ادب کیا ہے‘‘ میں لکھتا ہے، ’’ایک ا دیب کا مقصد ذاتی تعریفوں کا ایک سلسلہ تخلیق کرنا ہے۔‘‘
(To create a series of personal definitions)
یہ تعریفیں فن کار کی زندگی سے وفاداری کی صلاحیت سے پیدا ہوتی ہیں۔ زندگی جس کے اپنے عجوبے ہیں اور ایسے تضادات ہیں جو ابھی تک دور نہیں ہو سکے۔ اس بات کو آسکروائلڈ نے اس طرح کہا ہے کہ فن میں سچائی وہ ہے جس کا الٹ بھی سچ ہے۔ اس سے ملتی جلتی بات فلابیر نے کہی ہے کہ فن میں مبالغے سے کبھی ڈرنا نہیں چاہیے۔ ہاں یہ مبالغہ فن کے مقصد سے مطابقت رکھتا ہو۔ در اصل یہ سب باتیں ارسطو کے فتوے کی تفسیر ہیں کہ فن میں قرین قیاس ناممکنات آسکتے ہیں۔ غیر قرین قیاس ممکنات نہیں۔
غالبؔ کا اردو شاعری پر بڑا احسان یہ ہے کہ انھوں نے فن کے سچ پر زور دیا۔ اپنی نظر سے وفاداری کی عظمت واضح کی۔ فرد کی آزاد شخصیت پر اصرار کیا۔ تجربے کی پیچیدگی اور رنگا رنگی سے کام لیا۔ صرف وجدان کے بہ جائے دانش اور دانش کے وجدان پر زور دیا۔ اسی کو وہ آئینے کا صیقل کرنا اور معنی کی رسی بٹنا کہتے ہیں۔ پھر اس تجربے کے لیے مانوس، ہموار اور عمومی تجربے والی، ناسخؔ اور ذوقؔ و ظفرؔ کی مجلسی زبان کے بہ جائے ایسی زبان بنائی جس میں استعارے کے ذریعے سے تازگی اور تہہ داری پیدا کی گئی اور استعارے کے آرائشی استعمال کے بجائے تخلیقی استعمال سے زبان کو خیال کی پھل جھڑی بنایا گیا۔ حالیؔ کا شاعری کا تصور میں اوپر بیان کر چکا ہوں۔ غالبؔ کا شاعری کا تصور ان اشعار سے واضح ہوگا۔
زلفِ خیال نازک وا ظہار بے قرار
یا رب بیان شانہ کشِ گفتگو نہ ہو
شوخیِ اظہار غیر از وحشتِ مجنوں نہیں
لیلیٔ معنی اسد محملِ نشین راز ہے
حسنِ فروغِ شمعِ سخن دور ہے اسدؔ
پہلے دلِ گداختہ پیدا کرے کوئی
ہجومِ فکر سے دل مثلِ موج لرزے ہے
کہ شیشہ نازک و صہبائے آبگینہ گداز
عرض کیجئے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا
ہاتھ دھو دل سے یہی گرمی گر اندیشہ میں ہے
آبگینہ تندیٔ صہبا سے پگھلا جائے ہے
اسد اربابِ فطرت قدر دانِ لفظ و معنی ہیں
سخن کا بندہ ہوں لیکن نہیں مشتاق تحسیں کا
اور یہ شعر جو میرے نزدیک غالبؔ کا ہی کلیدی شعر نہیں، بلکہ شاعری کے بت کدے کی کلید ہے۔
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعارمیں آوے
یعنی شاعری الفاظ کا تخلیقی استعمال ہے۔ یہاں لفظ لفظ نہیں ایک جہانِ معنی ہے۔ لفظ دنیا ہے لیکن اس دنیا کا دروازہ کھولنے کے لیے، معنی کے اس طلسم کو فتح کرنے کے لیے ایک روح کی ضرورت ہے۔ پھر یہ ایک طلسماتی دنیا ہے جو سائنسی یا معلوماتی صداقت کے بہ جائے جذباتی صداقت رکھتی ہے مگر جو اپنی صداقت اور اپیل میں معلوماتی، مادی اور منطقی دنیا سے کم نہیں ہے، بلکہ جو انسان کو علامتی جانور اور دیومالا کے ساز پر رقص کرنے والا جان کر، اپنی طلسماتی فضا کے ذریعے سے اسے ایک نیا شعور دیتی ہے، اپنے خوابوں کے ذریعے سے حقائق کی توسیع کرتی ہے، اپنے کلیات (Absolute) کے ذریعے سے اسے جزو میں کل دکھاتی ہے۔ اپنے خصوصی تجربے کے ذریعے سے اسے ایک آفاقیت بخشتی ہے۔
مغرب میں روشن خیالی کے دور کے اثرات، ہندوستان میں ذہنی تبدیلی کی ضرورت، ایک بدیسی سامراج کی بڑھتی ہوئی چیرہ دستی نے قدرتی طور پر انیسویں صدی کے وسط میں ہندوستان کو ایک نشاۃ الثانیہ دی۔ اس نے فطرت اور عقلیت کے دو مرکزوں پر اور دونوں کو ایک دوسرے سے ملانے کے لیے انسانیت پر زور دیا۔ اس کے سامنے ترقی کا تصور ایک خط مستقیم کا سا تھا۔ اس کے نزدیک نئے اور پرانے میں ایک ملاپ کی ضرورت تھی۔ یہ حقیقت نگاری کی طرف اس لیے مائل ہوا کہ اس نے تخئیل کی بے اعتدالی کے تماشے دیکھ لیے تھے اور آتش بازی کے مزے کے لیے گھر میں آگ لگانے کو تیار نہ تھا، اس لیے کچھ کرنے، کچھ بتانے، کچھ سکھانے، کچھ بدلنے کی خاطر اسے اپنے ماضی قریب کی بہت سی چیزوں کو رد کرنا پڑا۔
ہمارے کلاسیکی شعراء نے اپنی گرم پانی کی بوتل کو ہی سب کچھ سمجھ لیا تھا۔ ذہن کی کھڑکی بند کر لی تھی۔ ان لوگوں نے کھڑکی کھول دی اور باہر کی دنیا کے نظارے اور اس نظارے کی نقش بندی میں محو ہو گئے۔ یہاں تک کہ گرم پانی کی بوتل ٹھنڈی ہوگئی اور باہر کی دنیا کے نظاروں کی رنگینی نے اتنا سرشار کیا کہ کھڑکی سے لٹک گئے اور اپنے منصب کو فراموش کر گئے۔
دورِ اصلاح کی عقلیت اور اصلاح پسندی اور مقصدی لے نے یہ سمجھایا کہ خارجی اشیا کا بیان ہی سب کچھ ہے اور ان کی اہمیت پر زور دے کر ہم لوگوں کو سنجیدہ، نفع بخش اور مفید کاموں کی طرف مائل کر سکتے ہیں۔ اس رنگ کی بھی ضرورت تھی مگر ادب میں یہی رنگ سب کچھ نہیں ہے۔ اس رنگ نے جہاں ہمارے ادب کی بہت سی کوتاہیوں کو دور کیا وہاں ایک نیا مرض بھی پیدا کیا یعنی ادب سماجی دستاویز یا اخلاقی صحیفہ یا سیاسی منشور بن گیا۔ فن کار کی انفرادیت کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ کوئی اپنا نہ رہا، سب کا ہوگیا۔
ہمارا قدیم سرمایہ اس نئی عینک کے مطابق ایک ویرانہ ٹھہرا جس میں کہیں کہیں کسی میرؔ، نظیرؔ، انیسؔ، غالبؔ کا نخلستان نظر آتا ہے۔ ہماری شاعری تقلیدی، مصنوعی اور بدیسی ٹھہری، جس میں نہ مقامی رنگ ملا، نہ فطرت کی پرستش، نہ سماج کی اصلاح کا جوش، نہ نیکی، نہ نجات۔ صرف نشہ اور شاخ نبات۔ آزادؔ اور حالیؔ نے ہمارے کلاسیکی سرمائے پر جو اعتراضات کیے تھے، ان کے اثر سے غزل کی شاعری نیم وحشیانہ صنفِ شاعری ٹھہری۔ نظریہ نظر سے زیادہ اہم ہوگیا۔ حالیؔ کی عظمت یہ قرار پائی کہ انھوں نے قوم کا مرثیہ لکھا اور اقبالؔ کی یہ کہ انھوں نے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے جگایا۔ نظم اس لیے ضروری ٹھہری کہ اس میں آغاز، وسط اور تکمیل کا احساس ہوتا ہے۔ شعر کی زبان کے لیے بول چال کی زبان سے قریب ہونا ضروری ٹھہرا اور نظم کے لیے سیاسی اور سماجی حقائق اور اہم واقعات کی ترجمانی اور تشریح۔
چنانچہ رام بابو سکسینہ، کلیم الدین احمد اور صادق نے اردو ادب کی تاریخ اس طرح لکھی کہ وہ بیشتر گناہوں اور چند نیک کاموں کا سلسلہ ہے اور اردو ادب چونکہ نہ انگریزی ادب کی سی بلندی رکھتا ہے نہ بنگالی یا ہندی کی سی علاقائیت، اس لیے یہ ایک جوئے کم آب ہے جو صرف شہر کے باغوں اور بے فکروں کی محفل میں دل بستگی کا سامان مہیا کر سکتا ہے۔ اسے نہ تقدیر امم کا راز معلوم ہے، نہ حیات و کائنات کے امکانات کا علم۔ دنیا کے ترقی یافتہ ادبیات کے مقابلے میں یہ جنس کم مایہ کس طرح ٹھہر سکتی ہے لیکن اس نظریے میں ایک بڑی حقیقت کو فراموش کر دیا گیا، جس کی طرف ارباب نظر اشارہ کر رہے ہیں۔
ایڈمنڈ لیچ ایک مضمون میں لکھتا ہے، ’’ہر سماج کی تہذیب اپنے پس منظر میں معنی دیتی ہے۔ یہ نہ سچی ہوتی ہے نہ جھوٹی۔ نہ اچھی نہ بری، نہ دانا نہ نادان۔ انسان ہر جگہ یکساں ہے۔ تکنیکی علمیت کے معنی نہ اخلاقی برتری کے ہیں نہ بہتر ذہن کے۔‘‘
اردو ادب ایک جدید ہندوستانی زبان کا ادب ہے جس کے تناور درخت کو ہندوستان کی سرزمین سے طاقت ملی ہے لیکن جس کے برگ و بار کی شادابی اور خوش نمائی میں عجم کے حسنِ طبیعت نے بڑی حد تک اور عرب کے سوز دروں نے تھوڑا سا حصہ لیا ہے اور جس میں وسط ایشیا کی مصافِ زیست کی سیرتِ فولاد اور بزمِ عشرت کے حریر و پرنیاں کا بانکپن اور کھلنڈرا پن شامل ہے جس نے بازار کے تہذیبی ادارے سے چلن کی طاقت لی، جسے صوفیوں نے خمارِ رسوم و قیود سے آزاد کیا اور ایک ذہنی رواداری اور وسیع المشربی سکھائی اور جسے دربار نے نفاست اور چابک دستی عطا کی۔ اس کی بساطِ ادب پر فارسی کا جو گہرا اثر ہے وہ کوئی دھبا نہیں، گل کاری ہے کیونکہ فارسی وہ آریائی زبان ہے جس کا سنسکرت سے قریبی رشتہ ہے اور جو اتنے عرصے تک ہندوستان میں سرکاری زبان رہی ہے کہ جس طرح قدیم ہندوستان کی کنجی سنسکرت ہے، اسی طرح وسطی دور کے ہندوستان کی کنجی فارسی ہے جسے ایرانی سبکِ ہندی کہتے ہیں تو اس کی ہندوستانیت واضح کر دیتے ہیں۔
اس کا شہری مزاج کوئی جرم نہیں کیونکہ دیہات سے شہر کی طرف میلان قانونِ فطرت ہے۔ اس نے مذہبی اور متصوفانہ خیالات سے گہرا اثر قبول کرنے کے باوجود جس طرح دنیا کے کاروبار میں سر کھپایا اور آدمی کے مختلف روپ دکھائے ہیں یعنی Secularization کو اپنا یاہے وہ اس کا طرۂ امتیاز ہے۔ اس لیے اگر اردو ادب ازمنۂ وسطیٰ کے ہندوستان کے سارے اتار چڑھاؤ اور درد و داغ اور سوز و ساز اور نشے اور نکتہ سنجی کو واضح کرتا ہے اور ہر اثر کو جذب کر کے اور ہر موجِ ہوا کو اپنی شراب کی تاثیر دکھانے کا موقع دے کر ماضی کا گنجینہ، حال کا آئینہ اور مستقبل کا اشاریہ ہوتا ہے تو یہ اس کا ایک ایسا کارنامہ ہے جس پر ہمیں شرمانے کے بجائے فخر کرنا چاہیے، مگر ہاں اور ہندوستانی اور عالمی اور آفاقی ہونے کی کوشش میں برابر لگے رہنا چاہیے۔
اس نظر سے دیکھا جائے تو ہمارا ادبی سرمایہ ہمالیہ کے ہندوستان کی طرح نظر آتا ہے جس میں غالبؔ ایورسٹ کی چوٹی کی طرح ہیں مگر جس میں کنچن چنگا، کے ٹو، ننگا پربت، نندا دیوی، ترشول کی جگہ، میرؔ، سوداؔ، نظیر، انیسؔ، اقبالؔ کے مینار ہیں اور پھر سرسبز وادیاں ہیں، تند دریا ہیں، برف پوش پہاڑوں کے دامن میں نیلا آنچل پھیلائے جھیلیں ہیں، ہنستے کھلکھلاتے پھولوں کے تختے ہیں۔ کالی، بھیانک مگر ایک پُرکشش جلال رکھنے والی چٹانیں ہیں۔
غرض ہزار شیوۂ حسن ہے اور ہزار داستانِ عشق اور اگر اس کی شعری زبان میں فارسی تراکیب کی عبارت اشارت اور ادا سے کام لیا گیا ہے تو اس لیے کہ لفظ نشتر یا تلوار بن جائے یا طلسم ہوش ربا کا وہ ترنج جس کے پھٹنے سے ہر ٹکڑے سے ایک نیا ترنج پیدا ہوتا ہے، اس لیے اس کا اردو پن صرف حالیؔ کی مناجاتِ بیوہ یا آرزوؔ کی سریلی بانسری کا اردو پن نہ ٹھہرےگا، بلکہ غالبؔ کا اردو پن بھی مانا جائےگا جو اپنے اندر اردو کے سرمائے کی ساری رعنائی و زیبائی، اس کے ماضی کی ساری صلابت، اس کی فکر کی ساری آفاقیت، اس کی تہذیب کی ساری ارضیت و ماورائیت، تلاش حق کی ساری نیکی اور دھرتی کی مٹی کی ساری بوباس اور آدمی کی بلندی و پستی کی ساری نیرنگی لیے ہوئے ہے اور اس لیے وہ ابتدائی دور میں اپنے فکر کے لیے دوسروں کی گھسی پٹی زبان استعمال نہیں کرتا بلکہ اپنے خیال کی پری کو شیشے میں اتارنے کے لیے سیکڑوں جتن کرتا ہے۔ قانونِ باغبانیِ صحرا لکھنے کے لیے خس و خاشاک سے بھی گزرتا ہے۔ الفاظ کو قابو میں لانے کے لیے زبردستی بھی کرتا ہے مگر بالآخر اس بے ستون سے جوئے شیر نکالنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
غالبؔ کے وہ اشعار جو نسخۂ حمیدیہ میں ہیں لیکن متداول دیوان میں نہیں ہیں، اس لیے اہمیت رکھتے ہیں کہ انھیں نے غالب کو غالبؔ بنایا۔ نسخۂ حمیدیہ کے جواہر پاروں پر اس لیے لوگوں کی نظر نہیں پڑی کہ انھوں نے حالیؔ کی رائے سے متاثر ہوکر اس پر گہری نظر نہیں ڈالی، ورنہ یہ اشعار کس طرح نظرانداز کیے جا سکتے تھے۔
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقش پا پایا
خاک بازیِ امید، کارخانۂ طفلی
یاس کو دوعالم سے لب بہ خندہ وا پایا
ساغرِ جلوۂ سرشار ہے ہر ذرۂ خاک
شوق دیدار بلا آئینہ ساماں نکلا
سراپا یک آئینہ دار شکستن
ارادہ ہوں یک عالم افسردگاں کا
بہ صورت مکلف، بہ معنی تاسف
اسدؔ میں تبسم ہوں پژمردگاں کا
شرر فرصت نگہ، سامانِ یک عالم چراغاں ہے
بہ قدر رنگ یاں گردش میں ہے پیمانہ محفل کا
ہر رنگ میں جلا اسدؔ فتنہ انتظار
پروانۂ تجلی شمعِ ظہور تھا
فنا کو عشق ہے بے مقصداں حیرت پرستاراں
نہیں رفتارِ عمرِ تیز رَو پابندِ مطلب ہا
اسدؔ سودائے سرسبزی سے ہے تسلیم رنگیں تر
کہ کشتِ خشک اس کا، ابر بے پروا خرام اس کا
بہ تمنا کدۂ حسرتِ ذوق دیدار
دیدہ گو خوں ہو تماشائے چمن مطلب تھا
نہ بخشی فرصت یک شبنمستاں جلوۂ خور نے
تصور نے کیا ساماں ہزار آئینہ بندی کا
کس بات پہ مغرور ہے اے عجز تمنا
سامانِ دعا وحشت و تاثیرِ دعا ہیچ
جوابِ سنگ دلی ہائے دشمناں ہمت
ز دستِ شیشۂ دلہائے دوستاں فریاد
اے چرخ خاک بر سرِ تسخیرِ کائنات
لیکن بنائے عہد وفا استوار تر
فانوسِ شمع ہے کفنِ کشتگانِ شوق
در پردہ ہے معاملۂ سوختن ہنوز
فریبِ صنعتِ ایجاد کا تماشا دیکھ
نگاہ عکس فروش و خیال آئینہ ساز
تماشائے گلشن، تمنائے چیدن
بہار آفرینا، گنہ گار ہیں ہم
دیر و حرم آئینۂ تکرار تمنا
واماندگی شوق تراشے ہے پناہیں
تو پست فطرت اور خیالِ بسا بلند
اے طفل خود معاملہ قدرےعصا بلند
تمیزِ زشتی و نیکی میں لاکھ باتیں ہیں
بہ عکسِ آئینہ یک فردِ سادہ رکھتے ہیں
معادف بے ہُدہ گوئی ہیں ناصحانِ عزیز
دلے بدست نگارے ندادہ رکھتے ہیں
اسدؔ شکوہ کفر و دعا ناسپاسی
ہجوم تمنا سے ناچار ہیں ہم
میں چشم واکشادہ و نرگس نظر فریب
لیکن عبث کہ شبنمِ خورشید دیدہ ہوں
پیدا نہیں ہے اصلِ تگ و تازِ جستجو
مانند موجِ آب زبانِ بریدہ ہوں
کوئی آگاہ نہیں باطن ہم دیگر ے
ہے ہر اک فرد جہاں میں ورقِ ناخواند
طاقت فسانہ باد، اندیشہ شعلہ ایجاد
اے غم ہنوز آتش، اے دل ہنوز خامی
ہے یاس میں اسدؔ کو ساقی سے بھی فراغت
دریا سے خشک گزری مستوں کی تشنہ کامی
بے چشمِ دل نہ کر ہوسِ سیر لالہ زار
یعنی یہ ہر ورق ورقِ انتخاب ہے
تاچند پست فطرتیِ طبعِ آرزو
یا رب ملے بلندیٔ دستِ دعا مجھے
یک بار امتحانِ ہوس بھی ضرور ہے
اے جوشِ عشق بادۂ صبر آزما مجھے
اسدؔ بند قبائے یار ہے فردوس کا غنچہ
اگر وا ہو تو دکھلا دوں کہ اک عالم گلستاں ہے
اسدؔ جمعیت دل در کنارِ بے خودی خوشتر
دوعالم آگہی سامانِ یک خوابِ پریشاں ہے
جامِ ہر ذرہ ہے سرشارِ تمنا مجھ سے
کس کا دل ہے کہ دو عالم میں لگایا ہے مجھے
ابر روتا ہے کہ بزم طرب آمادہ کرو
برق ہنستی ہے کہ فرصت کوئی دم ہے مجھ کو
نسخۂ حمیدیہ میں کم سے کم تین سو شعر ایسے ہیں جنھیں غالبؔ کے متداول دیوان میں جگہ ملنی چاہیے تھی اور متدوال دیوان میں کم سے کم سو شعر ایسے نکلیں گے جو غالبؔ کے شایانِ شان نہیں اور خارج کیے جانے چاہئے تھے۔ میں نے ابھی جو شعر پڑھے ہیں ان کا تفصیلی تجزیہ تو یہاں وقت کی کمی کی وجہ سے ممکن نہیں لیکن ان میں چند ایسی خصوصیات ہیں جن کی طرف توجہ دلانی ضروری ہے۔
پہلی چیز غالبؔ کے تخئیل کی پرواز ہے جو دشتِ امکان کو ایک نقشِ پا سمجھتا ہے۔ یہاں تمنا کا دوسرا قدم اور دشتِ امکاں کی ترکیب دونوں قابل غور ہیں۔ کوئی دوسرا شاعر بزمِ امکاں کہتا، مگر دشتِ امکاں میں غالبؔ نے امکانات کی وسعت اور ویرانی کو جس طرح اسیر کر لیا ہے، انہیں کا حصہ ہے، یہی تخئیل ہر ذرۂ خاک کو ساغرِ جلوۂ سرشار کہتا ہے اور شوق کی آئینہ سامانی کو بلا بتا کر اس کی شدت اور اس کی قیامت کی کشش کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
یہ تخیل فریبِ صنعتِ ایجاد کا تماشا دیکھنے کے لیے عکس فروش نگاہ اور آئینہ ساز خیال دونوں کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ دیر و حرم کو آئینۂ تکرار تمنا بتاتا ہے۔ تمیز زشتی و نیکی کا فریب واضح کرتا ہے۔ ہر فرد کو ورقِ ناخواندہ بتاتا ہے۔ ہوس کا امتحان کرنا چاہتا ہے۔ طاقت کو فسانۂ باد اور شعلہ ایجاد کہتا ہے۔ بندِ قبائے یار کو ایک عالم گلستاں کہہ کر ذہن میں کیسے کیسے جادو جگاتا ہے اور دو عالم آگہی کو سامانِ صد خوابِ پریشاں کہہ کر ایک بے خودی کا سہارا ڈھونڈتا ہے۔
دوسری چیز غالبؔ کی نظر کی گہرائی ہے جو زندگی کے تضادات کو دیکھ لیتی ہے اور ان میں ایک جدلیاتی عمل محسوس کر لیتی ہے۔ لطیفؔ نے انھیں تضادات کی وجہ سے بلا سوچے سمجھے کہہ دیا کہ غالب نے ایک منتشر زاویۂ نگاہ کے سائے میں ایک منتشر زندگی بسر کی اور ہمارے لیے ایسی شاعری چھوڑی جو روحانی ہم آہنگی سے معرا ہے۔ حالانکہ انھوں نے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا کہ شاعری کی زبان اس لیے بصیرت کے ابلاغ پر زیادہ قادر ہے کہ اس میں نثر کے مقابلے میں تضادات بھی ہو سکتے ہیں۔ گویا شاعری کی زبان بہ یک وقت زیادہ وجدانی اور اس لیے مبہم اور ایک معنی میں زیادہ قطعی ہوتی ہے۔
مشہور انگریزی شاعر ڈبلیو، بی میٹیس کے باپ نے اس سے کہا کہ ایک شاعر کو صبح کو خدا میں اپنےعقیدے کا اظہار کرنا چاہیے اور شام کو اس میں شک کرنا چاہیے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ شیکسپیئرؔ کے عقائد کیا تھے کیونکہ اس کے بہت سے عقائد تھے جو ایک دوسرے سے متضاد تھے۔ مذہبی عقیدہ ہو یا سیاسی نظریہ یا اخلاقی تصور، شاعر کے لیے یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ دیو مالا یا پلاٹ۔ ییٹس yeast کے یہاں قدیم آئرش قصوں اور روحوں کا ذکر بہت ملتا ہے۔ جب یہ روحیں اس کے اعصاب پر سوار ہونے لگیں تو اس نے کہا کہ ٹوٹے پھوٹے بے ربط جملوں میں اور بد خط تحریر میں جو کچھ آ جاتا تھا وہ اتنا ہیجان انگیز اور اتنا گمبھیر معلوم ہوتا تھا کہ میں زندگی کا بقیہ حصہ ان منتشر جملوں کو جوڑنے اور ان کی توجیہ کرنے کے لیے صرف کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ تب ان روحوں نے جواب دیا، ’’نہیں ہم تو تمہیں شاعری کے لیے استعارے دینے آئے ہیں۔‘‘
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ غزل گو شاعر کی بے ربطی اور غالبؔ کے یہاں تصویر کے دونوں رخ اور زندگی کے تضادات کا احساس ان کی کمزوری نہیں، طاقت ہے۔ غالبؔ کے یہاں ایک مرتب نظریۂ زندگی تلاش کرنا اس لیے بے سود ہے کہ غالبؔ جانتے ہیں کہ زندگی ایسی عجیب، ایسی پیچیدہ اور تضادات سے ایسی مملو ہے کہ اسے کسی فارمولے میں مقید نہیں کیا جا سکتا، نہ اسے کوئی ایک لیبل دیا جا سکتا ہے کیونکہ ہر فارمولا اور لیبل زندگی کے ایک پہلو کی عکاسی کرے گا، کوئی دوسرا پہلو اس کی گرفت سے نکل جائے گا۔ غالبؔ اور شیکسپیئرؔ ہمیں جس طرح زندگی کے عجائبات و تضادات، اس کی معنویت اور کبھی کبھی بے معنویت کا احساس دلاتے ہیں، یہ ان کی بڑائی کی دلیل ہے۔ یہ زندگی سے آنکھیں چار کرنا اور اس کے ہر نیرنگ اور ہر جلوے کی تاب لانے کی سعی کرنا کسی معمولی شخصیت کے بس کی بات نہیں ہے۔
تیسری چیز جو ان اشعار سے واضح ہوتی ہے وہ غالبؔ کا فن، اس کی بلاغت، اس کی پہلو داری، تہہ داری اور تراکیب کے ذریعے سے اس کی معنی آفرینی وحسن آفرینی اور اس کا اختصار ہے۔ دشتِ امکاں کی بلاغت کی طرف میں اشارہ کر چکا ہوں لیکن خاک بازیِ امید، سودائے سرسبزی، تمنا کدۂ حسرتِ ذوقِ دیدار، فرصت یک شبنمستاں، شیشۂ دلہائے دوستاں، مسکن کشتگان شوق، معاملۂ سوختن، تمنائے چیدن، آئینۂ تکرار، دلے بدست نگارے دادہ، شبنم خورشید دیدہ، ورقِ ناخواندہ، فسانۂ باد، شعلۂ ایجاد، بادۂ صبر آزما، دوعالم آگہی، یک خوابِ پریشاں، اپنی تہہ داری اور پہلوداری کی وجہ سے ذہن میں چراغاں کرتی ہیں۔ یہ بڑی ستم ظریفی ہے کہ سادگی کے دل دادہ جلووں اور رنگوں کی اس قوسِ قزح کو اردو سے خارج کرنا چاہتے ہیں۔ پھر غالبؔ کی اس زبان کو مصنوعی کہنا اور اس کی خلاقانہ صلاحیت کو نظرانداز کرنا، انسانی ذہن کے اکتساب اور تہذیب کی ہنرمندی کے کمال کو نظر انداز کرنا ہے۔
میں نے بیس برس پہلے اپنے ایک مضمون میں کہا تھا کہ غالبؔ نے اردو شاعری کو ایک ذہن دیا۔ اس کا یہ مطلب یہ تھا کہ غالبؔ دوسروں کے عطا کیے ہوئے خیالات اور عام مسلمات کو آنکھ بند کر کے ماننے اور مانوس جلوے دیکھنے اور دکھانے پر قانع نہ تھے۔ ان کی اپنی نظر تھی اور انھوں نے زندگی کا اتنا غایر مطالعہ کیا تھا کہ ان میں ایک آگہی یا دانش مندی (Wisdom) پیدا ہو گئی تھی جو سوال کرتی تھی اور سوال کر کے جواب کی طرف اشارہ کرتی تھی۔ جو نور کے ساتھ لپٹی ہوئی ظلمت، لطافت کے ساتھ کثافت، بندگی میں خدائی دیکھ لیتی تھی اور ان کے معنی و مقصد دریافت کرنا چاہتی تھی، جو پر سکون سطح آب کی تہہ میں طوفان اور تعمیر میں مضمر تخریب کے رمز کو سمجھتی تھی۔ جو بہ یک وقت برق کی عبادت اور حاصل کے افسوس کی عجوبہ کاری کی تہہ تک پہنچنا چاہتی تھی، جو تخئیل کی مدد سے تجربے کی معنویت تک اور تجربے کی معنویت سے زندگی کی معنویت تک پہنچتی تھی اور اس طرح ہمیں مانوس چیزوں کا نیا پن اور نئی چیزوں کا نیاپن اور نئی چیزوں میں مانوس لے دکھا کر اپنا آشوبِ آگہی ہمارے اندر منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔
غالبؔ سے پہلے غزل یا تو جذبے کی ترنگ تھی یا واردات قلبیہ کا مرقع یا حدیثِ دلبری، شاعر کے شوق کی دنیا تھی یا حسن میں کھو جانے کی آرزو رکھتی تھی یا زندگی کی عام سچائیوں اور فطرتِ انسانی کے جانے پہچانے نقوش کو ابھارنے میں مصروف تھی۔ غالبؔ کی غزل اس شوق کا رجز ہے جو کل کائنات کو اپنے آغوش میں لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس دید کا ترانہ ہے جو دیواروں میں روزن اور رسوائی، انداز استغنائے حسن اور اس دانش کا نغمہ ہے جو کسی شوخ سے آزردگی میں ایک انداز جنوں اور دامِ ہرموج میں حلقۂ صد کامِ نہنگ کا عرفان رکھتی ہے۔
نظیرؔ بچوں کی طرح زندگی کے ہر نئے تماشے میں کھو جاتے ہیں۔ دنیا کی بے ثباتی کا احساس انھیں بار بار ایک رنگین لمحے کی عشرت کی طرف لے جاتا ہے۔ سوداؔ اس لیے قہقہہ لگاتے ہیں کہ لوگ ان کے آنسو نہ دیکھ سکیں۔ اقبالؔ آدم کو آدابِ خداوندی سکھانے میں اس قدر منہمک ہیں کہ خوئے آدم بعض اوقات ان کی نگاہوں سے روپوش ہو جاتی ہے۔ صرف غالبؔ ایک ایسا جان دار اور براق ذہن رکھتے ہیں کہ انھیں آدمی کے انسان بننے کی دشواری کا علم ہے، جو واقعات کی سختی کے باوجود جانِ عزیز کو نہیں بھولتے۔ جو زہر غم کے رگ و پے میں اترنے کے منتظر ہیں، جنھیں اس دنیا کی سیہ مستی، ابر باراں، خزاں وبہار، نظربازی و ذوقِ دیدار اور روزنِ دیوار عزیز ہیں، جن کے یہاں جسم کی آنچ ہے مگر زور دماغ پر ہے، جن کی تشکیک ایک نئے ایمان کی تلاش، جن کی عقلیت گوشت میں ہڈی دریافت کرنے کی کوشش اور جن کی شوخی اندیشہ کائنات کے معنی و مقصد اور حیات کے مفہوم تک پہنچنے کی داستان ہے۔ غالبؔ نے ایک شعر میں خضر کو للکارا ہے،
وہ زندہ ہم ہیں کہ روشناسِ خلق اے خضر
نہ تم کہ چور بنے عمرِ جاوداں کے لیے
اور روشناس خلق ہونے کا زخم یہ گل کھلاتا ہے،
پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسدؔ
ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں
اس طرح اپنی ناامیدی و ناکامی کے ہاتھوں اس درجہ پر پہونچ گئے ہیں،
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے
مگر یہ بھی کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں،
غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس
برق سے کرتے ہیں روشن شمعِ ماتم خانہ ہم
رگ و پے میں جب اترے زہرِ غم تب دیکھیے کیا ہو
ابھی تو تلخیِ کام و دہن کی آزمایش ہے
ایک طرف کہتے ہیں،
ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام
ایک مرگِ ناگہانی اور ہے
اور یہ بھی ارشاد ہے،
خوں ہو کے جگر آنکھ سے ٹپکا نہیں اے مرگ
رہنے دے مجھے یاں کہ ابھی کام بہت ہے
یہ سائلؔ دہلوی کے شیخ کا نقش قدم نہیں جو یوں بھی ہے اور یوں بھی، بلکہ دو مستقل سچائیوں، دو اٹل حقیقتوں، دو الگ پہلوؤں کا احساس ہے جن سے زندگی عبارت ہے اور جن کے ایک دوسرے پر عمل اور رد عمل سے زندگی کی پیچیدگی اور عظمت، اس کا آشوب اور قیامت، اس کا جلال اور جمال، اس کی دلبری اور قاہری کا راز سمجھ میں آتا ہے۔ اپنے ہم عصروں میں غالبؔ اس لحاظ سے ممتاز ہیں کہ وہ ذوقِ جمال کی اس معروضیت تک پہنچ جاتے ہیں جہاں حسن سے تمتع کا سوال نہیں پیدا ہوتا کیونکہ حسن بہرحال حسن ہے اور اس لیے خیر ہے اور اس لیے صداقت،
نہیں نگار کو الفت نہ ہو نگار تو ہے
روانیِ روش و مستیِ ادا کہیے
نہیں بہار کو فرصت نہ ہو بہار تو ہے
طراوتِ چمن و خوبیِ ہوا کہیے
لیکن غالبؔ کی نظر حسن کے کسی ایک روپ میں گرفتار نہیں ہے، وہ اسے ہر رنگ میں پہچانتی ہے اور بہ بانگِ دہل کہہ سکتی ہے،
ہے رنگِ لالہ و گل و نسریں جدا جدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے
سر پائے خم پہ چاہیے ہنگامِ بے خودی
رو سوئے قبلہ وقتِ مناجات چاہیے
یعنی بہ حسبِ گردشِ پیمانۂ صفات
عارف ہمیشہ مستِ مئے ذات چاہیے
کثرت میں وحدت کا یہ احساس صوفی یا عاشق کے لیے ہی بصیرت نہیں رکھتا، سیکولر ہندوستان کے لیے بھی ایک دعوت اور ایک چیلنج ہے کیونکہ ہندوستانی تہذیب کی رنگا رنگی اور اس میں ایک وحدت کو لوگوں نے زبان سے تو مان لیا مگر دل سے قبول نہیں کیا اور ایمان کے لیے اقرار باللسان کے علاوہ تصدیق بالقلب بھی ضروری ہے۔
ہر دور کی عام بصیرت محدود ہوتی ہے۔ سماج کا بڑا حصہ اپنی حالت پر قائم رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک چھوٹا اور بیدار حصہ اسے بدلنے کی یا اس کے قصر و ایوان کے رخنے دکھانے کی۔ یہ بیدار حصہ اپنی بستی میں اجنبی بن جاتا ہے۔ یہ اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتا ہے۔ اس کی بات لوگ یا تو سمجھنا نہیں چاہتے یا سمجھنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ مانوس جلووں کے طلسم کو توڑتا ہے، دیوتاؤں کے مٹی کے پاؤں دکھاتا ہے۔ تاج و تخت کی پستی اور بوریائے فرش کی عظمت واضح کرتا ہے۔ ساغرِ جم سے جام سفال کو بہتر ثابت کرتا ہے۔ خیر و شر کے پیمانے بدل کر نئے سرے سے خیر و شر کے معیار متعین کرتا ہے۔
کبھی فردوس میں دوزخ کو ملانا چاہتا ہے اور کبھی طاعت کے تصور سے سرشار ہو کر بہشت کو دوزخ میں ڈال دینا چاہتا ہے۔ سبحہ و زنار کی حد بندیوں میں وفاداری کی آزمایش دیکھتا ہے۔ یہ بہلاتا نہیں، چونکاتا ہے اور سکون کے بہ جائے خلش و اضطراب پیدا کرتا ہے۔ قدرتی طور پر اس کی بات لوگوں کو مشکل معلوم ہوتی ہے۔ وہ ایک شاہراہ پر چل رہے ہیں۔ یہ انہیں دشت وصحرا سے گزرنے کی دعوت دیتا ہے۔ بڑے شاعر اس چھوٹے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اس لیے ان کے دور میں ان کی آواز اجنبی معلوم ہوتی ہے۔ دیکھیے غالبؔ کے یہ اشعار ہم سے کیا کہتے ہیں،
ہوں گرمیِٔ نشاطِ تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیبِ گلشنِ ناآفریدہ ہوں
نفسِ قیس کہ ہے چشم و چراغِ صحرا
گر نہیں شمعِ سیہ خانۂ لیلیٰ نہ سہی
ہرگز کسی کے دل میں نہیں ہے مری جگہ
ہوں میں کلامِ نغز ولے ناشنیدہ ہوں
جو چاہیے نہیں ہے وہ مری قدر منزلت
میں یوسفِ بہ قیمتِ اول خریدہ ہوں
نگاہِ عبرت افسوں، گاہ برق و گاہ مشعل ہے
ہوا ہر خلوت و جلوت سے حاصل ذوقِ تنہائی
غالبؔ کے دور میں ازمنۂ وسطی کے عام ذہن کے مطابق فطرت ایک مستقل معجزہ تھی جسے ایک ماورائی طاقت کی لمحہ بہ لمحہ مدد یا ہدایت نے چلا رکھا تھا۔ عالم طبیعی اور فطرتِ انسانی مستقل اور مقرر قوانین کے پابند سمجھتے جاتے تھے۔ اب یہ بات روز بہ روز واضح ہوتی جا رہی ہے کہ نہ تو عالم طبیعی کے قوانین کو اٹل اور قطعی کہا جا سکتا ہے اور نہ فطرتِ انسانی کے اسرار و رموز اور پیچ و خم کا ہمیں پورا علم ہے۔ اس لیے حقیقت کے بہت سے روپ ہو سکتے ہیں اور شعر و ادب جس حقیقت کو پیش کرتا ہے وہ اتنی اہم ہے کہ اس کو نظر انداز کرکے ہم ذہنی افلاس، تخئیلی کم مایگی اور بالآخر شخصیت کی کجی تک سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
شعر و ادب اس وقت عظیم ہوتا ہے جب وہ افکار و عقیدے، سوال اور جواب، آسمان اور زمین، ماورائیت اور ارضیت، ملکوتیت اور شیطنت سب سے آشنا ہو، جب وہ خیال کے نشے کو لفظ کی مستی اور لفظ کی مستی کو آشوبِ آگہی بنا سکے۔ غالبؔ نے سوال کیے، اپنے سے، دوسروں سے، حسن سے، خدا سے، ان کے کلام میں کیوں، کیا اور کیسے کی بھرمار ہے۔ سوال کرنا بہ ذات خود ایک جواب کا اشاریہ ہے، اس لیے میرے نزدیک غالبؔ کی تشکیک، ان کی ذہنی جستجو اور اس جستجو کی توانائی کو ظاہر کرتی ہے۔ کیا ان سوالوں میں آپ کو ایک جواب نہیں ملتا،
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
شکنِ زلفِ عنبریں کیوں ہے
نگہ چشمِ سرمہ سا کیا ہے
سبزۂ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا
میں اور بزم مے سے یوں تشنہ کام آؤں
گر میں نے کی تھی توبہ ساقی کو کیا ہوا تھا
کس بات پہ مغرور ہے اے عجز تمنا
سامانِ دعا وحشت و تاثیر دعا ہیچ
کیوں نہ فردوس کو دوزخ میں ملا لیں یا رب
سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی
غالبؔ کی شاعری اس لیے ہماری نظر میں بڑی معنویت رکھتی ہے کہ اس میں فنکار کی اپنے فن سے پوری وفاداری ملتی ہے۔ فن کی تازہ کاری اور لالہ کاری کا جلوۂ صد رنگ ملتا ہے، جو استعارے اور علامت کے ذریعے سے ذہن کو نئے نئے افق عطا کرتا ہے، پھر زندگی کو برابر دیکھنے اور پوری طرح دیکھنے کا عزم نظر آتا ہے۔ وہ آدمیت ملتی ہے جو آدمی کے ہر رنگ سے آشنا ہے۔ وہ دانش مندی ملتی ہے جو اپنے کو پہچاننے اور دوسروں کو پرکھنے میں مدد دیتی ہے۔ وہ شوخی ملتی ہے جو انھیں کے الفاظ میں رنج و راحت اور سختی و سستی کو ہموار کر سکے اور جو ہر چاند میں دھبے اور ہر ذرے میں سورج دکھا سکے۔ وہ شوقِ بے پروا ملتا ہے جو بستیاں بساتا ہے اور صحرا میں پھول کھلاتا ہے۔ وہ شخصیت ملتی ہے جس نے دنیا دیکھی بھی ہے اور برتی بھی اور جس نے انسان کو ہر رنگ میں چاہا ہے۔
غالبؔ سے سر سید نے، حالیؔ نے، اقبالؔ نے، فانیؔ نے، ثاقبؔ، عزیزؔ، صفیؔ، یگانہؔ نے ترقی پسند ادب اور نئی شاعری سبھی نے اثر قبول کیا ہے اور ابھی اس گنجینۂ معانی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ فن کی یہ بصیرت اس دور میں جب کہ سائنس اور سیاست دونوں نے روح و ذہن کو بہت سے زخم لگائے ہیں، آج کے انسانوں کو اپنی ذات کے عرفان اور کائنات سے ایک نیا اور صحت مند رشتہ قائم کرنے میں بڑی معاون ہو سکتی ہے۔ اس لیے شاعر کے اس دعوے کو تسلیم کرنے میں ہمیں پس و پیش نہیں ہونا چاہیے،
یک بخت اوج نذرِ سبکباریِ اسدؔ
سر پر وبالِ سایۂ دامِ ہما نہ مانگ