غالب: خوف پر قابو پانے کی ایک کوشش


مجھے نہیں معلوم کہ کتنے ادیبوں اور شاعروں کوغالب پر لکھتے ہوئے کسی قسم کے خوف کا احساس ہوا ہے یا نہیں؟ اپنے ذاتی تجربے کا اعتراف نہایت عجز سے کرنا چاہتا ہوں کہ جب بھی غالب پراپنا تاثر لکھنے کا خیال آیا ہے تو ایک انجانے خوف نے مجھے ڈرانے اور مجھ پر قابو پانے کی کوشش کی ہے۔ اصل میں یہ مختصر مضمون بھی انجانے خوف پر قابو پانے کی صرف ایک کوشش ہے۔ بہت ممکن ہے کہ میں کسی ماہر غالبیات کا دوست ہوتا یا پیشہ ور محقق ہوتا یا ناقد ہوتا تو مجھے غالب پر لکھنے کے خیال سے خوف نہ آتا، اس لیے کہ ’’غالب کی عادت‘‘ پڑ چکی ہوتی۔اب غالب اردو میں ایک صنعت Industry کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ یہ اتنی بڑی اور پھیلی ہوئی نہیں جتنی کہ یوروپ اور امریکہ میں شیکسپیئر انڈسٹری۔۔ ہاں آہستہ آہستہ غالب انڈسٹری بھی High Cultured Project میں ڈھل رہی ہے۔ یہ کوئی شکایت کی بات نہیں ہے۔ ہر زبان وادب میں ایک نہ ایک شاعر یا ادیب کو یہ اعزاز ملتا رہاہے کہ اس کے ذریعے سے سیکڑوں لوگ باروزگار ہو جاتے ہیں۔ بہرحال مجھے غالب سے خوف آتا ہے، اس لیے کہ اس کی شاعری اور شخصیت کا پہلا سر انہیں ملتا اور اگر کوئی سرا مل جاتا ہے تو اتنا نازک کہ سلجھانے کی کوشش میں یہ الجھ جاتا ہے اور اکثر ٹوٹ جاتا ہے۔بات یہ ہے کہ غالب کوئی جن نہ ہوتے ہوئے بھی بے سروپیر کے آدمی ہیں یعنی ان کی تین آنکھیں ہیں جیسے شوکی۔ وہ ’’نہیں‘‘ اور’’ہاں‘‘ کے علاوہ بھی بہت کچھ زیرلب کہتے ہیں۔ یہ بھی کچھ غلط نہیں ہے کہ ان کے پیر پاتال میں جڑوں کی طرح دور تک تاریکی میں چلے گئے ہیں اور کبھی ان کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی تو نظر کی بھی جست کے باوجود ایسے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا سر آسمانوں کی طرح بے پایاں خلامیں نیم پنہاں ہے۔ یہ بھی کچھ زیادہ غلط نہیں ہے کہ ان کی شاعری اور زندگی پر اتنا لکھا جا چکا ہے کہ وہ اب بظاہر ایک کھلی کتاب بن چکے ہیں۔ پھر بھی ان کی شاعری (جیسا کہ مشہور کلیشے ہے) ’’نقاب درنقاب‘‘ اور افسانہ درافسانہ نظرآتی ہے۔ ایک پراسرار فضا چاروں طرف پھیلی ہوئی ۔ سائے اور روشنی کا عجیب کھیل یاتماشہ ہے۔ جتنی تنقید کی روشنی تیز ہوتی جاتی ہے، غالب کی شخصیت مختلف اور متضاد شکلوں اور رنگوں میں کھلتی اور چھپتی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ سو سال کی تنقید کے باوجود غالب کو شیشے میں اتار انہیں جا سکا ہے۔غالب کی شاعری میں ہر طرح کے عناصرتلاش کیے جا چکے ہیں اور کیے جاتے رہیں گے۔ انہیں کل تک جاگیردارانہ دور کا ایک شاعر کہنے والے بھی ان کے کلام سے حرکت و عمل کا پیغام نکال لائے ہیں اور انہیں کسی قدر رجائی اور افادی شاعر ثابت کر رہے ہیں۔ دوسری طرف آج کا Establishment انہیں ’’سیکولر‘‘ ثابت کرکے اردو والوں کی اشک شوئی کر رہا ہے۔ پاسترناک نے میکافسکی کے بارے میں لکھا تھا کہ اس کا کلام درسی کتابوں میں لازمی قرار دیا گیا اور اس کی ’’دوسری موت‘‘ ہوئی ہے۔ اس میں اس کا اپنا ہاتھ نہ تھا۔ میں کچھ اس قسم کی بات کہنے کی جرأت کر رہا ہوں۔ جشن غالب میں غالب کا ہاتھ نہیں ہے۔ ہاں غالب پرستوں کی بن آئی ہے۔ میتھوآرنالڈ نے ورڈزورتھ کے پرستاروں کے بارے میں کہا تھا کہ یہ لوگ ورڈزورتھ کو غلط وجوہ کی بنا پر چاہتے تھے۔ غرضیکہ پرستارغالب کے ہوں یا ورڈزورتھ کے ۔۔۔ دونوں کے یہاں یکساں رویہ پایا جاتا ہے۔ایک پو لش ناقد جان کاٹ (John Kott) نے شیکسپیئر کو اپنا ہم عصر ٹھہرایا ہے۔ میں غالب کو اپنا ہم عصر کہتے ہوئے خوفزدہ ہوں، اس لیے کہ آج کا باغی شاعر یا ادیب غالب کی بے پناہ انانیت کے سامنے مبہوت سا ہو جاتا ہے۔ اس لیے یہ زخمی انانیت ہے اور جس کی بنیاد خوف ہے اور جس کی تسکین تقریباً ناممکن ہے۔ لیکن اس انا کے فروغ نے غالب کے ذہن کو وہ جولانی بخشی کہ ان کی فکر باغی ذہن کو ایک طرف مبہوت کرتی ہے تو دوسرے لمحے ایک Magnet کی طرح اپنے پاس بلاتی ہے، یوں کہ ایک طرح کا ردوقبول کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ بات تو تقریباً طے ہے کہ غالب نارمل آدمی نہیں تھے یعنی وہ کبھی احساس برتری میں مبتلا ملتے ہیں اور کبھی احساس کمتری میں ڈوبے، غرضیکہ ان کا مزاج پارے کی طرح قرار نہیں پاتا۔۔۔ ایک جگہ اپنا تعارف یوں کرتے ہیں،لب خشک درتشنگی مردگاں کازیارت کدہ ہوں دل آزردگاں کاہمہ ناامیدی، ہمہ بدگمانیمیں دل ہوں فریب وفا خوردگاں کاظاہر ہے کہ یہ خیالات کسی ’’متوازن اور صحت مند‘‘ ذہن کے نہیں ہو سکتے۔ ’’زیارت کدہ‘‘ بننے تک ان کو کتنی بار خودکشی کرنی پڑی ہوگی۔ لیکن واقعہ سخت ہے اور جان عزیز۔۔۔ یاسیت میں تقریباً غرق ہو جانے کے باوجود حقیقت کا دامن نہ چھوڑنا ہی غالب کی شاعرانہ بصیرت کا ثبوت ہے۔ جارج اسٹائیسز نے ہومر کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ دیوتاؤں کی زور آزمائی کے دوران ایک بظاہر نہایت معمولی سی بات کہہ جاتا ہے اور اس طرح دیومالائی دنیا میں رہتے ہوئے بھی ارضی حقیقت نگاری کا ثبوت دیتا ہے۔ غالب بھی فلسفیانہ موشگافیوں کے دوران زیرلب ایک ایسی بات کہہ جاتے ہیں،لوں دام بخت خفتہ سے، یک خواب خوش و لے غالب! یہ خوف ہے کہ کہاں سے ادا کروںغالب کی شخصیت میں قابل فخر بے راہ روی تھی۔ یتیمی کاغم، کمسنی کی شادی، بچوں کی متواتر موتیں، مسلسل معاشی پریشانیاں، بےکاری اور’’بے ہنری۔۔۔‘‘ اور اگریہ دشواریاں نہ بھی ہوتیں، تب بھی میرا خیال ہے کہ وہ آسودگی، سکون، عزت اور اس طرح کی دوسری’’سماجی زنجیریں‘‘ زیادہ دنوں تک برداشت نہ کرتے۔ وہ بنیادی طور سے ایک بوہمین تھے۔ انہیں دہلی میں رہتے ہوئے بھی ایک طرح کی ’’جلاوطنی‘‘ کا احساس تھا اور یہ بات ان کے رومینٹک ایگزائل Ramantic Exile ہونے کے ثبوت میں پیش کی جا سکتی ہے اوریہ احساس انہیں اپنے ماحول سے مفاہمت کی کوششوں کے باوجود مطابقت پیدا کرنے نہیں دیتا۔ وہ مقبول عام کی سند انہیں شرطوں پر چاہتے تھے۔ حریص ہونے کے باوجود ان میں بلا کی قناعت تھی۔ ’’استادشہ‘‘ سے چشمک کی بات یونہی نہیں ہے ورنہ وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ ایسی ہی پیچیدہ شخصیت میں وہ طنز فروغ پاتا ہے جس کی ’’نشتریت‘‘ وقت بھی نہیں کم کر پاتا،ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے بےسبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنایہ شعر کہنے والا غالب اپنے کو شعر وادب میں یکتا سمجھتا تھا۔ مگر زمانے کی ناقدری دیکھ کر اس دور کے مروجہ اخلاق پر وار کر جاتا ہے اور یہ وار ہر دور میں Esteblishment پر کیا جا سکتا ہے۔ غالب اپنی ذات کی تلاش میں اپنے ذہن کو بیدار رکھتے ہیں اور صرف جبلتوں کے سہارے جذب کی دنیا میں نہیں جاتے۔ شاید سرور صاحب نے اسی نکتہ کو پیش نظر رکھ کر کہا تھا کہ ’’غالب نے اردو شاعری کو ذہن دیا۔‘‘وہ ’’میں‘‘ کو یکسر بھول کر’’تو‘‘ میں ڈوبنا چاہیں بھی تو یہ کوشش خواہش ہی تک رہتی ہے، اس لیے کہ وہ اس راز کو بخوبی جانتے تھے کہ ذات کی مکمل تلاش ہمیشہ ہی رہتی ہے البتہ اس جستجو میں شخصیت کی نئی تشکیل ہو جاتی ہے اور نئے Dimension اور Vision کے اضافے ہوتے رہتے ہیں اور ہر حادثے، واقعے اور موڑ کے بعد شکست وریخت کا سلسلہ بھی جار ی رہتا ہے۔ ان کے احساسات کی شدت انہیں اس منزل پر پہنچادیتی تھی جو عام لوگوں کی نظر میں ’’بانکپن‘‘ نظر آتا ہے اور یہی شدت انہیں وہ شعر ی تخیل عطا کرتی تھی کہ الفاظ ومعنی اپنے مروجہ استعمال سے الگ ہوکر نئی سمتیں اور ہیئتیں پیدا کرتے تھے،ہمارے ذہن میں اس فکر کا ہے نام وصالکہ گرنہو تو کہاں جائیں ہو تو کیوں کر ہووصال کو ’’فکر‘‘ کا نام دینا ظاہر صوفیانہ خیال ہے مگر اس شعر میں غرق ہونے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ہم آہنگی کی ناممکن جستجو کی خواہش ہے۔ ایک اور شعر سنیے،دل کو میں اور مجھے دل محو وفا رکھتاہے کس قدر ذوق گرفتاری ہم ہے ہم کوپل صراط سے گزرنے کا خیال آنا ہیبت ناک نہیں معلوم ہوتا جتنا کہ اپنی ذات کے کشف میں سماجی اور ذہنی جالے توڑ کر پرواز کرنا اور جبھی تو اس بیاباں کا پتہ چلتا ہے جو چاردیواری سے بہتر نظر آتا ہے،نقصان نہیں جنوں میں بلا سے ہو گھر خرابسوگز زمیں کے بدلے بیاباں گراں نہیںپاتا ہوں اس سے داد کچھ اپنے سخن کی میں روح القدس اگرچہ مرا ہم زباں نہیں’’روح القدس‘‘ بھی ’’کچھ داد‘‘ سے آگے نہ جا سکا۔ غالب نے غزل کے دائرے میں رہ کر خیال وفکر کے وہ تجربے کیے ہیں کہ سو سال کے بعد بھی ہم ان کی قدروقیمت پوری طرح نہیں سمجھ سکتے۔ ظ۔ انصاری نے غالب کی شاعری کو ’’بدن چور شاعری‘‘ کہا۔ اسی لیے غالب پر ہر زاویے سے لکھنے، سوچنے اور سمجھنے کی کوشش ہمیشہ ناتمام رہتی ہے اور اسی لیے مجھے غالب سے خوف آتا ہے کہ یہ شاعر ہر نئے مطالعے میں کچھ نئے گوشے کھولتا ہے اور کچھ گرہیں کستا ہے،کمال گرمی سعی تلاش دید نہ پوچھبرنگ خار مرے آئینے سے جوہر کھینچدہلی میں (اور آج کراچی میں محمد حسن عسکری ذوق پر اسی لیے کتاب لکھ رہے ہیں کہ غالب کو غیراسلامی شاعر ثابت کیا جا سکے) سیکڑوں ایسے ’’اہل ہنر، متوازن اور صحت مند لوگ‘‘ تھے (تنہا مرزا عیش ہی نہ تھے) جنہیں غالب کے کلام اور شخصیت سے ایک Rebel Heretic کی بو آتی تھی۔ ورنہ غالب کو چڑ کر یہ کہنے کی ضرورت نہ تھی، گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی۔جبکہ انہیں صلہ کی پروا بھی تھی اور ستائش کی تمنا بھی کیونکہ یہ فطری تقاضہ ہے البتہ وہ ’’بازار کی مانگ‘‘ دیکھ کرشاعری نہ کر سکے گوکہ انہوں نے قصائد بھی لکھے ہیں مگر انہیں وہ ایک طرح کی ’’کمرشیل رائٹنگ‘‘ سمجھتے ہیں جب ہی تو بلا جھجک ایک ممدوح کا نام بدل کر دوسرے کا نام ڈال دیتے تھے۔’تنہائی‘ غالب کا خاص موضوع ہے۔ وہ ا س کو ہر رخ سے دیکھ، پرکھ اور برت چکے تھے۔ اپنی پہلی غزل کے دوسرے شعر میں وہ اس کا اظہار کرتے ہیں۔ تنہائی کے سماجی اور نفسیاتی عوامل کی بحث کا یہ موقع نہیں ہے، صرف اشارہ کرنا ہی مناسب ہے۔ گھرمیں خاصی رونق تھی۔ احباب اور رشتہ داروں اور شاگردوں کاایک لمبا سلسلہ تھا مگر یہ تنہائی کا زہر ان کی رگ رگ میں سما چکا تھا۔ کبھی کبھی یہی احساس انہیں زندگی کی مقصدیت سے منحرف کر دیتا تھا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ شعوری طور سے بے معنویت کی طرف آ گئے تھے اور انہوں نے رسم ورواج کو یکسر رد کر دیا تھا۔ مگر ان کا تعلق خدا، جنت وجہنم اور دوسرے مذہبی عقائد اور رسوم سے ٹوٹا ٹوٹا سا تھا۔ خالق اور کائنات سے بے تعلقی کا اظہار اکثر جگہ ملتا ہے۔ ظاہر ہے کہ Irony (طنزملیح) کے پردے میں ہی یہ اظہار ممکن تھا،ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھےسے لے کر،دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کوتک کا سفر انحراف کی منزلوں کا سفر ہے ا ور یہ سفر تنہاہی طے کیا جا سکتا ہے۔ غالب کی اذیت کوشی اور خواہش مرگ (Death Wish) کی بے شمار مثالیں ہیں، یہاں پرصرف چند اشعار پیش کرتا ہوں،مجھ کو وہ دوکہ جسے کھا کے نہ پانی مانگوں زہر کچھ اور سہی، آب بقا اور سہیمنحصر مرنے پہ ہو جس کی امیدناامیدی اس کی دیکھا چاہئےواحسر تاکہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھہم کو حریص لذت آزار دیکھ کروحشت آتش دل سے شب تنہائی میں صورت دود رہا سایہ گریزاں مجھ سےغالب نے زمانے کے سردوگرم کے سارے مزے چکھے تھے ۔ انہیں علم تھا کہ ع، یاں تو کوئی سنتا نہیں فریاد کسی کی اور اس سے بڑھ کر وہ آدمی کے لالچ، کمینگی، رشک وحسد، نفرت ومحبت سے واقف تھے۔ بلکہ شاید وہ خود ان جذباتی مراحل سے گزر چکے تھے جب ہی تو اتنی بے باکی سے کہہ سکتے تھے،پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسدڈرتا ہوں آدمی سے کہ مردم گزیدہ ہوںاس منزل تک پہنچ کر بھی صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ غالب دنیا کی بربریت سے اچھی طرح واقف ہیں اور انتہائی تلخ موڈ کی بہترین ترسیل کر گئے ہیں۔ ان سے ان کو ’’انسان دشمن‘‘ ثابت کرنا نہایت مہمل بات ہوگی۔ بالکل اسی طرح ان کے دوستانہ اشعار سے یہ ثابت کرنا کہ وہ انسان دوستی کا پیغام د ے رہے ہیں۔ اصل میں غالب موڈس کے شاعر ہیں ۔ وہ کیفیتوں کو لفظی تصویروں میں ڈھالتے چلے جاتے ہیں۔ ایسے لمحے بھی ان پر گزرتے ہیں کہ نہایت جرأت سے غم کا مقابلہ کرتے ہیں اور فخریہ کہتے ہیں،غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش ازیک نفسبرق سے کرتے ہیں روشن شمع ماتم خانہ ہملیکن اس غزل کے مقطع تک پہنچتے پہنچتے وہ ایک اور ہی عالم میں چلے جاتے ہیں،دائم الحبس اس میں ہیں لاکھوں تمنائیں اسدجانتے ہیں سینہ پر خوں کو زنداں خانہ ہموہ لوگ جوصرف ’’لفظ ومعنی‘‘ کی جستجو میں رہتے ہیں، ان کیفیتوں کی تہہ داریوں سے واقف کم ہی ہوتے ہیں ا س لیے کہ غالب ہر بار ریزہ ریزہ ہوکر ازسرنو جنم لیتے ہیں اور پھر،میں اوراک آفت کا ٹکڑا وہ دل وحشی کہ ہے عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشناسو بار بند عشق سے آزاد ہم ہوئے پر کیا کریں کہ دل ہی عدو ہے فراغ کاجی نہیں یہ دل نہیں یہ غالب خود ہیں۔ وہ ریشم کے کیڑے کی طرح زندگی پسند نہیں کرتے تھے بلکہ وہ ققنس کی طرح اپنی راکھ سے بار بارجنم لیتے رہتے تھے اور اس اذیت کوش لذت سے بھی واقف تھے جس کی مصوری یوں کی ہے،اس شمع کی طرح سے جس کو کوئی بجھادے میں بھی جلے ہوؤں میں ہوں داغ ناتمامیاور انہیں اس کا بھی علم تھا کہ کربناکی کی داستان کا شیرازہ ہربار کیوں بکھرتا ہے۔ چشم کو چاہئے ہر رنگ میں وا ہو جانا۔غالب ہر رنگ کو دیکھنے ہی کے آرزومند نہ تھے بلکہ وہ ہر طرح کے مزے سے واقف بھی تھے۔ ان کے یہاں لمس کی بڑی اہمیت ہے خواہ وہ زہر ہی کیوں نہ ہو، وہ اسے چکھے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ یہ ہر چیز کو چھونے، سونگھنے، پرکھنے، دیکھنے اور برتنے کا جنون انہیں ایک پراسرار شخصیت عطا کرتا ہے ۔ ان کے یہاں تبسم زیرلبی سے لے کر بلند قہقہے گونجتے ہوئے سنائی دیتے ہیں اور وحشت کا یہ عالم بھی ہے،سر پھوڑنا وہ غالب شوریدہ حال کایاد آ گیا مجھے تری دیوار دیکھ کرظاہر ہے جو شخص بےشمار متضاد کیفیتوں کی سطحوں اور تجربات کی تہوں کا شاعر ہوگا، اس کے کلام پرانگلی رکھنا تقریبا ناممکن ہے۔لکھتا ہوں اسد سوزش دل سے سخن گرمتا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پہ انگشتغالب کی شاعری کا ایک بے حد پرلطف پہلو ہے ’’تماشا۔‘‘ انگریزی میں کہا گیا ہے :’’کھیل (تماشا) ہی سب کچھ ہے‘‘ (The play is the thing) انہوں نے ’’تماشا‘‘ کے لفظ کو مختلف موقعوں پر اس طرح استعمال کیا ہے کہ مجھے یقین سا ہونے لگتا ہے کہ وہ اپنی انا (Ego) کو اپنے سے الگ کرکے دیکھنے کا بھی ہنر رکھتے تھے۔ یہی نہیں وہ ذوق تماشا بھی رکھتے تھے اور خود کو تماشا بناکر تماش بین بھی بن جاتے تھے، ’’دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا۔‘‘میری ناچیز رائے میں شاید ہی کسی اردو شاعر نے ’’تماشا‘‘ کے اتنے مختلف روپ کا اتنے مختلف زاویوں سے جائزہ لیا ہو۔ چند اشعاریہ ہیں،تماشا کر اے محو آئینہ داریتجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیںدکھاؤں گا تماشا دی اگر فرصت زمانے نے مرا ہر داغ دل اک تخم ہے سرو چراغاں کااگا ہے گھر میں ہر سوسبزہ ویرانی تماشا کرمدار، اب کھودنے پر گھاس کے، ہے میرے درباں کاحسد سے دل اگر افسردہ ہے، گرم تماشا ہوکہ چشم تنگ، شاید کثرت نظارہ سے واہوغالب کی ہردل عزیزی کا ایک اور پہلو بھی ہے، وہ ہے ان کی wit (مزاح) اور Irony (طنز ملیح) کا نہایت انوکھا ا متزاج۔ وہ جبر کے قائل ہوتے ہوئے بھی سوال کرنے سے باز نہیں آتے۔ ان کے مزاح میں ایک ایسی شگفتگی ہے جو آنسوؤں کو بھی ہنسی کا حصہ سمجھتی ہے،ہوا جب غم سے یوں بے حس توغم کیا سرکے کٹنے کانہ ہوتا گرجداتن سے توزانوپر دھرا ہوتانام کو ہےمرے وہ دکھ کہ کسی کو نہ ملاکام میں میرے ہے وہ فتنہ کہ برپانہ ہواغالب اسی لیے زہر خند کر سکے کہ وہ ’’رقص شرر‘‘ کی پوری روداد جانتے تھے اور جو شخص توقع مٹاکے آگے جا چکا ہو، وہ ہی اصل میں قہقہہ لگانے کا پورا حق رکھتا ہے۔ غالب کا مزاج ان کے یاسیت میں ڈوب کر تیزی سے ابھرنے کی رفتار نے پیدا کیا ہے، اس کے لیے بڑا جگر ہی نہیں بڑی گمبھیر شخصیت بھی چاہئے۔ یارب سے جس انداز میں غالب نے خطاب کیا ہے وہ سر ڈاکٹر محمد اقبال کے بس کی بات نہ تھی،کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یاربسیر کے واسطے تھوڑ ی سی فضا اور سہیغالب کی تلاش ذات، تنہائی، موڈس، اذیت کوشی اور آرزوئے مرگ کی چند مثالیں دے کر میں ہرگز یہ ثابت نہیں کرنا چاہتا کہ میں غالب کو پہچانتا ہوں۔ میں تو دیوان غالب کا کبھی الف سے یے تک ایک نشست میں مطالعہ کر ہی نہیں پاتا۔ چند صفحات کے بعد دیوان الگ رکھ دیتا ہوں، اس لیے کہ مجھے معلوم ہے کہ غالب سے ہر ملاقات ادھوری ہی رہےگی۔ ژال کا کتوکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک درجن ذہنوں کا مالک تھا۔ میں صرف یہ کہنے کی جرأت کروں گا کہ غالب نے صرف نثرونظم ہی لکھی مگر ان کے اندر ایک مصور، ایک ایکٹر، ایک کیمرا مین اور ایک مفکر چھپا ہوا تھا اور پھر اور بھی کتنے روپ ہیں۔ اس لیے ان سے مل کر ایک ’’خوشگوار خوف‘‘ جنم لیتا ہے۔(یہ مضمون جشن غالب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک اجلاس میں مارچ ۱۹۶۹ء میں پڑھا گیا تھا)