غالب کا تفکر

اردو ادب کے مطالعہ کے سلسلہ میں چند بندھے ٹکے میکانکی اصولوں سے کام لینے کی وجہ سے اس وقت تک ہماری رسائی ادیبوں اور شاعروں کی روح تک نہیں ہو سکی ہے۔ وہ روح جو بدلتے ہوئے حالات میں بھی انھیں عظمت بخشتی ہے۔ غالبؔ کے مطالعہ کے سلسلہ میں اس ناکامی کا احساس بہت واضح ہو جاتا ہے۔اردو ادب کی روایات میں فارسی کی تقلید (اور غالبؔ کے معاملہ میں بیدلؔ کی پیروی) کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینے کی وجہ سے شعراء اپنے ماحول سے کٹ کر اپنے شعور کے نہیں، محض معینہ اور مفروضہ شعور کے ترجمان بن کر رہ گئے ہیں اور یہ معینہ شعور چند الفاظ کے الٹ پھیر یا چند تاثرات سے ظاہر کیا جاتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ غالبؔ کے پہلے سوانح نگار اور نقاد مولانا حالیؔ نے بھی ان کی شاعری کو چار خصوصیات میں تقسیم کر دیا اور انھیں کے تحت اشعار کے محاسن اور اثر کی توضیح کر دی۔ یہ وہی حالیؔ ہیں جنھیں شاعری اور زندگی کے تعلق کا مخصوص انداز تھا لیکن انھوں نے بھی عملاً شاعر اور شاعری کے سمجھنے کے لئے جو طریق کار اختیار کیا، اس میں اس تعلق کو پیشِ نظر نہیں رکھا۔ حالیؔ کے علاوہ غالبؔ کے اہم مطالعے ڈاکٹرؔ عبد الرحمن بجنوری اور ڈاکٹر عبداللطیف نے کئے ہیں لیکن یہ دونوں نقاد شاعر سے اس شعور کا مطالبہ کرتے ہیں جس کا ہونا ممکن ہی نہیں تھا، تاہم ان کتابوں سے غور وفکر کے نئے دروازے ضرور کھلتے ہیں۔چنانچہ انھیں دروازوں سے جھانک کر شیخ محمد اکرام نے اصل نجم الدولہ ودبیر الملک مرزااسد اللہ خاں غالبؔ الملقب بہ مرزا نوشہ المتخلص بہ اسدؔ و غالبؔ کو دیکھا اور ان کی نفسیات کا عکس مغل تہذیب کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کی۔ یہ طریقہ حقیقت سے قریب تر تھا۔ اس لئے غالبؔ کے سمجھنے میں محمد اکرام سے بہت مدد ملتی ہے۔ پھر بھی غالبؔ کے ذہن کی تعمیر و تشکیل کرنے والے عناصر کا سراغ وہاں بھی تسکین بخش شکل میں نہیں ملتا اور جب تک ان پہلوؤں کا علم نہ ہو غالبؔ کے ادبی کارناموں کی صحیح قدر و قیمت معین کرنا اور قوم کے تہذیبی سرمایہ میں ان کی جگہ مقرر کرنا تقریباً ناممکن ہے اس بات کو پیش نظر رکھ کر غالبؔ کے شعور کی جستجو اس پس منظر میں کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس سے غالبؔ متاثر ہوئے اور جسے غالبؔ نے متاثر کیا۔ ایسے ہی مطالعہ سے ان کی عظمت اور مقبولیت کا راز کھل سکتا ہے۔تیز رفتاری سے بدلتے ہوئے سماجی تصورات اور نئے سانچوں میں ڈھلتے ہوئے ذوق ادب کی دنیا میں سو سال پیچھے کے تبسم اور ترنم، آہ اور آنسو، خواب اور خیال کی اہمیت محض تاریخی ہوتی ہے یا ان میں ایسے عناصر کی جستجو بھی کی جا سکتی ہے جنھیں انسانی شعور کے مجموعی سرمایہ میں ایک بیش بہا ورثہ کی حیثیت سے جگہ دی جاسکے۔ سوال محض ادبی تنقید کے نقطہ نظر سے قابل غور نہیں بلکہ اس کے جواب پر ہمارے نظریہ تاریخ کی غلطی اور صحت کا دار ومدار بھی ہے۔ ماضی سے حال اور مستقبل کا کیا تعلق ہے؟ تغیر پذیر سماج میں روایت کی جگہ کہاں ہے؟ اور قدیم ادب کے وہ کون سے عناصر ہیں جن کا تحفظ تہذیبی زندگی کو برقرار اور زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہے؟یہ سوالات اس لئے پیدا ہوتے ہیں کہ عملی زندگی میں ہمیں قدیم کے بعض اجزا مٹتے اور بعض تبدیل ہوتے ہوئے حالات میں بھی زوال کا مقابلہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ غالبؔ کی شاعری اس کی ایک اچھی مثال پیش کرتی ہے۔ پھر فلسفہ ادب کے لحاظ سے سوال یہی نہیں ہے کہ غالبؔ آج ہمیں کیوں متاثر کرتا ہے بلکہ اس مسئلہ پر بھی غور کرنا ہے کہ کل کے اشتراکی سماج میں غالبؔ کی کیا جگہ ہوگی۔ تخیل پرست اشتراکی تو سارے قدیم سرمایہ میں آگ لگانے کی آواز بلند کرتے ہیں لیکن اشتراکیوں کے اشتراکی مارکسؔ اور لیننؔ نے ماضی کے تہذیبی سرمایہ کی افادیت جتلاکر اپنی پرشور اور باعمل انقلابی زندگی میں اس سے دلچسپی لے کریہ واضح کر دیا کہ انقلاب کے کسی دور میں وہ ادبی کارنامہ جو قومی ذہن اور انسانی نفس کی ترجمانی کرتا ہے، کبھی بے کار نہیں ہو سکتا۔تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ قدیم محض قدیم ہونے کی وجہ سے بقا کا مستحق قرار پائے گا بلکہ سماجی اور طبقاتی تاریخ پر روشنی ڈالنے اور ہردور میں انسان کی آزادی اور ترقی کی خواہش کو نمایاں کرنے کی جد وجہد کا آئینہ ہونے کے سبب سے ہی ادب تہذیبی ارتقا کا جزو بننے کا حق حاصل کرسکتا ہے۔ جو ادب اپنے دور کی مرکزی کشمکش کا عکس پیش نہیں کرتا وہ نہ تو تاریخی اہمیت رکھتا ہے اور نہ ادبی۔ اس کسوٹی پر پورا اترنے کے بعد ماضی حال کے لئے سبق آموز اور مستقبل کے لئے قیمتی سرمایہ بنتا ہے۔غالبؔ کے مطالعہ کے سلسلہ میں چند نظریاتی مباحث پر غور کرنا نہ صرف مفید ہوگا بلکہ ضروری بھی ہے کیونکہ غالبؔ انیسویں صدی کے اس ہندوستان میں پیدا ہوئے جو مخصوص روایات کا حامل تھا، خاص طرح کا طبقاتی نظام رکھتا تھا، تاریخ، مذہب اور فلسفہ میں پوری طرح اس زندگی کی جھلک نہ تھی جو اس وقت کے معاشی اور معاشرتی انحطاط نے پیدا کیا تھا بلکہ کچھ عقیدے روایت بن کر طرز فکر پر اثرانداز ہوتے رہتے تھے۔ یہ عقیدے اس زمانے میں پیدا نہیں ہوئے تھے جو غالبؔ کا تھا بلکہ دوسرے تاریخی حالات اور مختلف نظام معاشرت نے انہیں جنم دیا تھا۔ صدیوں نے ان میں طرح طرح کے خیالات اور افکار کی آمیزش کی تھی۔ مختلف مذہبی اور فلسفیانہ تصورات ایک دوسرے میں پیوست ہوتے تھے۔ رد وقبول کی بہت سی منزلیں آئی تھیں اور کوئی ایسا نظریۂ حیات اس وقت تک موجود نہ تھا جسے کسی ایک مذہب، طبقہ، گروہ یا مکتبۂ خیال سے وابستہ کیا جا سکے۔ان حالات میں ایک روایت پرست شاعر یا ادیب کے لیے یہ تو ممکن تھاکہ وہ کسی مخصوص عقیدے کا سہارا لے کر اپنا رشتہ اس سے جوڑے رکھے اور بدلتی ہوئی زندگی سے پیدا ہونے والے سوالات سے منہ موڑ کر گذر جائے لیکن غالبؔ کے سے شاعر کے لیے یہ خیال درست نہ ہوگا۔ ان کے شعور کا مطالعہ اسی وجہ سے پیچیدگی پیدا کرتا ہے اور آسانی سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ چونکہ وہ جاگیردار یا فوجی جماعت سے تعلق رکھتے تھے اور مسلمان تھے اس لئے ان کے خیالات اور افکار وہی ہوں گے جو اس گروہ اور مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے ہوا کرتے ہیں۔ تنقید اور تجزیہ کایہ میکانکی طریقہ صحیح نتائج تک رہنمائی نہیں کرتا۔اس میں شک نہیں کہ شاعر اور فنکار کا طبقاتی رجحان اس کے فلسفۂ حیات کا بہت کچھ پتا دیتا ہے لیکن محض یہ دیکھنا کہ شاعر کس طبقہ میں پیدا ہوا یا کس سماج کے کس گروہ سے تعلق رکھتاہے کافی نہیں، بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ اس نے زندگی کی کشمکش کے سمجھنے میں یا اپنے ذہن و شعور کی توسیع کس طرح کی اور عصری مسائل کے سمجھنے کے سلسلے میں اس کا کیا رویہ رہا؟ محض کسی طبقہ میں پیدا ہونا ایک شخص کواس طبقہ کا نہیں بناتا بلکہ اس طبقہ کے مفاد کی ترجمانی کرتے رہنا، اس کے بقاکی جد وجہد میں حصہ لیتے رہنا، طبقاتی شعور کو متعین کرتا ہے۔لیننؔ نے کہا ہے کہ طبقاتی شعور جبلی یا پیدائشی نہیں ہوتا بلکہ حاصل کیا جاتاہے۔ شعور کے بدلتے رہنے کایہی عمل ہے جس سے بعض اوقات ایک فنکار کے شعور کے متعلق قطعی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا، تاہم یہ ممکن ہے کہ اس بدلتے ہوئے شعور کا تاریخی اور مادی تجزیہ کیا جائے اور تصورات کے متضاد پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے۔تاریخ کی مادی تعبیر اور جدلیاتی نظریہ تو سماج کو طبقات میں بٹا ہوا تسلیم کرتا ہی ہے، آج بہت سے دوسرے عقائد رکھنے والے بھی تاریخ کے بننے بگڑنے میں طبقاتی جد وجہد کا ہاتھ دیکھتے ہیں، اسی سبب سے غالبؔ کے عہد کی تاریخ پر اس لئے غور کرنا غلط نہ ہوگا کہ انیسویں صدی کے ہندوستان میں بھی طبقات تھے اور شاعر یا تو ایک طبقہ سے تعلق رکھتا تھا یا دوسرے طبقہ سے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ طبقات کے باوجود یہ لازمی نہیں ہے کہ ہر شخص یا ہر شاعر طبقاتی شعور بھی رکھتا ہو۔ جب تک کوئی شخص اپنے دشمن، مخالف یا مقابل طبقہ سے واقف نہ ہو، اس وقت تک طبقاتی شعور پیدا نہیں ہو سکتا اور یہ واقفیت محض غیر شعوری نہیں ہو سکتی۔ اس کے لئے فلسفۂ تاریخ کے جاننے اور عملاً اس جد وجہد میں حصہ لینے کی ضرورت ہے جو طبقات کے درمیان کسی سماج میں جاری ہے۔جب تک طبقات واضح طور پر ایک دوسرے سے ممتاز نہ ہوں، ایک شاعر کے طبقاتی شعور یا اس کی جابنداری کے متعلق قطعی رائے قائم کرنا یا چند سطحی اور ظاہری خیالات کی بنیاد پر نتیجہ نکالنا سہل پسندی قرار پائےگا۔ ایسے عبوری دور میں جب طبقاتی جد وجہد واضح نہ ہو، طبقات اور زیادہ ایک دسرے سے گھل مل جاتے ہیں اور شعراء ایسے معتقدات کو بنیاد بناکر عام انسانوں کے متعلق باتیں کرنے لگتے ہیں جن کی طبقاتی نوعیت کا پتہ نہیں چلتا۔انیسویں صدی میں ہندوستان تاریخ کی ایک بڑی پیچیدہ راہ سے گذر رہا تھا۔ جاگیردارانہ نظام کمزور ہوکر مر رہا تھا اور مر نہیں چکا تھا، دیہی معیشت اور صنعت کا زوال ہو چکا تھا۔ اس کی جگہ کسی دوسرے نظام نے پوری طرح نہیں لی تھی۔ بنگال اور مدراس وغیرہ میں زرعی نظام کے تجربے ایسٹ انڈیا کمپنی کے تجارتی سرمایہ دارانہ نظام میں ہو رہے تھے لیکن عام طور پر ان کے دور رس معاشی اثرات اور مظاہر حیات پر اس کے اثر سے لوگ بے خبر تھے۔ سرمایہ داری نہ برکت بنی تھی نہ لعنت، بلکہ وہ ابھی سرمایہ داری بھی نہیں بنی تھی۔ عوامی تحریکات نیم معاشی، نیم مذہبی نوعیت اختیار کرکے اٹھتی اور بیٹھ جاتی تھیں لیکن دلی تک ان کی ہوا نہیں پہونچتی تھی۔ جاگیرداری کے مٹتے ہوئے کھنڈر پر نہ تو کوئی واضح سرمایہ دارانہ عمارت قائم ہو رہی تھی، نہ کوئی عوامی ہراول دستہ تھا جو راہ دکھاتا۔مختصر یہ کہ جاگیردار طبقہ زوال آمادہ تھا۔ سرمایہ داری نے واضح صورت اختیار نہیں کی تھی اور عوام کسی قسم کا انقلابی شعور نہیں رکھتے تھے۔ دہلی اور اس کے گرد وپیش کا علاقہ براہ راست جاگیردارانہ نظام حیات کے خشک لیکن زہریلے درخت کے سایہ میں زندگی کے دن گذار رہا تھا۔ ایسی حالت میں انفعالی جذبات کی پیدائش تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ایسے ذہن کی نشو نما واضح شکل میں نہیں دیکھی جا سکتی جو اس وقت کے ترقی پذیر سرمایہ دار یا عوام کے عملی شعور کی نمائندگی کرے۔ ایسی حالت میں غالبؔ کے سے انفرادیت پسند شاعر کے شعور کی بنیادوں کو تلاش کرنا اور دشوار بن جاتا ہے۔ جو باتیں غالبؔ کے مطالعہ کے لئے مفید ہو سکتی ہیں، ان میں سب سے اہم اس دور کی تاریخی کشمکش، روایت اور اس سے انحراف کا مطالعہ ہے۔ اسی مرکزی مسئلہ کی جستجو بھی مفید ہوگی جو ذہن و شعور پر اپنا عکس ڈالتا ہے۔یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ امراء کیا تاریخی حیثیت رکھتے تھے اور دوسرے طبقات سے ان کا کیا تعلق تھا؟ کوئی نیا طبقہ بن رہا تھا یا نہیں، اگر بن رہا تھا تو اس کی خصوصیات کیا تھیں؟ کوئی شاعر یا فنکار اس میں اپنی خواہشوں اور امنگوں کی جھلک دیکھ سکتا تھا یا نہیں۔ یہ بات کچھ تو اس طبقہ کی واضح اور متعین حیثیت نمایاں ہونے پر مبنی ہوگی اور کچھ شاعر کے سماجی اور طبقاتی شعور پر۔ نیم شعوری یا غیرشعوری طور پر متاثر ہونا بھی ممکن ہے لیکن اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔حالات کی اس پیچیدگی سے گھبراکر اکثر نقاد محض نفسیات کی روشنی میں غالبؔ کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ نفسیات خود خارجی عوامل کا نتیجہ ہے اور زبردست انفرادیت بھی مثبت یا منفی شکل میں ایک سماجی بنیاد رکھتی ہے۔ نفسیاتی کیفیت خارجی حالات سے باہر کوئی معجزہ نہیں دکھا سکتی۔ اس لئے محمد اکرام (مصنف آثار غالبؔ) کا غالبؔ کی ساری ترقی اور کامیابی کو محض ’’احساس کمتری‘‘ کا نتیجہ قرار دینا غالبؔ کے شعور کا صحیح تجزیہ ہے اور نہ اصول تنقید کے لحاظ سے ہی درست ہے۔ انسان کے ذہن پر اپنے خاندان، خاندانی عقائد اور مقصد زندگی کے متعلق طاری کردہ خیالات کا اثر بھی شدید ہوتا ہے لیکن ماحول اور خارجی حالات سے اس کی حد بندی ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی انسان بالکل ہی مجنوں نہ ہو تو وہ ان حالات سے اس حد تک اثر لے سکتا ہے جتنا واقعات اور امکانات اجازت دیتے ہیں۔چنانچہ غالبؔ کے یہاں افراسیابؔ اور پشنگؔ سے اپنا رشتہ جوڑنے کی کوشش، سمرقند اور ماوراء النہر سے تعلق قائم کرنے کا خیال، سپہ گری کے پیشہ پر ناز یقیناً ان کے کردار پر اثر انداز ہوتے نظر آتے ہیں اور ان کی انفرادیت میں وہ زور اور بانکپن پیدا کرتے ہیں جن سے ان کے ہم عصروں کے تصورات محروم تھے۔ گو انھیں حالات کے بدل جانے کا احساس قوی تھا لیکن اس بات کے بدل جانے پر محض حیرت زدہ ہوکر رہ جانا اور خاموشی اختیار کرکے بیٹھ رہنا غالبؔ کی طبیعت کے خلاف تھا۔ چنانچہ ایک موقع پر لکھتے ہیں کہ میرے آبا واجداد کیا تھے؟ اور میں کیا ہوں؟ نہ سلطان سنجر بن سکا نہ بو علی۔’’گفتم درویش باشم وآزادانہ رہ سپرم۔ ذوق سخن کہ ازلی آوردہ بود راہزنی کرد و مرا بداں فریقت کہ آئینہ زودن وحسرت معنی نمودن نیزکار نمایاں است سر لشکری و دانشوری خود نیست۔ صوفی گری بگزارو بہ سخن گستری روے آر۔ ناگزیر ہم چنان کردم وسفینہ در بحر کہ سراب است رواں کردم، قلم علم شد و تیز ہائے شکستہ آبا قلم۔‘‘ غالبؔ کے دادا سمرقند چھوڑ کر دہلی آئے تھے لیکن غالبؔ کو اس بات کا احساس تھا کہ ہندوستان میں آؤ بھگت کے باوجود وہ بات کہاں جو ایران پاستان کے ترقی یافتہ دور میں رہ چکی تھی۔ چنانچہ بہادر شاہ ظفرؔ کی فرمائش پر مغلوں کی تاریخ لکھتے ہوئے مہرنیم روز کے دیباچہ میں انھوں نے اپنے ذکر کا موقع بھی نکال لیا ہے اور صاف صاف لکھا ہے کہ میرے بزرگوں کا آنا ایسا تھا جیسے پانی اوپر سے نیچے آتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ غالبؔ کے ذہن میں سلجوقیوں کا عروج یافتہ شاہی نظام اور اس کے مقابل ہندوستانی مغلوں کا آخری دور ہو اور یہ فرق انھیں بہت بڑا معلوم ہوتا ہو۔ ان باتوں کا مطلب یہ ہے کہ غالبؔ ماحول کے تغیر اور بدلے ہوئے حالات سے بے خبر نہ تھے، اس کا تذکرہ ہم پہلے کیا تھے، اس سماج میں اپنی عظمت منوانے کے لئے تھا جو نسب ناموں سے متاثر ہوتا تھا، جو اوصاف اضافی سے متاثر ہوکر افراد کی قدر وقیمت مقرر کرتا تھا۔ اپنے خاندان، نسب اور نسل کا ذکر کرکے وہ احساس کمتری کا ثبوت نہیں دیتے تھے بلکہ جاگیردارانہ سماج میں اپنی جگہ بنانا چاہتے تھے، ورنہ انھیں خبر تھی کہ اب زمانہ بدل چکا ہے،ہے ناز مفلساں زر از دست رفتہ پرہوں گل فروش شوخی داغ کہن ہنوزاس طرح محض نفسیاتی مطالعہ غالبؔ کے شعور کی بنیادوں تک پہونچنے میں پوری طرح مدد نہیں کرتا، اس سے وقتی مدد مل سکتی ہے۔ جب غالبؔ کے ماحول کا مطالعہ صحیح ہو، ان خارجی عوامل کا صحیح یا تقریباً صحیح تجزیہ کر لیا گیا ہو جو تجسس پسند ذہن کے انفرادی، اجتماعی اور طبقاتی شعور کی تشکیل کرتے ہیں۔ کسی شاعر کے یہاں مکمل طبقاتی شعور کا پتہ نہ چلنے کی صورت میں اس کے آفاقی تصورات اور رجحانات میں اس کے فلسفۂ حیات اور ذہنی میلانات کی جستجو کی جا سکتی ہے کیونکہ اس کا شعور ان مادی حالات اور علم کے باہر نہیں ہو سکتا جن سے وہ متاثر ہوتا ہے یا جن کی وہ واقفیت رکھتا ہے۔غالبؔ نے صرف اپنی شاعری کی شکل میں نہیں بلکہ اردو، فارسی خطوں اور تاریخی کتابوں کی شکل میں بھی بہت کچھ چھوڑا ہے۔ ان کی انفرادیت پسندی اور خودستائی نے انھیں بار بار اپنا تذکرہ کرنے پر مجبور کیا ہے اور ان کے قلم سے وہ باتیں لکھائی ہیں جو ان کی روح کو بےنقاب کرتی ہیں۔ سائنٹفک تجزیہ کرنے والا اسے بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ ایک شخص جو کچھ اپنے متعلق کہتا ہے تنہا وہی اس کے شعور اور ذہن کو پرکھنے کی کسوٹی نہیں بن سکتا لیکن اس کے عمل اور دوسرے مسائل کے متعلق اس کی رائے سے مدد لے کر اس کے شعور کی گہرائیوں میں اترا جا سکتا ہے۔ اس لئے سرسری طور پر غالبؔ کی زندگی کے بعض اہم حالات اور اس وقت کے دوسرے واقعات پر نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔غالبؔ آگرہ میں ایک مہم آزما خاندان میں پیدا ہوئے۔ یہ ایبک ترکوں کا ایک کھاتا پیتا خاندان تھا جو ابھی اصف صدی پہلے سمرقند سے ہندستان آیا تھا اور آتے ہی اسے اعزاز حاصل ہو گیا تھا۔ غالبؔ کا ننھیال بھی بے حد متمول تھا۔ یہاں بھی امیرانہ اور رئیسانہ زندگی کی جھلک ملتی ہے۔ باپ اور چچا کا انتقال بچپن میں ہی ہو گیا۔ مرزا غالبؔ نے اپنی ابتدائی جوانی آزادانہ بسر کی جس کا ذکر ان کے خطوں میں پایا جاتا ہے اور جس کی طرف اشارے مہر نیم روز کے دیباچے اور بعض فخریہ قصائد میں ملتے ہیں۔ بے فکری اور آرام کی زندگی نے غالب کو اپنے طبقہ سے باہر نکلنے یا بڑے پیمانہ پر بدلتی ہوئی زندگی کا تجربہ کرنے کا موقع نہیں دیا۔ پھر ان کی تعلیم بھی انھیں لوگوں کے درمیان اور انھیں نظریات کے ماتحت ہوئی جو شرفاء کا دستور تھا۔ اس تعلیم کے متعلق کچھ زیادہ مواد نہیں ملتا لیکن خود غالبؔ کی تصنیف سے ان کی معلومات اور مطالعہ کا پتہ چلتا ہے۔ وہ متداول علوم سے اچھی طرح باخبر معلوم ہوتے ہیں۔ یہ علوم وہی تھے جو صدیوں سے ایک مقدس روایت کی طرح اسلامی مکاتب میں پڑھائے جاتے تھے۔ اگر ان کے سلسلے میں کبھی بحث و مباحثہ ہوتا بھی تو اس کی حیثیت زیادہ تر لفظی ہوتی تھی۔ تجربہ گاہیں مدت سے بند تھیں اور فلسفہ، منطق، طب، ہیئت، عروض، تصوف ہر ایک میں بندھے ٹکے اصول چل رہے تھے۔ شاہ ولی اللہ کے انقلاب انگیز خیالات اور ان کے شاگردوں اور ماننے والوں کے بعض کارنامے بھی علم الکلام کی موشگافیوں میں اسیر ہوکر رہ گئے تھے۔وہابی تحریک معمولی طور پر بعض حلقوں میں عوامی تحریک کی شکل اختیار کرنے کے بعد ایک مذہبی گروہ میں مقید ہو گئی تھی۔ اس کی عوامی حیثیت مخصوص سیاسی اور معاشی اسباب کی بنا پر بنگال اور بہار میں نمایاں ہوئی تھی۔ وہاں سے دہلی پہنچتے پہنچتے وہ ایک مذہبی عقیدے سے آگے نہ بڑھ سکی اور غالبؔ کے زمانے میں وہابی، غیر وہابی، مقلد، غیر مقلد کی جو بحثیں ہوئیں اور جن میں غالبؔ نے بھی دوستوں کی وجہ سے عملی حصہ لیا، مذہبی مناظرہ بازی سے زیادہ کچھ نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی طبقاتی شکل نمایاں نہ ہو سکی۔اس طرح غالبؔ کی تعلیم بالکل رسمی ہوکر رہ جاتی، اگر ملا عبدالصمد نے غالبؔ کو کچھ راہیں نہ دکھائی ہوتیں۔ ہرمزؔ جو اصلاً ایران کا زردشتی تھا، مسلمان ہو گیا اور غالبؔ کی خوش قسمتی سے آگرہ پہنچ کر ان کا استاد بن گیا۔ غالبؔ نے اس سے فارسی زبان اور فارسی زبان کے متعلق فیض اٹھانے کا تذکرہ بڑی محبت اور گرم جوشی سے کیا ہے۔ غالبؔ کا ذاتی مطالعہ بھی وسیع معلوم ہوتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس وقت مطالعہ میں مذہب، اخلاق، تصوف، طب، ہیئت، منطق اور قصص وغیرہ کی وہی کتابیں ہو سکتی ہیں جو عرب، ایران اور ہندوستان میں پانچ چھ سو سال سے رائج تھیں۔ یہ جو اکثر آج کے محققانہ معیار سے غالبؔ کو ’’کم پڑھا لکھا‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ اس وقت بے کار نظر آنے لگتی ہے جب ہم غالبؔ کو مولانا فضل حق خیرآبادی، مفتی صدر الدین آزردہؔ، حکیم احسن اللہ خاں، نواب مصطفےؔ خاں شیفتہؔ، حکیم مومن خان مومنؔ اور صہبائیؔ وغیرہ کی صحبتوں میں دیکھتے ہیں۔ یہی اس عہد کے بڑے عالم اور دانشور تھے۔ غالبؔ ان سے بہتر نہ سہی، ان کے ہم محفل اور باعزت دوست تھے۔آگرہ کی آزاد زندگی میں پہلی رکاوٹ شادی سے پڑی جو ایک تعلیم یافتہ شریف اور متمول گھرانے میں تیرہ سال کی عمر (۱۸۱۰ء) میں ہو گئی۔ غالبؔ کو شعر وشاعری سے دلچسپی تو آگرہ ہی میں شروع ہو چکی تھی۔ اب وہ دہلی چلے آئے جو اپنی مٹتی ہوئی بہار دکھا رہی تھی۔ وہاں عالموں کا مجمع تھا، سخن فہموں اور شاعروں کی بھیڑ تھی اور تباہی اور بربادی کے باوجود ایک عظمت تھی جو قدیم جاگیردارانہ تصور حیات اور امیرانہ کلچر کو اپنے دامن میں پناہ دیے ہوئے پڑی تھی۔ ہر نظام اپنے زوال کے زمانے میں زبردست تضاد کا شکار ہوجاتاہے۔ حقیقت اورخیال میں، ماضی اور حال میں، وضع داری اور اصلیت میں جنگ جاری رہتی ہے۔ زندگی کے تقاضے کچھ مطالبے کرتے ہیں اور مٹتی ہوئی عظمت کا پاس خیالوں میں کوئی اور دنیا بساتا ہے۔ بدلتی ہوئی دنیا ایک جہان تازہ کی نمود چاہتی ہے اور تاریخ کی منطق سے ناواقف ذہن ماضی سے چمٹے جاتے ہیں۔دہلی کا مرکز صدیوں سے جاگیردارانہ تمدن کا گہوارہ رہ چکا تھا۔ اس نے بہت سے انقلابات دیکھے تھے لیکن ہر انقلاب کسی نہ کسی شکل میں اسے جاگیرداری اور شاہی حدوں کے اندر ہی رکھتا تھا۔ طبقوں کی حالت میں کوئی خاص فرق پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اٹھارہویں صدی کے آخر اور انیسویں صدی میں البتہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی بڑھتی ہوئی قوت نے اس نظام کی بنیادیں بدلنا شروع کر دی تھیں۔ ہندستان کی دیہی معیشت اور صنعت کا خاتمہ ہو رہا تھا، کچا مال باہر جا رہا تھا، دولت باہر جا رہی تھی، مغل نظام حکومت میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں ہو رہی تھی جو زندگی کو بدل دیتی۔ جو تبدیلیاں بھی ہو رہی تھیں، وہ زوال اور انحطاط ہی کی داخلی کیفیتیں پیدا کرتی تھیں اور تاریخی شعور نہ ہونے کی وجہ سے ان تبدیلیوں کی واضح تصویر نگاہوں کے سامنے نہ آتی تھی، یہاں تک کہ غدر ہو گیا۔ اس میں بھی ہندوستان کے کمزور جاگیردارانہ نظام کو شکست ہوئی۔اس درمیان میں غالبؔ نے دنیا کے بڑے تجربے حاصل کئے تھے۔ چچا کی جاگیر کے صلے میں جو پنشن ملتی تھی، اس کے سلسلے میں انھیں کلکتہ جانا پڑا۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً تیس سال تھی۔ یہ سفر کئی حیثیتوں سے غالبؔ کی ذہنی تشکیل میں ایک اہم جگہ رکھتا ہے۔ اول تو پنشن کا یعنی روزی اور بے فکری سے زندگی گذارنے ہی کا معاملہ تھا جس نے تقریباً ساری عمر ایک عجیب طرح کی امید وبیم کی دنیا میں رکھا۔ غالبؔ کے فارسی اردو خطوط اس کشمکش سے بھرے پڑے ہیں جو پنشن کے قضیے کے سلسلے میں رونما ہوئی۔ اس سلسلے میں انگریزی عدالتوں کے ساتھ انگریز طرز حکومت کا اندازہ بھی غالبؔ کو ہوا۔ لکھنؤ، بنارس اور دوسرے مقامات اور حالات سے غالبؔ کی واقفیت بڑھی اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ انھیں بنگال میں نشاۃ الثانیہ کی پھوٹتی کرن اور نئی زندگی کے ہلکے ہلکے ابھرتے ہوئے نقوش دیکھنے کا موقع ملا۔ اس بات کو نہ بھولنا چاہئے کہ غالبؔ سر سے پاؤں تک جاگیردارانہ تصور حیات میں غرق تھے لیکن یہ تجربے ایک ایسے ذہن پر اپنا نقش چھوڑ رہے تھے جو چیزوں کی حقیقت جاننے، مشاہدے سے کام لینے اور نئے تصورات کا خیرمقدم کرنے میں بے باک تھا۔کلکتہ سرمایہ دارانہ تصورات کا منبع تھا اور کلکتے کے باہر بنگال کے دوسرے علاقوں میں عوامی طبقاتی کشمکش بھی بہت غیر واضح شکل میں شروع ہو چکی تھی جو کبھی وہابی تحریک سے اثر لیتی تھی، کبھی فرائضی تحریک سے، کبھی ڈاکوؤں اور سنیاسیوں کی شکل میں نمودار ہوتی تھی، کبھی ٹھگی کی بھیس میں، اور جس زمانہ میں غالبؔ کلکتے میں مقیم تھے، اس وقت ان تحریکوں کا زور تھا۔ ذمہ دار انگریز عہدہ دار یہ محسوس کر رہے تھے کہ ہندوستان میں ہوا ان کے خلاف چل رہی ہیں، لیکن کلکتے میں یہ سب کچھ نہ تھا۔ غالبؔ نے وہا ں جو چہل پہل دیکھی، جو عمارتیں دیکھیں، جو حسین وجمیل عورتیں دیکھیں، جو ایک نیا بنتا ہوا تمدن دیکھا، اس نے ان کا دل موہ لیا۔ بنارس میں مناظر فطرت اور حسن انسانی نے ان کے جوان اور حسن پرست دل پر گہرا اثر ڈالا تھا۔ کلکتہ نے تو ’’تیر نیم کش‘‘ بن کر وہ خلش پیدا کر دی کہ بعد میں کلکتہ کا ذکر آتا تھا تو انھیں وہاں کے ’سبزہ زار ہائے مطرا‘‘ اور ’’نازنین بتان خود آرا‘‘ یاد آتے اور سینے پر تیر لگتا۔ کلکتہ میں کچھ ایسی کشش تھی کہ احباب کی دوری کا غم مٹتا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ ایک خاص طبقہ سے تعلق رکھتے ہوئے بھی انسان کا ذہنی افق اس طرح وسیع ہوتا ہے اور شعور اسی طرح وہ ذخیرہ اکٹھا کرتا ہے جو اسے اس کی طبقاتی تنگ نظری سے باہر نکالنے میں معین ہوتا ہے۔ حمید احمد خاں نے ایک مضمون میں بڑی خوبی سے کلکتہ اور غالبؔ کے ذہنی تعلق پر روشنی ڈالی ہے۔ ’’تاج محل اور لال قلعہ کی عمارتوں کے لاشریک حسن کی یکتائی اور بے ہمگی سے محروم ہوتے ہوئے بھی یہ انگریزی تعمیرات ایک الگ کیفیت رکھتی تھیں۔ بادشاہی دور کے آخری شاعر کی ذکاوت ذہن ایک نئے جمہوری فن تعمیر کی یہ زیبائش اور یوروپی شہر سازی کے اجتماعی آہنگ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہی۔ اس نیم فرنگی نیم ایشیائی شہر میں مشرقی اور مغربی معاشرت کا عجیب امتزاج نظر آتا تھا۔ انگریز اگر عطر، الائچی اور پان کے استعمال سے بے خبر تھے تو ہندوستانی بھی وہسکی اور اولڈ ٹام سے مانوس ہوتے جاتے تھے۔‘‘ غالبؔ نے اس کلکتہ کو دیکھا جس میں انگریزی سرمایہ داری اپنے قدم جما رہی تھی اور اس بنگال کو نہ دیکھ سکے جن میں اس کے خلاف طوفان اٹھ رہے تھے لیکن انھوں نے جو کچھ بھی دیکھا وہ رائیگاں نہ گیا۔ مولانا ابوالکلام آزادؔ نے غالبؔ کے قیام کلکتہ کو ان کی زندگی کا بڑا اہم موڑ قرار دیا ہے اور اس میں شک نہیں کہ گوکہ غالبؔ بنیادی طور پر بدل نہ سکے لیکن کلکتہ سے ایسے خیالات اور تصورات ضرور لائے جو ان کے دہلی کے حریفوں اور ہم عصروں کے ’’سرحد ادراک‘‘ سے بھی باہر تھے۔ کوئی قطعی ثبوت تو نہیں دیا جا سکتا لیکن غالبؔ کے اردو خطوط میں فورٹ ولیم کالج کی اردو نثر کی سادگی دیکھ کر ضرور یہ خیال ہوتا ہے کہ غالبؔ نے کلکتہ کے دو سالہ قیام میں اس جدید نثر کا مطالعہ کیا اور اس سے فائدہ اٹھایا جس کے حسن اور اثر سے اردو کے نثر نگار اس وقت تک ناواقف تھے۔کلکتہ میں غالبؔ نے جو چیزیں دیکھی تھیں ان کا اثر بہت بعد تک رہا۔ بیس سال بعد جب سرسید نے (جو اس وقت سر نہیں بلکہ صدر الصدور تھے) ابوالفضل کی مشہور کتاب ’’آئین اکبری‘‘ کی تصحیح اور غالبؔ سے اس پر تقریظ لکھنے کی فرمائش کی تو غالبؔ نے ایک ایسی نظم لکھ کر سرسید کے پاس بھیج دی جس کی ان سے توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ ’’آئین اکبری‘‘ مغل جاہ و جلال، حکومت اور تمکنت کا منشور تھا اور مغلوں نے اس کے مطابق خوب حکومت کی لیکن انیسویں صدی کے وسط میں دنیا بدل چکی تھی۔ غالبؔ ایک نئے نظام حکومت اور طرز سلطنت سے واقف ہو رہے تھے۔ سائنس کی حیرت زائیوں اور برکتوں کا اندازہ کر رہے تھے۔ اس کی مدد سے انسان کی زندگی میں جو حسن وقوت پیدا کرنے کی صلاحیت اس زمانے میں پیدا ہو رہی تھی وہ مغل عہد حکومت میں کہاں تھی؟ اس لئے غالبؔ کا بیدار شعور جو جاگیردارانہ ہونے کے باوجود بدل رہا تھا، دونوں عہدوں کا تقابل کرنے لگا۔غالبؔ کی عظمت اس میں ہے کہ انھوں نے ترقی کی علامتوں کو اور سائنس کے امکانات کو اپنے دائرۂ تخیل میں جگہ دی۔ ان سے یہ مطالبہ کرنا فضول ہوگا کہ انھوں نے بادشاہت کی کھلم کھلا مخالفت کیوں نہیں؟ جاگیردارانہ نظام کے خلاف بغاوت کا اعلان کیوں نہیں کیا؟ محنت کش طبقہ کی رہنمائی کے لئے کچھ کیوں نہیں لکھا؟ دیکھنا یہ چاہئے کہ انھوں نے بدلتے ہوئے زمانے کو کس نظر سے دیکھا۔ اس وقت کتنے شاعر تھے جو اسٹیم، انجن، ٹیلیفون، ریلوے اور بجلی کا نام بھی جانتے تھے؟ ان چیزوں کی اہمیت اور افادیت کا احساس تو بڑی چیز ہے لیکن غالبؔ نے ’’آئین اکبری‘‘ کے مقابلہ میں اس نظام کو سراہا جو سائنس کی ان برکتوں سے زندگی کو مالا مال کرسکتا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ غالبؔ اس استحصال اور اقتصادی تاراجی سے بے خبر تھے جو ان برکتوں کے پردے میں چھپی بیٹھی تھی۔ اس لئے ان کا شعور ایک ناقص سی تصویر بنانے میں کامیاب ہوتا ہے۔ بہرحال جب غالبؔ نے سب سے زیادہ ترقی یافتہ جاگیردارانہ دستور حکومت کا اس سے مقابلہ کیا تو اس کا اظہار کئے بغیر نہ رہ سکے،گر ز آئیں می رود دبا ما سخنچشم بکشا و نذرایں دیر کہنصاحبانِ انگلستان را نگرشیوہ و انداز ایناں را نگرتاچہ آئیں ہا پدید آوردہ اندانچہ ہر گز کس ندیدہ آوردہ اندزیں ہنر منداں ہنر بیشی گرفتسعی بر پیشینیاں پیشی گرفتحق ایں قومیت آئیں داشتنکس نیا رو ملک بہ زیں داشتنداد و دانش رہ بہم پیوستہ اندہند را صد گو نہ آئیں بستہ اندآتشے کز سنگ بیرو آورندایں ہنرمنداں زخس خوں آورندتاچہ افسوں خواندہ اندانیاں بآبدود کشتی راہمی راند در آبگہ دخاں کشتی بہ جیحوں می بردگہ دخاں گردد بہا موں می برداز دخاں زورق بہرفتار آمدہباد موج ایں ہردو پیکار آمدہنغمہابے زخمہ ازسازآورندحرف چوں طائراں پروازآورندایں نمی بینی کہ ایں دانا گروہدر دودم آرند حرف صد گروہمی زنند آتش بہ باد اندر ہمیمی درخشد بادچوں اخگر ہمیرو بہ لندن کانداراں رخشندہ باغشہرروشن گشتہ در شب بے چراغپیش ایں آئیں داردروزگارکشتہ آئین دگر تقویم پاراس کے بعد لکھتے ہیں کہ جب نئی زندگی سے خوشہ چینی کا موقع مل رہا تھا تو پھر کوئی اس خرمن (آئین اکبری) سے خوشہ چینی کیوں کرے۔ ہاں ابوالفضل کی تحریر خوب ہے لیکن،ہر خوشے ما خوشترے ہم بودہ استگرسر است افسرے ہم بودہ استمبداءفیاض را مشمر بخیلنور میریزددر طب بازاں بخیلمردہ پروردن مبارک کار نیستخود بگوکاں نیز جز گفتار نیستغالبؔ اس سلسلہ میں مردہ پرستی پر بھی چوٹ کرتے ہیں اور مستقبل کی طرف سے پر امید ہیں کیونکہ زندگی کے سوتے کبھی خشک نہیں ہوتے اور اچھی سے اچھی چیزیں وجود میں آتی رہتی ہیں۔ بعض حضرات اسے شاید انگریزوں کی خوشامد قرار دیں لیکن یہ انداز بیان ذرا سا بھی خوشامدانہ نہیں ہے۔ اس نظم میں شاعری بھی نہیں۔ اظہار حقیقت ہے اور پھر یہ غدر کے پہلے اس وقت لکھی گئی جب غالبؔ بہادر شاہ ظفرؔ کے دربار سے متوسل ہو چکے تھے۔ مغرب سے آئے ہوئے نئے نظام کے ان پہلوؤں کو سر اہنا جو ترقی پسندانہ تھے، اس زمانہ میں حیرت خیز آزاد طبعی اور جرأت آفرینی کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ بعد میں بھی غالبؔ نے ملکہ وکٹوریہ کی تعریف میں قصیدہ لکھتے ہوئے اس پہلو کی طرف اشارہ کیا،در روزگار ہانہ اندر شمار یافت توخود روزگار انچہ دریں روزگار یافتغالبؔ کا دور تاریخ ہند میں ایک عبوری دور کی حیثیت رکھتا تھا، جس کے پیچ وخم کا سمجھنا آسان نہیں ہوتا۔ اس میں ایسی گتھیاں پڑتی ہیں جنہیں صرف مستقبل کھول سکتا ہے لیکن تغیر کا عکس دیکھنا اور نئے تجربات کا خیر مقدم کرنے کے لئے تیار رہنا، ظاہر کرتا ہے کہ غالبؔ کے لئے زندگی کی بنی بنائی مختتم اور مکمل حقیقت نہیں ہے۔ ہردور اپنے لئے راہ تلاش کرلیتا ہے۔ فطرت بخیل نہیں ہے۔ زمانہ بہتر سے بہتر بنتا رہےگا۔کلکتہ کا سفر پنشن حاصل کرنے کی حیثیت سے مایوسی اور ناکامی کا سفر تھا لیکن تجربے اور نئے شعور کی دولت اکٹھا کرنے کے لحاظ سے بہت اہم ثابت ہوا۔ اسی سفر نے انھیں اس نظام کی بربادی کا یقین دلایا جو بہت دنوں سے انحطاط اور تباہی کی طرف نہایت سرعت کے ساتھ چلا جا رہا تھا۔ اس کا تجزیہ اپنی جگہ پر کیا جائےگا لیکن وہ چیز جو غالبؔ کے شعور کو پرکھنے کی کسوٹی بن سکتی ہے، ۱۸۵۷ء کا غدر ہے۔ کیونکہ غدر نے ہندوستان کو قدیم اور جدید میں تقسیم کر دیا، ایک طاقت کی جگہ دوسری طاقت کو لا بٹھایا جو نئے تصورات زندگی اور نئے معاشی نظام کی علم بردار تھی۔اب یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ غدر جاگیردار قوتوں کی آخری حرکت مذبوحی تھی جو نئی طاقت، برطانوی استعمال اور اقتدار سے ٹکر لینے کے لئے نمایاں ہوئی۔ اس میں عوام نے براہ راست کسی طبقاتی شکل میں حصہ نہیں لیا۔ غدر کے متعلق ترقی پسندانہ اور ہوشمندانہ رویہ یہی ہو سکتا ہے کہ اسے تاریخی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے اور ان قوتوں کا تجزیہ کیا جائے جو حصول قوت کے لئے نبردآزما تھیں۔ جاگیرداری نظام کے مقابلہ میں صنعتی اور سرمایہ دارانہ نظام کتنا ہی ناقص اور ظالمانہ کیوں نہ ہو، ذرائع پیداوار اور تسخیر فطرت کی طرف نیا قدم اٹھانے کا پتہ دیتا ہے۔ تاریخ کی بڑھتی ہوئی طاقتیں ان کے ساتھ ہوتی ہیں۔ جاگیرداری نظام اپنا کام پورا کرنے کے بعد ختم ہو رہا تھا، حالانکہ اس کا جمالیاتی اور اخلاقی پہلو اپنا کام کئے جا رہا تھا اور سرمایہ دارانہ نظام اپنے بطن میں بہت سے امکانات لئے ابھر رہا تھا۔ طبقاتی حیثیت سے اوپری طبقوں کی نوعیت تو کسی قدر واضح ہوتی جا رہی تھی لیکن عوام بالکل غیرمنظم، ناواقف اور صدیوں کی جہالت کا شکار ہونے کی وجہ سے کوئی واضح شکل بھی نہ رکھتے تھے، اس لئے ایک شعور کے ترقی پسند ہونے کی کسوٹی یہ تھی کہ وہ جاگیرداری کی موت پر اور نئے نظام کی برتری اور اس کے امکانات پر یقین (اور یقین نہ سہی خیال اور گمان) رکھتا ہے یا نہیں۔ اقتصادی پستی کے اس دور میں جب کسان بڑی حد تک زمین کا مالک نظر آتا ہے لیکن ذرائع پیداوار کے غیرترقی یافتہ ہونے کی وجہ سے بجھا پڑا ہے۔جب امراء غیرمنظم ہیں اور دست کار بےکار ہوتے جا رہے ہیں، ایسے میں شعور کی امید کرنا جو کسی منظم فلسفۂ زندگی کی تلقین کر سکے، ارتقائے شعور کی مادی بنیادوں سے ناواقفیت کے برابر ہوگا۔ ہندوستان جس طرح معاشی زندگی میں ذرائع پیداوار کے بچے کھچے اور سڑے گلے آلات سے کام لے کر خاموشی اور جمود کے دن گذار رہا تھا، اسی طرح اپنی تہذیبی اور عملی زندگی میں اسی مواد کو الٹ پلٹ کر اپنی ذہنی تسکین کے کام میں لا رہا تھا جو بالکل دوسرے قسم کے تاریخی حالات میں پیدا ہوا تھا۔غدر ہوا اور مغل سلطنت، جو برائے نام سہی ایک عظیم الشان روایت کا نشان اور ایک مخصوص تہذیب کی علامت تھی، ختم ہو گئی۔ بہادر شاہ ظفرؔ قید کرلئے گئے۔ ان کے حامیوں اور حمایتیوں، ان کے متوسلین اور متعلقین پر آفتیں آئیں اور اس انتشار میں برطانوی حکومت کا تسلط ہوا، جس کے معنی تھے ایک جاگیردارانہ نظام، ایک نیا صنعتی نظام، ایک نئی دیہی معیشت، نئے طبقاتی تعلقات اور نیا انداز فکر، نئی امیدیں اور نئی مایوسیاں، مگر یہ سب دیکھنے اور سمجھنے والوں کے لئے تھا۔ غدر کو کس نے کس نظر سے دیکھا، یہاں اس کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں لیکن غالبؔ نے اسے جو اہمیت دی ہے وہ نظرانداز کرنے کی چیز نہیں۔ اس سے غالبؔ کے ذہن کا پتہ چلتا ہے۔اپنے خطوط میں انھوں نے غدر کا تذکرہ کثرت سے کیا ہے۔ یہی نہیں ایک مختصر سی کتاب بھی جو روزنامچے کی حیثیت رکھتی ہے، دوران غدر میں ’’دستنبو‘‘ کے نام سے لکھی۔ یہ ایک ذاتی یادداشت ہونے اور تاثرات سے لبریز ہونے کے باوجود بہت کچھ نہیں بتاتی۔ خطوط اور دستنبو کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ،(۱) غالبؔ غدر کو کسی مخصوص طبقہ کے نمائندے کی حیثیت سے نہیں دیکھ رہے تھے کیونکہ غدر کی طبقاتی نوعیت ان کے سامنے نہ تھی۔(۲) انھوں نے رست خیز بے جا کو یہ کہہ کر ظاہر کیا ہے کہ وہ بعض وجوہ سے اس ہنگامے سے خوش نہ تھے۔(۳) غدر کے زمانے میں ذاتی تکلیفیں اور آلام بھی ان کے لئے روح فرسا تھیں۔(۴) ابتدائی خطوط میں یہ خیال بار بار ملتا ہے کہ غدر کے جو حالات ہیں لکھ نہیں سکتا۔(۵) امرا اور رؤسا اور شہزادوں پر جو مصیبتیں آئیں، ان کے ذکر میں دوستی اور ذاتی غم کا اظہار زیادہ ہے۔(۶) انگریزوں میں سے جو مارے گئے ان سے ہمدردی ہے۔ اس ہمدردی میں بھی ذاتی دوستی اور شناسائی کا خیال زیادہ ہے لیکن ساتھ ہی ان کی خوبیوں کا بھی احساس ہے۔ ’’دستنبو‘‘ میں بھی انھیں ’جہانداران داد آموز، دانش اندر نکو خوائے نکو نام‘‘ کہا ہے۔(۷) غالبؔ کو غدر کے غیرمنظم ہونے کا احساس ہے۔(۸) انھیں اس کا بھی غمناک احساس ہے کہ انگریزوں نے غدر کے فرو ہونے کے بعد خاص طور سے مسلمانوں کو سزائیں دی ہیں اور دہلی سے باہر نکال دیا ہے۔(۹) باغیوں نے قتل وغارت، لوٹ مار میں امتیاز برتا، غالبؔ اس کے شاکی ہیں لیکن وہ انگریزوں کی ان زیادتیوں سے بھی خوش نہیں جو غدر کے بعد عمل میں آئیں۔(۱۰) غالبؔ کو مغل حکومت کے ہمیشہ کے لئے ختم ہو جانے کا کوئی خاص غم نہیں معلوم ہوتا حالانکہ آخری چند سال ان کے دربار دہلی سے وابستگی کے سال تھے۔ان باتوں کی روشنی میں اگر غالبؔ کے رجحان کا اندازہ لگایا جائے تو واضح ہوگا کہ غدر کے متعلق غالبؔ کوئی گہری سیاسی رائے نہ رکھتے تھے کہ جب حکومت بدلی تو انھیں حیرت نہ ہوئی بلکہ ان کے لئے یہ کوئی ایسی بات ہوئی جس کا انھیں پہلے ہی سے یقین تھا۔ انگریز غدر کے بعد بہت پہلے ہی سے سیاست اور انتظام مملکت میں اتنے دخیل تھے کہ جب وہ باقاعدہ حاکم ہو گئے تو ان لوگوں کو جنھیں غدر سے کوئی نقصان نہیں پہنچا کچھ زیادہ فرق معلوم نہیں ہوا۔ غالبؔ کا نقطۂ نظر اس سلسلہ میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ غدر کی وجہ سے پیدا ہونے والی سیاسی تبدیلی کو ایک حقیقت اور انگریزی حکومت کو ایک نئی سلطنت سمجھ کر قبول کر لیا جائے۔ اس لیے ان کے اندر اس نئی حکومت کے خلاف کوئی جذبہ نہیں معلوم ہوتا۔ان باتوں سے غالبؔ کی وطن دوستی یا قوم پرستی کے متعلق کوئی ایسا نقطۂ نظر قائم کرنا جو واضح طور پر انھیں پرانے جاگیردارانہ نظام کا دشمن، نئی انگریزی سرکار کا خوشامدی بنادے، صحیح نہ ہوگا۔ غالبؔ کا ادراک غدر کے معاملہ میں ایک حقیقت نگار کا ادارک تھا اور تصور پرست ہونے کے باوجود حالات کو سمجھنے کی کوشش کرتا تھا۔ بعض منطقی نگاہ رکھنے والوں کو یہ بات تضاد کی حامل نظر آئےگی لیکن تھوڑے سے غور سے یہ بات واضح ہو جائےگی کہ غالبؔ کا خلوص اور نظریۂ فن تھا، جو انھیں عقائد میں عینیت پسند اور صوفی بنانے کے باوجود حقیقت پسندی کی طرف مائل کرتا تھا۔ ان کے یہاں شعر اس طرح ڈھلتے تھے،بینیم از گداز دل، در جگر آتشے چوسیلغالبؔ اگر دمِ سخن، رہ ضمیر من بری’’دستنبو‘‘ اور ’’مہر نیمروز‘‘ دیکھنے کے بعد یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ غالبؔ کے پیش نظر کوئی فلسفۂ تاریخ بھی تھا یا نہیں؟ اس کا اندازہ ہو سکے تو غالبؔ کے شعور کابھی اندازہ لگایا جا سکےگا۔ کیونکہ ایک شخص کا اندازۂ شعور ہی زندگی اور اس کے مظاہر کے متعلق اس کا رویہ متعین کرتا ہے۔ ’’مہر نیمروز‘‘ آغاز آفرینش سے لے کر ہمایوں کے وقت تک کی مختصر تاریخ ہے۔ یہ اس مجوزہ پرتوستان کا پہلا حصہ ہے جس میں تیموری بادشاہوں کی تاریخ بہادر شاہ ظفرؔ تک لکھنے کا کام غالبؔ کے سپرد ہوا تھا۔ غالبؔ اس کا پہلا حصہ ہی لکھ سکے تھے کہ دنیا بدل گئی اور دوسرا حصہ ’’ماہ نیم ماہ‘‘ وجود ہی میں نہ آیا۔’’مہر نیمروز‘‘ ایک تحقیقی کتاب کی حیثیت سے بہت اہمیت نہیں رکھتی کیونکہ تقریباً سو صفحوں میں ہزاروں سال کی تاریخ لکھنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ان کتابوں کی بنیاد پر غالبؔ کو مؤرخ نہیں کہا جا سکتا، تاہم اس سے غالبؔ کی واقفیت، وسعتِ مطالعہ اور نکتہ رسی کا پتہ ضرور چلتا ہے۔ وہ زندگی کے تسلسل کے قائل معلوم ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ قیامت کے بعد ایک نئے آدم کے ظہور کا عقیدہ بھی رکھتے ہیں اور حضرت علی کا ایک مقولہ پیش کرکے لکھتے ہیں کہ دنیا یونہی چلتی رہےگی۔ آدم کے بعد آدم آتے رہیں گے۔ یہاں سے غالبؔ نے فلسفۂ وحدت الوجود کا سہارا لے کر حقیقت کا وہی تصور پیش کیا ہے جس میں مادہ اور روح کا امتزاج ہوتا ہے۔ چنانچہ ’’مہر نیمروز‘‘ میں لکھتے ہیں،’’اے آنکہ از قدم وحدوث عالم سخن رائی کمیرہ بہ حلقہ آزادگان در آئی و ایں راز مایگانہ بیناں درمیاں منہ تادانی کہ عالم خود در خارج وجود ندارد ونوی و کہنگی درمیان تو چوں تو اند گنجید۔ ہماں ذات اقدس مقدس کہ صفات عین اوست وعالم ازوے چوں پرتو از مہر جدا نیست۔ در ہر عالم از عیاں ثانیہ تا صور محشورہ اند خویش بر خویش جلوہ گستراست۔‘‘ ایسے خیالات غالبؔ کے خطوں میں فارسی اردو اشعار میں برابر نظر آتے رہے ہیں۔ ان کو تفصیل سے پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔’’ہستی ذرہ جز پندار نیست۔ ہرچہ ہست تاب آفتاب است وبعض دریا را ہرکجارواں بینی ہر آئینۂ موج وحباب وکف وگرداب عیاں بینی آیا آں طراز صورت اصلی دریاست۔ باہر یک ازالہ پیکر در ہستی و پیدائی یا دریا انباز دانی ہمہ اوست ورنہ دانی ہمہ اوست۔‘‘ اس میں شک نہیں رہ جاتا کہ غالبؔ کے دل میں وحدت الوجود کا عقیدہ گھر کئے ہوئے تھا اور کائنات کی بہار اور اس کے تغیرات کو وہ اسی کی روشنی میں دیکھتے تھے۔ غالبؔ نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ اس کتاب میں وہ لکھ رہا ہوں جو مجھے مختلف ذرائع سے ملاہے۔ کہیں کہیں اپنی دید ودریافت سے بھی کام لیا ہے۔ یہاں غالبؔ کا وسیع مطالعہ کام آیا ہے۔ انھوں نے تاریخی تحقیق کا فرض انجام نہیں دیا ہے لیکن آغاز آفرینش کے ان دو عقیدوں کو بڑی دلکشی سے پیش کیا ہے جن سے ہندوستان کے علماء واقف تھے۔پہلے ہندو مذہب کے نقطۂ نظر سے اور پھر اسلام کے مطابق دنیا اور انسان کی پیدائش، ابتداء اور ارتقاء کا ذکر کیا ہے۔ آگے چل کر پارسیوں کے خیالات بھی پیش کئے ہیں۔ غالبؔ نے کہیں کہیں اپنے ماخذ کے حوالے بھی دیے ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ غالبؔ نے ابن خلدون کے اس خیال کو بھی سامنے نہیں رکھاکہ تاریخ کا موضوع انسان کی معاشرتی زندگی ہے۔ حالانکہ ’’دستنبو‘‘ اور خطوط میں معاشرتی پس منظر کہیں کہیں ابھر آیا ہے۔غالبؔ عملاً کسی مخصوص گروہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ ان کی عملی زندگی، پنشن اور روزی کے لئے جد وجہد کرنے اور ادبی کاموں میں لگے رہنے تک محدود تھی۔ روزی کے لئے جد وجہد ان کی طبقاتی زندگی کا مظہر تھی۔ ان کی محنت دماغی تھی جس کے خریدار اور قدر داں امراء اور کھاتے پیتے لوگ ہو سکتے تھے۔ ان کی نگاہ میں عرب اور ایران کے قدر داں بادشاہ اور امراء تھے، خود ہندوستان میں مغل سلاطین، امرائے گولکنڈہ اور بیجاپور کے دربار تھے، جہاں عرفیؔ، نظیریؔ، قدسیؔ، صائبؔ، کلیمؔ اور ظہوریؔ وغیرہ اپنی اسی خصوصیت کی قیمت پا چکے تھے اور عزت کی زندگی بسر کر چکے تھے۔ اس لئے وہ بھی اچھے سے اچھے قصائد لکھ کر، اچھی سے اچھی غزلیں کہہ کر، علمی کام کرکے باوقار زندگی بسر کرنے کا حق اور اطمینان چاہتے تھے۔ ان کے سپاہی پیشہ بزرگوں نے تلوار سے عزت حاصل کی تھی، وہ قلم سے وہی کام لینا چاہتے تھے۔اس طرح ان کی عملی زندگی محدود تھی۔ انفرادی اور ذاتی تجربات کا لازوال خزانہ ان کے پاس تھا لیکن اسے اجتماعی زندگی کے ڈھانچہ میں بٹھانا آسان نہ تھا۔ لامحالہ انھوں نے اس طور پر عمارت کھڑی کی جو انھیں ذہنی طور پر ورثہ میں ملا تھا۔ بس انھوں نے یہ کیاکہ بدلتے ہوئے حالات اور ذاتی تجربات سے مدد لے کر اس عمارت میں چند ایسے گوشے بھی تعمیر کر دیے جو ان کے پیش روؤں سے نہ تو ممکن تھے نہ جن کے نقشہ ذہن میں تعمیر ہوئے تھے۔ ان ذاتی تجربات کے علاوہ غالبؔ کا وسیع مطالعہ تھا جو ان کے ذہن کے لئے غذا فراہم کرتا تھا اور علوم کے ذریعہ سے نئے تجربوں کو سمجھنے کی کوشش میں انھیں ایک نیا رنگ دینے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ اسی چیز کو ان کے نقادوں نے جدت، تازگی اور طرفگیٔ مضامین سے تعبیر کیا ہے۔اسلام اور دوسرے مذاہب کا مطالعہ، تاریخ، اخلاقیات، ہیئت، طب، منطق، تصوف، یہی وہ علوم ہیں جو رائج تھے اور انھیں سے غالبؔ نے زندگی کے سمجھنے میں مدد لی تھی۔ اسلامی علوم اور تصوف جو غالبؔ تک پہنچے تھے، ایران ہوکر پہنچے تھے، اور جب ہم ایران میں لکھی ہوئی مذہب، تاریخ اور اخلاقیات کی کتابوں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تاریخی تقاضوں سے ان میں کئی عناصر جذب ہو گئے تھے۔ بعض عناصر تو مقامی تھے۔ بعض تجارتی راہوں سے وہاں آئے تھے۔ چنانچہ ایران میں جو علمی آثار عباسیوں کے زمانے میں نمایاں ہوئے ان میں عربی، یونانی، زردشتی اور ہندی اثرات تلاش کئے جا سکتے ہیں۔ عباسیوں کے زمانے میں ایران کا قومی احیاء بھی ہوا جسے تاتاریوں کی یورش سے دب جانا پڑا۔ ایران نے تاجر اور سپاہی پیدا کئے لیکن تاجر منظم نہ ہو سکے اور سپاہیوں نے انفرادی طور پر سلطنتیں قائم کرکے شاہی نظام کو مضبوط بنا دیا۔ یہیں سے غالبؔ کو وہ فلسفۂ مذہب و اخلاق ملا جس کو آج تک اسلامی نظام فلسفہ میں اونچی جگہ حاصل ہے اور غالبؔ کے زمانہ میں تو دوسرے خیالات کی طرف ہندوستانیوں کا ذہن جاہی نہیں رہا تھا۔ یہیں سے انھوں نے تصوف کے وہ خیالات لئے جو ایران میں تو افلاطونیت سے مخلوط ہوکر اسلامی عقائد کی سخت گیری کے خلاف پیدا ہوئے تھے، اور جنھیں رسمی مذہب پرستی سے اختلاف رکھنے والے شاعروں نے ہر دلعزیز بنایا۔ یہاں پھر یہ کہہ دینا ضروری ہے کہ غالبؔ صوفی مشرب ہونے اور وحدت میں عقیدہ رکھنے کے باوجود تصوف کے سارے اصول کو عملی صوفیوں کی طرح نہیں مانتے تھے۔ وحدت الوجود کی طرف ان کا میلان کچھ تو مسائل کائنات کے سمجھنے کے سلسلہ میں پیدا ہوا تھا اور مذہب کی ان ظاہر داریوں سے بچ نکلنے کا ایک بہانہ تھا جو ان کی آزاد پسند طیعت پر بار تھیں۔غالبؔ جس سماج کے فرد تھے اس میں باغیانہ میلان اور آزادی کا جذبہ داخلی طور پر تصوف ہی میں نمایاں ہو سکتا تھا کیونکہ غالبؔ کو کوئی خارجی سہارا آزادی کے لئے حاصل نہ تھا۔ کوئی علمی یا ادبی تحریک جس سے وابستہ ہوکر وہ اپنے طبقہ کے ماحول میں گھرے ہونے کے باوجود آگے بڑھ جاتے، موجود نہیں تھی۔ وہ زمانہ کچھ دن بعد آیا۔ جب سرسیدؔ، حالیؔ اور آزاد نے وقت کے تقاضوں کو سمجھا اور زندگی کے نئے مطالبات کی روشنی میں ایک ادبی تحریک کی بنیاد ڈال دی۔ غالبؔ کی ذہنی ترقی کا دور غدر تک ختم ہو چکا تھا۔ گو وہ اس کے بعد بھی بارہ سال تک زندہ رہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ غدر کے بعد غالبؔ کی شاعری تقریباً ختم ہو چکی تھی اور اس کے اثرات ان کے خطوں میں جس طرح نمایاں ہیں، ان کے اشعار میں نمایاں نہ ہو سکے۔ انھوں نے غدر کے پہلے ہی فضا کی ساری اداسی اور افسردگی کو داخلی بنا کر سینہ میں بھر لیا تھا، اس لئے جذبہ کا وہ تسلسل قائم رہا اور خارجی تغیرات نے نئی داخلی سمتیں نہیں اختیار کیں۔ذرائع پیداوار اور انسانی شعور کے عمل اور رد عمل سے زندگی آگے بڑھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مختلف ممالک مختلف سماجی اور معاشی منزل پر ہوتے ہیں اور ان کے فلسفۂ زندگی اور تمدنی شعور کی منزلیں بھی کم وبیش اس سے مناسبت رکھتی ہیں۔ انیسویں صدی کے وسط میں جب ہندوستان اقتصادی پستی کی اس منزل میں تھا، یورپ میں مشینی انقلاب ہو چکا تھا اور سماجی شعور ڈارونؔ، مارکس اور اینگلزؔ کو پیدا کر چکا تھا۔ ہندوستان کا ذہین سے ذہین مفکر اس تخلیقی گرمی سے خالی تھا جو قوموں کی تقدیر بدل دیتی ہے اور اپنے اندر اجتماعی روح کی پرورش کرتی ہے۔ غالبؔ نے بھی عملی زندگی کی جگہ فکری زندگی میں آسودگی حاصل کرنے کی کوشش کی اور اس کے اندر انسان اور کائنات، فنا اور بقا، خوشی اور غم، عشق اور آلام روزگار، مقصد حیات اور جستجوئے مسرت، آرزوئے زیست اور تمنائے مرگ، کثافت اور لطافت، روایت اور بغاوت، جبر و اختیار، عبادت و ریاکاری غرضیکہ ہر ایسے مسئلہ پر اظہار خیال کیا جو ایک متجسس ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔جو سوالات انسان کا ذہن پوچھتا ہے ان کے جواب انھیں حدوں کے اند دیے جا سکتے ہیں، جو کسی دور یا سماج کے گرد حلقہ کئے ہوتے ہیں اور انھیں جوابات یا اظہار خیالات سے انسان کے میلانات ذہنی کا پتہ چلتا ہے۔ یہیں وہ تاریخی جبر بھی سامنے آتاہے جو انسان کو مادی امکانات کے باہر جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس میں شک نہیں کہ قوت متخیلہ بہت آزاد قوت ہے لیکن اس کی آزادی بھی فرد کے شعور سے باہر جاکر دم توڑ دیتی ہے کیونکہ فرد کا شعور اس خاص طرح کی پابندیوں کو توڑ نہیں سکتا جو سماج کے مادی ارتقاء سے پیدا ہوتی ہیں۔غالبؔ کے مطالعہ کے دوران میں ایک دلکش حقیقت کی طرف ذہن ضرور منتقل ہوتا ہے کہ گو وہ ہندوستانی سماج کے دورِ انحطاط سے تعلق رکھتے تھے یعنی ایسے انحطاط سے تعلق رکھتے تھے جو ہر طبقہ کو بے جان بنائے ہوئے تھا لیکن ان کی فکر میں توانائی اور تازگی، ان کے خیالوں میں بلندی اور بیباکی کی غیرمعمولی طور پر پائی جاتی ہیں۔ اس توانائی کا سرچشمہ کہاں ہے؟ اس طبقہ میں اور اس کے نصب العین میں تو ہرگز نہیں ہو سکتا جس سے غالبؔ کا تعلق تھا۔ پھر اس کی جستجو کہاں کی جائے؟ کیا یہ سب کچھ تخیل محض کا نتیجہ ہے؟ ان کی شاعری کا سارا حسن ان کے انفرادی بانکپن کا عکس ہے یا غالبؔ انسان سے کچھ امیدیں رکھتے تھے اور گو ان کی نگاہوں کے سامنے ان کو جنم دینے والی تہذیب نزع کی ہچکیاں لے رہی تھی، جس کے واپس آنے کی کوئی امید نہ تھی لیکن وہ پھر بھی نئے آدم کے منتظر تھے جو زندگی کو پھر سے سنوار کر محبت کرنے کے قابل بنادے۔غالبؔ کی شاعری کاوہ حصہ ان کی عظمت کاحامل ہے جو زیادہ تر ان کی فارسی اردو غزلوں میں ملتا ہے۔ اچھا ہو یابرا لیکن غزل کی شاعری داخلی اور شخصی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ داخلی کیفیات بھی خارج ماحول اور اثرات کا نتیجہ ہوتی ہیں لیکن ان میں اتنی عمومیت پیدا کر دی جاتی ہے کہ داخلیت جن خارجی حقائق کا نتیجہ ہوتی ہے ان کا پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں غزل کے اشعار میں پیش کئے جانے والے خیالات بھی حقیقتوں کا عکس ہوتے ہیں لیکن اس مخصوص حقیقت کو ڈھونڈ نکالنا بعض اوقات تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے، جو اس جذبہ اور خیال کی محرک رہی ہوگی۔ اس لئے غالبؔ کے بہترین خیالات کی بنیادوں کا یقینی علم اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ کوئی واضح اشارہ اس کے متعلق نہ پایا جائے۔ داخلیت اور اشاریت سے حقائق کی شکل بدل جاتی ہے اور یہ چیزیں شاعر کے نظریۂ فن کا جز بن کر اصل خیالوں کو انداز بیان کے پردوں میں چھپا دیتی ہیں۔ غالبؔ نے اسے کھول کر کہہ بھی دیا ہے،ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگوبنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیرمطلب ہے ناز و غمزہ ولے گفتگو میں کامچلتا نہیں ہے دشنہ و خنجر کہے بغیراس طرح غزل کے اشعار کے خارجی محرکات پر رائے قائم کرنا صحت سے دور بھی ہو سکتا ہے تاہم شعر کی فضا اور عام حالات میں ہم آہنگی اور خیالات میں تکرار پائی جائے تو اسے بالکل نظرانداز کر دینا ٹھیک نہ ہوگا۔ کیونکہ غالبؔ کے تشکیل شعور میں جس قسم کے حقائق نے، جس قسم کے سماج نے، جس قسم کی ذاتی الجھنوں نے حصہ لیا، ہم ان سے کسی قدر واقف ہیں اور یہ ہم آہنگی اتفاقی نہیں ہوسکتی۔ بہت سے اشعار ایسے ہیں کہ ان میں کسی مخصوص کیفیت کا بیان ہے لیکن ان کے لکھنے کا ٹھیک زمانہ معلوم نہیں، اس لئے بھی اشعار سے نتائج نکالنے میں غلطی ہو سکتی ہے لیکن ان اشعار سے جو فضا تیار ہوتی ہے اور جن حالات کی ان سے ترجمانی ہوتی ہے، ان کے لئے یہ ضروری نہیں کہ ہمیں ان کے لکھنے کی ٹھیک تاریخ معلوم ہو، مثلاً غالبؔ کا یہ مشہور شعر ہے،داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئیاک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہےاگرچہ غدر سے بہت پہلے لکھا گیا تھا لیکن بعض حضرات نے غدر میں بہادر شاہ ظفر پر جو گذری، اس شعر کو اسی کا بیان سمجھا ہے۔ یہ بات درست نہیں لیکن کون ہے جو اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے کہ حالات کو تیزی سے تباہی کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر غالبؔ نے یہ اندازہ لگایا کہ اب اس تہذیب کا بجھتا ہوا چراغ پھر نہ روشن ہو سکےگا اور یہ شعر اسی قسم کے جذبہ کا ترجمان ہے۔ قصائد سے نتیجہ نکالنا ٹھیک نہ ہوگا کیونکہ مبالغہ اور رسمی انداز قصیدے کی روایات میں داخل تھے لیکن غالبؔ کے قصیدوں کی تشبیہیں اکثر ان ذاتی کوائف کے بیان میں ہوتی ہیں جنھیں وہ تاریخی انداز میں اور فخریہ شان سے پیش کرتے ہیں، شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ قصیدوں کی تشبیہیں اصل نظمیں ہیں اور مدح کے اشعار ان کا وہ رسمی ضمیمہ جن سے کام لینا مقصود تھا۔ غالبؔ نے خطوں میں اپنے قصیدوں کے متعلق تقریباً یہی رائے دی ہے اور اپنے فارسی کلیات نظم کے دیباچہ میں تو دل کھول کر رکھ دیا ہے، کہتے ہیں کہ میرے دیوان میں ہے کیا؟ کچھ غزلیں ہیں جن میں ’’شاہد بازی‘‘ یعنی ’’ہواپرستی‘‘ ہے اور کچھ قصیدے ہیں جن میں ’’ تونگر ستائی یعنی بادخوانی ہے۔‘‘ یہ لکھ کر وہ خود افسوس کرتے ہیں کہ میں نے خود کو اتنا گرا دیا ہے کہ ہر اورنگ نشین کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جانا چاہتا ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ غالبؔ نے اپنی تنقید جو آپ کی ہے وہ ان الفاظ سے ہمیشہ یاد رہےگی۔’’شادم از آزادی کہ بسا سخن بہ ہنجار عشق بازاں گذار دستم دوا غم از آزمندی کہ ورقے چند بہ کردار دنیا طلباں در مدح اہل جاہ سیاہ کرد ستم۔‘‘ اس لیے قصائد کے مدحیہ اشعار پڑھ کر غالبؔ کو خوشامد پسند سمجھنا درست نہ ہوگا۔ ان میں تو حسب رواج بہادر شاہ ظفرؔ کے سے نکمے بادشاہ کی تعریف انھیں الفاظ میں کی گئی ہے جن میں غالبؔ کے پیش روؤں نے اکبر و جہانگیر کا ذکر کیا تھا۔غالبؔ نے نظم ونثر میں جو کچھ لکھا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غالبؔ کی معلومات محض کتابی نہیں تھی بلکہ اپنی ذہانت اور ذاتی تجربہ کی وجہ سے وہ قدیم تصورات سے آگے جانا چاہتے تھے۔ نئی باتوں کا سمجھنا اور نئی انجمنوں سے دلچسپی لینا چاہتے تھے۔ چنانچہ جب ان کی آخری عمر میں دہلی سوسائٹی قائم ہوئی تو اپنی ضعیفی اور معذوری کے باوجود انھوں نے اس سے دلچسپی لی اور کوشش کی کہ لاہور کی انجمنوں کے متعلق معلومات فراہم کریں۔ وہ اخبارات پڑھتے تھے اور دنیا کے حالات سے باخبر رہنا چاہتے تھے۔ اسی وجہ سے وہ اس بات سے واقف تھے کہ اگر بے علمی کی زندگی ختم ہو جائے تو کچھ نہ کچھ ہو رہےگا۔ یہ دنیا امکانات سے بھری ہوئی ہے،کچھ نہ کی اپنے جنون نارسا نے ورنہ یاںذرہ ذرہ رو کش ِخورشیدِ عالم تاب تھاہمت اگر بال کشائی کندصعوہ تواند کہ ہمائی کندنیر توفیق اگر بر د مدلالہ عجب نیست کہ اخگر د مدلیکن وہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ وہ انھیں وقت کی حدوں سے باہر نکلنے سے روکتی تھیں۔ اسی وجہ سے ان کا احساس غم شدید ہے اور انفرادی صلاحیتیں رکھنے کے باوجود مستقبل کی طرف سے کوئی اشارہ کرنے سے معذور ہیں۔ جو فلسفہ انھوں نے طوسیؔ، بوعلی سیناؔ، غزالی اور صوفی شعراء اور علماء سے سیکھا تھا، وہ اس بے دلی اور غم کوشی تک ہی رہنمائی کر سکتا تھا۔ اس سے بدلتے ہوئے اس ہندوستان کا تجزیہ نہیں کیا جا سکتا تھا جو ایک نئے معاشی اور تہذیبی موڑ پر آ گیا تھا۔ اس میں متعین اقدار کی دنیا کو سمجھنے سمجھانے کی باتیں تھیں لیکن عظیم الشان اقتصادی اور اجتماعی انقلاب کا ذکر نہ تھا، اس لئے غالبؔ شاہی اور جاگیردارانہ نظام کو اپنی نگاہوں کے سامنے مٹتے ہوئے دیکھ کر طرح طرح سے متاثر ضرور ہوتے تھے لیکن نہ تو اس کے اسباب کا اندازہ لگا سکتے تھے اور نہ نتائج کا۔ان کا ذہن فضاکی ساری مایوسی اور بےدلی کو اپنے اندر جذب کر رہا تھا لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ اس بے دلی سے باہر نکلنے کا بھی کوئی راستہ ہے یا نہیں؟ انسان کی عظمت اور انسان سے محبت، زندگی کے تسلسل کے خیال اور زندگی سے محبت کے جذبات نے اس زوال پذیر دہلی میں انھیں بڑی الجھنوں میں مبتلا کر دیا اور ان کی شاعری کا بڑا حصہ اس غم کا تجزیہ کرنے میں، اسے بہلانے اور اس کی شاعرانہ توجیہیں پیش کرنے میں صَرف ہو گیا، ورنہ وہ جانتے تھے کہ منزل یہی نہیں ہے،در سلوک از ہرچہ پیش آمد گذشتن داشتمکعبہ دیدم نقش پائے رہرواں نامیدمشاور اس آسودگیٔ خیال کی منزل تک پہونچنے کے لئے مسلسل راستہ تلاش کرتے تھے،چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھپہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میںجس فلسفۂ حیات اور نظامِ اخلاق سے وہ واقف تھے، اس میں یہ جرأت بھی بغاوت کے مترادف تھی کہ کوئی شخص بندھے ٹکے راستوں سے ناآسودہ ہوکر اپنے لئے نیا مسلک تلاش کرے اور عقل سے کام لے کر اچھائی برائی کا فیصلہ کرے۔ معلوم نہیں غالبؔ معتزلہ کے عقلی نقطۂ نظر سے متفق تھے یا نہیں لیکن اندازہ یہی ہوتا ہے کہ اگر انھوں نے تھوڑا بہت اس سے اثر لیا بھی تو وحدت الوجود کے عقیدے نے اسے دبا دیا تھا کیونکہ وہ جبر کے قائل بھی معلوم ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ جبر زوال سے باہر نہ نکل سکنے اور کوئی راستہ نہ دیکھ سکنے کا نتیجہ ہو۔مغل دور تہذیب صرف ہندوستان ہی کی تاریخ نہیں بلکہ تاریخ عالم میں اہمیت رکھتا ہے۔ اس کی تخلیقی قوتیں تعمیر، موسیقی، شعر وادب، مصوری اور منظم مرکزی حکومت کی شکل میں ظاہر ہوئی تھیں۔ عروج کے زمانے میں ہر گوشۂ بساط ’’دامانِ باغباں و کفِ گل فروش‘‘ رہ چکا تھا۔ تعیش کی لاتعداد صورتیں فرصت نے پیدا کی تھیں اور جس طبقہ سے غالبؔ کا تعلق تھا، وہ نشاطِ زندگی سے بہرہ ور تھا، لیکن جب حالات بدل گئے تو یہ احساس ہوا کہ،دل تا جگر کہ ساحلِ دریائے خوں ہے اباس رہ گذر میں جلوۂ گل آگے گرد تھاوہ دور مٹ رہا تھا اور اسے پھر سے زندہ کرنا ممکن نہ تھا،فلک سے ہم کو عیشِ رفتہ کا کیا کیا تقاضہ ہےمتاعِ بردہ کو سمجھے ہوئے ہیں قرض رہزن پراس شعر میں کھوئی ہوئی دنیا کی تلاش کا جذبہ نہیں معلوم ہوتا بلکہ اس یقین کا احساس ہے کہ اب وہ عیش رفتہ آنے والا نہیں ہے۔ یہ یقین بار بار مختلف اشعار میں ظاہر ہوا ہے،گھر ہمارا جو نہ روتے تو بھی ویراں ہوتابحر اگر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتامری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کیہیولیٰ برقِ خرمن کاہے خون گرم دہقاں کاتعمیر اور تخریب کا نیم جدلیاتی تصور زبردست مشاہدے کا نتیجہ کہا جا سکتا ہے لیکن یہ چیز غور کرنے کی ہے کہ غالبؔ کا ذہن تعمیر کے بعد تخریب کو دیکھ لیتا تھا۔ ترقی کے بعد زوال کا اندازہ کر لیتا تھا لیکن تخریب کے بعد نئی ترقی کا تصور نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے اسباب بھی اس دور کی مٹتی ہوئی قدروں میں دیکھے جا سکتے ہیں، ورنہ غالبؔ تو آدم کے بعد نئے آدم اور قیامت کے بعد نئی دنیا کی پیدائش کے قائل تھے،ہیں زوال آمادہ اجزا آفرینش کے تماممہر گردوں ہے چراغ رہ گذارِ بادیاںنظر میں ہے ہماری جادۂ راہِ فنا غالبؔکہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشاں کایہ خیالات جہاں ایک طرف ان تاریخی حقائق کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو غالبؔ کے دور کو یقینی بربادی کی جانب لے جا رہے تھے وہاں دوسری جانب تعمیری نقطۂ نظر کے فقدان کا بھی پتہ دیتے ہیں اور اس ’’حسرت تعمیر‘‘ کا معنی خیز غم آخر وقت تک غالبؔ کے ساتھ رہا جو دل ہی میں رہ گیا۔ غالبؔ اس شک کا مسلسل شکار ہوتے رہے لیکن وحدت الوجودی ہونے کی وجہ سے ان کا یہ شک تصوف کا مابعد الطبیعاتی لبادہ اوڑھ لیتا ہے اور زندگی کے لایعنی ہونے کایقین پیدا کر دیتا ہے لیکن اس مسئلہ پر زیادہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔خواہش مرگ اور تمنائے زندگی کی متضاد کیفیات پہلو بہ پہلو ملتی ہیں۔ حیات اور موت ایک دوسرے میں گتھی ہوئی ہیں۔ اگر کسی کا طبقاتی بیدار ہو تو اس کے یہاں یہ دونوں چیزیں ملائی نہیں جا سکتیں۔ جب کوئی طبقہ مٹنے کے قریب ہوتا ہے، اس سے وابستہ رہنے والے اس الجھن میں گرفتار نظر آتے ہیں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غالبؔ اپنے طبقہ کی بے عملی اور مردہ دلی سے اکتا چکے تھے لیکن اس سے رشتہ توڑ لینا ان کے لئے ممکن نہ تھا، تاہم وہ یہ ظاہر ہی کر دیتے ہیں کہ ان کے دل میں جو کچھ ہے وہ کھل کر نہیں کہہ سکتے۔ تنہائی اور اجنبیت کا احساس بھی اسی جذبہ کی غمازی کرتا ہے،جاتا ہوں داغِ حسرتِ ہستی لئے ہوئےہوں شمع کشتہ در خورِ محفل نہیں رہادل میں ذوقِ وصل ویادِ یار تک باقی نہیںآگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیانہ جانوں نیک ہوں یا بد ہوں پر صحبت مخالف ہےجو گل ہوں تو ہوں گلخن میں جو خس ہوں تو ہوں گلشن میںکس زبانِ مرا نمی فہمدبہ عزیزاں چہ التماس کنمبیاو رید گر ایں جا بود زباں دانےغریب شہر سخن ہائے گفتنی داردکس کو سناؤں حسرتِ اظہار کا گلہدل فرد جمع و خرچ و زباں ہائے لال ہےجیساکہ عرض کیا جا چکا ہے کہ اگر غالبؔ نے آنکھیں بند کرکے وہی راہ اختیار کرلی ہوتی جو روایتی شاعری پیش کرتی ہے تو انھیں اس کشمکش کا سامنا نہ کرنا پڑتا لیکن ان کے اندر جو انفرادی کرید تھی اور جو کبھی کبھی انھیں تشکیک، نراج اور لاشیئیت کے قریب پہنچادیتی تھی، وہ انھیں روایتوں کے توڑنے پر اکساتی تھی۔ (اس کا ذکر میں اپنے ایک مضمون ’’غالبؔ کی بت شکنی‘‘ میں کسی قدر تفصیل سے کر چکا ہوں) یہاں تک کہ رسم پرستوں اور روایت دوستوں کی دنیا میں وہ اپنے کو تنہا محسوس کرنے لگتے تھے اور وہ لوگ جو ان کے گردوپیش تھے، ان کے دل کی واردات کو سمجھنے کے ناقابل نظر آنے لگتے ہیں اور ان کے لئے زبان کھولنے اور ان سے ہمدردی کرنے کو جی نہ چاہتا تھا،ہستی کا اعتبار بھی غم نے مٹا دیاکس سے کہوں کہ داغِ جگر کا نشان ہےچہ ازیں فرقہ ادا نہ شناسخویشتن را ہلاک یاس کنماس میں شک نہیں کہ غالبؔ نے ان اخلاقی قدروں کی بہت کچھ پابندی کی جو ایسے تمدن میں پسندیدہ کہی جا سکتی تھیں لیکن ان کا مطالعہ بھی غور سے کیا جائے تو وہ پہلو زیادہ نمایاں نظر آئیں گے جن میں انسان کی عظمت میں اضافہ ہوتا ہے اور فرد کی شخصیت بے پناہ کشش کی حامل بن جاتی ہے۔ غالبؔ کے سوانح نگاروں نے واقعات زندگی اور اشعار کی روشنی میں اس پہلو پر کافی لکھا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ اخلاق پر بھی انھیں خیالات اور واقعات کو پیش نظر رکھ کر نگاہ ڈالی جا سکتی ہے جو دوسرے تہذیبی محرکات کی بنیاد تھے کیونکہ اخلاقی مظاہر کی نوعیت بھی طبقاتی ہے۔ غالبؔ اخلاقی معاملات میں اپنے طبقہ کی پوری نمائندگی کرتے ہیں لیکن ان کی تخلیقی ذکاوت اور فطری شگفتگی اخلاقی قدروں میں عوامی رنگ پیدا کر دیتی ہے، پھر ان سب پر بالا ہے ان کی دلسوزی اور رواداری، بے تکلفی اور انسان دوستی۔ اس بات پر بحث کرتے ہوئے محمد اکرام نے غالبؔ کے ایک اردو خط سے چند سطریں پیش کیں ہیں جن کا دہرانا مناسب نہ ہوگا۔’’قلندری و آزادی، ایثار وکرم کے جو دعاوی میرے خالق نے مجھ میں بھر دیے، ہیں بقدر ہزار ایک ظہور میں نہ آئے۔ نہ وہ طاقت جسمانی کہ ایک لاٹھی ہاتھ میں لوں اور اس میں شطرنجی اور ایک ٹین کا لوٹا معہ سوت کی رسی کے لٹکالوں اور پیادہ پا چل دوں۔ کبھی شیراز جا نکلا، کبھی مصر میں جا ٹھہرا، کبھی نجف جا پہنچا، نہ وہ دست گاہ کہ عالم کا میزبان بن جاؤں، اگر تمام عالم نہ ہو سکے نہ سہی جس شہر میں رہوں اس شہر میں تو ننگا بھوکا نظر نہ آئے۔ خدا کا مقہور، خلق خدا کا مردود، بوڑھا، ناتواں، بیمار، فقیر، نکبت میں گرفتار، میرے اور معاملات کلام و کمال سے قطع کرو، وہ جو کسی کو بھیک مانگتے نہ دیکھ سکے خود دربدر بھیک مانگے، وہ میں ہوں۔‘‘ غالبؔ عالم خیال کے بسنے والے تھے اور خلوت کو انجمن بنانے کی صلاحیت رکھتے تھے لیکن انھوں نے کاروبار زندگی کی طرف سے اپنی آنکھیں بند نہیں کر رکھی تھیں۔ غمِ روزگار کی اس حقیقت سے واقف تھے جو غمِ عشق کو دباکر رکھ دیتا ہے۔ وہ تجربہ گاہ عالم کو نظر اندازنہیں کرتے تھے،اہل بینش کو ہے طوفانِ حوادث مکتبلطمۂ موج کم از سیلیٔ استاد نہیںلیکن دشواری یہ تھی کہ آگے راہ غالبؔ کے لیے روشن نہ تھی اور خیالوں ہی میں ساری راہیں طے کرنا پڑتی تھیں۔ اس سعی بے حاصل کا احساس بھی انھیں شدت کے ساتھ تھا۔،شوق اس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو کہ جہاںجادہ غیر از نگۂ دیدۂ تصویر نہیںہوں گرمیٔ نشاط تصور سے نغمہ سنجمیں عندلیب گلشنِ نا آفریدہ ہوںغالبؔ کا مطالعہ جتنا کیا جائے، یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے دور سے غیر آسودہ تھے۔ اس کی تباہی اور بربادی کو یقینی جانتے تھے لیکن تاریخی اور معاشی شعور کے فقدان کی وجہ سے نہ تو وہ اس انحطاط کے اسباب سے واقف تھے اور نہ آگے کی راہ سے۔ اس لئے ماضی کاذکر کبھی کبھی انھیں تسکین دیتا تھا۔ وہ غزل جس کا مطلع یہ ہے،مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئےجوشِ قدح سے بزمِ چراغاں کئے ہوئےنہ پوری ہونے والی آرزوؤں کی آخری ہچکی ہے اور بیتے دنوں کی آخری یاد معلوم ہوتی ہے۔ یہ بہاریں اب کبھی دیکھنے میں نہ آئیں گی، یہ تمنائیں اب کبھی پوری نہ ہوں گی! گو غالبؔ ان لوگوں میں سے تھے جو غم کے متعلق کہہ سکتے تھے کہ،غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفسبرق سے کرتے ہیں روشن شمعِ ماتم خانہ ہملیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب غم کے بعد خوشی بھی اپنا جلوہ دکھائے اور جب مسلسل غم ہو تو بجلی سے چراغ نہیں جلتے، گھر میں آگ لگ جاتی ہے اور انسان ’’نومیدی جاوید‘‘ کا شکار ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ غیرمعمولی جد وجہد اور ذہنی کشمکش کے باوجود غالبؔ کو کہنا پڑاکہ،صد قیامت در نورد و ہر نفس خوں گشتہ استمن ز خامی در فشار بیم فردایم ہنوزشد روز رستخیز بہ یاد شبِ وصالمحوم ہماں بہ لذت بیمِ سحر ہنوزہے شکستن سے بھی دل نومید، یارب کب تلکآبگینہ کوہ پر عرضِ گراں جانی کرےاور مسلسل ناکامیوں کے بعد یہ اعتراف شکست،رات دن گردش میں ہیں سات آسماںہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیانہ گلِ نغمہ ہوں نہ پردۂ سازمیں ہوں اپنی شکست کی آوازغالبؔ کا یہ اعتراف شکست اس نظام کی شکست کا اعلان بھی ہے۔بہرحال غالبؔ کی شاعری اپنے سارے غم واندوہ کے باوجود ہمارا قیمتی تہذیبی سرمایہ ہے، جس میں ان کی شخصیت کی رعنائی نے زندگی سے رس نچوڑے ہیں اور آلام روزگار سے ٹکر لینے کی کوشش نے توانائی پیدا کر دی ہے۔ گویا شاعری ایک تہذیب کے عالم نزع میں پیدا ہوئی لیکن ان ولولوں اور حوصلوں سے حسین اور جاندار بن گئی ہے جو اس غزل کے ہر ہرلفظ میں جولاں ورقصاں ہیں،بیا کہ قاعدۂ آسماں بہ گردانیمقضا بہ گردشِ رطلِ گراں بہ گردانیمبگوشۂ بہ نشینم و در فراز کنیمبہ کوچہ برسررہ پاسباں بہ گردانیماگر زشحنۂ بود گیر ددار نندیشیموگر ز شاہ رشد ارمغاں بہ گردانیماگر کلیم شود ہم زباں سخن نہ کنیمو گر خلیل شود میہماں بہ گردانیمگل افگینم و گلابے بہ رہ گذر باشیممی آواریم و قدح درمیاں بہ گردانیمز جوش سینہ سحر را نفس فرو نبیدیمبلائے گرمیٔ روز از جہاں بہ گردانیمبہ جنگ باج ستانانِ شاخساری راتہی سبد زدرِ گلستاں بہ گردانیمبہ صلح بال فشانانِ صبح گاہی راز شاخسار سوئے آشیاں بہ گردانیمسب کے ساتھ مل جل کر نظامِ کائنات کو بدل دینے کی یہ خواہش، زندگی کی یہ تڑپ اور یہ حسن، یہ خوبصورت ارادے اور یہ منصفانہ عزائم کسی شاعر کو زندۂ جاوید بنانے کے ضامن ہو سکتے ہیں۔ فنون لطیفہ کا ذکر کرتے ہوئے لیننؔ نے کلار ازٹکن سے کہا تھا کہ خوبصورت چیزوں کو چاہے وہ پرانی ہی کیوں نہ ہوں، ہمیں محفوظ رکھنا چاہئے۔ یہ بات کلامِ غالبؔ کے لئے بھی درست ہے۔ اب رہیں غالبؔ کے حقائق کو سمجھنے کی کوششیں اور ان کی خامیاں، وہ ان کے دور اور ان کے طبقہ کی بھی خامیاں ہیں جن میں پھنس کر وہ محض تخیل کی قوت سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے رہے۔غالبؔ کے یہاں تضاد ہے لیکن ایسا فلسفہ جو تضادسے خالی ہو، محض غیر طبقاتی، اشتراکی سماج میں جنم لے سکتا ہے۔ تاریخ مجموعی طور پر جس طرف جا رہی تھی، غالبؔ کے یہاں اس کی سمت اشارے ہی نہیں ملتے، اس کا خیر مقدم بھی ہے۔ اس بدلتی ہوئی دنیا کا تھوڑا بہت عکس ان کے یہاں ضرور ملتاہے، جو ابھی کوئی شکل اختیار کرکے وجود میں نہیں آئی تھی۔ پھر شاعر اور ہندوستانی تہذیب کے زوال پذیر عہد کے شاعر ہونے کی حیثیت سے غالبؔ کی انفرادیت میں جو گرمی اور بت شکنی کا انداز ہے، اسے بھی دیکھنا ہوگا۔ ایک موقع پر دنیا کے سب سے بڑے انقلاب پسند لیننؔ نے بھی شاعروں کو یہ کہہ کرک چھوٹ دی تھی کہ،’’اس میں شک نہیں کہ ادبی تحقیقات سب سے کم کسی معیار کی میکانکی ناپ تول کی متحمل ہو سکتی ہیں۔ اس میں بھی شک نہیں کہ ادبی کاموں کے لئے یہ بات قطعی لازمی ہے کہ انفرادی تخلیقی عمل اور شخصی رجحانات، سرمایۂ تخئیل اور مواد ہیئت کے وسیع ترین استعمال کا موقع فراہم کیا جائے۔‘‘ اس لئے کسی سماج میں جو زندگی کے سمجھنے کی کوششوں کو قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، غالبؔ کی عظمت کم نہ ہوگی اور ان کی شاعری کو کسی بھی پیمانے سے ناپا جائے، ذہن انسانی کے تخلیق کردہ اس ادبی منارے کی بلندی کسی طرح پستی میں تبدیل نہ ہوگی۔حاشیہ(۱) اس لحاظ سے ان مصنفوں کے علاوہ غلام رسول مہرؔ، حمید احمد، مہیش پرساد، عبد الستار صدیقی، مسعود حسن رضوی، قاضی عبد الودود، مالک رام، مختار الدین، امتیاز علی عرشیؔ اور بعض دوسرے محققین کی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے، کیونکہ صحیح اور وافر مواد کے بغیر صحیح تنقید بھی نہیں ہو سکتی۔ غالبؔ کی زندگی اور تصانیف کے بارے میں تحقیقی کام ہوا ہے، اس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور آج غالبؔ کا کوئی تنقیدی مطالعہ ان سے واقفیت حاصل کئے بغیر ممکن نہیں ہے۔ میں نے بھی حسب استطاعت ضرور ان سے فائدہ اٹھایا ہے۔