غالب اور جدید ذہن
چند سال ہوئے میں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایک تجربہ کیا تھا۔ یونیورسٹی کے تیس ایسے اشخاص سے جو اردو کے ادیب یا شاعر یا استاد ہیں، یہ فرمائش کی گئی تھی کہ وہ غالبؔ کے دس بہترین اشعار کی نشان دہی کریں اور اپنے انتخاب کے وجوہ بھی بیان کریں۔ اس تجربے کے خاصے دل چسپ نتائج برآمد ہوئے۔ دس میں سے چار ایسے اشعار تھے جو نسخۂ حمیدیہ میں ہیں اور متداول دیوان غالبؔ میں نہیں اور بقیہ اشعار میں بھی جذبے کی تصویروں کے بہ جائے فکری پہلو یا نفسیات پر زیادہ توجہ تھی۔
اس لیے میرے نزدیک نسخۂ حمیدیہ کا مطالعہ جتنا گہرا ہوگا، غالبؔ کی عظمت اتنی ہی واضح ہوگی۔ غالبؔ کے بہت سے بلند پایہ اشعار یا تو بہ جنسہ نسخۂ حمیدیہ میں موجود ہیں یا ان کے نقش اول کی بنیاد پر نقشِ ثانی تیار کیا گیا ہے۔ نسخۂ حمیدیہ اور بیاض علائی میں غالبؔ کی تین غزلیں ایک ہی زمین اور ردیف قافیے میں ہیں۔ ان غزلوں کے منتخب اشعار سے جو غزل بنتی ہے اس کی طرف میں آپ کو خاص طور پر متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔
ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں
میں دشتِ غم میں آہوئے صیاد دیدہ ہوں
ظاہر ہیں میری شکل سے افسوس کے نشاں
جوں شانہ پشت دست بدندان گزیدہ ہوں
میں چشم وا کشادہ و گلشن نظر فریب
لیکن عبث کہ شبنم خورشید دیدہ ہوں
سر پر مرے وبالِ ہزار آرزو رہا
یا رب میں کس غریب کا بختِ رمیدہ ہوں
ہوں گرمیٔ نشاطِ تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیبِ گلشن نا آفریدہ ہوں
جو چاہیے نہیں ہے مری قدر و منزلت
میں یوسفِ بہ قیمتِ اول خریدہ ہوں
ہرگز کسی کے دل میں نہیں ہے مری جگہ
ہوں میں کلامِ نغز ولے ناشنیدہ ہوں
اہل ورع کے حلقے میں ہر چند ہوں ذلیل
پر عاصیوں کے فرقے میں میں برگزیدہ ہوں
پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسدؔ
ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں
آہوئے صیاد دیدہ، پشت دست بدندان گزیدہ، شبنم خورشید دیدہ، غریب کا بختِ رمیدہ، عندلیب گلشن ناآفریدہ، یوسف بہ قیمت اول خریدہ، کلام نغزولے ناشنیدہ، عاصیوں کے فرقے میں برگزیدہ، مردم گزیدہ جیسی ترکیبوں اور فقروں میں معنی آفرینی، حسن آفرینی اور بلاغت تینوں کا ثبوت ملتا ہے۔ یہاں عبارت، اشارت اور ادائے غالب ہی کے الفاظ میں بلائے جاں ہے۔ زندگی کے گہرے مشاہدے کے ساتھ اس کا بھرپور تجربہ ہے۔ اس تجربے نے تخیل میں تازہ کاری اور لالہ کاری کا ایک اعجاز دکھایا ہے اور یہ تخیل خصوصی تجربے کو ایک آفاقی صداقت دیتا ہے۔ ایک فن پارہ اسی نسبت سے آفاقی ہوتا ہے جس نسبت سے اس میں خصوصی تجربہ ہوتا ہے مگر یہ تجربہ فیشن یا فارمولے یا گروہ کے خیالات کی پاسداری کی وجہ سے نہیں، اس کے اپنے دلِ گداختہ سے پگھل کر نکلتا ہے۔ اس لیے بنیادی شرط فنکار کے خلوص اور اس کی نظر اور اس نظر کے قطرے میں دجلے کے امکانات دیکھنے کی صلاحیت کی ہے۔
فنکار سے محض شدید جذبات یا مانگے ہوئے اجالے سے چراغاں کرنے کی توقع غلط ہے۔ اس سے اخلاقی پیام یا امید کی کرن مانگنا بھی بے سود ہوگا۔ یہاں محض الفاظ کی خوب صورتی کا بھی سوال نہیں ہے جو خیال کے ہم راہ ہوتی ہے اور اسے خوشگوار بناتی ہے۔ یہاں اصلی سوال فنکار کی بصیرت اور اس بصیرت کی گہرائی کا ہے اور اس کے حیات کے دائرے کا۔ اسی کو پاؤنڈ فن (interpretative power) یعنی اس کی زندگی کی ترجمانی کی صلاحیت کہتا ہے۔
ہمیں شاعر سے یہ مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہے کہ وہ ہمیں تسلی دے یا نجات، اور اگر شاعر تسلی یا نجات کی خاطر اپنے خصوصی تجربے کو توڑتا مروڑتا ہے تو اپنے اور فن دونوں کے ساتھ زیادتی کرتاہے لیکن ہم شاعر سے یہ مطالبہ ضرور کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے سے مخلص ہو اور اپنی مخصوص نظر کا وفادار۔ ہاں یہ ہم ضرور دیکھیں گے کہ اس کی یہ مخصوص اور پرخلوص نظر ہمیں کس قسم کی، کتنی گہری، کتنی حکیمانہ، کتنی سچی اور کتنی دور رس بصیرت دیتی ہے جس میں اس کی اپنی بساط کی رنگا رنگ بزم آرائیاں بھی ہیں اور اس بساط پردہ خاموش شمع بھی جو دلیل سحر ہے اور بہ قول اصغرؔ وہ خاکستر پرواز بھی جس میں شمعِ شبستاں کے سب انداز جذب ہیں۔ بڑے شاعر کے لئے وقت اس کے عہد کے خانے میں اسیر نہیں ہوتا۔ اس میں ماضی بھی زندہ ہوتا ہے اور پیدا ہونے والے مستقبل کی آہٹ بھی ہوتی ہے۔ بہ قول ایک انگریزی شاعر،
Both a new world
And the old,
Made Explicit, Understood
In the completion of its partial ecstasy
The Resolution of its partial Horror
غالب کے مطالعے میں ہمیں سب سے پہلے اس بات پر غور کرنا ہے کہ غالبؔ کے یہاں اس قسم کے اشعار کی کثرت کیوں ہے۔
اسدؔ ارباب فطرت قدردانِ لفظ معنی ہیں
سخن کا بندہ ہوں لیکن نہیں مشتاق تحسیں کا
بزم نظر میں بیضۂ طاؤس خلوتاں
فرشِ طرب یہ گلشنِ ناآفریدہ کھینچ
تو پست فطرت اور خیال بسا بلند
اے طفلِ خود معاملہ قد سے عصا بلند
نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
ہے تصور میں نہاں سرمایۂ صد گلستاں
کاسۂ زانو ہے مجھ کو بیضۂ طاؤس بس
ہے سر نوشت میں رقم وا شکستگی
ہوں جوں خط شکستہ بہرجا شکستہ دل
زلفِ خیال نازک و اظہار بے قرار
یارب بیاں شانہ کش گفتگو نہ ہو
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
ہجوم فکر سے دل مثلِ موج لرزے ہے
کہ شیشہ نازک وصہبائے آبگینہ گداز
ہاتھ دھو دل سے یہی گرمی گر اندیشے میں ہے
آبگینہ تندہی صہبا سے پگھلا جائے ہے
عرض کیجئے جوہر اندیشہ کی گرمی کہاں
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا
ہر دور کی عام بصیرت محدود ہوتی ہے۔ سماج کا بڑا حصہ اپنی حالت پر قائم رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک چھوٹا اور بیدار حصہ اسے بدلنے کی یا اس کے در و دیوار کے رخنے دکھانے کی۔ یہ بیدار حصہ اپنی بستی میں اجنبی بن جاتا ہے۔ یہ تنہا محسوس کرتا ہے، اس کی بات لوگ سمجھنا نہیں چاہتے یا سمجھنے سے انکار کر دیتے ہیں کیونکہ یہ مانوس جلووں کے طلسم کو توڑتا ہے اور اپنی بصیرت کی وجہ سے دیوتاؤں کے مٹی کے پاؤں دکھاتا ہے۔ تاج و تخت کی پستی اور بوریا کے فرش کی عظمت واضح کرتا ہے۔ ساغرِ جم سے جامِ سفال کو بہتر ثابت کرتا ہے۔ پھر اس کے اندر جو محشرستانِ تخیل ہے اس کے لیے اسے مروجہ زبان ناکافی محسوس ہوتی ہے۔ اس کی صہبا میں اس بلا کی تندی ہوتی ہے کہ آبگینہ پگھل جاتا ہے اور گو یہ نئی میکدہ سازی ہے مگر کچھ رندوں کو اتنا انتظار کہاں۔
غالبؔ نے نسخۂ حمیدیہ کے بیشتر اشعار کو خارج کر دیا مگر بہت سے اشعار پر نظر ثانی کر کے ایک مفاہمہ کیا۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ مفاہمہ غالبؔ کو خاصا مہنگا پڑا مگر غالبؔ نے ناسخؔ اور ذوقؔ کی راہ اختیار نہیں کی۔ وہ کر بھی نہیں سکتے تھے۔ غالبؔ کی شاعری نہ رعایت لفظی کی شاعری تھی، نہ محاورے کی، نہ عمومی جذبات کے عمومی بیان کی۔ غالبؔ کی شاعری ان کی انفرادیت کی پکار تھی۔ یہ انفرادیت جو تخئیل کی آزادانہ پرواز اورتجربہ میں فکر کی آئینہ دار تھی، مروجہ زبان میں سما نہیں سکتی تھی جو جذبے کی موج یا محاورے کی مستی ہی کو برداشت کر سکتی تھی۔
ہر شاعری شروع میں سادہ ہوتی ہے اور اپنے زمانے میں حقیقی بھی لیکن زندگی کا قانون یہ ہے کہ وہ سادگی سے پیچیدگی کی طرف سفر ہے۔ سادہ شاعری کے معنی یہ ہیں کہ وہ جذبے کی یک رنگی یا اس کی اکہری کیفیت کی آئینہ دار ہو۔ جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھتا جاتا ہے، زندگی کے ساتھ شاعری بھی پیچیدہ ہوتی جاتی ہے۔ ابتدائی شاعری سنائی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ شاعری پڑھی بھی جاتی ہے۔ ابتدائی شاعری میں فوری ایپل سب کچھ ہے اور اس لیے وہ جذبے یا سادہ فکر کا ہی بار اٹھا سکتی ہے۔ ترقی یافتہ شاعری پڑھنے، سوچنے، تخیل کی بزم آراستہ کرنے، سخن سے ماوار جانے، معنی کی تہوں تک پہنچنے، قدما کے افکار کی گونج سے فائدہ اٹھانے، مختلف کیفیات کو سمونے کا مطالبہ کرتی ہے۔
اردو میں مشاعرے کی اہمیت بہت اہم رہی ہے مگر اس سے نقصان بھی ہوا ہے۔ مشاعرے میں طرف دار زیادہ ہوتے ہیں، سخن فہم کم۔ مشاعرے میں وہ شعر مقبول ہوتا ہے جس میں یا تو پہلے مصرع میں کہی ہوئی بات کو کسی چابک دستی سے دوسرے مصرعے میں ثابت کر دیا جائے یا کسی محاورے کے ذریعے سے خیال کو دل نشین بنا دیا جائے یا کوئی اچھا پیام دیا جائے یا کوئی سنہری یاد تازہ کی جائے۔ مشاعرہ نشہ اور نجات دونوں کا سامان فراہم کرتا ہے۔ اس میں شاعری جزویست از پیغمبری ہے یعنی (prophesy’ poetry) ہے۔ یہ بات اس وقت ٹھیک تھی جب شاعری سب کام کرتی تھی اور انسانی ذہن کا سب سے مقبول ذریعہ اظہار تھی۔ اس وجہ سے تاریخ اور علوم کے لیے بھی شاعری کا سہارا لینا پڑتا تھا اور مذہب کے لیے بھی شاعری سب سے زیادہ کارآمد تھی، لیکن تہذیب کی ترقی کے ساتھ نثر متمدن انسان کے بہت سے کاموں کے لیے خاصی کارآمد ہو گئی ہے۔
واقعات کے بیان کے لئے، حالات کو بدلنے کے لئے، ملٹن کے الفاظ میں خدا کے طریقوں کو انسان کے لیے صحیح ثابت کرنے کے لیے یا اقبالؔ کے الفاظ میں آدم کو آداب خداوندی سکھانے کے لیے اب نثر زیادہ موزوں ہے۔ زندگی پیچیدگی اور اختصاص کی طرف جاتی ہے۔ شاعری بھی اس سے اپنا دامن نہیں بچا سکتی۔ شاعروں کو اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم کیا کریں اور نہ یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ہمیں کیا محسوس کرنا چاہیے۔ شاعری اب صرف یہ کہتی ہے کہ ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے۔ ہم یہ دیکھتے ہیں۔ ہمیں یہ نظر آتا ہے اور جب شاعری اپنی اس نظر کی ترجمان ہوتی ہے تو اپنی بلندی میں وہ خود بہ خود ایسی کلی بصیرت پیدا کر لیتی ہے کہ قطرہ میں دجلہ اور جز میں کل نظر آنے لگتا ہے۔
فن کو حالیؔ نے اخلاق کا نائب مناب اور قائم مقام بتایا تھا مگر یہاں حالیؔ در اصل اپنے دور کی ضرورت کے مطابق ایک بات کو مبالغے کے ساتھ کہہ رہے تھے۔ فن اخلاق کا نائب نہیں ہے۔ فن خود اخلاق ہے، فن کسی خاص زمانے کا صحیفۂ اخلاق نہیں ہوتا مگر وہ اپنی بلندی میں ہمیشہ اخلاقی ہوتا ہے۔ اسی طرح فن کو سماجی دستاویز ہونے کی ضرورت نہیں ہے مگر فن میں ایک سماجی بصیرت ہوتی ہے جو علوم سے حاصل کی ہوئی فکر کو انسانی تجربے سے مربوط کر کے ہمیں اپنے طور پر سماج کی روح سے آشنا کراتی ہے۔ اس بصیرت کی وجہ سے ادیب اور فن کار جو شعور دیتے ہیں، وہ علوم کے عطا کیے ہوئے شعور سے کم اہمیت نہیں رکھتا۔ یہ علوم کا بدل بھی نہیں ہے۔ ہاں، اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے دور کے علمی سرمائے کی روح سے آشنا ہو۔ اپنے دور کے علمی سرمائے کا فاضل ہونا اس کے لئے ضروری نہیں۔
سی پی اسنو نے دو تہذیبوں کا تذکرہ چھیڑ کر مسئلہ کو الجھایا ہے سلجھایا نہیں۔ مسئلہ ایک دوسرے کی جگہ لینے کا نہیں، دونوں کے اپنے اپنے فطری راستے پر چلنے کا اور ساتھ ساتھ چلنے اور ایک دوسرے کو متاثر کرتے رہنے کا ہے۔ اسی لیے آج اہل نظر اس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ انسانی سماج کی ترقی میں صرف علوم و فنون کے سرمائے کو عام کرنا کافی نہیں ہے۔ شعر وادب کے ذریعے سے احساس کو زندہ و توانا اور ذہن کو حساس اور بیدار رکھنے اور تخیل کو صورت گری کے لیے ابھارنے کا بھی سوال ہے۔ شاعری ابتدا میں فطرت کی پرستار تھی اور دیومالا کے ذریعے سے فطرت اور انسان میں ربط قائم کرتی تھی پھر اس نے مذہب کی انگلی پکڑی اور اس کے ذریعہ سے انسانیت کے کارواں کئی منزلوں سے گزرے۔
ہماری قدیم شاعری زیادہ تر مذہبی ہے۔ جدید شاعری زیادہ تر سیکولر ہے۔ سیکولر شاعری کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ مذہب کی اہمیت سے انکار کرے، جس طرح اس کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ دیو مالا سے علامت کا کام نہ لے۔ مگر مجھے اس پر اصرار ہے کہ شاعری کا ارتقا مذہبی فکر سے سیکولر فکر کی جانب ہوا ہے۔ اقبالؔ کو بھی خدا سے یہ کہنا پڑا کہ ’’کارِ جہاں دراز ہے، اب مرا انتظار کر۔‘‘
سیکولر شاعری میں بھی فکر کا سرچشمہ مذہبی ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے لیکن سیکولر شاعری دنیوی زندگی کے زیادہ سے زیادہ پہلوؤں کا احاطہ کرنا چاہتی ہے اور آدمی کے اور آدمی کے درد و داغ اور سوز و ساز کی زیادہ سے زیادہ عکاسی کرتی ہے۔ وہ آدمی کی ملکوتیت بھی دکھاتی ہے اور اس کی شیطنت بھی۔ وہ جب دیکھتی ہے کہ مذہب کی روح کو چند رواجوں کے خانے میں اسیر کر لیا گیا ہے یا جب مذہب کے معنی آدمی کی محتاجی (Dependence) کے سمجھ لیے گئے ہیں یا جب مذہب کو بہانہ بنا کر آدمی کے اندر جو تشدد پسندی یا خون ریزی یا ہلاکت آفرینی چھپی ہوئی ہے، اسے ابھارا گیا ہے تو وہ کبھی کبھی ایمان اور کفر کو ایک نئے زاویے سے دیکھتی ہے۔
چنانچہ اردو کے جتنے بڑے شاعر ہیں مثلاً ولیؔ، میرؔ، سوداؔ، نظیرؔ سب سیکولر شاعر ہیں اور غالبؔ کے یہاں آکر یہ سیکولر شاعری ایک ایسی بلندی اختیار کر لیتی ہے جو کسی نظریے یا فلسفۂ زندگی یا آئیڈیالوجی کی پابند نہیں ہے۔ شعر و ادب کی اپنی آزادی کو چونکہ اب تک تسلیم نہیں کیا گیا ہے اس لیے زیادہ تر لوگ اس کی قدر و قیمت، اس کے نظریے یا فلسفے یا آئیڈیالوجی کی خوبی یا خامی کی وجہ سے متعین کرتے ہیں۔ شعر و ادب کو اس طرح کسی مخصوص نظریے یا آئیڈیالوجی میں اسیر کرنا غلط ہے اور نہ کسی نظریے سے متاثر ہونے کی وجہ سے کسی کی شاعری بڑی یا چھوٹی ہے۔
شعر و ادب میں بنیادی مسئلہ شعریت و ادبیت کا ہے یا اس کے جمالیاتی پہلو کا اور جمالیات کے معنی خوب صورتی یا رنگینی کے نہیں، معنی خیز فارم کے احساس کے ہیں۔ ہر نظریے کی شعر میں گنجائش ہے۔ یہاں واقعی بقائے باہمی Co-Existence۔ کا سوال ہے۔ صرف مطالبہ ادبیت اور شعریت کا ہے اور اس کے بھی ارتقا پذیر تصور کا۔ فطرت پرستی (paganism) کی ادبیت اور ازمنۂ وسطیٰ کی ادبیت اور مشینی دور کی ادبیت میں بھی فرق ہے۔ مشہور جرمن شاعر ہامینے نے ایک بڑے پتے کی بات جرمن غنائیوں اور رومانوں کے متعلق کہی ہے کہ وہ اپنی سحرکاری کے باوجود اس دور کے جاگیردارانہ رجعت پسند سماج کی آواز ہیں اس لیے جدید ذہن شاعر کے یہاں شاعری دیکھتا ہے۔ اس کے نظریے، فلسفے، آئیڈیالوجی، اس کی دائیں بازو یا بائیں بازو میں شرکت کی بنا پر اس کا درجہ متعین نہیں کرتا۔ غالبؔ کی عظمت کو منوانے کے لیے انھیں مفکر یا صوفی یا ہندوستان کی جنگ آزادی کا مجاہد ثابت کرنا قطعاً ضروری نہیں۔
غالبؔ نے اگر انگریزوں سے دوستی، یا دل کی بربادی پر کوئی مرثیہ حالیؔ یا داغؔ یا ظہیرؔ دہلوی کی طرح نہیں لکھا تو اس سے غالب کی عظمت میں کوئی کمی نہیں آتی۔ شاعر شہری بھی ہوتا ہے۔ شہری کی حیثیت سے اس کے کچھ فرائض بھی ہوتے ہیں۔ شہری کو، جب گھر میں آگ لگے تو اسے بجھانا چاہیے یا آگ بجھانے کے لیے اپنی تحریر یا تقریر سے دوسرے شہریوں کو متوجہ کرنا چاہئے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شہر کی آگ دل کی آگ بن جائے اور اس صورت میں شعر بھی لو دینے لگیں مگر ایسا نہ ہو تو شاعر کو مطعون کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ غالبؔ نے اپنے خطوں میں ولی کی بربادی کی جو تصویر کھینچی ہے، وہ دلی کے تمام مرثیوں پر بھاری ہے مگر غالبؔ کی دوربین نظر صرف شمع کشتہ کے ماتم میں مصروف نہ رہ سکتی تھی۔ وہ ایک نئی بساط کی تیاری کو بھی دیکھ سکتی اور دکھا سکتی تھی۔ شاعری خطابت یا صحافت نہیں ہے۔ خطابت اور صحافت کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے مگر شاعر کا کام انسان کی روح کو آئینہ دکھانا ہے۔ غالب جب کہتے ہیں،
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
دیر و حرم آئینۂ تکرار تمنا
دامانگی شوق تراشے ہے پناہیں
تماشائے گلشن، تمنائے چیدن
بہار آفرینا! گنہ گار ہیں ہم
بامن میاویز، اے پدر! فرزند آذر را نگر
ہر کس کہ شد صاحب نظر دینِ بزرگاں خوش نکرد
طاعت میں تا رہے نہ مئے وانگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دے کوئی لے کر بہشت کو
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
لاف دانش غلط و نفعِ عبادت معلوم
درد یک ساغرِ غفلت ہے چہ دنیا وچہ دیں
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے، کلیسا مرے آگے
کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یا رب
سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی
یہ نظر جس میں تشکیک ہے، زندگی کے متعلق سوالیہ نشان ہیں، شوخی ہے، بت شکنی ہے، عام حقائق کو الٹ پلٹ کر دیکھنے کی کوشش ہے، لفظ پرستوں کے ہجوم میں معنی کی طرف توجہ دلانے کا ولولہ ہے، اپنے دور میں مقبول نہیں ہو سکتی تھی۔ لیکن آج جب ہم حقائق پر گہری نظر ڈال سکتے ہیں تو ہم غالبؔ کی عظمت کا راز سمجھ سکتے ہیں۔ غالبؔ کی وفاداری اپنی نظر سے تھی۔ شاعر و ادیب کی وفاداری شعر وادب سے ہونی چاہیے۔ کسی نظریے یا آئیڈیالوجی یا فلسفے کی پاسداری سے شاعر میں بڑائی نہیں آتی۔ شعرو ادب سماج سدھار کا آلہ نہیں بن سکتے۔ اس کے لیے تعلیم اور شہریت کے آداب سکھانے چاہئیں۔
شعر و ادب آدمی کو عرفان عطا کرتا ہے۔ وہ سماجی تبدیلیوں سے متاثر ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے۔ اس میں ہر فلسفیانہ نظریے یا آئیڈیالوجی کے عکس کی گنجائش ہے خواہ وہ کوئی مذہبی نظریہ ہو یا سیاسی آئیڈیالوجی مگر شاعر اور ادیب کے یہاں خیالات کی سمت دیکھنی چاہئے۔ ان خیالات کے کسی خاص نسخے پر اصرار نہ کرنا چاہیے۔ ہرن پر گھاس لادنے کی جو بھی کوشش ہوگی، غلط ہوگی۔ شعر کا مقصد جمالیاتی ہوتا ہے مگر اپنے عمل میں وہ حیاتی اور کائناتی ہوتا ہے۔ مقصد اور عمل میں فرق کو نظرانداز نہ کرنا چاہیے۔
اسی طرح فنکار کے بہ جائے فن پر توجہ ہونا چاہیے۔ یہ بات غلط ہے کہ ہر بڑا شاعر یا اچھا شاعر بڑا یا اچھا آدمی بھی ہوتا ہے۔ غالبؔ کے یہاں آدمی زیادہ ہے انسان کم۔ ان کی زندگی خاصی رنگ رلیوں میں گزری۔ انھوں نے اس بات کو کبھی چھپایا نہیں۔ وہ مذہبی آدمی نہ تھے، دنیا دار آدمی تھے مگر وہ مذہب کی روح سے آشنا تھے اور اس نے انھیں ایک رواداری اور وسیع المشربی اور انسان دوستی عطا کی تھی۔ وہ اچھے دوست تھے، اچھے دشمن نہیں تھے۔ وہ خاصے خود غرض آدمی تھے۔ وہ اپنے سرپرستوں کی خاصی خوشامد بھی کر لیتے تھے۔ وہ جاگیردارانہ دور کی بخشی ہوئی اقدار کے مطابق رئیسانہ شان سے زندگی بسر کرنا چاہتے تھے۔ وہ دوستوں اور شاگردوں سے مدد مانگنے میں عار نہیں سمجھتے تھے مگر انھوں نے اپنے فن کو کبھی ذلیل نہیں کیا۔ قصائد میں بھی مدح سے زیادہ نشیب کو اہمیت دی۔ فن کی وجہ سے فن کار عزیز اور محترم ہونا چاہیے۔ فن کار کی وجہ سے فن نہیں۔
غالبؔ کی اردو شاعری اور غالبؔ کے اردو خطوط، ایک بڑی اور بیدار شخصیت کے دو پہلو ہیں۔ شاعری میں غالبؔ کی فکر کا وہ رقص نظر آتا ہے جو آنسوئے افلاک تک جا سکتی ہے۔ غالبؔ کے خطوط میں وہ آدمی نظر آتا ہے جو اس فکر کی وجہ سے تنہا محسوس کرتا ہے اور اس تنہائی کو دور کرنے کے لیے اپنے گرد ایک انجمن بنا لیتا ہے۔ غالبؔ کے مکتوب الیہ غالبؔ کے خطوں کو بڑا عزیز رکھتے تھے مگر یہ بات بھی نظر انداز نہ کرنا چاہیے کہ غالبؔ یہ خط کیوں لکھتے تھے اور کس طرح خطوں میں باتیں کرنا ان کے لیے ضروری تھا، جوں جوں آنسوئے افلاک کی سیر کا ولولہ ماند پڑتا گیا، یہ خطوں کے ذریعے سے انجمن سازی اہم ہوتی گئی اور ذہن کی شوخی نے جہان معنی کے علاوہ خلوت کی آبادکاری کو بھی اپنا شغل بنا لیا۔
یہ دور بڑا پرآشوب دور ہے۔ ولیم جیمس نے کہا تھا کہ ہم انسان دوست ان تمام فلسفوں کو غلط سمجھتے ہیں جو واضح، عقلی، ابدی اور قطعی معلوم ہوتے ہیں۔ جدید ذہن عقلیت کو اہمیت دیتا ہے مگر اس کی نارسائی سے بھی واقف ہے اور اس لیے وہ ایک روحانی (اس کے لازمی معنی مذہبی نہیں) تلاش کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ یہ ذہن صرف مایوسی، تنہائی، خواہش مرگ میں اسیر نہیں ہے۔ گو سائنس اور مشین نے جو مسائل پیدا کیے اور آئیڈیالوجی جس طرح کچھ ذہنوں کی اسیری کے لیے نئے ساز و سامان لائی ہے اور بڑے شہروں کی گنجان آبادی میں خاندانی رشتوں کی شکست اور زندگی کی کشمکش نے جو مسائل پیدا کیے ہیں یا بقول کوئسلر ’’مشین میں بھوت‘‘ کا جو علم ہوا ہے اس کی وجہ سے مایوسی، تنہائی اور خواہش مرگ سمجھ میں آتی ہے مگر یہ ذہن انسانی کے تخیل کی پرواز اور اس کے دائرۂ اثر میں اضافے میں بھی مصروف ہے۔
ظاہر ہے کہ ازمنہ وسطیٰ کا فکر و فن کا تصور اس ذہن کو نہ پوری طرح گرفت میں لے سکتا ہے نہ اس کے ساتھ انصاف کر سکتا ہے۔ غالبؔ ازمنۂ وسطیٰ کے آدمی تھے مگر ان کی عظمت یہ ہے کہ وہ ازمنۂ وسطیٰ سے آگے بھی دیکھتے تھے۔ ان کو صرف حیوانِ ظریف کہہ کر یا صرف ان کی قنوطیت یا رجائیت، ان کے تصوف یا ان کی عشقیہ شاعری یا ان کے استعاروں اور ذہنی پیکروں کا تذکرہ کرکے ہم ان کی عظمت کا احاطہ نہیں کر سکتے۔
غالبؔ کے بیشتر ہم عصر عام یا مانوس رد عمل (stock responses) کے شاعر ہیں۔ غالب نئی اور منفرد حسیت کے شاعر ہیں جسے آرائش خم کا کل میں اندیشۂ دور دراز ستاتے ہیں، جو عشق کو خلل دماغ بھی کہہ سکتاہے اور درد کی دوا بھی، جس کے یہاں عجزو ونیاز ہی نہیں، حسن کے دامن کو حریفانہ کھینچنے کا عزم بھی ہے، جو ثواب طاعت و زہد کو جانتا ہے مگر یہ کہنے میں پس وپیش نہیں کرتا کہ طبیعت ادھر نہیں آتی۔ جو ناصح پر بھی نہیں اپنے پر بھی طنز کر سکتا ہے، جو حسن سے متاثر ہوتا ہے مگر یہ بھی دیکھ لیتا ہے کہ دست مرہون حنا اور رخسارہ رہین غازہ ہے، جو آزردگی کو بھی ایک انداز جنوں سمجھتا ہے، جو خضر کو اس بات پر طعنہ بھی دے سکتا ہے کہ وہ روشناس خلق نہیں، جو تمنا کے دوسرے قدم کی جستجو کرتا ہے جو جنون سے سودا کرنے میں نقصان نہیں سمجھتا، جو سبحہ و زنار کے پھندے کی گیرائی کو نہیں مانتا اور اسے وفاداریٔ شیخ و برہمن کی ایک آزمایش سمجھتا ہے اور جو محبوب کی بے توجہی پر یہ کہہ سکتا ہے،
نہیں نگار کو الفت نہ ہو نگار تو ہے
روانیِ روش و مستیٔ ادا کہیے
نہیں بہار کو فرصت نہ ہو بہار تو ہے
طراوتِ چمن و خوبیِ ہوا کہیے
غرض غالبؔ کی عظمت زندگی سے عشق اور اس کے عرفان میں ہے۔ وہ زندگی پر کوئی لیبل نہیں لگاتے، فن کو وہ زندگی کا ادا شناس سمجھتے ہیں اور خوئے آدم رکھنے اور آدم زادہ ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ وہ خوب و زشت کے عام تصورات کی سطحیت کو جانتے ہیں۔ انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ بہت سے پارساؤں کا کوئی نہ کوئی ماضی اور بہت سے گنہ گاروں کا کوئی نہ کوئی مستقبل ہوتا ہے۔
تمیز زشتی ونیکی میں لاکھ باتیں ہیں
بہ عکسِ آئینہ یک فردسادہ رکھتے ہیں
اے ہم طرزانِ حقیقی و مجازی
عشاق فریبِ حق و باطل سے جدا ہیں
کوئی آگاہ نہیں باطن ہم دیگر سے
ہے ہر اک فرد جہاں میں ورق ناخواندہ
تھی نگہ میری نہاں خانۂ دل کی نقاب
بے خطر جیتے ہیں ارباب ریا میرے بعد
غالبؔ کے ہم عصروں کا اردو زبان کا خاصا محدود تصور تھا۔ وہ یا تو جذبے کے سہارے چلتے تھے یا آرائش و زیبائش کے سہارے۔ غالبؔ نے اردو شاعری کو ایک ذہن دیا اور ایسی زبان جو فکر کی گرمی کا ساتھ دے سکے۔ غالبؔ نہ ہوتے تو اقبالؔ بھی نہ ہوتے اور نہ جدید شاعری کی پیچیدگی اور خیال کی تہوں تک پہنچنے کی کوشش۔ غالبؔ ہمارے لیے صرف ایک شخص نہیں ہیں، ایک ذہنی فضا ہیں۔
سیمویلؔ جانسن نے بہت دن پہلے کہا تھا کہ ہر مصنف ہر قاری کے لیے نہیں لکھتا لیکن جب کسی مصنف کے افکار قابل قدر ہوتے ہیں تو ان کے سمجھنے کی اور ان سے بصیرت حاصل کرنے کی کوشش بھی ہوتی ہے۔ غالبؔ سب کے لیے نہیں لکھتے تھے مگر رفتہ رفتہ ان کی ذہنی فضا تک پہنچنا ہرصاحبِ ذوق کے لیے ضروری ہو گیا ہے۔ غالبؔ کے متداول دیوان پر اب لوگ قناعت نہیں کرتے۔ ان کے سارے کلام کا مطالعہ ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ کام اب محض کوہ کندن و کاہ برآور دن نہیں رہا۔ بے ستون سے جوئے شیر نکالنے کے مترادف بن گیا ہے۔ نسخۂ حمیدیہ میں خس و خاشاک بھی ہے مگر قانون باغبانیٔ صحرا میں خس و خاشاک سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ آخر عمر میں غالبؔ سہل ممتنع پر بہت زور دینے لگے تھے اور خود اپنے کلام میں بھی سہل ممتنع پر بہت اصرار کرتے تھے لیکن غالبؔ کی عظمت ان کے سہل ممتنع میں نہیں ہے۔ حقیقی غالبؔ کی جھلک نسخۂ حمیدیہ میں نظر آتی ہے۔ یہاں خیال کا نشہ ہے۔ آگے چل کر اس خیال کو بہتر لباس ضرور عطا کیا گیا ہے۔
گراہم گرین کا ایک کردار کہتا ہے،
WE ARE THE FAITHLESS, WE ADMIRE THE DEDICATED FOR THEIR COURAGE AND THEIR INTEGRITY, FOR THEIR FIDELITY TO A CAUSE, BUT THROUGH TIMIDITY OR THROUGH LACK OF SUFFICIENT ZEST, WE FINE OURSELVES THE ONLY ONES TRULY COMMITTED-COMMITTED TO THE WHOLE WORLD OF EVIL AND GOOD, TO THE WISEST, TO THE FOOLISH, TO THE INDIFFRENT AND THE MISTAKEN. WE HAVE CHOSEN NOTHING EXCEPT TO GO NO LIVING, ‘ROLLED ROUND ON EARTH’S ‘DIURANAL COURSE’ WITH ROCKS, STONES AND TREES.
غالبؔ نے اپنا مسلک اس طرح بیان ہے،
ہے رنگِ لالہ و گل نسریں جدا جدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے
سر پائے خم پہ چاہیے ہنگامِ بے خودی
رو سوئے قبلہ وقتِ مناجات چاہیے
یعنی بہ حسب گردشِ پیمانۂ صفات
عارف ہمیشہ مستِ مئے ذات چاہیے