غالب اور جدید فکر
اصطلاح میں سوچنے کا عمل بعض اوقات خطرناک ہوتا ہے اور ہمیں ایسے نتائج کی طرف لے جاتا ہے جو سرے سے غلط ہوتے ہیں۔ ہماری اجتماعی فکر کے واسطے سے ’’جدید‘‘ کی اصطلاح نے بھی خاصی غلط فہمیاں پیدا کی ہیں۔ جدید کاری (Modernization) تجدد پرستی (Modernism) اور جدیدیت (Modernity) کے مفاہیم صرف’’جدید‘‘ کے لفظ سے متعین نہیں ہوتے۔ اسی طرح ادب میں، فلسفے میں اور سماجیات میں ’’جدید‘‘ کا مطلب ہمیشہ یکساں نہیں ہوتا۔
لیکن دشواری یہ ہے کہ غالب کے واسطے سے ’’جدیدذہن‘‘ اور ’’جدید فکر‘‘ کامطلب تقریباً طے شدہ سمجھ لیا گیا ہے اور یہ خیال عام ہے کہ غالب نے اردو کو اپنی روایت سے آزاد ایک نیا ذہن دیا، یا یہ کہ غالب کی فکر اردو کی شعری روایت میں ’’نئے پن‘‘ کا پہلا نشان ہے اور اس نئے پن کو بھی گھما پھرا کر ہندوستان کی جدید تہذیبی نشاۃ ثانیہ، جدید سائنس اور ٹکنالوجی اور نئی عقلیت کے دائرے میں سمیٹ لیا جاتا ہے۔ گویا کہ غالب کو بھی اٹھارویں صدی کی روشن خیالی، انیسویں صدی کی تعقل پسندی اور معاشرتی اصلاح کے ان تصورات سے جوڑدیا جاتا ہے جن کا سلسلہ عہد و سطی کے نظام اقدار و افکار کی ابتری اور انگریزوں کی آمد کے ساتھ ایک نئے نظام اقدار و افکار کی تشکیل و ترویج کے ساتھ شروع ہوا۔ اس سلسلے میں کچھ دلیلیں بار بار دی جاتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ،
(۱) غالب نے سر سید سے بھی پہلے مغرب کے آئین نو کا قصیدہ پڑھا اور جدیدسائنسی ایجادات کا خیر مقدم کیا۔ ثبوت کے طور پر سر سید کی مرتبہ آئین اکبری (ابو الفضل) کے بارے میں غالب کی فارسی تقریظ کافی ہے،
پیش ایں آئیں کہ دارد روزگار
گشتہ آئین دگر تقویم پار
(۲) غالب نے اپنے آپ کو ’’عندلیب گلشن نا آفریدہ‘‘ کہا ہے یعنی یہ کہ وہ اپنی سرشت کے لحاظ سے مستقبل بیں اور اپنی شاعری کے اعتبارسے آنے والے دنوں کے ترجمان تھے۔
(۳) غالب کے مزاج میں تشکیک (agnosticism) کا عنصر بہت نمایاں ہے۔ وہ کسی بھی مسلمہ حقیقت میں یقین نہیں رکھتے تھے۔
(۴) غالب نے کائنات میں انسان کی حیثیت، انسان اور خدا کے مفروضہ تعلق، مادے کی حقیقت، اشیا اور مظاہر اور موجودات کی غایت، انسانی ہستی کے مقاصد پربہت سے سوالیہ نشان قائم کیے ہیں۔ ایک مستقل استفہامیہ انداز غالب کی پہچان ہے،
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟
غالب کے مزاج میں مہم پسندی اور تجسس کا مادہ بہت تھا۔ ایک حالت پر قانع نہیں ہوتے تھے۔ گویا کہ ہمارے شاعروں میں سائنسی ایڈوینچراور سائنسی صداقت کی تلاش کا سودا سب سے پہلے غالب کے یہاں ملتا ہے، سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی۔
(۵) غالب ایک نئی انسان دوستی (Humanism) کے نقیب تھے اور مذاہب کی رسمی تقسیم میں یقین نہیں رکھتے تھے، رہرو چلے ہے راہ کو ہموار دیکھ کر۔
(۶) غالب کا ذہن بہت آزاد اور خود بیں تھا۔ اسے کہنہ پرستی، مردہ پروری اور رسمیت سے کوئی نسبت نہیں تھی۔ اس ضمن میں وہ اپنے آپ کو فرزندآذر سے مماثل قرار دیتے تھے، ہر کس کہ شہ صاحب نظر دین بزرگاں خوش نہ کرد۔
(۷) اپنی عام زندگی میں بھی غالب جدت پسند Non-confiramistاور ایک حد تک بوہیمین تھے۔ مذہبی شعائر کے پابند نہیں تھے۔ معاشرتی قوانین اور امتناعات سے ڈرتے نہیں تھے۔
(۸) مجموعی حسیت اور تخلیقی رویے کی سطح پر غالب کو اپنی عام روایات کی پیروی اور پاسداری کا شوق نہیں تھا۔ زبان کے مقابلے میں وہ اجتماعی میلانات سے زیادہ، اپنی انفرادی اور شخصی ترجیحات کے قائل تھے۔
(۹) غالب طبیعتاً بت شکن تھے، موروثی عقائد کے منکر۔ ان کی مذہبی فکر، تہذیبی فکر اور تخلیقی فکر پر ان کے ذاتی رویے ہمیشہ حاوی رہتے تھے۔
(۱۰) غالب کو جدید علوم سے براہ راست استفادے کا موقعہ نہ ملا ہو، جب بھی ان علوم کی پر وردہ فکر سے وہ متاثر تھے۔ ان کے کلام میں ایسی شہادتیں ملتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ غالب بعض سائنسی اصولوں کی حقیقت سے آگاہ تھے، باورآیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا۔
اس طرح کی باتیں غالب کے بارے میں نہ صرف یہ کہ عام طور پر کہی جاتی ہیں، ان کی بنیاد پر غالب کی شخصیت کا ایک تصور بھی قائم کر لیا گیا ہے۔ اس تصور کے مطابق، غالب اردو شاعری کی روایت میں انحراف کے ایک اہم موڑ کی نشاند ہی کرتے ہیں اور انہیں بجا طور پر اردو کا پہلا جدید شاعر کہا جاسکتا ہے۔
انیسویں صدی میں خاص کر اس وقت سے جب لارڈمیکا لے کے منصوبوں کی روشنی میں ایک نیا تعلیمی خاکہ مرتب کیا گیا اور یہ منصوبے باضابطہ طور پر بروئے کار لائے گئے، ہماری اجتماعی فکر کے محور تیزی سے تبدیل ہونے لگے۔ ایک خاص طرح کا نو آبادیاتی اسلوب زندگی مقبول ہونے لگا۔ سوچنے حتی کہ محسوس کرنے کی پرانی طرحیں بھی رفتہ رفتہ ترک کی جانے لگیں۔ قاموسیوں (encyclopaedists) اور مستشرقین کا ایک نیا گروہ سامنے آیا۔ معاشرتی اصلاح اور قومی تعمیر کے ترجمانوں کی اکثریت نے اس گروہ کی برتری تسلیم کرلی۔ ہمارے طرز احساس کی قیادت ہماری اپنی روایت اور اپنے ماضی کے بجائے اس گروہ کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ اس صورت حال کا نتیجہ بالآخر وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔
یعنی کہ اپنی پسپائی اورکم تری کا اعتراف زندگی کے تقریباً تمام شعبوں میں کیا جانے لگا۔ ہماری ادبی روایت، ہماراجمالیاتی نظام، ہمارا تخلیقی کلچر، ہمارے علوم، سبھی اس پسپائی کا شکار ہوتے گئے۔ اردو کی علمی اور ادبی تاریخ کے واسطے سے دیکھا جائے تو سرسید سے لے کر محمد حسین آزاداور حالی تک، مغرب سے مرعوبیت کا ایک مستقل رویہ اور اپنی اجتماعی ہزیمت کاایک مستقل احساس سامنے آتاہے۔ ہندوستانی نشاۃ ثانیہ کے اولین معمار راجہ رام موہن رائے نے اپنی قومی وراثت اور اپنے اجتماعی ماضی کی طرف جو رویہ اختیار کیاتھا اس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ چنانچہ انیسویں صدی میں ہندوستان کی علاقائی زبانوں کا ادب بھی مغربی روایات اور اسالیب کی چمک دمک میں اپنی زمین سے اکھڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
میکا لے کا خیال تھا کہ ہندوستان کا تمام علمی ورثہ، انگلستان میں مغربی علوم کی کتابوں کے ایک شیلف کی جتنی قدر وقیمت بھی نہیں رکھتا۔ اصلاح معاشرت کے ہندوستانی ترجمانوں نے یہ فیصلہ نہ صرف یہ کہ قبول کرلیا، اس فیصلے کی روشنی میں اپنی روایت کو مستردکرنے کا میلان بھی زور پکڑنے لگا۔ چنانچہ نثر ونظم کی روایت کے تسلسل کی طرف سے آنکھیں پھیر لی گئیں اور بیشتر توجہ اس پر مرکوز ہوگئی کہ ایک نئی روایت کیونکر قائم کی جائے۔ شعر وادب کے کاروباری مقاصد کو فروغ پذیر ہونے کا موقعہ اسی پس منظر نے مہیا کیا۔ حقیقت کا وہ تصور جو مشرق سے مخصوص تھا اور جس میں مادی اور مابعد الطبیعاتی عناصر کوایک ساتھ اختیار کرنے کی صلاحیت تھی، بتدریج معدوم ہوتا گیا۔
اس کی جگہ حقیقت کے ایک ایسے تصور نے لے لی جس کا ظہور مشرقی حسیت کی شکست و ابتری اور مغربی افکار و اقدار کی کامرانی کے مفروضے سے ہوا تھا۔ سائنسی عقلیت نے حقائق اور مظاہرکی بابت ایک دو ٹوک قسم کے سطحی اور محدود نقطہ نظر کو راہ دی۔ سر سید، آزاد، حالی، ذکاء اللہ، نذیر احمد، ان سب کی فکر اسی نقطہ نظر کی تابع دکھائی دیتی ہے اور ہر چند کہ ان سب کے یہاں کشمکش کا ایک احساس بھی موجود ہے جو انہیں ہمیشہ بے چین رکھتا ہے، مگر یہ اصحاب مغربی فکر اور انگریزی تعلیم کو، بہر حال، اپنی قومی نجات کا واحد ذریعہ بھی سمجھتے ہیں۔
غالب نے بے شک تبدیلیوں کی اسی فضا میں سانس بھی لی اور مغربی تہذیب کے کمالات سے متاثر بھی ہوئے، لیکن نہ تو انہوں نے حقیقت کی اپنی تعبیر اور تصور پر آنچ آنے دی، نہ ہی اپنی روایت سے الگ کسی اور روایت کے متلاشی ہوئے۔ اس پورے عہد میں تخلیقی اور فکری اعتبار سے جووسعت، لچک اور رواداری ہمیں غالب کی شخصیت میں نظر آتی ہے، کہیں اور نہیں ملتی۔ غالب ہمیں ادب کے اینگلو انڈین تصور، انگریزی تعلیم، مغربی فکر اور ضابطہ حیات کی طرف سے تقریباً بے نیاز، اپنے آپ میں گم، اپنی روایت سے مربوط دکھائی دیتے ہیں،
کجئ یک خط مسطر چہ تو ہم چہ یقیں
بازیچہ ٔ اطفال ہے دنیا مرے آگے
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوئیں
سینہ جو یائے زخم کاری ہے
غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیۂ طوفاں کیے ہوئے
یہ صرف رواروی میں دیے گئے بیانات نہیں ہیں۔ غالب اس نوع کے مصرعوں اور اشعار کے واسطے سے کہیں اپنی حالت کا اعتراف کرتے ہیں، کہیں گردوپیش کے حال پر تبصرہ کرتے ہیں۔ اپنے تمام معاصرین میں، سب سے زیادہ ہوش مند، اپنے زمانے اوراپنی زندگی سے دوسروں کی بہ نسبت کہیں زیادہ مشروط رہنے کے باوجود، غالب ہمیں سب سے مختلف اور شاید سب سے زیادہ تنہا دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں ضمناً ایک واقعے کا ذکر ضروری ہے، یہ کہ غالب اپنے وقت میں اردو یا ہندوستان کے ہی نہیں، مغربی زبانوں کے شعرا میں بھی سب سے سر بلند تھے۔ فرانس کے انحطاط پرستوں، جرمنی کے اثبات پسندوں اورانگلستان کے رومانیوں میں ہمیں بصیرت کی وہ گہرائی اور فکر کی وہ کشادگی نظر نہیں آتی، جو غالب کی شاعری میں نظر آتی ہے۔
میرا خیال ہے کہ انیسویں صدی کی عام فکر اور تہذیبی نشاۃ ثانیہ کے حوالے سے غالب کے ذہنی سفر، غالب کی طبیعت کے تجسس، ان کے شعور کی سرگرمی اور تحرک کو تو سمجھا جاسکتا ہے، لیکن غالب کی شاعری کو نہیں سمجھا جاسکتا۔ تخلیقی اور فنی بصیرت کا سفر، اجتماعی نصب العین اور سماجی تاریخ کے سفر سے بالعموم مختلف ہوتا ہے۔ غالب کی شاعری ہمیں مشرق کی تہذیبی جینٔس (Genius) کے نقطہ ٔ عروج تک لے جاتی ہے۔ نشاۃ ثانیہ کے سحر میں گم ہونے، اس سے مغلوب ہونے کے بجائے، ا س سحر کو توڑتی ہے۔ اپنی روایت سے منقطع یامنحرف نہیں ہوتی، اس روایت کی توسیع کرتی ہے، اس روایت کو ایک نیا طول دیتی ہے۔
اسی سلسلے میں ایک اور بات جس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے، یہ ہے کہ غالب کے زمانے میں عہد و سطی کی تہذیبی اور تخلیقی توانائی نے، ان کی شاعری میں درجہ ٔ کمال کو پہنچنے کے باوجود، بتدریج بکھرنا بھی شروع کردیاتھا۔ ایک بے روح اور سپاٹ نثریت رفتہ رفتہ چاروں طرف پھیلتی جارہی تھی اور زندگی کے تقریباً تمام شعبے اس کے حصار میں آتے جارہے تھے۔ غالب نے ۱۸۵۷سے پہلے ہی شاعری سے جو اپنا ہاتھ تقریباً کھینچ لیاتھا تو شاید اسی لیے کہ وہ اپنے عہد کے بڑھتے ہوئے تخلیقی اضمحلال اور نشاۃ ثانیہ کی تاجرانہ اور کاروباری طاقت میں ترقی کے رمز سے بھی اپنے تمام ہم عصروں کے مقابلے میں زیادہ واقف تھے۔۔۔ سیاسی، تہذیبی، معاشرتی اور فکری سطح پر جس قسم کے حالات کا اس وقت غالب کو سامنا تھا، ان میں اپنے داخلی نظم کو برقرار رکھنا آسان نہیں تھا۔ غالب کے بیشتر معاصرین نے ان حالات کے بارے میں سوچنا ہی تقریباً ترک کردیا۔
غالب کے لیے، ان کی مخصوص افتاد طبع کے پیش نظر، یہ ممکن نہ تھا، کیونکہ ہر بڑے شاعر کی طرح غالب کے یہاں بھی نہ تو جذبات آگہی سے الگ تھے، نہ آگہی جذبے سے خالی۔ ان حالات میں غالب نے اپنے ہیجانات کی جس طرح تہذیب کی، تصادم اور آویزش کی فضا کو جس طرح اپنے لیے قابل قبول بنایا، مذہب، تاریخ، روایت کے سہاروں سے محرومی کو جس طرح اپنے اعصاب اور دماغ پر مسلط ہونے سے بازرکھا، اس سے غالب کے شعور کی طاقت کا کچھ اندازہ کیا جاسکتا ہے،
اپنی ہستی ہی سے ہو جوکچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
اس ایقان کو ہم غالب کاذاتی منشور بھی کہہ سکتے ہیں اور اسی انداز فکر کی سطح پر غالب اپنی گم ہوتی ہوئی اجتماعی تاریخ، ایک بجھتے ہوئے ماضی میں ہمیں موجود بھی دکھائی دیتے ہیں اور اس سے آگے جاتے ہوئے بھی۔ انہوں نے پرانے، آزمودہ اور فرسودہ لفظوں کے نئے مناسبات ڈھونڈ نکالے۔ پرانے استعاروں کی مدد سے تجربے اور احساس کی نئی صورتیں وضع کرلیں۔ ماضی اور حال میں ایک نیا تخلیقی رابطہ پیدا کرلیا۔ یہ اعلی بے جوڑ چیزوں میں ایک نقطہ ٔ اتحاد کی جستجو بھی تھی او ر اسی جستجو کے ذریعے غالب نے اپنی شخصیت کو تقسیم ہونے سے بچائے رکھا۔
موج خمیازہ ٔ یک نشہ چہ اسلام چہ کفر
یہاں غالب اپنا نقشہ کھینچ رہے ہیں یا اپنے زمانے کا یا وقت کے ازلی اور ابدی تماشے کا؟ شاید ان میں سے ہر سوال کا جواب ایک ساتھ اثبات میں دیاجاسکتا ہے۔ جس طرح دنیا بظاہر ایک دوسرے سے بے ربط، متضاد اور مختلف حقیقتوں سے بھری ہوئی ہے، اسی طرح غالب کی اپنی ہستی بھی نیرنگیوں کا ایک نگار خانہ تھی، ایک کائنات اصغر۔ محدود لیکن مکمل۔ تکمیل ذات کا یہی پہلو غالب کی شخصیت اور شعور پر کوئی حد قائم نہیں ہونے دیتا۔ غالب کی شخصیت اور شعور میں ہمیں ان کے بعد آنے والے وجودی مفکروں کا اندوہ اورجلال ایک نقطے پر مرکوز نظر آتے ہیں۔ نشاۃ ثانیہ سے پہلے کی قدروں، ماقبل نو آباد یاتی (Pre. Colonial) افکار کا ایک سلسلہ غالب ہی کی وساطت سے ہمیں اپنے عہد کی دنیا تک پھیلا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اسی لیے غالب کی دنیا ہمیں اپنے تمام بڑے شاعروں کی دنیا سے زیادہ مانوس، حقیقی اور اپنے حواس و اعصاب کی دنیا سے قریب بھی محسوس ہوتی ہے۔