غالب اور عہد غالب کا تخلیقی ماحول
ادب اور آرٹ کی طرح کلچر بھی سوچ سوچ پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ غالب اور ان کے عہد کی فکر، خاص طور سے ادبی فکر کے رابطوں کو سمجھنے کے لیے کلچر، آرٹ اور ادب کی خود مختاری کے تصور اور ایک غیر معمولی شخصیت کے انفرادی رویوں کا تجزیہ بھی ضروری ہے۔
غالب اپنے مزاج اور اپنی ذہنی ساخت کے لحاظ سے non-confirmist تھے۔ اپنی اس وضع پر وہ زندگی بھر قائم رہے اور بڑے سے بڑے بیرونی اثر کو بھی اس طرح قبول کرنے پر تیار نہیں ہوئے کہ ان کی اپنی انفرادیت غائب ہو جاتی۔ اپنے زمانے کی تبدیلیوں کا احساس غالب کو اپنے ہم عصروں سے زیادہ تھا۔ انہوں نے سر سید سے بھی پہلے اس حقیقت پر اصرار کیا تھا کہ ہر عہد اپنا آئین خود مرتب کرتا ہے۔ زندگی پیش پا افتادہ ضابطوں اور قوانین کے مطابق نہیں گزاری جا سکتی۔ بے شک دنیا تیزی سے بدلتی ہے، بدلتی رہی ہے مگر انسانی شعور کا سانچہ بہت دھیرے دھیرے تبدیل ہوتا ہے۔
اسی لیے، غالب کو اردو کا پہلا جدید شاعر اور ان کی شاعری کو ایک نئے ذہن کا ترجمان قرار دینے سے پہلے ہمیں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ غالب نے اپنے شعور کے روایتی عناصر کی حفاظت، اپنے اجتماعی کلچر اور اپنے وجدان کی مدافعت بھی اپنے زمانے کے دوسرے شاعروں اور ادیبوں کی بہ نسبت زیادہ توجہ اور شدت کے ساتھ کی۔ غالب کا شعور اپنے بیرونی کلچر کے جدید ہونے سے پہلے جدید ہو چکا تھا۔ رسمی اور موروثی تصورات اور اقدار کی بے اثری کا احساس بھی غالب رکھتے تھے۔ ان کی طبیعت میں انکار، آزادی اور احتجاج کی ایک فطری لہر تھی جسے وہ کسی مجبوری یا مصلحت کی وجہ سے کبھی دباتے نہیں تھے۔
ان کے سماجی رویے، سوچنے کا طریق، ان کی شخصی قدریں اپنے معاشرے کے عام انسانوں سے بہت مختلف تھیں، آزادہ روی کے خطروں اور نقصانات سے بھی غالب اچھی طرح آگاہ تھے لیکن ایک سوچی سمجھی بے اطمینانی میں ان کا یقین ہمیشہ قائم رہا اور انہوں نے خود کو کبھی بھی کسی بغیر سوچے سمجھے یقین کی عافیت گاہ کے سپرد نہیں کیا۔ وہ ہمہ گیر انقلابات سے دوچار ایک زمانے کے گرداب میں اپنی ہستی کا تماشا دیکھتے تھے، کبھی اس زمانے پر ہنستے تھے، کبھی اس کے ہاتھوں اپنی ہستی کے حشر پر، مگر ان کے لیے یہ بات قابل قبول نہیں تھی کہ اپنے آپ کو اپنے زمانے کی ضرورتوں کے مطابق ڈھال لیں۔ اس سلسلے میں کولونیل تاریخ اور کولونیل تہذیب سے وابستہ تصورات نے بھی ہمارے لیے بہت ہی مشکلات پیدا کی ہیں۔ غالب کو سمجھنے کے سلسلے میں بھی ان تصورات نے ایک عجیب و غریب ذہنی صورت حال سے ہمیں دو چار کیا ہے جو بڑی حد تک غیر حقیقی اور غیر فطری ہے۔
مؤرخوں کا ایک خاصا بڑا حلقہ جس میں ہندوستانی اور برطانوی علما ایک ساتھ شامل ہیں، اس نکتے پر اصرار کرتے ہیں کہ اٹھارویں اور انیسویں صدی کے ہندوستان کے لیے نجات کا راستہ صرف ایک تھا، مغری علوم اور مغربی طریق و معیار زندگی سے مفاہمت کا۔ گویا کہ انگریزوں کی آمد سے پہلے کی انڈو مغل روایت کوئی معنی ہی نہیں رکھتی تھی۔ انگریز آئے تو ہمیں سوچنا اور لکھنا پڑھنا اور جینا آیا۔ ہماری روایتیں بے اثر ہو چکی تھیں۔ ہمارے علوم بے وقت کی راگنی تھے۔ ہمارا اسلوب زیست محض بے کار اور بدلتے ہوئے زمانے کے مطالبات کا ساتھ دینے سے قاصر تھا۔ انگریزوں نے مغرب سے علم اور تہذیب اور طرز زندگی کے جو معیار در آمد کیے، ان کے بغیر ہندوستان آگے بڑھنا تو درکنار، زندہ رہنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو چکا تھا۔
سر سید کی علی گڑھ تحریک اور انجمن پنجاب کے قیام کے ساتھ اردو معاشرے میں بھی ایک نئی ذہنی، جمالیاتی اور تہذیبی روایت کا چلن عام ہوا۔ یہ واقعات غالب کی وفات کے بعد ظہور پذیر ہوئے، لیکن ان کے لیے ایک فضا پہلے سے تیار کی جا چکی تھی۔ میں اس وقت اس قصے کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا لیکن ایک بات پر توجہ ضرور دلانا چاہوں گا۔ آزاد اور حالی دونوں نے مغرب کی شائستہ قوم کے اسالیب زیست، اس کے علوم و فنون، اس کی روایات و رسوم کو اختیار کرنے پر اصرار کیا۔ یہ اصرار سر سید اور ان کے حلقے کی طرف سے بھی کسی نہ کسی سطح پر ہوتا رہا۔ انیسویں صدی کے اواخر سے ایک عام ماحول اردو کی ادبی اور تہذیبی روایت، ہمارے اجتماعی ماضی سے برگشتگی کا پیدا ہو چکا تھا۔ لیکن بالآخر ہوا کیا؟ سر سید، آزاد اور حالی اپنی ذہنی اور جذباتی کشمکش کے گھیرے سے نکل آئے اور انڈومغل تہذیب اور ہندوستانی مسلم معاشرے کے اجتماعی ماضی کو ایک نئی سطح پر بحال کرنے اور اسے سمجھنے سمجھانے کی کوششیں پھر سے شروع ہو گئیں۔
پرسیول اسپیئر نے ’’ٹوائی لائٹ آف دی مغلس‘‘ میں اس بات کا اعتراف ٹھوس تہذیبی اور علمی دلائل کے واسطے سے کیا ہے کہ انگریزی نظام تعلیم کے قیام (۱۸۳۵) سے پہلے جو تہذیبی اور معاشرتی تصورات ہمارے یہاں مروج تھے، ان کے پیچھے صدیوں کی روایات اور اقدار اور علم و دانش کی طاقت تھی۔ اس طاقت سے محرومی کے نتیجے میں ہندوستانی معاشرہ تہذیبی کمال کے جس تصور سے دوچار ہوا، اس کے مطابق علم اور تہذیب بس سطحی معلومات اور انگریزی میں معمولی شدبد حاصل کر لینے کا نام تھا۔ پھر یہ بھی ہے کہ مغرب کے صنعتی انقلاب اور سائنس کی ترقی نے بے شک زندگی کی عام سطح کو بہتر بنانے کی خدمت انجام دی، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہوا کہ ہمارا اجتماعی شعور، حتی کہ ہمارا تہذیبی وجدان بھی ایک اجنبی، کاروباری اور نامانوس روایت کی گرفت میں آ گیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہم نے ہر تبدیلی کو حالات کا فطری نتیجہ، لازمی اور ناگزیر نتیجہ تسلیم کر لیا اور مغربی مؤرخوں کے راگ میں راگ ملانے لگے۔
۱۸۳۵ میں فارسی کی مرکزی حیثیت کے خاتمے اور انگریزی زبان کے باضابطہ قیام کو مولوی عبد الحق نے مشرقی روایت اور علوم کی بنیادیں اجاڑنے کی کوشش سے تعبیر کیا۔ (مرحوم دلی کالج، ص ۱۷) خواجہ احمد فاروقی کا خیال تھا کہ ۱۸۳۵ہندوستان کی ثقافتی غلامی کا پہلا سال ہے (ماسٹر رام چندر، مصنفہ صدیق الرحمن قدوائی، ص ۲۳) لالہ لاجپت کے نزدیک انگریزی کا یہ تسلط ایک لعنت تھا۔ (Zachairios، Rennaiscent India ص۹۰) ہمایوں کبیر نے اسے مغربی عقلیت کے ہاتھوں سے ہندوستان کی روحانی شکست کا نام دیا۔ (The Indian Heritage، ص۱۲۸)۔ اسپیئر کے لفظوں میں یہ ایک عظیم ثقافتی ورثے کی شاندار روایت کا آخری باب تھا (Twilight of the Mughals، ص ۸۳)
گویا کہ اپنی صورت حال، تہذیبی ماضی اور اندیشوں سے بھرے ہوئے مستقبل کے مسئلے پر ٹھنڈے دل سے سوچ بچار تو ہوا مگر بہت دیر بعد۔ اس وقت تک پانی سر سے اونچا ہو چکا تھا اور واپسی کے راستے ہمارے لیے تقریباً بند ہو چکے تھے۔ دوسری طرف مغربیوں میں تہذیب کا ایک وسیع اور آزادانہ تصور رکھنے والے علما نے ہندوستانیوں کو تو مغرب شناسی کے راستے پر لگا دیا تھا اور خود ہندوستان کے پرانے آثار اور تہذیبی ماضی کی تفہیم و تجزیے میں مصروف تھے۔ ہاجسن (Hodgson) نے اپنے نیپال کے دوران قیام میں ۱۸۳۳سے ۱۸۴۴ تک کے شمالی بودھی ادب کی تحقیق و تفحص کا کام کیا۔ روتھ (Roth) نے ۱۸۴۶ میں ویدوں کی تاریخ اور ادبی محاسن پر ایک پوری کتاب مرتب کر ڈالی۔ رگ وید پر میکس ملر (Max Muller) کا معروف رسالہ ۱۸۴۹ اور ۱۸۷۵، کے درمیان لکھا گیا۔ قادسیوں کا ایک گروہ جس میں Weber,Davids,Rhys اور Bublar کے نام ممتاز ہیں، ہند آریائی روایات کی چھان بین میں منہمک تھا اور تاریخی شہادتوں کے مطابق مختلف مغربی ملکوں کے تیس اسکالرز ان کی مدد کر رہے تھے۔
یاد گار غالب کے دیباچہ میں حالی نے غالب کے شخصی کمال (جو بہر حال انڈو مغل تہذیب کے بلند ترین محاسن کا نتیجہ تھا) اور عہد غالب کے علمی، فکری اور تہذیبی اوصاف کا تذکرہ غیر مبہم لفظوں میں کیا ہے۔ غزل کی صنف پر حالی کے اعتراضات اور مغلیہ حکومت کے خاتمے کے ساتھ رونما ہونے والے سیاسی اور سماجی انتشار اور ابتری کے مجموعی ماحول میں ایسا لگتا ہے کہ حالی نے عافیت اور اپنے اجتماعی امتیاز کا ایک جزیرہ بالآخر ڈھونڈ ہی لیا۔ مقدمہ کی فکری اور جذباتی لے اور یادگار غالب کی فکری اور جذباتی لے میں ایک سی بلندی ملتی ہے، مگر دونوں کے منطقے الگ الگ ہیں۔ ورڈسورتھ کا قول ہے کہ ’’ایک روحانی برادرانہ اتحاد مردوں اور زندوں کو یعنی ہر زمانے کے نیک نفس، دلاور اور دانش مند افراد کو باہم مربوط کیے رہتا ہے۔‘‘
غالب کا سب سے بڑا وصف یہی ہے کہ انہوں نے اپنے اسلوب زندگی اور اپنے باطن میں اس اتحاد کو برقرار رکھا اور سائنسی کمالات اور ایجادات سے متحیر اور مرعوب ہونے کے باوجود برقرار رکھا۔ یہ ایک طاقتور شعور، ایک تربیت یافتہ بصیرت اور گردوپیش کے بکھراؤ کے باوجود اپنے داخلی نظم کو قائم رکھنے والی شخصیت کا وصف ہے۔ اس ہوش ربا زمانے میں جب اچھے اچھوں کے پاؤں اکھڑ گئے تھے، غالب نے ایک سچے تخلیقی آدمی کی طرح اپنے اوسان برقرار رکھے۔ عقلیت اور ایک طرح کی بے روح نثر یت کے شور شرابے نے اس زمانے کی تخلیقی توانائیاں، یوں محسوس ہوتا ہے، پیچھے ڈھکیل دی تھیں۔
ہمایوں کبیر نے اس زمانے کے مجموعی ماحول کا جائزہ لیتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا کہ، یہ تہذیب حالات کا فطری اور لازمی تقاضہ تھی۔ اس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ ایک بہتر یا زیادہ ترقی پذیر تہذیب ہم پر غالب آتی جارہی تھی، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ جب ایک تہذیب جو نسبتاً خاموشی، غفلت اور بے حسی کا شکار ہو جاتی ہے، اس وقت اسے اگر کسی بیدار، فعال اور نتیجہ خیز حد تک تخلیقی عناصر سے مالا مال تہذیب سے متصادم ہونا پڑے تو وہ زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ کامیاب قوتوں کی گرفت میں چلی جاتی ہے اور زیادہ سرگرمی کے ساتھ نئے تقاضوں اور حالات سے ہم آہنگ ہونے لگتی ہے۔ (Indian Heritage، ص۴۳۵)
یعنی کہ ہاں بھی اور نہیں بھی۔ گومگو کی وہ کیفیت جو ہمیں سر سید، آزاد اور حالی کے یہاں دکھائی دیتی ہے، وہی کیفیت اس زمانے کے بہت سے ادیبوں اور سماجی مفکروں اور دانشوروں کے افکار و اظہار میں شامل ہے۔ ایک حلقے نے اسے مشرق و مغرب کی روایتوں کا سنگم کہا اور اس سنگم پر رونما ہونے والے ادب کو اینگلو انڈین ادب کا نام دیا۔
تیسری دنیا کی طرح اینگلو انڈین ادب کی یہ اصطلاح بھی ایک واضح سیاسی آہنگ رکھتی ہے۔ مغرب نے اپنی بالادستی کو قائم رکھنے کے جو نفسیاتی طریقے اختیار کیے، یہ رویہ انہی سے مربوط ہے۔ اس رویے کے باعث ہندوستانی ادبیات نے جو نقصان اٹھایا، اس کی تفصیل طولانی ہے۔ مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک غالب کے استثنا کے ساتھ، ہندوستان کی تمام علاقائی زبانوں کے ادب میں ذہنی کم مائیگی اور اپنے تشخص کی گمشدگی کا رنگ بہت نمایاں ہے۔ بھارتیہ پنر جاگرن یا بنگال جاگرن (یعنی ہندوستانی نشاۃ ثانیہ اور بنگال کی بیداری) کاسارا تصور کیا واقعی ایک اجتماعی بیداری کا حاصل تھا یا ایک گہری غفلت کاانجام۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اب نئے سرے سے اس سوال پر غور کیا جائے۔
لیکن اس سوال تک آنے سے پہلے ایک اور مسئلے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ خارجی سطح پر اور بیرونی دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا اثر زندگی کے تمام شعبوں پر یکساں نہیں ہو سکتا۔ سماجی زندگی کے ایسے اسالیب جو اسرار سے خالی ہوتے ہیں، تبدیلیوں کا اثر ان پر جلد پڑتا ہے اور یہ اثر دیر پا ہوتا ہے۔ جس طرح فیشن تیزی سے بدلتے ہیں، اسی طرح زندگی کے عام آداب بھی بیرونی اثر کی گرفت میں جلد آ جاتے ہیں لیکن زندگی کے بنیادی تصور ات، انسان کے باطن سے متعلق ذہنی، جذباتی، جمالیاتی، اخلاقی اور نفسیاتی اقدار، احساس کے طور طریقے، ادب اور آرٹ کی ترکیب میں شامل مبہم عناصر پر تبدیلیوں کا جادو اس طرح نہیں چلتا۔ اینگلو انڈین ادب کے وکیلوں نے یہ حقیقت بھلا دی۔
علاوہ ازیں، مشرق ومغرب میں ایک اور واضح فرق اور فاصلہ حقیقت کے اجتماعی تصور کا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہن میں محفوظ رہنی چاہیے کہ ادب کی مختلف صنفوں پر بیرونی اور طبیعی اثرات ایک جیسے نہیں ہوتے۔ یہاں نثر و نظم کے فرق کو بھی ملحوظ رکھنا ہوگا۔ خود شاعری کی بیانیہ اور غنائی و داخلی صنفوں کے فرق کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔ وجدانی اور روحانی واردات کی طرح، موسیقی اور مصوری اور رقص کے اسالیب بھی باہر کا اثر اس طرح قبول نہیں کرتے، جس طرح مثال کے طور پر طرز تعمیر اور ملبوسات یارہن سہن کی وضعیں یا صنعتیں قبول کرتی ہیں۔ جمالیاتی قدروں میں ایک طرح کی خلقی خود سری ہوتی ہے۔ یہ قدریں اس طرح تبدیل نہیں ہوتیں جس طرح سماجی اخلاقیات کی قدریں۔
ہمارے یہاں اردو کے علاوہ دوسری ہندوستانی زبانوں میں بھی مغربی اثرات کے تحت کئی نئی صنفوں نے فروغ پایا، زیادہ تر نثر کے میدان میں۔ ان میں خود غالب کے سوانحی پس منظر میں، ایک واقعہ جس پر گہرائی سے سوچ بچار کرنا چاہیے، یہ ہے کہ غالب نے انگریزی اسالیب کی مقبولیت اور برطانوی اقتدار میں اضافے کے ساتھ ساتھ اپنا دائرہ کار بھی سمیٹ لایا۔ ایک منزل ایسی بھی آئی جب غالب شعر گوئی سے تقریبا تائب ہو گئے۔ باہر کی دنیا کا جبر ان کی نثر تو برداشت کر سکتی تھی، مگر شاعری کو وہ اس سے محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔ غالب نے طبیعی سطح پر تبدیلیوں کا خیر مقدم کیا تھا، مگر اپنے تخلیقی وجدان اور اپنے اجتماعی وجدان کے مطالبات اور معیاروں سے دست کشی ان کے لیے ناقابل قبول تھی۔
کلکتے کے سفر نے غالب کو حیرانی اور اپنے عہد کی تبدیلیوں کے واسطے سے عقل کی بہت سے فتوحات کا گیان تو دیا، لیکن غالب نے یہ سفر جدید زندگی کو سمجھنے کے لیے ہرگز نہیں کیا تھا۔ وہ تو صرف آگ لینے کی خاطر گئے تھے۔ چنانچہ کلکتے سے واپس اس طرح آئے کہ نہ تو آگ ملی نہ کسی طرح کی پیمبری۔ علوم کی نئی منطق، سائنسی اختراعات اور ایجادوں سے باخبر ہونے کے لیے اتنا طویل سفر اختیار کرنے اور سفر میں ایسے رنج کھینچنے کی ضرورت نہیں تھی۔ دلی کی ایک گلی میں بیٹھے بیٹھے بھی ان کا پرتجسس ذہن انہیں اس طرح کی عامیانہ معلومات بہم پہنچا سکتا تھا، جنہیں انیسویں صدی کے عقلیت اور معاشرتی انقلابات کی بنیاد تصور کیا گیا اور ہر چند کہ غالب نے (۱۸۶۲) میں اپنے حال کی بابت یہ رائے قائم کی کہ، ’’ملک سراسر بے خس وخار ہو گیا ہے۔ قلمروہند نمونہ گلزار ہو گیا ہے۔ بہشت اور بیکنٹھ جو مرنے کے بعد متصور تھا، اب زندگی میں موجود ہے۔ وہ احمق، وہ ناقدردان ہے جو انگریزی عمل داری سے ناخوشنود ہے۔‘‘
لیکن یہ کسی نئی بصیرت کا اعلان نہیں، ایک طرح کی مصلحت پرستانہ مضمون بندی ہے۔ بجلی کے بلب کی روشنی انہیں جتنی بھی اچھی لگی ہو، ان کے حواس ان کی اپنی بصیرت کے چراغ سے منور رہے اور جب چاروں طرف پھیلا ہوا عقل کا اجالا ان کے اپنے شب چراغ پر غالب آنے لگا تو انہوں نے خاموشی اختیار کر لی۔ اپنے زمانے کی مادی ترقی سے غالب اگر ہراساں نہ ہوتے تو وہ بھی تجدد اور تعمیر کے قصیدہ خوانوں میں شامل ہو گئے ہوتے اور اس سے زیادہ خراب شاعری کرتے جیسی کہ دنیا دارانہ شعور کی قیادت میں ہندوستان کی دوسری زبانوں کے شعرا نے کی۔ عقل کی ثنا و ستایش کرتے کرتے غالب اچانک گریز کا راستہ پکڑ لیتے ہیں اور یہ ساری تمہید ایک نئی بصیرت کا عقبی پردہ بن کر رہ جاتی ہے۔
بہ دانش غم آموزگار من است
خزانِ عزیزاں بہار ِمن است
چراغ کہ بے روغن افروختم
دلے بود کز تاب غم سوختم
زیز داں غم آمد دل افروز من
چراغ شب و اختر روز من
(ابر گہر یار)
خیر، یہ سارا قصہ تحقیق سے زیادہ فکری تجزیے کا طلب گار ہے۔ چنانچہ اپنی مشرقیت کامفہوم متعین کرنے کی جو روش ایڈورڈ سعید کی Orientalism (۱۹۷۸) سے ہمارے موجودہ ادبی منظر نامے پر پھیلی ہوئی اپنے تشخص اور اپنے دیسی پن (Nativism) کی بحث میں اپنے ایک منطقی نتیجے تک پہنچتی ہے، اس نے کولونیل (colonial) اور (Post Colonial) کے تاریخی تصورات کی آویزش کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔
غالب کے ان تمام ہندوستانی معاصرین کی شاعری جو نشاۃ ثانیہ کے نقیب تھے، ایک عجیب و غریب نثر یت زدہ تخلیقی جوہر سے بالعموم عاری اور ایک سطحی مفہوم رکھنے والے بیانیہ کی شکل میں سامنے آئی۔ ہماری کھڑی بولی ہندی کی شاعری نے تو اس وقت بس گھٹنوں کے بل چلنا سیکھا تھا۔ کچھ شاعروں نے (مثلا ًیگیہ دت تیواری) یا تو صرف ماضی کاقصیدہ باندھا اور عہد رفتہ کی عظمت کا احساس بہت نثری انداز میں جگانے کی کوشش کی، یا پھر بعضوں نے (مثلاً رانی لکشمی بائی کے معاصر ہری ویش نے) اس زمانے کے ادیبوں کی خستہ حالی کا ماتم کیا۔ بھارتیندو ہریش چند نے اپنے ڈرامے بھارت دردشامیں محض رسمی طور پر انگریزوں کی لوٹ مار کا نقشہ مرتب کیا ہے۔ اس نقشے کی تخلیقی قدر وقیمت بہت معمولی ہے اور اس کی حیثیت صرف تاریخی ہے۔ ایک حلقہ ایسے شاعروں کا بھی تھا (مثلاً سیوک) جنہوں نے منافقت کا راستہ اپنایا اور انگریزوں کے لیے اپنی وفاداری، سعادت مندی کے جذبوں کی نمایش کرتے رہے۔
ایک عام خیال یہ ہے کہ کلکتہ چونکہ مغربی اقتدار کا پہلا مرکز تھا اور ذہنی بیداری کی لہر سب سے پہلے بنگال میں پھیلی، اس لیے بنگالی ادیبوں اور شاعروں کے یہاں بھی ایک ’’ترقی یافتہ‘‘ تخلیقی بصیرت کی تلاش کی جا سکتی ہے۔ قوم پرستانہ جذبات کی ترجمانی بے شک اس عہد کی بنگالی صحافت اور ادب میں عام دکھائی دیتی ہے۔ وہاں سے شایع ہونے والے اخبارات، فرینڈس آف انڈیا (Friends of India)، انگلش مین (Englishman)، بنگال ہکارو (Bengal Hukaru)، کلکتہ ریویو (Calcutta Review) اور ہندو پیٹریٹ (Hindu Patriot) میں قوم پرستی کا آہنگ خاصا اونچا تھا، اس حد تک کہ لارڈ کیننگ نے انہیں اپنے ایک اعلانیے (۱۸/مئی ۱۸۵۷) کے مطابق اپنی راہ تبدیل کرنے یا چپ رہنے کی تاکید کی۔
لیکن اس زمانے میں بنگال کے ادیبوں نے جو تخلیقات پیش کیں، مثلاً رام نرائن تارا کانتا کا ڈراما کُلین، کلا، سروسوا، (جو مارچ ۱۸۵۷میں اسٹیج کیا گیا) یا پھر ۱۸۵۷ کے بعد بنکم چند چٹرجی کا شایع ہونے والا آنند مٹھ اور ہیم چند چٹو پادھیائے کی کتاب بھارت سنگیت، ان میں احتجاج کا لہجہ سخت اور درشت اورقوم پرستی بلکہ نظریاتی احیا پرستی کا رنگ نمایاں ہے۔ البتہ ان کی ادبی سطح معمولی اور مشکوک ہے۔ بنگالی تھیٹر میں کچھ بامعنی تجربے (مدھوسودن دت کے واسطے سے ) بھی ہوئے اور بنگالی ڈرامے نے ایک نئے سماجی شعور اور وابستگی کو ترقی دی۔ لیکن شاعروں میں غالب کے مرتبے کی ایک بھی مثال اس عہد کے ہندستانی ادب میں نہیں ملتی۔
تخلیقی طاقت کے لحاظ سے انیسویں صدی کے مراٹھی، گجراتی، تمل، تیلگوادب کا خانہ بنگالی سے بھی زیادہ خالی ہے۔ نظم کی بہ نسبت نثری صنفوں نے تھوڑی زیادہ سرگرمی دکھائی۔ لیکن ہندوستانی ادبیات میں مجموعی طور پر دیکھا جائے تو رابندر ناتھ ٹیگور سے پہلے ایک بھی ایسی شخصیت دکھائی نہیں دیتی جسے غالب یا کلاسیکی ادب کے ہندوستانی مشاہیر کی صف میں رکھا جا سکے۔
انیسویں صدی میں ہندوستانی ادبیات کے سیاق میں جمالیات اور شعر یات کا جو بھی نظام مرتب اور وضع کیا جائےگا، اس کی اڑان محدود، سطح عامیانہ اورمزاج صحافتی ہوگا۔ عالم گیر ادبی قدریں جو تاریخی، طبعی اور جغرافیائی سرحدوں کو عبور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور جن کی بنیاد پر ہم دنیا کے بڑے ادیبوں اور شاعروں میں رفاقت اور موانست کے عناصر کی دریافت کرتے ہیں، انیسویں صدی کے تمام ہندوستانی شاعروں میں ایک غالب کے استثنا کے ساتھ ہمیں ناپید نظر آتی ہیں۔ غالب کو اپنے ہم عصر ملے بھی تو کہاں؟ فرانس میں لے دے کے ایک بودلیر (Les Fleurs du mal) (۱۸۲۱تا ۱۸۶۷۔ بدی کے پھول کی اشاعت ۱۸۵۷)، جرمنی میں ہائنے (۱۷۹۷تا۱۸۵۶)
غالب کی حسیت کے تناظر میں ہائنے کے یہ الفاظ کچھ خاص معنی رکھتے ہیں کہ ’’میں نے شعری کامرانیوں کے واسطے سے کسی بڑے نصب العین تک رسائی کو اپنا ہدف نہیں بنایا۔ (کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے) میرے نغموں کو سراہا جائے یا انہیں اعتراضات کا نشانہ بنایا جائے، مجھے اس سے زیادہ سروکار نہیں ہے۔ مگر میرے تابوت پر ایک تلوار ضرور رکھ دینا کیونکہ میں انسانی آزادی کی جنگو ں کا ایک اچھا سپاہی رہا ہوں! (سو پشت سے ہے پیشہ آباسپہ گری۔ ) اسی طرح امریکہ کا والٹ وہٹمن (۱۸۱۹تا ۱۸۹۲) جس کی کتاب گھاس کی پتیاں ۱۸۵۵ میں شایع ہوئی اور جس کا دعوی تھا کہ اس کی شاعری انسانی جسم اور روح دونوں کا احاطہ کرتی ہے اور انگلستان کے رومانی شعرا (Romantic) ولیم ورڈسورتھ (۱۷۷۹۔ ۱۸۵۰) شیلے (۱۷۹۲۔ ۱۸۲۲) اور کیٹس (۱۷۹۵۔ ۱۸۲۱) اور روس کے پشکن (۱۷۹۷۔ ۱۸۳۷) غالب کے ہم عصر ہیں۔
غالب کے یہاں انسانی صورت حال کے مختلف اور متضاد پہلوؤں کا جو ادراک ملتا ہے، جو سچی اور گہری اور احساسات میں رچی ہوئی انسان دوستی ملتی ہے، ان کے تخیل میں جو رفعت ہے، بصیرتوں اور حواس کی آزادی اور بے کناری کا جو شعور ملتا ہے، انسانی عروج کے تماشے میں شامل زوال کے مختلف عناصر کی تفہیم و تعبیر کا جو سلیقہ، اپنے انفرادی تجربے اور اپنی نظر پر جو اعتماد دکھائی دیتا ہے، وہ صرف بڑی شاعری اوربڑے ادب کا شناس نامہ ہے۔ معنی کی اتنی پرتیں، تجربے کی اتنی جہتیں اورسطحیں، لفظ کے امکانات پر غالب کی جیسی گرفت ہمیں انیسویں صدی کے کسی اور اردو شاعر اور دوسری ہندوستانی زبانوں کے کسی بھی لکھنے والے کے یہاں دکھائی نہیں دیتی۔
اس حساب سے غالب کو صرف انیسویں صدی کے ہندستان کی تخلیقی بلندی کا سب سے بڑا نشان یامشرقی روایات کا سب سے بڑا عارف سمجھنا اور اس سے بھی آگے بڑھ کر عالمی ادبیات کے پس منظر میں غالب کے امتیاز کو نہ پہچاننا غالب کے ساتھ زیادتی ہے۔ غالب اپنے عہد میں دنیا کے سب سے بڑے شاعر یا کم سے کم سب سے بڑے شاعروں میں ایک نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔ غالب کی یہ حیثیت ان کی تفہیم کا ایک نیا تناظر مہیا کرتی ہے۔ اس تناظر کے مطابق غالب اردو کی ادبی روایت سے تعلق رکھنے والے شاعروں میں پہلے عالمی شہری ہیں اور ان کاشعور اپنے انفرادی رابطوں اور اپنے مخصوص نشانات کے باوجود ایک آفاقی اور عالم گیر مزاج اور مفہوم کا حامل ہے۔