غالب افسانہ
گفتن سخن از پایۂ غالب نہ ز ہوش است
امروز کہ مستم خبرے خواہم ازو داد
(میرزا غالب، دیوان غزلیات فارسی)
میں نسلاً راجپوت اور مولداً نظام آباد، ضلع اعظم گڑھ کا ہوں۔ اعلیٰ حضرت مہابلی خلد آشیانی کے وقتوں میں بلیا اور اس کے اطراف کے بھومی ہاروں نے کچھ شورش کی تو ان کی سرکوبی کے لیے افواج شاہی علاقۂ پٹیالہ، جے پور اور جھنجھنو سے بھیجی گئیں۔ ان میں بہت سے راجپوت، پٹھان، اور سید بھی تھے۔ شورش تو جلد جلد فرو ہوگئی، لیکن فوج کے سواروں، نفروں اور بعض رسالداروں کو بھی پورب کے یہ علاقے اتنے پسند آئے کہ اکثر ہم یہیں بس رہے۔ سرائے رانی، سنجر پور، خراسان (جسے اب خراسوں کہتے ہیں)، سرائے میر۔۔۔ یہ مواضعات اسی زمانے میں آباد ہوئے۔ نظام آباد البتہ قدیم الایام سے موجود تھا۔
کہا جاتا ہے کہ جیوش اکبری کے ساتھ آنے والو ں میں کچھ میرے بھی اجداد تھے جنہوں نے نظام آباد میں سکونت اختیار کی۔ لیکن ہمارے گھرانے کو اصل فروغ تب ملا جب شہنشاہ ہندوستان و دکن، اعلیٰ حضرت محی السنت والدین، فردوس مکانی اورنگ زیب عالم گیر کے مبارک دور دورۂ سلطانی میں اعظم خان اور عظمت خان دو بھائیوں کو دستک شاہی کے ذریعے ان اطراف کی جاگیر وطنی تفویض ہوئی۔ اعظم خان نے اعظم گڑھ آباد کیا اور اور عظمت خان نے اعظم گرھ سے کوئی دس کو س شمال مغرب میں عظمت گڑھ۔ اعظم خاں کے سوار و منصب داروں میں سے کچھ بے شک میرے اجداد تھے جو علاقۂ پنجاب سے اٹھے تھے اور یہاں نظام آباد میں آبسے۔
ہم لوگ ہے ہے بنس کے چندر بنسی راجپوت ہیں۔ جنگ وجدل کے علاوہ علم و ہنر بھی ہمارے گھرانے کی پہچان رہا ہے۔ فردوس آرام گاہ اعلیٰ حضرت روشن اختر محمد شاہ باد شاہ غازی کے عہد سعادت بنیاد میں زمین و املاک کے جھگڑے اٹھے تو ہمارے ایک بزرگ نے ناراض ہوکر علیحدگی اختیار کرلی۔ اور یہ علیحدگی اتنی شدید ہوئی کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ ان کے اخلاف بھی مسلمان رہے اور بحمد اللہ اب بھی کہیں جواحیا ہیں، مذہب اسلام کے پیرو ہوں گے۔ میرے جداعلیٰ اپنے قدیمی مسلک پر رہے اور میں بھی ایشور کی کرپا سے اسی پر قائم ہوں۔ اپنے مسلمان بھائیوں سے ہمارا ربط آہستہ آہستہ پھر استوار ہوا تو ملنا جلنا، ریت رسم، یہاں تک کہ ایک آدھ بار تو شادی بیاہ کے بھی مراسم بن گئے۔ ایسے موقعوں پر تلوار تک چلنے کی نوبت آگئی لیکن مرور ایام کے ساتھ سب برابر ہوگیا۔
ہمارے دادا نے اسلحہ سازی کا کام شوقیہ اختیار کیا۔ وہ کہتے تھے کہ انسان کو اپنے اسلحہ کے بارے میں ویسا ہی علم و اعتماد رکھنا چاہیے جیسا اپنی اولاد یا بیوی کے بارے میں ہوتا ہے۔ وہ فرماتے تھے کہ اپنا اسلحہ خود بنانے سے بہتر کوئی طریقہ اپنے ہتھیار کو جاننے اور سمجھنے کا نہیں ہے۔ اول اول تو وہ قدیم انداز کے تیغے، جمدھر اور شیر پنجے ہی بناتے تھے، لیکن ایک عیسائی پادری کے طعنہ دینے پر کہ تم ہندوستانی لوگوں کو ہمارے ہتھیار بنانا مشکل ہے، انہوں نے طرح طرح کی قرابینیں، دگاڑے اور کمچھڑ بھی بنانے شروع کردیے۔ اور اس فن میں وہ اس قدر کامیاب ہوئے کہ کمپنی بہادر کے سپاہی اور اطراف کے ڈکیت دونوں ہی بڑی قیمت دے کر ان سے ہتھیار مول لے جاتے تھے۔ میرے باپ کا زمانہ آتے آتے ہمارا پیشہ اسلحہ بازی کے بجائے اسلحہ سازی ہوگیا۔
ہمارے قصبے نظام آباد کے بعض تال تلیوں میں ایک خاص قسم کی سیاہ مٹی نکلتی ہے۔ اس کے برتن بہت اچھے بنتے ہیں اور دور دور دساور کو جاتے ہیں۔ ایک کمہار کا بیٹا میرا دوست بن گیا تو میں نے بابوجی قبلہ سے چوری چھپے اس کا فن بھی سیکھ لیا۔ کیا معلوم تھا کہ ایک دن اس ہنر سے مجھے کچھ تمتع بھی ہوسکے گا۔
ہمارے گھرانے کی دونوں شاخیں اعظم خاں اور عظمت خان کی اولادوں اور اس طرح آل تیمور کے فرماں رواؤں کی خدمت کو اپنا دین و ایمان جانتی تھیں۔ بکسر کی جنگ (۱۷۶۴ء، مرتب) میں بکسریے تو دونوں طرف سے لڑے تھے، کہ کچھ کرائے کے ٹٹوؤں کے طور پر کمپنی بہادر کے جھنڈے تلے تھے اور کچھ ایسے تھے جو حضور فیض گنجور اعلیٰ حضرت شاہ عالم ثانی شہنشاہ ہنداور نواب وزیر کی فوجوں میں تھے۔ لیکن ہمارے گھرانے کے جتنے لوگ اس جنگ میں شریک تھے، کیا ہندو کیا مسلمان، سب کے سب اعلیٰ حضرت کے لوائے سطوت و سلطنت کے ہی سائے میں تھے۔ اس جنگ میں ہمارے دونوں گھرانوں کے اکیس سورماؤں نے جام شہادت نوش کیا۔
بکسر کے بعد بھی ہماری وفاداری اعلیٰ حضرت ا ور نواب وزیر سے رہی۔ لیکن خود عالی جناب جنت مآب شاہ عالم ثانی نے بہار اور بنگال کی دیوانی کمپنی بہادر کو سونپ دی اور نواب وزیر کے چند برس بعداللہ کو پیارے ہوئے۔ جنت مآب اپنی تمام خوبیوں اور حکمت عملیوں کے باوجود انگریز کے جال سے نہ نکل سکے۔ مراٹھا سردار مہاداجی نے انہیں الٰہ آباد سے نجات دلائی اور ان کا وکیل مطلق بن کر راج کرتا رہا۔ ذوالفقار الدولہ نجف خاں کی موت کے بعد جنت مآب ملکی سیاست کے نقشے پر بے اثر ہوگئے۔ مراٹھا کے مرنے کے بعد انگریز کو پھر موقع ملا تو اس نے اعلیٰ حضرت کو اپنی ’حفاظت‘ میں لے لیا۔
لکھ لٹ نواب وزیر آصف الدولہ مبرور عدن مقام کے زمانۂ مسعود و محفوظ تک تو ہم اودھ کے زیر پرورش اور زیر نگیں رہے۔ لیکن وزیر علی خان مغفور کو ہٹاکر مرزا منگلی مرحوم جنت آرام گاہ کو مسند وزارت دلانے میں خان علامہ اور دوسروں نے جو دکھ اٹھائے اور اٹھوائے، ان میں اودھ کے آدھے علاقے کا تحویل وزارت سے نکل کر انگریزوں کے چنگل میں جانا بھی تھا۔ اس طرح ہم لوگ لفظاً و معناً قید فرنگ میں آگئے۔ دلوں میں دھیمی دھیمی آگ سلگتی رہی، لیکن ہم کر بھی کیا سکتے تھے۔
خان علامہ اور میرے دادا میں پرانی ملاقات تھی، اور وجہ ملاقات وہی اسلحہ سازی۔ علامہ موصوف کو میرے دادا کی بنائی ہوئی لمچھڑیں بہت پسند تھیں۔ وہ انہیں منگواکر اپنے انگریز دوستوں کو نذر کرتے تھے۔ ۱۷۹۸ کے اواخر میں بڑے لاٹ کے دربار میں نواب وزیر کی طرف سے عہدۂ وکالت سنبھالنے کی غرض سے کلکتہ جاتے ہوئے خان علامہ اپنے بعض اعزا اور میرے دادا جان سے ملنے اعظم گڑھ بھی آئے تھے۔ دادا نے انہیں حسب سابق اپنی بنائی ہوئی ایک لمچھڑ اور ایک قرابین پیش کیں۔ لیکن اس بار انہوں نے تھوڑی رنجش کا بھی اظہار کیا کہ خان علامہ نے سعادت علی خان کو نواب وزیر بنوانے میں یہ بھی خیال نہ کیا کہ الٰہ آباد سے لے کر بریلی تک کتنا بڑا علاقہ انگریز کے ہاتھ میں دلوادیا گیا۔ خان علامہ نے فرمایا ’’بھوانی سنگھ وہ چند ضلعے دے کر میں نے اودھ کو بچالیا۔ اب کوئی دن جاتا ہے کہ اودھ کیا سارا ملک ہند ہی کلکتہ کو دہلی مان لے گا۔‘‘
میری پیدائش ۱۸۴۰ء کی ہے۔ میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔ دستور کے مطابق مجھے آلات حرب و ضرب کے علاوہ قلم کا بھی ہنر سکھایاگیا۔ میں نے گھر پر فارسی، عربی اور تھوڑی بہت ریاضی سیکھی۔ پھر مولانا فاروق چریا کوٹی کے ایک شاگرد کے مدرسے میں باقاعدہ تعلیم کے لیے بٹھادیا گیا۔ میری پیدائش سے تین سال پہلے ۱۸۳۷ء میں اعظم گڑھ میں کچھ پادریوں نے ایک انگریزی اسکول کھولا تھا، ویزلی اسکول کے نام سے۔ (ویزلی اسکول ایک مدت سے ویزلی انٹر کالج ہوگیا ہے اور اپنی پرانی جگہ پر اب تک موجود ہے، مرتب۔) میرے والد کے ایک دوست جو کمپنی بہادر کی نوکری کرچکے تھے، مصر ہوئے کہ بینی مادھو کو انگریزی پڑھواؤ، کہ اسی میں اب کاربار ملکی و مالی و فوجی چلے گا۔ ان کی روز روز کی ضد سے تنگ آکر میرے قبلہ نے میرا نام وہاں لکھا ہی دیا۔ اس وقت میری عمر کوئی دس برس کی تھی۔
انگریزی مدرسے میں فارسی انگریزی، ریاضی اور تاریخ وغیرہ کے ساتھ ساتھ کرشٹان مذہب کی باتیں اور ایک نئی چیز اور پڑھوائی جاتی تھی، جسے وہ لوگ ’ہندی‘ کہتے تھے۔ یہ تھی تو وہی ہندی جسے ہم گھروں میں بولتے تھے، لیکن اسے سنسکرت حرو ف میں لکھا جاتا تھا، اور اس میں ہماری ہندی کے میٹھے، رواں لفظوں کی جگہ خدا جانے کہاں کہاں کے لفظ بھردیے گئے تھے۔ مجھے وہ زبان بڑی عجیب سی لگی۔ میں سوچا کرتا تھا کہ بڑا ہوکر ریختہ لکھوں گا، ہندی کا شاعر بنوں گا۔ میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اس نئی ’ہندی‘ میں حضرت میر تقی میر اعلیٰ اللہ مقامہ اور قبلہ میر ببر علی صاحب انیس کی طرح کا کلام کیوں کر ممکن ہوسکے گا۔ میں نے بعض ماسٹر صاحبان کو یہ بھی کہتے سنا کہ ’ہندی‘ ایک الگ زبان ہے۔ یہ ہندوؤں کی زبان ہے، مسلمانوں کی زبان ریختہ یا اردو کہلاتی ہے۔
اس اسکول میں کچھ ایسے بھی بچے تھے جن کی وہاں کے اساتذہ میں بڑی آؤبھگت تھی۔ چہرے بشرے اور چال ڈھال سے تو وہ ہمارے ہی جیسے تھے، اگرچہ ذرا نیچی ذات کے، لیکن ان کے نام عجیب تھے، آدھے ہندوستانی اور آدھے کرشٹانی۔ مثلاً ایک لڑکے کا نام تھا سیموئل سنگھ۔ ایک اور لڑکا تھا، اس کا نام تھا لارن داس (بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اصل میں یہ لارنس داس تھا۔) ایک اور لڑکا جو ہم میں سب سے بڑا تھا، جان مسیح الدین کہلاتا تھا۔ وہ ہاتھ پاؤں کا اچھا تھا اور موقع بے موقع ہم لوگوں کو پیٹنے سے گریز نہ کرتا تھا۔ یہ سب لڑکے کوئی چیز بپتسمہ ہوتی تھی وہ کراکے کرشٹان ہوچکے تھے۔ میں سمجھتا تھا کہ بپتسمہ بھی ختنے کی قسم کی کوئی رسم ہوتی ہوگی۔ لیکن پھر پتا چلا کہ اس میں کسی متبرک پانی کے چھینٹے دیے جاتے ہیں۔
خیر، ان لڑکوں میں ہم لوگوں کے خلاف ایکا بہت تھا۔ اور وہ کوشش کرکے ہم لوگوں سے مختلف لہجے میں اور خلاف محاورہ ہندی بولنے کا خاص التزام رکھتے تھے۔ مجھے تو وہ ایک آنکھ نہ بھائے۔ اس لیے نہیں کہ انہوں نے بپتسمہ کرایا تھا بلکہ اس لیے کہ وہ ہم لوگوں کو اپنے سے کمتر سمجھتے تھے۔ اسکول میں ایک دو انگریز بھی تھے۔ اور میرے لیے انگریزوں کو قریب سے دیکھنے کا یہ پہلاموقع تھا۔ ان کی بولی میری سمجھ میں نہ آتی تھی، لیکن خدا معلوم کیوں مجھے ان سے ڈر لگتا تھا۔ ہم لوگوں سے وہ بہت میٹھے لہجے میں بولتے، لیکن موقع پڑنے پر سخت سزا دینے سے نہ چوکتے تھے۔ وقت کی پابندی وہاں بہت تھی۔ میں ہمیشہ دیر تک سونے والا، اکثر تعویق سے اسکول پہنچتا اور سزا کا مستوجب ٹھہرتا۔ ایک بار میں کچھ جلدی چھٹی ہوجانے کی خوشی سے مغلوب ہوکر اسکول کے بڑے ہال کمرے سے ذرا شور و غل کرتا ہوا گزرا۔ مجھے کیا خبر تھی کہ بڑے ماسٹر صاحب سن رہے ہیں۔ فوراً پکڑوا بلایاگیا اور دس بیت کا مستحق قرار دیا گیا۔ یہ سزا ایک جلاد صفت ماسٹر امینوئل لال کے ہاتھوں دلوائی گئی۔
میں ویزلی اسکول میں بہت دن رہا نہیں۔ ادھر میرے فرشتہ سیرت والد کو برادری والے طعنہ دیتے کہ تم بچے کو بھرشٹ کیے دے رہے ہو۔ اور ادھر مجھے اسکول کی ’ہندی‘اور جان مسیح الدین ایسے ثور صفت لڑکوں کا دست تطادل بدشوق بنائے دیتے تھے۔ تھوڑی بہت انگریزی میں نے ضرور سیکھ لی اور چھٹی جماعت میں جوں توں کرکے کامیاب ہونے کے بعد میں نے اسکول چھوڑ دیا۔ اب وہی مدرسہ تھا اور وہی فارسی، تھوڑی سی عربی اور ریاضی و منطق وہیئت۔ گھر پر بنوٹ، گتکا، تیغ زنی، بندوق بازی کی مشق ہوتی تھی۔ محلے کے اکھاڑے میں کشتی ہوجاتی تھی۔ میں نظام آباد سے اعظم گڑھ چار کوس پیدل آتا جاتا تھا۔ اس وجہ سے بھی بدن خوب کسرتی ہوگیا تھا۔
لیکن مجھے تو شاعر بننے کی دھن تھی۔ ایک دن والد محترم نے مجھے کچھ شعر گنگناتے دیکھ لیا۔ بڑی ڈانٹ پڑی اور دادا جان سے شکایت بھی ہوئی۔ پرمیشور انہیں پنرجنم سے بچائے، مجھ سے بڑی محبت کرتے تھے۔ بولے، ’’تو کیا ہوا؟ شرفا کے کاموں میں سے ایک کام یہ بھی ہے۔ اسے کچھ نہ کہو۔ ہماری ایک ہی تو اولاد ہے۔‘‘
دو تین سال آرام سے گزرے۔ کچھ پڑھنے پڑھانے اور شعر کہنے میں، اور کچھ مشق تیر و تفنگ اور تیغ و جمدھر میں۔ دادا جان بہت بوڑھے ہوچکے تھے اور والد کے یہاں بھی کسی دوسری اولاد کی توقع نہ تھی۔ عام راجپوتوں کے علیٰ الرغم ہمارے گھرانے میں تعدد ازواج کا طریقہ بالکل نہ تھا۔ ہاں چوری چھپے یا علی الاعلان عشق کرنے کی بات اور تھی۔ لہٰذا میں تنہا ہی اولاد رہ کر جیا۔ ایک دن دادا جان کو معلوم ہوا کہ خان علامہ کے دادا استاد ملا سابق بنارسی کے ایک پوتے مولوی خادم حسین ناظم ہمارے قصبے کے پاس ہی تحصیل کے صدر مقام محمد آباد میں منصف ہوکر آئے ہیں۔ دادا نے فرمایا کہ استاد کے بغیر شاعر نہیں بناجاتا۔ چلو تمہیں مولوی صاحب کا شاگرد بنوادوں۔
ہم اپنے اپنے گھوڑوں پر سوار ہوکر اول وقت پر پہنچے۔ خان علامہ کا نام درمیان میں لاکر اطلاع کرائی۔ مولوی صاحب خود باہر آکر ہم لوگوں کو اپنے دیوان خانے میں لائے۔ عطرپان سے تواضع کیا۔ مولوی صاحب مغل وضع کی چوگوشیہ ٹوپی اور جدید طرز کا لمبا چغہ پہنے ہوئے تھے۔ پاؤں میں سلیم شاہی جوتی، گلے میں ململ کا لمبا کرتا، ہاتھ میں عقیق احمر کی تسبیح۔ میں دل میں بہت ڈرا ہوا تھا، لیکن ان کو دیکھ کر ایک طرفہ فرحت کا احساس ہوا۔ گلابی جاڑے تھے، دیوان خانہ میں ہلکی ہلکی خوشبو شمامۃ العنبر کی پھیلی ہوئی تھی۔ دادا مرحوم نے عرض مدعا کی تو مولوی صاحب نے فرمایا، ’’میاں تخلص کیا کرتے ہو؟‘‘ میں نے دبی زبان سے عرض کیا، ’’جی تخلص کا گہنگار ابھی نہیں ہوا۔‘‘ مولوی صاحب ذرا مسکرائے، ایک لمبی سی ہوں کی، پھر ایک لحظہ چپ رہ کر بولے، ’’اچھا تو میاں بینی مادھو، تم ہے ہے بنس کے راجپوت، صاحب تیغ و سپر خاندان کے چشم و چراغ، شاعری کرکے اپنے گھرانے کو رسوا کرنے پر اتارو ہو، تو لو ہم تمہارا تخلص ’رسوا‘ تجویز کرتے ہیں۔‘‘
دادا صاحب اور میں نے ایک زبان ہوکر کہا کہ ’’بہت خوب۔‘‘ مولوی صاحب نے ہاتھ اٹھاکر دعا کی، میرے سر پر ہاتھ پھیرا، اور کہا، ’’اچھا اب اپنا کوئی شعر تو پڑھو۔‘‘ میرا تو دم ہی نکل گیا۔ کنکھیوں سے دادا جان کی طرف دیکھا، لیکن وہ تو بالکل بے تعلق سے ہوگئے تھے۔ جبراً قہراً یہ مطلع میں نے پھنسی پھنسی آواز میں پڑھا،
ہستی کو حباب سمجھیے گا
ہر سانس کو آب سمجھیے گا
مولوی صاحب نے فرمایا، ’’خوب۔ لیکن ’سمجھیے‘ بروزن فاعلن اب اچھا نہیں لگتا۔ اسے ’جانیے‘ کردو۔‘‘ ابھی میں کچھ کہنے والا تھا کہ آپ نے مزید ارشاد فرمایا، ’’اور میاں صاحب، سانس کو آب کہنے کی نہ کوئی دلیل ہے، اور نہ بین المصر عتین ربط ہی قائم ہوتا ہے۔ اسے یوں کردیں، ’عالم کو آب جانیے گا‘ اور اسے مصرع اولیٰ قرار دیں تو کیسی رہے؟ کہو کچھ عروض بھی جانتے ہو؟‘‘
میں نے اٹک اٹک کر عرض کی، ’’جی حضور، اور اصلاحی مصرع ثانی میں تسکین اوسط ہے۔‘‘
مولوی صاحب نے پھر فرمایا، ’’خوب۔‘‘ دادا صاحب گویا اب متوجہ ہوئے۔ ارشاد ہوا، ’’سبحان اللہ حضرت، کیا اصلاحیں صادر فرمائیں ہیں۔‘‘ مولوی صاحب کے اصرار پر میں نے ایک شعر اور پڑھا،
افسوس ساتھ میرے یاروں نے دشمنی کی
اس کی گلی میں رہتا تو چاکری ہی کرتا
مولوی صاحب نے ایک لحظہ سکوت فرمایا، پھر کہا، ’’ہاں، شیخ ناسخ کے رنگ کاشعر ہے۔ شیخ مرحوم اکثر اشاروں میں بات کہتے تھے۔ خود فرمایا ہے،
ہے بیت ہی میں معنی بیت خیال بند
نزدیک ہے بہت جسے سمجھے ہیں دور ہے
لیکن تمہارے شعر کی بندش صاف نہیں بیٹھی۔ پہلا مصرع یوں کردو،
دنیا کی بادشاہی کس کام کی ہے میرے
اب بات ذرا سامنے کی ہوگئی، لیکن صاف ہے۔ دیکھو مبتدی کو صفائی ادا زیادہ ضروری ہے۔‘‘
بات میری سمجھ میں ٹھیک سے نہ آئی تھی لیکن دادا صاحب مرحوم ’’بہت خوب، بہت مناسب‘‘ کہتے رہے۔ مولوی صاحب نے یہ کہہ کر ہم کو رخصت کیا کہ ’’بھئی ہمیں اتنی فرصت نہیں کہ تم جیسے نوجوانوں کی آمد شعر پر اصلاح دیتے رہیں۔ کبھی کبھی ادھر سے گزرنا ہو تو ایک آدھ غزل دکھادیا کرنا۔‘‘
جب ہم باہر نکلے تو ہمیں دیکھ کر حیرت اور شرمندگی ہوئی کہ دوسیر شیرینی جو ہم بطور نذر لائے تھے، اس کے عوض مولوی صاحب قبلہ نے کوئی مہینہ بھر کا سیدھا اور کئی طرح کے پھل اور ترکاریاں ہمارے لیے بیل گاڑی پر لدواکر تیار کرادی تھیں۔ مولوی صاحب اندر جاچکے تھے، شکریے کا بھی موقع نہ تھا، ہم ان کی کرم فرمائیوں اور شاعرانہ قوتوں پر عش عش کرتے گھر لوٹے۔
میں مولوی خادم حسین ناظم کا شاگرد کیا بناکہ اپنے حسابوں فارغ التحصیل ہوگیا۔ مدرسے جانا چھوڑ کر سارا وقت شعر و شاعری اور تیر و تفنگ میں گزارنے لگا۔ پھر ایک جگہ کچھ معاملات دل بھی نکل آئے۔ کچھ ادھر کا بھی اشارہ تھا۔ بات بہت آگے نہ بڑھی لیکن دل لگانے اور دل لگی کا تو سامان تھا ہی۔ میں سولہ برس کا خاصا وجیہہ جوان نکلا تھا۔ کسرتی بدن، گھر میں کھانے پینے کی کمی نہ تھی۔ والدین کا لاڈ پیار الگ۔ اور کیا چاہیے تھا؟
لیکن وہ ۱۸۵۶ء کا سال مجھ پرکچھ عجیب بھاری گزرا۔ اودھ کی سلطنت کے انتزاع کا ہم لوگوں پر براہ راست اثر یہ پڑا کہ کلکتے کے بڑے لاٹ کے خلاف دلوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑنے لگی۔ ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ اشیا کی قیمتیں آپ سے آپ بڑھنے لگی تھیں۔ ضروری اشیا بھی عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہوتی جارہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا اودھ کی پیداوار اب مشرقی اضلاع میں آنا بند ہوگئی ہے۔ موٹے اور باریک اناج سب ایک بھاؤ ہوکر روپئے کے آٹھ نو سیر بکنے لگے۔ لوگوں میں خبراڑی کہ کمپنی نے اودھ اور اطراف کا سارا مال ولایت بھیج دیا۔
بادشاہ جان عالم کے کلکتہ پہنچنے کے چند ہفتے بعد لوگوں میں خفیہ باتیں مشہور ہونے لگیں کہ نہ صرف اودھ بلکہ دلی کی بھی بادشاہت واپس آنے والی ہے۔ کبھی کبھی کوئی شخص سرگوشی میں ’’چپاتی‘‘ نام کی کسی چیز کا ذکر کرتا جو دراصل خفیہ پیغام رسانی کا ایک طریقہ تھی۔ کبھی کوئی کہتا کہ منڈیاؤں کی چھاؤنی میں جو فوج کمپنی بہادر نے شاہ اودھ کو دبائے رکھنے کے لیے متعین کر رکھی تھی، اب وہ باغی ہونے والی ہے، یا ہوگئی ہے۔ آرکاٹ کے ڈنکا شاہ کا ذکر ۱۸۵۶ء کے اواخر میں زبانوں پر پھیلنے لگا کہ وہ جہاں جاتے ہیں، ان کے آگے آگے ڈنکا بجتا چلتا ہے کہ مسلمانوں کے سردار آرہے ہیں۔ اپنے مواعظ میں وہ (ان کا اصل نام بعد میں معلوم ہوا کہ مولوی احمد اللہ ہے) کھلے بندوں ہندومسلمان دونوں کو انگریزوں کے خلاف جہاد و جنگ کی ترغیب دیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ انگریزوں کی حکومت بے دینی اور باطل پر مبنی ہے۔ یہ لوگ ہندو مسلمان دونوں سے ان کا مذہب چھڑا کر انہیں خدا سے دور کردیں گے۔
یہ سنسنی کی باتیں میرے نوجوان خون میں گرمی اور بہجت کی لہریں دوڑارہی تھیں اور میں بھی کچھ الٹے سیدھے خواب دیکھنے لگا تھا کہ میرے دادا جان کا انتقال ۱۸۵۶ء کے بالکل آخر میں اچانک تھوڑی سی علالت کے بعد ہوگیا۔ وہ چھیاسی برس کے تھے، لیکن ان کی صحت ہم نوجوانوں کی سی تھی۔ کسی کو اندیشہ نہ تھا کہ وہ اتنی جلد راہی ملک عدم ہوں گے۔ بعد کے زمانے میں مجھے اکثر خیال آتا کہ شاید ان کی پاک روح نے محسوس کرلیا تھا کہ ابنائے وطن پر جو ستم انگریز بہادر کی طرف سے ٹوٹیں گے، ان کو دیکھنے سے پہلے ہی آنکھ بند کرلینا بہتر ہے۔
۱۸۵۷ء کو شروع ہوئے ایک دو مہینے گزرے تھے کہ چپکے چپکے یہ خبر پھیلی کہ ڈنکا شاہ کو انگریزوں نے فیض آباد میں گرفتار کرلیا ہے۔ ہمارے لوگوں میں عجب بے چینی اور کشمکش سی پھیل گئی۔ میں نے ایک دن اپنے والد کو میری ماں سے کہتے سنا کہ بینی مادھو کو اس کے ماموں کے پاس شاہجہاں پور بھیج دو۔ یہاں حالات اب دگرگوں ہونے والے ہیں۔
پھر ایک رات یہ خبر جنگل کی آگ کی سی تیزی سے پھیلی کہ میرٹھ میں انگریزوں کے ساتھ کچھ بہت خراب سلوک دیسی سپاہیوں کے ہاتھوں ہوا اور فرنگی سب میرٹھ، بلندشہر وغیرہ چھوڑ چھوڑ کر پنجاب کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ واقعہ کیا ہوا، اس کی تفصیل نہ معلوم ہوئی، بجز اس کے کہ سپاہیوں کو ایسے کارتوس منھ سے کاٹنے کو ملے تھے جن میں سور یا گئو کی چربی تھی۔ منگل پانڈے نامی سپاہی نے کارتوسوں کو کاٹنے سے انکار کیا اور اپنے انگریز افسر کو گولی ماردی۔ کہا جارہا تھا کہ انگریزوں نے یہ خبر دبارکھی تھی لیکن اب یہ ہر طرف پھیل گئی ہے۔ دیسی سپاہی جگہ جگہ خروج کر رہے ہیں اور اعلیٰ حضرت ظل سبحانی ابوظفر سراج الدین بہادر شاہ ثانی کو شاہ ہند کا لقب دے کر دوبارہ تخت نشین کردیا گیا ہے۔ دوسرے دن اور نزدیک کی یہ خبر آئی کہ دیسی سپاہیوں اور ڈنکا شاہ کے ساتھیوں نے فیض آباد کا جیل خانہ توڑ کر ڈنکا شاہ کو رہا کرالیا ہے اور اب وہ ایک جم غفیر کے ساتھ عازم لکھنؤ ہیں۔
اسی رات بہت دیر گئے ایک تنو مند بوڑھا منھ پر ڈھاٹا باندھے ہمارے گڑھی پر آیا کہ میں بلیا کے بابو کنور سنگھ کا ایلچی ہوں، مجھے ٹھاکر صاحب سے ملنا ہے۔ بابو کنور سنگھ کی عمر اس وقت اسی کے قریب تھی، ان کا راج چھوٹا سا لیکن دبدبہ دور دور تک تھا۔ وہ انگریزوں سے نفرت کرتے تھے اور اپنے علاقے میں آنے والے گوروں کو سربازار گالیاں دلواتے تھے۔ میرے والد نے ایلچی سے کچھ بات کیے بغیر اس کا مدعا سمجھ لیا۔ مجھے انہوں نے اسی ایلچی کے ایک نائب کی معیت میں رات ہی رات شاہجہاں پور روانہ کردیا۔ میں نے ہزار کہا کہ میں آپ کے ساتھ رہوں گا، لیکن انہوں نے ایک نہ مانی۔ دادا مرحوم کے برخلاف وہ مزاج کے تیز بہت تھے، اور ان کے سامنے کسی کو تاب مقاومت نہ تھی۔ میں تو ان کا بچہ ہی تھا۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ صبح ہوتے ہوتے میرے والد بھی چند جاں نثاروں کو ساتھ لے کر کنور سنگھ کی طرف نکل گئے۔ ہماری گڑھی پر میری والدہ اور کچھ بوڑھے نوکر رہ گئے۔
لڑائی کا وہ سارا زمانہ میں نے شاہجہاں پور کے ایک قصبے روضہ کے باہر اپنے ماموں کے شکاری بنگلے میں گزارا۔ ماموں کے آدمی ہر وقت مجھ پر کڑی نگاہ رکھتے کہ کہیں گھر سے نکل نہ جاؤں۔ لڑائی کی خبریں کبھی کبھی وہاں تک پہنچ جاتی تھیں۔ ہندوستانی سپاہ کی ہر فتح کے ساتھ میرا دل بلیوں اچھلتا اور ہر شکست کے ساتھ اتنا ہی ڈوب جاتا۔ ۱۸۵۸ء کا وسط آتے آتے جنگ ختم ہونے لگی تھی اور میرے صبر کا پیمانہ بھی چھلکنے لگا تھا۔ میں دل میں ٹھان لی کہ مناسب موقع دیکھ کر بنگلے کی اونچی دیوار پھاند کر نکل جاؤں گا اور برجیس قدر کی سپاہ سے جاملوں گا۔
میں اپنے لیے سواری کا انتظام کر رہا تھا۔ چاند کی آخری تاریخیں تھیں، میرا ارادہ تھا کہ اندھیاری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک دوراتوں میں وہاں سے نکل لوں۔ اچانک مجھے ایک ملازم نے چپکے سے بتایا کہ برجیس قدر، بیگم حضرت محل، مولوی احمد اللہ شاہ، یہ سب الگ الگ جنگوں میں ہزیمت اٹھاکر شمال کی طرف جانے والے ہیں۔ انہوں نے ہتھیار نہیں ڈالے ہیں اور نہ اس کی کوئی توقع ان سے یا ان کے ساتھیوں سے ہے۔ اسی شام یہ اطلاع میرے جسم کو جھنجھوڑ گئی کہ مولوی صاحب اپنے ساتھیوں کو لے کر ہمارے دور کے عزیز جگن ناتھ سنگھ راجہ پوایاں کے یہاں قیام پذیر ہونے والے ہیں۔ پوایاں ہمارے قصبے روضہ سے بہت قریب نہ تھا لیکن ایک رات کے دھاوے میں وہاں پہنچنا ممکن تھا۔
گئی رات میں کمند لٹکاکر اور ہاتھ پاؤں تڑانے کا خطرہ مول لے کر بنگلے کی ا ونچی دیوار سے اترا۔ ایک وفادار ملازم دوعمدہ گھوڑوں کے ساتھ منتظر تھا۔ بے تکان بھاگتے ہوئے ہم دن نکلے پوایاں کی سرحد کے پاس پہنچے تو ہر طرف فرنگی جھنڈوں اور فوجوں کا ہجوم دیکھا۔ میرا ماتھا ٹھنکا۔ وہیں رک کر میں نے سرگوشیوں میں یہ منحوس خبر سنی کہ راجہ پوایاں کی غداری نے ڈنکا شاہ کی جان لے لی۔ تھوڑی ہی دیر میں یہ بات بالکل کھل گئی جب میں نے گاؤں کی عورتوں کے ایک گروہ کو دیکھا کہ ڈنکا شاہ کے ماتم میں سینہ زنی کرتی چلی آرہی ہیں۔ ان کے پیچھے ہی چند عورتیں ہاتھ اٹھااٹھاکر جگن ناتھ سنگھ کو برا بھلا کہہ رہی تھیں۔ کمپنی کے سپاہی انہیں دھکیل دھکیل کر گاؤں کے اندر لے جارہے تھے۔
دنیا میری نظر میں تاریک ہوگئی۔ یہ بات اب بالکل صاف تھی کہ ہندی افواج کو ہر جگہ شکست ہو چکی۔ اب کچھ رہا نہ تھا جس کے لیے جنگ کی جائے۔ ملازم کو تو میں نے وہیں رخصت کیا اور اس کا بھی گھوڑا ساتھ لے کر میں نے چلتی ہوئی راہیں چھوڑ کر چپ چپاتے سنسان راستوں سے اعظم گڑھ کی راہ لی۔
اس سفر کی داستان کبھی اور سناؤں گا۔ کوئی ڈھائی مہینے میں سفر میں رہا، یوں جیسے کوئی مفرور مجرم کوتوال سے چھپتا پھرتا ہے۔ سارا راستہ کمپنی بہادر کے جیالے سپاہیوں کے ظلم اور ان کی بہیمانہ حرکات کے علائم سے بھرا پڑا تھا۔ کتوں اور چیل کووں نے لاشیں کھانی چھوڑ دی تھیں۔ زغن اور لکڑبگھے مردوں کو کھاتے کھاتے بیمار ہوگئے تھے۔ راستے میں دونوں طرف کوسوں تک پھانسیاں ہی پھانسیاں نظر آتی تھیں۔
اثنائے راہ میں یہ دل شکن خبریں بھی سنائی دیں کہ بڑوت باغپت کے شاہ مل جاٹ اور رایا مہابن کے دیبی سنگھ تو انگریزوں کی فتح دہلی کے بھی پہلے گاجر مولی کی طرح کٹ گئے۔ الٰہ آباد کے مولوی لیاقت علی کا بھی جھنڈا چند ہفتے اکبری قلعے پر لہراسکا۔ نیل صاحب نے ان کو عبرت ناک سزا دے کر مارا۔ انگریز ہر طرف سیلاب کی طرح چڑھے ہوئے تھے۔
میں شہر پہنچ کر چپ چاپ ایک جگہ ٹھہر گیا کہ کچھ سن گن تو لے لوں۔ میرے جاننے والوں میں کوئی نہ ملا اور انجان لوگ بات کرتے ڈرتے تھے۔ اتنا سنا کہ نظام آباد کے راجپوت بالکل برباد ہوگئے۔ رات کے اندھیرے میں گھر پہنچا تو اپنی گڑھی کوز میں بوس پایا۔ ایک بھی متنفس نہ تھا۔ رات بھر کی پوچھ گچھ سے اتنا پتا لگا کہ والد اور ان کے ساتھی کنور سنگھ کے ساتھ شہید ہوئے۔ انگریز فوج نے آکر ہماری گڑھی مسمار کردی اور نوکروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ میری والدہ نے عزت بچانے کی خاطر گڑھی کے کنویں میں کود کر جان دے دی۔ اب انگریزوں کے سپاہی اور جاسوس مجھے پوچھتے پھر رہے ہیں۔ میرے مسلمان اعزاجو قتل عام میں بچ رہے تھے، وطن چھوڑ کر کہیں اور جابسکے۔ کسی کو ان کی خبر نہیں۔
مجھ پر عرصۂ زمین اور عرصۂ حیات دونوں تنگ ہوچکے تھے۔ لیکن میں جاتا بھی تو کہاں؟ شاہجہاں پور کو مراجعت ممکن نہ تھی۔ ویسے بھی، میں نے دونوں گھوڑے دوران سفر بیچ دیے تھے اور میرے سفر کے آخری دن پاپیادہ گزرے تھے۔ اچانک مجھے اپنے بچپن کے ساتھی اور دوست کمھار کی یاد آئی۔ شاید اس کا گھر تباہی سے بچ گیا ہو؟ اور اس میں تو کوئی شک نہ تھا کہ اگر وہ موجود ہو تو میرے لیے سر چھپانے کی جگہ تھی۔
اور ہوا بھی ایسا ہی۔ میرا دوست مجھے دیکھ کر رودیا۔ کہنے لگا کہ دادا یہ سارا گھر تمہارا ہے۔ جس طرح چاہو رہو، بس منھ نہ کھولنا، ورنہ تمہاری بولی سے لوگ تمہیں پہچان جائیں گے۔ میں مشہور کردوں گا کہ تم میرے چاچا کے لڑکے ہو۔ چاچا کی موت کے بعد بنارس سے آئے ہو۔ دماغ کمزور ہونے کی وجہ سے بول نہیں سکتے۔
میں نے وہ دن اوپری سکون سے گزارے۔ چاک کے کام کی جو مشق میں نے بچپن میں بہم پہنچائی تھی، میرے بہت کام آئی۔ باہر والوں میں کسی کو گمان نہ ہوا کہ میں پیدائشی کمہار نہیں ہوں۔
۱۸۶۰ء کا سال آتے آتے انگریزوں کی آتش انتقام کچھ سرد پڑنے لگی تھی۔ بھاگے ہوئے لوگ واپس آرہے تھے۔ لیکن میرے یہاں کون تھا جو واپس آتا؟ مجھے خداے سخن کا شعر یاد آیا،
ساون ہرے نہ بھادوں ہی سوکھے ہم اہل درد
سبزہ ہماری آنکھ کا سیراب تھا سو تھا
کمہار کے بھیس نے شاعری پڑھنا پڑھانا بھی مجھ سے چھڑادیا تھا۔ لگتا تھا اب زندگی بے منت قرطاس و قلم ہی گزرے گی۔ لیکن ایک دن میرے دوست نے آکر خبر دی کہ دادا سنا ہے کانپور میں انگریزوں نے توپ بندوق بنانے کا کارخانہ کھولا ہے۔ تم تو یہ کام بخوبی جانتے ہو اور انگریزی بھی پڑھے ہو۔ اس وقت بھرتی زوروں پر ہے، زیادہ پوچھ گچھ نہ ہوگی۔ تم کمہار کے کام کے لیے نہیں بنائے گئے تھے۔ تمہیں اس طرح من مار کر جیتے دیکھ کر میرا جی کڑھتا ہے۔ تمہاری زمینیں ابھی انگریز نے ضبط کر رکھی ہیں۔ جب چھوٹیں گی تو میں تم کو خبر کردوں گا۔
بات دل کو لگتی تھی۔ تھوڑے ہی دن بعد میں کانپور کے کارخانۂ توپ و تفنگ کی بھرتی کے لیے لین ڈوری لگائے کھڑا تھا۔ بھرتی والے صاحب نے اتنا ضرور پوچھا کہ تم نے لڑائی میں کوئی حصہ تو نہیں لیا؟ میں نے سچ سچ جواب دیا کہ بالکل نہیں۔ میں بھرتی ہوگیا اور تھوڑے ہی دن میں میری کارکردگی کے باعث میری ترقی ہوگئی۔ مجھے کوئی افسر نما چیز بنادیا گیا اور بتایا گیا کہ آج سے میں ’فورمین‘ ہوں۔ تنخواہ اب معقول ہو گئی تھی۔ میں نے پریڈ کے بازار کے پاس ایک چھوٹا سا گھر ڈھائی روپے مہینے پر لے لیا، ایک ملازم رکھ لیا، اور خالی وقت میں مشغلۂ شعر و سخن کرنے لگا۔
اس وقت کانپور میں کوئی نامی استاد نہ تھا۔ میاں رجب علی بیگ سرور بنارس جاچکے تھے۔ لکھنؤ سے آغا حجو شرف کبھی کبھی آنکلتے تھے۔ ورنہ محفلوں میں ہر شخص خود کو استاد ہی تصور کرتا تھا۔ میں نے مولوی ناظم صاحب قبلہ کی نصیحت کو گرہ میں باندھ لیا تھا کہ مبتدی کے لیے صفائی بیان ضروری ہے، نہ کہ ندرت مضمون۔ لیکن کیا کرتا، میرا دل خیال بندی کی طرف لپکتا تھا۔ شیخ ناسخ اور مرزانوشہ کا کلام ورد زبان رہتا تھا۔ شیخ صاحب تو اس شبستان تیرہ روز کے شب و روز دیکھنے کے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہوچکے تھے۔ اب مرزا نوشہ تھے اور میری تمنا کہ ان کی طرح شعر کہوں، ان کے پاس اٹھوں بیٹھوں، کچھ سیکھ کر واپس آؤں۔
مئی ۱۸۶۲ء کی بات ہے۔ ایک دن میں توپ خانہ بازار کی کوتوالی کے سامنے سے گزر رہا تھا کہ نظامی پریس کے مولوی عبدالرحمن تیز تیز قدموں سے آتے ہوئے نظر پڑے۔ مجھے دیکھتے ہی وہ ٹھنکے، اور بولے، ’’لو بھئی میاں رسوا، تم مرزا کانام بہت جپتے رہتے ہو، تم بھی کیا یاد کرو گے۔ میں نے مرزا کا مکمل کلام ریختہ منطبع کیا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے انہوں نے ایک پتلی سی کتاب میرے سامنے کردی۔ میں نے آخری ورق دیکھا تو واقعی مولوی صاحب کی طرف سے اعلان تھا اور ان کی مہر تھی، اس امر کے ثبوت میں کہ یہ کتاب انہیں کی چھپائی ہوئی ہے۔ لکھا تھا، ’جناب مجمع لطف بے کراں محمد حسین خاں صاحب دہلوی نے بعد نظر ثانی اور تصحیح جناب مصنف کی ایک نسخہ میرے پاس بھیجا۔ میں نے بافضال ایزدی مطابق اس نسخے کے شہر ذی حجہ ۱۲۷۸ ہجری مطبع نظامی واقع شہر کانپور میں صحت تمام اور درستی کمال سے چھاپا۔‘ وغیرہ وغیرہ۔
میں نے بکمال اشتیاق وہ نسخہ ان سے وہیں خرید لیا۔ لیکن شروع کا صفحہ دیکھا تو صحت تمام کے دعوے کے باوجود غلطی نظر آئی، کہ دوسری ہی غزل پر (جس میں صرف ایک شعر تھا) کوئی لمبر شمار نہ تھا۔ اس طرح غزلوں کی تعداد درست نہ رہ گئی تھی۔ لیکن میں نے مولوی صاحب سے کہا نہیں، کہ بے چارے خفیف ہوں گے۔
اس دن سے دیوان غالب کا وہ نسخہ میرا شب و روز کا ہمدم و دمساز بن گیا۔ جی چاہتا تھا کہ میں اس نسخے کی اشاعت کو مرزا نوشہ سے اپنی رسم و راہ قائم کرنے کا وسیلہ بنالوں۔ لیکن یہ کس طرح ہو، بات سمجھ میں نہ آتی تھی۔ اطباع کے بعد وہ دیوان ہزاروں لوگوں نے دیکھا ہوگا، پھر میری کیا تخصیص تھی؟ اور یہ بات، کہ دیوان کانپور میں طبع ہوا، اور فی الوقت میں بھی کانپور میں تھا، میرے لیے تو ایک دلکش اتفاق ہوسکتی تھی، مگر میرزا صاحب کو اس سے کیا؟
اس ادھیڑ بن میں کوئی ایک مہینہ نکل گیا۔ ایک دن میں نے پریڈ کے میدان کے بازار میں ایک پادری کو دیکھا کہ لوگ اس کے پاس آآکر کسی کتاب پر اس سے دستخط لیتے ہیں۔ میں کچھ نہ سمجھا کہ یہ کیا اسرار ہے۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ کتاب کا مصنف وہ پادری ہی ہے۔ لوگ اس کی کتاب خرید کر لاتے ہیں اور اس پر اس کے دستخط لے کر گویا اپنی قدردانی اور محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ میرے دل میں ایک مرتبہ یہ بات گونجی کہ اگر میں بھی مرزا کے دیوان کے نسخے خرید کر ان سے دستخط کرالاؤں اور دوستوں کو تحفتاً پیش کروں تو کیسی رہے؟ مرزا سے ملنے کا بہانہ بھی ہاتھ آئے گااور دوستوں پر مفت کرم داشتن کا بھی موقع رہے گا۔
پہلا کام تو میں نے یہ کیا کہ چمن گنج میں نظامی پریس جاکر دیوان کی پچیس جلدیں مول لیں۔ قیمت کچھ زیادہ نہ تھی، صرف آٹھ آنے۔ پھر ہر کتاب کو بڑے اہتمام سے مجلد کرایا۔ ہر جلد پر چھ آنے صرفہ آیا۔ مولوی صاحب نے معمولی مشینی کاغذ پر کتاب چھاپی تھی لیکن انطباع روشن اور صاف ہونے کی وجہ سے کتاب بھلی معلوم ہوتی تھی۔
ایک مہینہ تو اسی حیص بیص میں گزرا کہ کتابیں لے کر جاؤں بھی یا نہ۔ کہیں میرزا صاحب برا نہ مان جائیں۔ بہرحال، بعض دوستوں سے مشورہ کرکے فیصلہ کیا کہ جانا چاہیے، لیکن ذرا موسم بدل جائے، ہوا سرد ہوجائے اور سفر آسان ہوجائے۔
چار مہینے میں نے ان مجلدات کو حرزجاں کی طرح سینت کر رکھا۔ نومبر ۱۸۸۲ء کے آخری دن تھے جب میں بسبیل ڈاک قنوج، فرخ آباد، بیاور، کول، بلندشہر، غازی آباد، شاہدرہ، دلہائی ہوتا ہوا بیس دن کی مسافت کے ہرج مرج جھیلتا، غم والم اٹھاتا، دلی پہنچا۔ میں باڑہ ہندو راؤ کی ایک سرا میں اترا۔ معلوم ہوا کہ بلی ماروں کا علاقہ یہاں سے کچھ بہت دور نہیں۔ آہنی سڑک ابھی کانپور کے پاس سے بھی نہ گزری تھی، گوکہ اس کے آنے کے غلغلے تھے۔ میں نے بھی اب تک ریل کی سواری کی نہ تھی، اور نہ اس کا ارادہ تھا۔ لیکن دہلی کی ریل منزل میری سرائے کے پاس ہی تھی۔ وہاں کی چہل پہل، لوگوں کی دھکا پیل، دھواں دھکڑ، دُخان پھینکتے ہوئے آتشیں انجنوں کا آنا جانا (اس لفظ سے میں کانپور میں آشنا ہوا)، مجھے یہ سب کچھ عجب وحشت انگیز سا لگا۔
شام ہو رہی تھی، میں نے دوکباب داغ کروائے، ساتھ میں دوپراٹھے منگوائے، لیکن گھبراہٹ اور تکان سفر کے باعث کچھ کھایا نہ گیا۔ جلدی لیٹ رہا۔ صبح کو بھٹیارن سے استصواب کیا تو اس نے کہا کہ ’’میاں صاحب، ان نواب اور شاعر لوگوں کا دستور ہے کہ دن چڑھے اٹھتے ہیں، کچہری دربار جاتے ہیں، بڑے لوگوں سے ملتے ملاتے ہیں۔ شام کو ہواخوری کو نکلتے ہیں۔ ان سے ملاقات کا سب سے اچھا وقت دن ڈھلے چراغ جلے ہے۔ مرزا نوشہ صاحب کا نام میں نے سنا ہے۔ وہ دلی کے تو ہیں نہیں، ممکن ہے ان کے طرز و طور اور رہے ہوں، لیکن اب تو وہ بھی یہیں کے رنگ میں رنگ گئے ہیں۔ میں نے ایک آدھ بار انہیں رجواڑے کی گلی سے سواری میں گزرتے دیکھا ہے۔ تو میاں صاحب، ابھی شہر کی سیریں کرو۔ شام میں ایک مشالچی ملازم اور گھوڑا سئیس تمہارے ساتھ کردوں گی۔ آرام سے مل کر چلے آئیو۔‘‘
شام ڈھلنے کے ذرا پہلے میں نے لباس تبدیل کیا، مچھلی کے چھلکوں کی ٹوپی سر پر جمائی، اس پر رنگین پگڑی باندھی۔ کانوں میں موتی کے بالے ڈالے، ریشمی دھوتی کے نیچے پاؤں میں بانے پہنے، جودھپوری جوتیاں پہنیں۔ پھر ساز سینگڑا لگا کر اپنے دادا مرحوم کی بنائی ہوئی لمچھڑ کاندھے سے لٹکائی۔ میں اپنے قریبی قصبے مبارک پور سے مرزا صاحب و قبلہ کے لیے دو ریشمی لنگیاں اور دو ہی ریشمی پگڑیاں بطور خاص بنوالایا تھا۔ میرے وطن نظام آباد کی مٹی کے کچھ برتن، مثلاً چلمیں اورفرشیاں بھی تھیں۔ ان کو خوان پر رکھوایا، اسی پر کتابیں بھی رکھ کر سئیس کے حوالے کیں۔ مشالچی کو آگے کیا اور خود گھوڑے پر سوار ہوکر چلا۔
اس وقت تک شام اچھی طرح پھول چکی تھی۔ اندھیاری کی بناپر گری پڑی حویلیوں اور لٹے ہوئے بازاروں کے منظر پر ایک ذرا پردہ ساآگیا تھا۔ جامع مسجد پر بے فکروں اور چٹوروں کا مجمع ویسے ہی تھا۔ افسوس کہ میرا سئیس اور مشالچی دونوں ہی میواتی تھے اور دلی میں نووارد۔ وہ بار بار راہ کھوٹی کرتے اور شہر کی تبدیلیوں پر الزام دھرتے۔ میرا سئیس خاص کر بڑا باتونی تھا۔
’’میاں صاحب، راستہ اب کسے سجھائی دے ہے، اور سجھائی بھی دے تو کیسے؟ مسجد سے راج گھاٹ تک اب لق و دق صحرا ہے۔ اینٹوں کے ڈھیر ہیں اور ان کے اندر سانپ بچھوؤں کے مسکن۔ مرزا گوہر صاحب عالم کے باغ کی نچلی سمت کئی بانس نشیب تھا۔ اب وہ بغیچے کی چاندنی کے برابر ہوگیا۔ آہنی سڑک کے واسطے کشمیری دروازے سے لے کر کابلی دروازے تک میدان ہی میدان ہے۔ پرانی گلیاں لوگوں سے اٹی پڑی ہیں، راستے کھوگئے ہیں۔ اگلا جائے تو کہاں جائے؟ پنجابی کٹڑا، دھوبی واڑا، سعادت خاں کا کٹڑا، یہ اور اس طرح کے کتنے ہی محلے مٹ گئے۔ گلیوں کی شکلیں بدل گئیں۔ میاں صاحب، اب یہ دلی دلی نہیں، ایک کمپ ہے، بارک ہے، اجاڑ گھروں کاجنگل ہے۔ حضرت مرزا ابوظفر سراج الدین بہادر شاہ کے زمانے میں یہ سب گلیاں اور بازار روشنی سے جھکاجھک تھے۔ اب ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔‘‘ مجھے مرزا صاحب کا قطعہ یاد آگیا جو انگریز کے ڈر سے ہنوز منطبع نہ ہوا تھا لیکن شدہ شدہ لوگوں کی زبان پر جاری ہوگیا تھا،
گھر سے بازار کو نکلتے ہوئے
زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
اور آج کی دلی کے بارے میں اپنے وقت کے ابلغ البلغا، اشعرالشعرا، خداے سخن حضرت میر تقی کے کئی شعروں میں سے یہ شعر ذہن سے پھسل کر بے ساختہ زبان پر آرہا،
اب شہر ہر طرف سے میدان ہو رہا ہے
پھیلا تھا اس طرح کا کاہے کو یاں خرابا
میں نے دل میں کہا ایشور کرے کبھی دلی کے بھی دن پھریں۔ امی جمی ہو۔ تخت پر وہی براجے جس کا حق ہے۔
انہیں سب باتوں، راستہ ڈھونڈنے اور ٹھوکریں کھانے میں دو گھنٹے صرف ہوگئے۔ مجھے خفقان ہو رہا تھا کہ مرزا صاحب بستر استراحت پر نہ تشریف لے گئے ہوں۔ اگر میری خبر پر انہیں اٹھنا پڑا تو بڑی شرمندگی کی بات ہوگی۔ ادھر وہ مشالچی اور سئیس اتنے احمق کہ انہیں کالے صاحب کا احاطہ ہی مل کے نہ دیتا تھا۔ مرزا صاحب کی حویلی کا ایک دروازہ عالم خاں کے کٹڑے کی طرف کھلتا تھا اور ایک کالے صاحب کی مسجد کی طرف۔ صدر دروازہ کالے صاحب کی خانقاہ سے ملا ہوا تھا۔ بارے خانقاہ کا پتا ملا تو حویلی بھی نظر آئی۔ ایک دو ملازموں کو باہر استادہ دیکھ کر جان میں جان آئی کہ ابھی لوگ موجود ہیں۔
اطلاع کرائی تو فوراً ہی بلوالیا گیا۔ دو حضرات پہلے سے موجود تھے۔ مرزا صاحب کا شغل شروع ہوچکا تھا، شاید حضار مجلس سے کسی قسم کا پردہ نہ تھا۔ ہائے مرزا صاحب کی شکل کیا بیان کروں۔ کشیدہ قامت، متوسط بدن لیکن ہاڑ بہت چکلا، شانے اس عمر میں بھی خم سے آزاد۔ سنہرا چمپئی رنگ، اس پر سفید ڈاڑھی، سرمنڈا ہوا۔ مسکراتا ہوا روشن چہرہ، آنکھیں بڑی بڑی لیکن تھوڑے سے سرور کی وجہ سے سرخی مائل۔ آنکھوں میں شوخی اور فراست کی چمک۔ پورا چہرہ مہرہ اور قدوقامت بالکل کسی تازہ وارد تورانی کا تھا، بس ڈاڑھی ہندی طرز کی نہ تھی، اور سر نہ منڈا ہوا ہوتا تو اچھے اچھوں کو یہی دھوکا ہوتا کہ کوئی آغاے تورانی ہے۔
ساری ڈاڑھوں کے گرجانے کے باعث دونوں گال ذرا پچک گئے تھے۔ یہ ایک کمی نہ ہوتی تو پیرانہ سری کے باوجود وجاہت و حسانت مردانہ کا بہترین نمونہ قرار پاتے۔ آواز ان کی نہایت صاف اور کھلی ہوئی تھی۔ اکبر آبادی برج کی لچک اور مٹھاس لہجے میں اب بھی تھی لیکن اس پر دلی کی کرخت بولی کی گہری تہہ جم چکی تھی۔ میں نے دل میں کہا کہ یہ لوگ میری پوربی، بھوج پوری کا ہلکا سا رنگ لیتی ہوئی آواز اور زبان کو بھلا کیا خیال کرتے ہوں گے۔
اور کیا خلق عظیم تھا، کیا شفقت تھی۔ انہوں نے لب فرش تک آکر میرا استقبال کیا۔ اپنے دست چپ پر بٹھایا۔ دست راست پر جو صاحب بیٹھے تھے، ان کا لباس مغل منصب داروں کی طرز کا تھا۔ بڑے گھیر کا جامہ، اس کے نیچے قیمتی کپڑے کا زیر جامہ۔ کمر میں ریشمی دوپٹہ، جس سے خنجر جواہر نگار و آب دار آویزاں۔ سر پر زربفت کی پنج گوشیہ ٹوپی، جو مغل طرز سے ذرا محتلف تھی۔ ڈاڑھی موچھیں گھنی، موچھیں چڑھی ہوئی، نکے دار۔ ڈاڑھی بڑی صفائی سے ذرا چوکور سی ترشی ہوئی۔ داہنے ہاتھ کی انگشت شہادت میں ایک بہت بڑی زمرد کی انگوٹھی، غالباً مہر نگیں کے کام آتی ہوگی۔ فاصلے کے باوجود نگینے پر کچھ کندہ کیا ہوا صاف دکھائی دیتا تھا۔ انتہائی خوبصورت اوروجیہ انسان تھے۔ معلوم ہوا نواب ضیاء الدین خاں صاحب نیر رخشاں ہیں۔ میں نے سروقد ہوکر کھڑے ہوکر تعظیم دی۔ انہوں نے مسکراکر سلام لیا اور دعا دی، ’’خوش رہیں، آباد رہیں۔ دولت و اقبال زیادت باد۔‘‘
جوبزرگ مرزا صاحب کے سامنے تشریف فرما تھے ان کی ڈاڑھی موچھیں بہت گھن کی تھیں، کنگھی کی مشاطلگی سے آزاد، بالک چڑیا کا جھونجھ لگتی تھیں۔ سر پر اونچی دیوار کی مخملی ٹوپی، بدن پر انگریزی وضع کا بھاری کوٹ، نیچے موٹا اونی کرتا، اسی کپڑے کا ڈھیلا پاجامہ۔ متبسم آنکھیں۔ معلوم ہوا کہ مرزا صاحب کے خاص شاگرد منشی شیونرائن آرام ہیں۔ آگرے سے بغرض ملاقات و علاج تشریف لائے ہیں۔ میں نے پھر سروقد ہو کر تعظیم دی۔ انہوں نے بھی تقریباً انہیں الفاظ میں دعا دی جو نواب ضیاء الدین صاحب کی لسان مبارک سے ادا ہوئے تھے۔
مرزا صاحب نے فرمایا، ’’میاں، خانہ بے تکلف ہے، بتاؤ کچھ شغل بھی رکھتے ہو؟‘‘
میں نے دبی زبان سے جواب دیا، ’’حضور، راجپوت ہوں، برت بھی دو آتشۂ ناب سے کھولتا ہوں۔‘‘
مرزا صاحب کے چہرے پرہلکی سی مسکراہٹ آئی۔ شیونرائن صاحب آرام نے تحسین کی نگاہ سے مجھے دیکھا۔ نواب صاحب نے ارشاد فرمایا، ’’میاں صاحب زادے، یہ تو تم نے ہمارے قبلہ مرزا صاحب کا شعر پڑھ دیا۔‘‘ میں بات کو بھانپ گیا کہ اشارہ کس طرف ہے اور میں نے فوراً مرزا صاحب کا شعر پڑھا،
خجلت نگر کہ در حسناتم نہ یافتند
جز روزۂ درست بہ صہبا کشودۂ
پھر میں نے ہاتھ جوڑ کر عرض کی، ’’پیرومرشد کی کرامت ہے کہ ایسا جواب بن پڑا۔ پیر و مرشد لسان الغیب کا درجہ رکھتے ہیں۔‘‘ اس پر سب لوگوں نے کہا، ’’بے شک، بے شک۔‘‘
مرزا صاحب نے کلوداروغہ کو آواز دے کر میرے لیے گیلاس اور نقل منگوائی۔ پھر غایت سفر پوچھی۔ میں نے مختصراً عرض کرکے سب سے پہلے تو وہ لنگیاں اور پگڑیاں نذر کیں۔ میری خوش نصیبی تھی کہ پگڑیاں ان کی پسند کے مطابق نکلیں۔ انہوں نے فرمایا، ’’بہت خوب، بہت خوب۔ مجھے عمامے میں سرخ رنگ بالکل پسند نہیں۔ اچھا ہوا ان عماموں میں کوئی بھی سرخ دھاگا نہیں ہے۔‘‘ میں نے جھک کر تسلیم کی، پھر چلمیں اور فرشیاں پیش کیں۔ بالکل سیاہ مٹی، اس پر روپہلا کام بناہوا۔ یہاں والوں کے لیے نئی چیز تھی، بہت پسند کی گئی۔
نواب صاحب اور منشی صاحب تو رخصت ہوئے۔ میں مرزا صاحب قبلہ کے ساتھ شغل مے و مینا کرتا رہا۔ کوئی انگریزی شراب تھی، بالکل بے رنگ اور بہت تیز۔ غالباً شامپین رہی ہو۔ رات جب بہت بھیگ چلی تو میں نے اجازت چاہی۔ فرمایا، ’’دیر ہوتی ہے، جاؤ بھئی جاؤ۔ میں بھی کچھ فکر سخن کروں گا۔ ہے ہے، مجھے اپنی جوانی کا شعر یاد آگیا،
فکر سخن یک انشا زندانی خموشی
دود چراغ گویا زنجیر بے صدا ہے
لیکن اب میں بھی زیادہ جاگتا نہیں۔‘‘
میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کی، ’’حضور، جب اس کلام میں ایسے ایسے شعر تھے تو اس پر خط تنسیخ پھیرنا کیوں گوارا کیا؟‘‘
جیسے ایک دم کو وہ چپ ہوگئے۔ میں ڈرا کہ ناراض نہ ہوگئے ہوں۔ لیکن پھر وہ کچھ دھیمے لہجے میں بولے، ’’میاں، اس بڑھاپے میں اقبال کرتے شرم آتی ہے، لیکن اس کلام کو رد کرنے کا رنج مجھے بھی ہے۔ کہنے تو میں کہہ گیا کہ میں لڑکپن میں بے راہ روتھا۔ بے مطلب بکتا تھا۔ جب کچھ تمیز آئی، وہ اوراق یک قلم چاک کیے اور چند شعر واسطے نمونے کے دیوان حال میں رہنے دیے۔ لیکن اصل بات سلامت روی فکر اور سلاست بیان کی نہ تھی۔ میری نوجوانی تھی۔ میں سمجھتا تھا کہ شعر، سننے سنانے سے زیادہ، پڑھنے پڑھانے کی شے ہے۔ پھر مرزا عبدالقادر بیدل کا قول دل میں جاگزیں تھا کہ زبان اور معنی میں مغائرت ہے، زبان کو معنی کا تحمل نہیں۔ مرزا بیدل فرماتے ہیں،
اے بسا معنی کہ از نامحرمی ہاے زباں
باہمہ شوخی مقیم پردہ ہاے راز ماند
لیکن میں نے دیکھا کہ ہمارے یہاں شعر سننے کا رواج زیادہ ہے، پڑھنے کا کم۔ اور زبان کو میرے معنی سے یوں ہی پردہ تھا۔ میں بات اشاروں اشاروں میں کہتا تھا کہ اس کے سوا چارہ نہ تھا۔ ایک دن طبیعت جھنجھلا ہی تو اٹھی۔ میں نے دل میں کہا اب ریختہ کہوں گا ہی نہیں، فارسی لکھوں گا۔ دوستوں کو خوش کرنے کے لیے اعلان کردیا کہ ریختہ زیادہ تر مسترد کرکے صرف منتخب اور آسان کلام داخل دیوان کروں گا۔ حالانکہ جو کلام چھوڑ دیا تھا، اس میں بھی نام نہاد آسان کلام کی کمی نہ تھی۔ انتخاب کیا کیا، بس ایک دوپہر کو ایک دوست کے یہاں بیٹھے بیٹھے کچھ سرخوشی کے عالم میں جہاں چاہا قلم لگادیا۔ ورنہ جن غزلوں پر یہاں لوگوں نے مجھے استاد مانا، وہ بھی زیادہ تر اس زمانے کی کہی ہوئی ہیں جب میری عمر پچیس سے متجاوز نہ تھی۔‘‘
’’اب اس کلام کی بازیافت کی کوئی امید نہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔ فرمایا، ’’مجھے اپنا کلام بہت کم یاد رہتا ہے۔ تازہ کلام بھی بھول جاتا ہوں۔ اور ان اشعار سے تو اب قیامت ہی میں ملاقات ہوگی۔‘‘
میں نے از راہ شوخی میر کا شعر پڑھ دیا،
قیامت کو جرمانۂ شاعری پر
مرے سر سے میرا ہی دیوان مارا
مسکرائے، فرمایا، ’’تو آپ بھی میری طرح میری ہیں۔ اوروں کی طرح سودائی نہیں۔‘‘ میں نے اس پھڑکتے ہوئے فقرے پر سبحان اللہ کہا اور عرض کیا، ’’اب اجازت مرحمت ہو۔ اور کیا یہ ممکن ہے کہ پیرومرشد مجھے کسی ایسے وقت طلب فرمائیں جب تخلیہ ہو؟‘‘ اصل میں مجھے کتابوں پر دستخط کی فرمائش کی ہمت نہ پڑ رہی تھی۔ امید تھی کہ رات بھر میں ہمت جٹالوں گا۔
کچھ دیر سکوت کے بعد فرمایا، ’’اچھا تو میاں تم کل دوپہر کا کھانا یہیں کھاؤ۔ اس کے بعد میں ذرا لیٹ رہتا ہوں، کسی کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ تمہارے لیے وہی وقت نکال لوں گا۔‘‘ مجھے کچھ اور کہنے کی ہمت نہ پڑی، حالانکہ ان کے آرام میں خلل انداز ہونا سخت شاق تھا۔ آداب کرکے سرائے واپس چلا آیا۔
اگلی صبح طبیعت کسل مند تھی، دیر سے اٹھا۔ تیار ہوتے ہوتے بارہ بج گئے۔ میں تنہا ہی سوار ہوکر بلی ماروں کو چلا۔ راستے میں ہر جگہ گزشتہ جرنیلی نظام کی دردناک نشانیاں اور آہنی سڑک کے واسطے مزید انہدام کی تیاریاں نظر پڑیں۔ میں نگاہ جھکائے چلتا گیا۔ اس بار راستہ نہ بھولا۔ مرزا صاحب کمال شفقت سے میرے منتظر تھے۔ میرے جاتے ہی کھانا لگا۔ مرزا صاحب کے لیے اتناکم اور سادہ کہ بقدر اشک بلبل، اور میرے لیے وافر اور متنوع۔ کھانے کے بعد پیرو مرشدنے انگنائی میں دھوپ سے ذرا ہٹ کر اپنا پلنگ بچھوایا، میرے لیے ایک چھوٹی سی صندلی بچھائی گئی۔ بھنڈا تازہ کیا گیا۔ مرزا صاحب اپنا پیچوان کبھی کبھی مجھے اولوش فرماتے۔
جب بھنڈے کا لطف لے چکے تو مرزا صاحب نے فرمایا، ’’ہاں صاحب، اب کہو، اب تخلیہ ہے۔‘‘ میں نے کتابوں کی گٹھری کھولی، اور ایک کتاب ان کی طرف بڑھاکر کچھ کہنے ہی والا تھا کہ انہوں نے کتاب کھول کر کہا، ’’یہ تو میرا ہی دیوان ہے۔ میں اسے لے کر کیا کروں گا؟‘‘ میں نے عرض کیا، ’’اس کی حاضری کا مقصد کچھ اور ہے۔ ملتمس ہوں کہ حضور ان مجلدات کو اپنے دستخط سے مزین فرمادیں۔ میں انہیں نذر دوستاں کروں گا، اس سے بہتر تحفہ دلی کا کیا ہوگا۔‘‘
’’مگر بھائی، میں دستخط کیوں کروں؟ یہ کتابیں میری ملک تو ہیں نہیں۔‘‘
میں نے التماس کیا، ’’صاحبان عالیشان کے یہاں یہ طریقہ مصنف کی قدر شناسی کا رائج ہے کہ کتاب پر مصنف ہی سے دستخط کرالیتے ہیں اور اسے بڑا قیمتی تحفہ قدردانوں کے لیے جانتے ہیں۔‘‘
مرزا صاحب ہنسے، ارشاد ہوا، ’’ہم تو یہ جانتے تھے کہ مصنف کی قدردانی ظاہر کرنے کے لیے اسے سات بلکہ چودہ پارچے کا خلعت پہناتے ہیں، اکیس رقوم جواہر کی مالا اور سات عدد کا جیغہ زیب گردن و سر کرتے ہیں۔ نصف روپئے کی کتاب مول لے کر اس پر مصنف کے دستخط لینا اور کتاب تقسیم کرنا کون سی قدر شناسی ہے۔ خیر لاؤ، تم کہتے ہو تو اپنی مہر کیے دیتا ہوں۔ حسن اتفاق کہ ابھی ۱۲۷۸ میں نئی مہر بنوائی ہے۔‘‘
یہ کہہ کر انہوں نے داروغہ کلو سے قلم دان مانگا، ہر کتاب پر اپنے دست مبارک سے مہر کی۔ چاندی کے نگینے کی چوکور مہر تھی۔ پھر کچھ سوچ کر ایک کتاب پر لکھا،
برخوردار بینی مادھو سنگھ رسوا
اے آمد نت باعث دل شادی ما
اسد اللہ خاں غالب نگاشتہ ۱۶رجب المرجب ۱۲۷۹
کتاب میری طرف بڑھاتے ہوئے وہ بولے، ’’اب تو خوش ہو۔‘‘ میں نے سروقد ہوکر کتاب ان کے ہاتھ سے لی، آنکھوں کو لگائی۔ ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور اجازت چاہی کہ آرام میں مخل نہ ہوں۔ ارشاد ہوا، ’’کوئی بات نہیں۔ بیٹھو۔ مجھے تمہارا لہجہ اچھا لگتا ہے۔ اور تم نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ شعر کب سے کہتے ہو۔ صاحب دیوان ہو کہ نہیں، اور کس کے شاگرد اس فن میں ہو؟‘‘ میں نے اپنے استاد مولوی خادم حسین ناظم اور ان کے دادا ملا سابق بنارسی کا ذکر کیا۔ فرمایا، ’’مولوی ناظم صاحب سے تو شرف ملاقات نہیں لیکن ملاسابق علیہ الرحمۃ سے واقف ہوں۔ ان کی مثنوی ’تاثیر محبت‘میں نے اپنے بنارس کے قیام میں دیکھی تھی۔ بڑے جید آدمی تھے۔‘‘
میں ان کی خدمت میں کچھ گستاخ ہوچلا تھا، شاید اس لیے کہ انہوں نے مجھے کچھ منہ بھی لگالیا تھا۔ میں نے عرض کیا، ’’پیرومرشد، جان کی امان پاؤں۔‘‘
ایک بار مجھے انہوں نے غور سے دیکھا، فرمایا، ’’کہو کہو، کیا بات ہے؟‘‘
میں نے جی کڑا کرکے کہا، ’’حضور کی رائے ہندوستانی فارسی گویوں کے بارے میں اچھی نہیں ہے۔ لیکن آنجناب تو خود بھی ہندوستانی ہیں؟‘‘
ان کا چہرہ تھوڑا سرخ سا ہوگیا، لیکن پھر بھی انہوں نے نرمی سے فرمایا، ’’فارسی زبان کے رموز و غوامض میری روح میں یوں پیوست ہیں جیسے فولاد میں جوہر، یارگ گل میں باد سحر گاہی کانم۔ میں کہاں اور یہ غیاث الدین رامپوری اور دلوالی سنگھ قتیل فرید آبادی کہاں۔ ان کے اجداد نے بھی کبھی ایران نہ دیکھا ہوگا۔‘‘
’’لیکن حضور اور بھی تو ہندی شعرا ہیں۔ امیر خسرو، ملا فیضی، ملا غنی کاشمیری، ابوالبرکات منیر، یہ لوگ تو غیاث و قتیل جیسے نہیں۔‘‘
اب ان کے لہجے میں ذرا گرمی آگئی۔ ’’اہل ہند میں سواے امیر خسرو کے کوئی مسلم الثبوت نہیں، سمجھے؟ میاں فیضی کی بھی کہیں کہیں ٹھیک نکل جاتی ہے۔ ہاں غنی اور منیر اور خود فیضی اچھے شاعر ہیں، معنی یاب ہیں، لیکن زبان سے ان کو کیا علاقہ؟‘‘
میرے جی میں آئی، پوچھوں کہ زبان اور مضمون تو ایک دوسرے کے تابع ہوتے ہیں، پھر یہ کیوں کر ہوا کہ کوئی معنی یاب ہو لیکن زبان خراب لکھے مگر اتنی بڑی گستاخی کی ہمت نہ تھی۔ میں نے سوچا بیدل کے پردے میں بات کریں۔ کل بیدل کا ذکر آبھی چکا تھا۔ میں نے کہا، ’’حضور ایک زمانے میں تو میرزا بیدل کے بڑے مداح تھے۔۔۔‘‘
میری بات کاٹ کر بولے، ’’مداح اب بھی ہوں لیکن ان کی زبان کا نہیں۔ بیدل اور ناصر اور غنیمت، ان کی فارسی کیا۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔‘‘ انہوں نے کلیان کو آوازدی کہ بھنڈا دوبارہ تازہ کرو۔ میں نے رکتے رکتے عرض کی، ’’ڈرتا ہوں جس طرح حضور ان شعرا کو ایوان شعر سے خارج فرما رہے ہیں، کہیں آپ کے ساتھ بھی زمانہ وہی سلوک نہ کرے۔‘‘
یا تو لیٹے ہوئے تھے، یا مرزا صاحب اٹھ کر بیٹھ گئے۔ فرمایا، ’’یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ فارسی زبان کی زمام میرے ہاتھ میں ہے، طبع میری سلیم ہے اور ذوق میر ادر ست۔ اور میرے مضامین تو ایسے ہیں کہ لوگ انہیں رہتی دنیا تک پڑھتے اور سمجھتے پھریں گے۔ ابھی یہ اہل ہند کیا جانیں گے اور کیا سمجھیں گے۔‘‘
پھر انہوں نے اپنا شعر پڑھا،
پایۂ من جزبہ چشم من نیاید درنظر
از بلندی اخترم روشن نیاید درنظر
خدا کی قسم، وہ وقت اور وہ ماحول، وہ ان کے چہرے پر بادشاہوں کا سا جلال اور مضمون کی وہ ندرت، کلام کا وہ زور، میں پھڑک ہی تو گیا۔ (اس واقعے کے برسوں بعد کسی انگریزی اخبار میں دیکھا کہ بہت سے ستارے ہم سے اتنی دور ہیں کہ ان کی روشنی ہم تک بہت دھندلی اور بہت دیر میں پہنچتی ہے، درحالے کہ اصل میں وہ بے حد چمک دار ہیں۔ تب مجھے ان کا یہ شعر یاد آیا۔ میں نے دل میں کہا، ہے بھگوان، کیا مرزا صاحب کو علم غیب تھا جو ایسے مضمون باندھ لیتے تھے؟) لیکن اس وقت تو مجھے ان کو چھیڑنا اور ان سے کچھ سیکھنا منظور تھا۔ دل کھول کر اس شعر کی داد دینے کے بعد میں نے کہا، ’’قبلہ و کعبہ، غنی کے تو میرزا صائب بھی قائل تھے۔‘‘
’’اجی صاحب زادے، صائب کیا اور ان کا فیصلہ کیا؟ اہل ہند کے درمیان رہتے رہتے ان کی زبان خود غیرمعتبر ہوگئی تھی۔ وہ ایرانی نژاد تھے مگر واردشاہجہان آباد تھے۔ ’انتقام کشیدن‘ اور ’انتقام گرفتن‘ دونوں بول گئے۔ ’انتقام گرفتن‘ ترجمہ ہے ہندی محاورے ’انتقام لینا‘ کا۔ فارسی میں غلط، بالکل غلط۔‘‘
’’مگر پیرومرشد، اگر صائب کی زبان مشکوک ہے تو عرفی کو کیا کہیں گے؟ انہوں نے بھی تو عمر کا بڑا حصہ اکبر آباد میں گزارا؟‘‘
’’ہے ہے۔ عرفی کا نام تم کیوں بیچ میں لائے۔ وہ ہمارا مطاع ہے، ہم اس کے مطیع ہیں۔ وہ جو بھی کہے سب درست۔‘‘
میں نے مدرسے میں جو تھوڑی سی منطق پڑھی تھی اس کی رو سے قبلہ و کعبہ کی یہ بات مجھے صریحاً غلط معلوم ہوتی تھی۔ لیکن مجھے ان سے مناظرہ تو کرنا نہیں تھا، کچھ حاصل ہی کرنا تھا۔ لہٰذا میں نے کہا، ’’حضرت، خان آرزو تو فرماتے تھے کہ جس طرح ایرانی صاحبان قدرت کوزبان میں تصرف کا حق ہے، اسی طرح ہندوستانی صاحبان قدرت کو بھی ہے۔‘‘
’’مگر اہل ہند میں صاحبان قدرت ہیں کہاں؟ کیا تم قتیل کو صاحب قدرت کہو گے جو ’مہ جاہمہ عالم‘ کو غلط بتاتا ہے اور ’ہیچ نہ بود‘ کی جگہ ریختہ کا محاورہ ’خاک نہ بود‘ لکھتا ہے؟‘‘
’’حضرت، اہل ہند میں اور بھی لوگ ہیں۔ اگر امیر خسرو اعلیٰ اللہ مقامہ مسلم الثبوت ہوسکتے ہیں تو بیدل کیوں نہیں؟ اہل ہند پان سو برس سے فارسی لکھ بول رہے ہیں، کیا ان کی فارسی اپنی جگہ مستند نہ مانی جائے؟ آخر سب ایرانی استاد بھی تو شیراز و اصفہان کے نہ تھے۔ کوئی بلخی ہے، کوئی غزنوی، کوئی بخاری، کوئی گنجوی۔‘‘
’’دیکھو دنگا کرنے کی بات اور ہے۔ ورنہ سیدھی خدا لگتی یہی ہے کہ اہل ہند کو فارسی نہیں آتی۔ میرا معاملہ اور ہے۔ اس زبان سے ازلی و وہبی مناسبت کے علاوہ میرا تو ایک ایرانی استاد بھی تھا جس نے مجھے یہ زبان گویا گھول کر پلا ہی دی تھی۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ آنکھ بند کرکے لیٹ گئے۔ شاید تھک گئے ہوں۔ مجھے یہ بھی خیال ہوا کہ شاید میں حد سے آگے نہ بڑھ گیا ہوں۔ میں اجازت کے لیے اٹھنے ہی والا تھا کہ انہوں نے آنکھیں بند کیے کیے فرمایا، ’’اہل ہند کی فارسی پر ان کی اپنی زبانوں کا اثر لامحالہ پڑا ہے، خواہ ہندی، خواہ بھاکا۔ اس لیے ان کی فارسی میں ایرانیت نہیں۔‘‘
’’لیکن حضرت والا یہ بھی تو خیال فرمائیں کہ جس قوم نے خسرو، فیضی، غنی، بیدل، بہار جیسے لوگ پیدا کیے ہوں، اس کا بھی تو فارسی زبان پر حق ہوگا؟‘‘ میں نے ذرا زور دے کر کہا۔
’’تم ان باتوں کو نہ سمجھو گے۔ بہار نے خان آرزو کی تحقیق پر سوجگہ اعتراض کیا ہے اور صحیح کیا ہے۔ لیکن جہاں وہ بھی اپنے قیاس پر جاتا ہے، منھ کی کھاتا ہے۔ اہل زبان کے معاملات اہل زبان ہی سمجھ سکتے ہیں۔‘‘
’’گستاخی معاف، پیر و مرشد میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ بہار اور برہمن اور بیدل جو دن رات فارسی بولتے لکھتے اور سوچتے تھے، انہیں اہل زبان کہنا چاہیے۔ میں اپنا خدشہ پھر عرض کروں گا کہ حضرت والا اگر اہل ہند کی فارسی کو برا کہتے رہے تو مبادا لوگ آپ کی بھی فارسی کو غیر معتبر کہہ دیں۔‘‘
انہوں نے لمبی سانس لی اور بولے، ’’آخر بچے ہو اور راجپوت بچے ہو۔ تمہاری ضد کا علاج میرے پاس نہیں۔ اب جاؤ، میں کچھ دیر آرام کروں گا۔‘‘
میں سر سے پاؤں تک لرزہی تو اٹھا کہ میں نے اس فرشتہ خصال بزرگ کو خفا کردیا۔ میں نے ان کے پاؤں پکڑلیے اور سرجھکاکر کہا، ’’یہ نیمچہ حاضر ہے۔ اسے میرے سینے میں اتار دیجیے لیکن للہ خفا نہ ہوجیے۔‘‘
مرزا صاحب نے تقریباً سرگوشی کے انداز میں کہا، گویا اپنے آپ سے مخاطب ہوں۔ ’’خفگی کی کوئی بات نہیں۔ ہا، مومن خاں کیا خوب کہہ گیا ہے،
ناتوانی سے دم رکے تو رکے
میں کسی سے خفا نہیں ہوتا
میاں صاحب، میں خفا نہیں ہوں۔ اپنی تقدیر پر افسردہ ہوں کہ اس دیار سے، فارسی کا ذوق اٹھتا جاتا ہے،
غالب سوختہ جاں راچہ بہ گفتار آری
بہ دیارے کہ نہ دانند نظیری زقتیل‘‘
مجھ سے کچھ جواب نہ بن پڑا، بس دل ہی دل میں خود کو برا بھلا کہہ رہا تھا کہ میں نے بے سبب ان کو افسردہ کیا۔ ایک لمحے کی خاموشی کے بعد انہوں نے فرمایا، ’’ہاں مومن خان کچھ ہمارا ہم زباں تھا۔ اس کا ہندی شعر اس وقت خوب یاد آیا۔ یہ شخص اپنی وضع کا اچھا کہنے والا تھا۔ طبیعت اس کی معنی آفریں تھی۔ اچھا میاں تم اب جاؤ۔ فرصت ہو تو کل بھی اسی طرح آجانا۔‘‘
میں ’’بسر و چشم حاضر ہوں گا‘‘ کہہ کر رخصت تو ہوا لیکن راستے بھر خود کو نفرین کرتا رہا کہ میں مرزا صاحب سے بحث میں کیوں الجھا۔ دوسری طرف یہ سوچ کر بھی میں کم رنجیدہ نہ تھا کہ مرزا صاحب جیسا روشن دماغ شخص اس بات کو قبول کرنے پر آمادہ نہ تھا کہ جب کوئی زبان اپنے ملک کے باہر پھیلتی ہے اور غیر ملک والے مدت مدید تک اس میں سلسلۂ شعر و نثر و حرف و سخن جاری رکھتے ہیں تو غیر ملکیوں کی زبان اور غیر ملک سے آئی ہوئی زبان میں تغیر لازمی ہے۔ اور کسی ملک میں جب کوئی غیر زبان قائم ہوجاتی ہے تو پھر وہ اس ملک کی بھی ہوجاتی ہے۔ آخر انگریزی بھی تو ہے کہ ہمارے ملک میں تیزی سے مستولی ہوتی جاتی ہے۔ اگر یہی لیل و نہار رہے تو سودوسوبرس میں ہندوستانی لوگ بھی انگریزی میں صاحب قدرت ہوجائیں گے۔
رہی دوسری بات، کہ بیدل، غنی وغیرہ کو تسلیم نہ کرکے مرزا صاحب قبلہ اپنی بھی نامعتبری کی بنیاد قائم کر رہے تھے، تو میں ذرا آگے کی بات یہیں بیان کردوں کہ ان واقعات کے کئی برس بعد میرے دادا استاد مولانا فاروق چریا کوٹی کے براہ راست اور بڑے ہونہار شاگرد مولوی شبلی صاحب ہوئے۔ انہوں نے شعر فارسی کی تاریخ پانچ جلدوں میں لکھی۔ یہ جلدیں ۱۹۰۹ء تا ۱۹۱۸ء شائع ہوئیں۔ (آخری جلد ان کے انتقال کے بعد چھاپے خانے سے آئی۔) میں نے بڑے شوق سے وہ جلدیں عندالاشاعت منگائیں کہ دیکھوں ان میں ہمارے میر زا صاحب کے بارے میں کیا لکھا ہے۔ لیکن مجھے بڑی مایوسی ہوئی کہ وہاں میرزا صاحب تو کیا، بیدل اور غنی اور سرخوش اور خان آرزو کا بھی ذکر نہیں۔ میں نے یہ بھی سناکہ شبلی صاحب کی نظر میں میرزا غالب وغیرہ مستند نہ تھے۔
دوسرے دن میرزا صاحب کے وہاں جانے کے لیے میں فتح پوری کے بازار فواکہ سے گزر رہا تھا کہ دیکھا سارا بازار کابل کے عمدہ انگوروں سے پٹا پڑا ہے۔ میں نے ایک بڑی جھابی انگوروں کی مزدور کے سرپر رکھوالی۔ مرزا صاحب کی طبیعت اس وقت بحال نظر آئی۔ شاید وہ خفیف سا تکدر، جو میری بحثا بحثی سے پیدا ہوا تھا، زائل ہوچکا تھا۔ انگور دیکھ کر وہ خوش تو بہت ہوئے، لیکن ان کا مرغوب میوہ اور ہی بات رکھتا تھا۔ فرمایا، ’’بہت عمدہ پھل لائے۔ بچوں کے کام آئیں گے۔ ایک دو دانے میں بھی کھالوں گا۔ لیکن کاش کہ ہر موسم آم کا موسم ہوتا۔ میں نے اپنی مثنوی میں کہا ہے،
آم کے آگے پیش جاوے خاک
پھوڑتا ہے جلے پھپھولے تاک
اس میں اور شعر بھی مزے کے ہیں۔‘‘ میں ابھی اس شعر کی مناسبتوں اور حسن تعلیل کی داد کے لیے منھ کھولنے ہی والا تھا کہ مرزا صاحب نے فرمایا، ’’اور میں ا نگور تو مفتی آزردہ وغیرہ جیسوں کو کھلاتا ہوں۔ کچھ سمجھے کیوں؟‘‘
امتحان ٹیڑھا تھا، لیکن ماں سرسوتی نے لاج رکھ لی۔ معاً میں نے مرزا صاحب کا شعر پڑھا،
زاہد از ماخوشۂ تاکہ بچشم کم مبیں
ہی نمی دانی کہ یک پیمانہ نقصاں کردہ ایم
اللہ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، میرزا صاحب مسکرائے، فرمایا، ’’آدمی خوش ذوق ہو تو تمہارے جیسا ہو۔ شام کو آتے تو میں تمہیں لکیورپلاتا، کہ اس کا لطف بھی آم ہی جیسا ہوتا ہے۔ رنگت کی بہت خوب، قوام کی بہت لطیف، طعم کی ایسی میٹھی جیسے قند کا پتلا قوام۔ اور یہ ہندوستانی گڑ چھال کی چھنی ہوئی شراب مجھے بالکل پسند نہیں۔‘‘
(’’لکیور‘‘ کسی خاص شراب کا نام نہیں۔ ہر وہ شراب جس میں الکحل ہو، اور جو کھانے کے بعد پی جائے، Liqueur کہلاتی ہے۔ سب لکیوریں بہت تیز، خوشبودار اور ’میٹھی‘ ہوتی ہیں۔ انگریزی میں اس لفظ کا تلفظ یوں کرتے ہیں کہ اول مکسور ہے اور واؤ معروف۔ غالب نے بھی یہی تلفظ کیا ہوگا۔ اغلب ہے کہ ان کی مراد شار تروز (Chartreuse) سے ہو جو اس زمانے کی مقبول فرانسیسی لکیور تھی۔ اس کا رنگ زردی مائل سبزیا ہلکا زرد ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے آم کے عرق سے اس کی مناسبت ظاہر ہے۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ غالب نے لفظ لکیور سے ایسی برانڈی مراد لی ہو جس میں لکیور ملاکر اسے خوشبودار کیا گیا ہو، مرتب۔)
اب تک کھانالگ گیا تھا۔ کھانے کے بعد بیسن سے ہاتھ دھوئے گئے۔ پھر اسی طرح انگنائی میں پلنگ اورصندلی کااہتمام ہوا۔ بھنڈے کا دور چلا اور باتیں شروع ہوئیں۔ میں نے عرض کیا، ’’قبلہ و کعبہ نے کل جو حکیم مومن خاں صاحب کے بارے میں فرمایا تھا کہ طبیعت ان کی معنی آفریں تھی، اس پر کچھ مزید ارشاد ہو۔‘‘
ٹھنڈی سانس بھربولے، ’’ہاں صاحب، وہ لوگ بھی خوب تھے اور گورا شاہی کے پہلے کا زمانہ بھی کیا زمانہ تھا۔ اب نظام الدین ممنون کہاں، ذوق کہاں، مومن خاں کہاں۔ ایک آزردہ اور ایک میں، دونوں جینے سے بیزار۔ نہ سخن وری ہے نہ سخن دانی۔ خیر، سنو۔ پرانے بزرگ معنی آفرینی سے مراد لیتے تھے کہ شعر میں کوئی نئی بات ہو، کوئی نیا مضمون ہو، کسی پرانی بات کا کوئی نیا پہلو ہو۔ ورنہ سامنے کی بات تو سب کہہ لیتے ہیں۔
دندان تو جملہ در دہانند
چشمان تو زیر ابروانند
کہنے میں کوئی مزہ نہیں۔ یہ کوئی کمال سخن وری نہیں کہ قافیہ سامنے رکھ لیا اور جس قافیے نے جو مضمون سجھایا، بے کھٹکے نظم کردیا۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ شاعری قافیہ پیمائی نہیں، معنی آفرینی ہے۔‘‘ تھوڑے سے سکوت کے بعد انہوں نے یہ دو شعر بڑے جوش و ذوق سے پڑھے،
عشرت مامعنی نازک بہ دست آوردن است
عید مانازک خیالاں راہلال این است و بس
می نہم در زیر پاے فکر کرسی از سپہر
نابکف می آورم یک معنی برجستہ را
اور فرمایا، ’’میاں سنتے ہو۔ پہلا شعر صائب کا ہے، دوسرا کلیم ہمدانی کا۔ یہ خیال نازک کیا ہے؟ ایسا خیال جو لطیف اور باریک ہو، جو بیان میں آسانی سے نہ آئے۔ اور جب بندھ جائے تو شعر کے اپنے لفظوں کے سوا کسی اور عبارت میں بیان ہو تو وہ بات نہ رہ جائے۔ اسی کو ابوطالب کلیم معنی برجستہ کہتا ہے، اسے حاصل کرنے کے لیے آسمان کی بلندی پار کرنے جیسی محنت کرنی پڑتی ہے۔ اور وہ معنی ایسے ہوتے ہیں کہ ہاتھ میں آئے تو آئے، ورنہ چھوٹ گئے تو چھوٹ گئے۔ فقیر تکیہ نشین غالب کے یہاں ایسے مضامین کی کثرت ہے، کہ جب کوئی مضمون باندھ لیتا ہے تو خود وجد کرتا ہے کہ کیسے اس ہماے بلند نشین کو پکڑا۔‘‘ میرے منھ سے بے ساختہ نکلا،
آب بود معنی روشن غنی
خوب اگر بستہ شود گوہر است
میرزا صاحب ایک لمحے کو ٹھٹکے، پھر فرمایا، ’’ہاں اچھی بات کہی۔ نازک مضمون بہتا ہوا پانی ہے، مٹھی میں نہیں آسکتا۔ آجائے تو گوہر ہی کہلائے۔ معنی روشن سے مراد ہے وہ مضمون جو اپنی تازگی کے باعث صدف سے تازہ نکلے ہوے موتی کی طرح چمکتا ہو۔‘‘
’’سبحان اللہ، کیا تعبیر ارشاد فرمائی۔‘‘ میں نے کہا۔
فرمایا، ’’خیال بند شاعر وہ ہوتا ہے جو نادر مضامین کی تلاش میں دور دور نکل جانے کی جرأت کرسکے۔ سب سے پہلے خیال بند میاں شاہ نصیر تھے۔ لیکن جس شخص نے اس فن کو معراج پر پہنچایا وہ شیخ ناسخ تھے، کہ تمام شروع سابقہ کے ناسخ ہی ٹھہرے۔ ہم سب نے خیال بندی انہیں سے سیکھی۔ ہاں ان کے کلام میں درد مندی کی وہ کیفیت نہیں جو میر کا خاصہ ہے۔‘‘
’’پھر خیال بند شاعر سہل ممتنع تو نہ کہہ سکے گا شاید؟‘‘ میں نے پوچھا۔
ارشاد ہوا، ’’ہاں۔ مگر بعض لوگ نبھا بھی لیتے ہیں۔ میں نے کوشش کی ہے اور کامیاب بھی ہوا ہوں۔ لیکن خالص خیال بندی کے ساتھ سہل ممتنع اور درد و کیفیت کا جوڑ دراصل ہے نہیں۔ ان دنوں خیال بندی کا چرچا اسی لیے کم ہوتا جاتا ہے۔ تمہارے کانپور کے پڑوس میں لکھنؤ ہے۔ وہاں ہماری طرف اور طرح کاایک شاعر ہے، اسی نے آج کل خیال بندی کا چراغ خوب روشن کر رکھا ہے۔‘‘
’’غالباً آنجناب کی مراد نواب اصغر علی خان نسیم دہلوی سے ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا۔
’’ہاں۔ اور آدمی وہ بڑے طنطنے والے ہیں۔ مجھے ایسے لوگ پسند ہیں۔‘‘ انہوں نے فرمایا۔ ’’تم نے ان کا شعر سنا ہوگا،
مضمون کے بھی شعر اگر ہوں تو خوب ہیں
کچھ ہو نہیں گئی غزل عاشقانہ فرض
میں بھی کہتا ہوں کہ نرے مضامین ہجر و وصال کے ورے بھی تو کچھ ہوگا۔ اسے کیوں نہ ٹٹولا جائے۔ نظیری کیا خوب کہتا ہے،
ہزار رنگ دریں کار خانہ در کار است
مگیر نکتہ نظیری ہمہ نکو بستند
تو میاں، دنیا تو بہت بڑی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ چشم تنگ کو واکریں۔‘‘
مجھے قبلہ و کعبہ کا شعر یاد آگیا،
حسد سے دل اگر افسردہ ہے گرم تماشا ہو
کہ چشم تنگ شاید کثرت نظارہ سے وا ہو
انہوں نے مسکراکر فرمایا، ’’شعر تو آپ کو خوب یاد ہیں، لیکن دیکھیے کہیں رسوا سے رسوا سر بازار نہ ہو جائیے۔ غالب کے چاہنے والے بہت ہیں، لیکن اس کا برا چاہنے والے بھی کم نہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’جناب والا کو تبارک و تعالیٰ نے محسود خلائق بنایا۔ اس کی قیمت تو ادا ہی کرنی ہوگی۔‘‘
میرزا صاحب چپ ہوگئے۔ مجھے ہر اس ہوا کہ زیادہ بے تکلف تو نہیں ہوگیا۔ لیکن وہ کسی سوچ میں تھے۔ میں بھی دم سادھے رہا۔ انہوں نے تھوڑی دیر بعد سراٹھایا۔ ارشاد ہوا، ’’جمعیت کم، تفرقہ زیاد۔ خودداری اور کبر نفس اور استغنا، یہ سب خداداد مجھ میں ہیں۔ پھر دکھ کیوں نہ اٹھاؤں۔ میرزا بیدل کہہ گئے ہیں، زندگی درگردنم افتاد بیدل چارہ نیست۔ لیکن چارہ نہ داشتن کے مضمون پر مجھے بیدل کا یہ شعر بہت اچھا لگتا ہے۔‘‘ پھر انہوں نے ا یک اداے درد مندی و خودنگری سے شعر پڑھا، گویا اپنے دل داغ دار پر وہ جتنے مغموم ہیں، اتنے ہی متکبر بھی ہیں،
بیدل زجگر سوختگی چارہ نہ دارم
باداغ مرا لالہ صفت عہد قدیم است
پھر ارشاد ہوا، ’’زبان و محاورہ الگ، لیکن یہ شخص شہنشاہ معنی تھا۔‘‘
مرزا صاحب پھر خاموش سے ہوگئے۔ شاید شعر کی کیفیت میں گم تھے۔ اتنی دیر میں بھنڈا دوبارہ تازہ ہوکر آگیا۔ پیر و مرشد متوجہ ہوئے تو میں نے عرض کیا، ’’حضور کل شام کو حاضری کی اجازت ہو۔ پرسوں صبح کی ڈاک سے میں انشاء اللہ چلا جاؤں گا۔‘‘
فرمایا، ’’ارے، ابھی آئے ابھی چلے۔ اے لو، میاں ذوق کا شعر یاد آگیا،
لیتے ہی دل جو عاشق دل سوز کا چلے
تم آگ لینے آئے تھے کیا آئے کیا چلے
’’کیا نوکری پر واپس جانے کیا عجلت ہے؟‘‘
میں نے گزارش کی، ’’جی جلدی تو کوئی خاص نہیں لیکن۔۔۔‘‘
’’تو کیا گھر پر کوئی منتظر ہے؟‘‘
میرے دل پر چوٹ سی لگی، آنکھیں نم ہونے لگیں۔ ’’اعلیٰ حضرت، گھر ہے ہی نہیں۔ کانپور میں ہوں ضرور، لیکن غریب الدیار ہوں۔‘‘
میری یہ کیفیت دیکھ کر مرزا صاحب نے بڑے نرم لہجے میں تفصیل پوچھی اور باصرار پوچھی۔ میں نے بھی مجبور ہوکر سب بتادیا۔ وہ بالکل سناٹے میں آگئے۔ کچھ دیر بعد بولے، ’’تو تم بھی نسیم صبح گاہی کی طرح خانماں برباد ہو۔ جبھی تو میں کہوں کہ یہ دل درد آشنا اس بچے کو کہاں سے ملا۔ خیر جاؤ۔ رکتے تو اچھا تھا۔ لیکن تمہاری مرضی۔ ہاں کل شام کو ضرور آجانا۔‘‘
میں حسب وعدہ رات ڈھلے مرزا صاحب کے دولت کدے پر پہنچا۔ کئی لوگ پہلے سے موجود تھے۔ ایک صاحب، جو مسن اور مشین تھے، مرزا صاحب سے کچھ پوچھ رہے تھے۔ طالب علم تو نہیں لیکن کہیں معلم لگتے تھے۔ قبلہ و کعبہ نے فرمایا، ’’ذرا وہ شعر پھر پڑھیے، میاں رسوا بھی سن لیں۔‘‘
’’حضرت، خاقانی کا شعر ہے۔‘‘ انہوں نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا۔ ’’ملاحظہ ہو،
دست آب دہ مجاورانش
ارزن دہ برج کو ترانش
اس کے معنی مفتی آزردہ صاحب کچھ بتاتے تھے، لیکن میں ٹھیک سے سمجھا نہیں۔‘‘
ارشاد ہوا، ’’سمجھیں بھی تو آپ کیسے۔ یہ شعر مثنوی ’تحفۃ العراقین‘ کا ہے، اس کے پہلے والے شعر سے اس کا ربط ہے۔ وہ شعر سامنے نہ ہو تو مطلب کیا خاک نکلے۔‘‘ پھر ایک لمحہ تامل کرکے آپ نے شعر پڑھا،
روح از پئے آبروے خود را
خلد از پئے رنگ و بوے خودرا
’’کہیے، اب کچھ سمجھے؟‘‘
’’جی، اب کچھ کچھ بات کھل رہی ہے۔‘‘ مولوی صاحب بولے۔
’’سنیے۔‘‘ مرزا صاحب نے فرمایا۔ ’’یہ اشعار خانۂ کعبہ کی ثنا میں ہیں۔ استاد فرماتے ہیں، روح اپنی افزائش آبرو کے لیے کعبے کے مجاوروں کو وضو کا پانی دیتی ہے۔ اور خلد، اخذ رنگ و بو کے لیے برج کعبۃ اللہ کے کبوتروں کو دانہ کھلاتا ہے۔‘‘ مولوی صاحب بولے، ’’ایک قول یہ ہے کہ ’دست آب دہ‘ لقب ہے اشرف الانبیا علیہ الصلواۃ والسلام کا۔‘‘ مرزا صاحب نے فرمایا، ’’دیکھو ان اشعار میں فاعل موجود ہے۔ روح، کہ دست آب دہ ہے، اور خلد، کہ ارزن دہ ہے۔ یہاں کون سا قرینہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے؟‘‘
’’جی، قرینہ تو کوئی نہیں، لیکن ایک جگہ خاقانی نے جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’دست آب دہ‘ کہا ہے۔ لوگ اسی سے استنباط کرتے ہیں۔‘‘
’’درست، لیکن وہ پورا فقرہ ہے ’دست آب دہ رسالت۔‘ یعنی منصب رسالت کو تو ضو کے ذریعے مزید روشن کرنے والا۔ بے شک یہ صفت حضور نبی آخر الزماں علیہ صلوۃ والسلام کی ہوسکتی ہے۔ لیکن اس سے ’دست آب دہ‘ کے معنی نہیں بدلتے۔ ’دست آب‘ کے معنی ہیں ’وضو کا پانی‘، لہٰذا ’دست آب دہ‘ کے معنی ہوئے، ’وضو کا پا نی دینے والا۔‘ اس کے سوا اور کوئی معنی نہیں۔‘‘
مولوی صاحب خاموش ہوئے تو میرزا صاحب اوروں کی طرف متوجہ ہوئے۔ کئی لوگ جمع تھے۔ معلوم ہوا آج داستان گوئی کی محفل ہے۔ کبھی اردو، کبھی فارسی داستان امیر حمزہ سنی جاتی ہے۔ مجھے ذرا تعجب ہوا کہ مرزا صاحب کو ان چیزوں سے بھی رغبت ہے۔ خیر، داستان گو تشریف لائے۔ کھانا ہوا، اس کے بعد داستان گو صاحب ایک مسند کی ٹیک لگاکر ذرا بلند جگہ پر بیٹھے۔ انہوں نے اپنے لیے افیون کا گھولوا تیار کیا، ایک دو چسکیاں لیں۔ پھر داستان آغاز ہوئی۔ شاید میرا لحاظ کرکے آج خسرو ہندوستان لندھور بن سعدان کا بیان تھا۔ داستان گو صاحب کیا تھے، گویا ایک کل کی گڑیا تھی کہ لحظہ بہ لحظہ رنگ بدلتی تھی۔ ہر لہجے پرقادر، ہر طرح کے لغات کے ماہر۔ رزم، بزم، طلسم، اور سب سے بڑھ کر عیاری کے وہ وہ قصے کہ لوگ چونک چونک کر اپنی جیبیں ٹٹولتے کہ کہیں عمر و عیار نے ہماری بھی توجیبیں نہیں تراش دیں۔
گئی رات تک محفل رہی۔ مرزا صاحب نے تقریباً آبدیدہ ہوکر مجھے رخصت کیا۔ صدر دروازے تک چھوڑنے آئے۔ پھر آنے اور خط لکھنے کی تاکید فرمائی۔ ادھر وہ اندر تشریف لے گئے، ادھر کلوداروغہ نے ایک ریشمی تھیلی میرے ہاتھ میں پکڑادی، کہ نواب صاحب نے زاد سفر عنایت کیا ہے۔ میں بھونچکا رہ گیا۔ انکار کی تاب تھی اور نہ موقع۔ سراپر آکر دیکھا تو اکیاون روپئے مہری تھی۔
اس ایک بار کے علاوہ میں کبھی دلی نہ جاسکا۔ خط لکھتے مجھے شرم آتی تھی لیکن سال میں ایک دوبار کوئی تحفہ میرزا صاحب کے لے بھجوادیا کرتا اور دعا کی درخواست کرتا۔ کبھی ملیح آباد کے آم اور جونپور کی امرتیاں، کبھی اپنے مبارک پور کی لنگیاں اور پگڑیاں۔ کبھی کبھی ایک آدھ غزل ہمت کرکے بھیج دیتا۔ لیکن انہوں نے اصلاحی غزل کبھی واپس نہ کی۔ شاید وہ مجھے شاگرد نہیں بلکہ حاشیہ بردار تصور کرتے تھے۔ کوئی بھی تعلق ان سے ہوتا، میرے لیے بہت ہوتا،
فی الجملہ نسبتے بہ تو کافی بود مرا
بلبل ہمیں کہ قافیہ ء گل شود بس است
وہ مجھے اپنا دوست تصور فرماتے تھے تو میر لیے اس سے بڑا اعزاز کیا ممکن تھا۔
۱۸۶۸ء میں، انگریزوں کی داروگیرور ستاخیز کے پورے دس سال بعد، مجھے اپنے کمھار دوست سے خبر ملی کہ میری زمینیں واگذاشت ہوگئی ہیں اور میرے گھرانے کو معافی مل گئی ہے۔ وہاں میرے گھرانے میں تھا ہی کون جو اس معافی سے منتفع ہوتا؟ جس گڑھی میں میرے اجداد ڈھائی سو برس رہے تھے اسے منہدم دیکھنے کے بعد میرے لیے بھی وہاں رہاہی کیا تھا۔ میری ماں کے ایک عزیز بنارس میں عسرت کی زندگی گزار رہے تھے۔ میں نے انہیں بلاکر سب جائداد انہیں بے قیمت ہبہ کردی۔ کانپور میں مجھے تنہائی کے سوا کوئی تعب نہ تھا۔ شادی میں نے کی نہیں۔ شاعری خوب چل نکلی تھی۔ توپ کے کارخانے میں تنخواہ اچھی تھی، عزت سے بسر ہوجاتی تھی۔
ایک دن فروری ۱۸۶۹ء کی کوئی تاریخ تھی کہ میں نے ’اودھ اخبار‘ میں پڑھا کہ بلبل ہند، نجم الدولہ، دبیر الملک، میرزا اسد اللہ خاں غالب، مالک حقیقی سے جاملے۔ میں نے آہ سرد بھری اور چپ ہوگیا۔ دل میں کہا، مرزا صاحب فرماتے تھے، اکرام خلاق زمین و زماں سے قلمر و نثر و نظم کا انصرام و انتظام بخوبی ہوچکا ہے۔ اب اگر وہ چاہے گا تو میرانام تایوم القیام رہے گا۔ میرے دل نے کہا، آمین، ثم آمین،
لکھا رہے سوبرس تک جو لکھ جائے کوئے
لکھنے ہارا باؤلا سو گل گل مٹی ہوئے
میرزا کا نام ان کے بعد اور بھی چمکا۔ ان کے شاگرد خواجہ حالی نے ’یادگار غالب‘ نامی کتاب لکھی، (اول اشاعت، ۱۸۹۷ء، مرتب) اس کے خوب چرچے رہے۔ شبلی صاحب نے فارسی مرزا نوشہ کی نہ مانی تو کیا، خواجہ حالی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ غیر اہل زبان بھی فارسی پر قدرت تامہ رکھ سکتا ہے اور میرزا صاحب کو یہ قدرت حاصل تھی۔ لاہور سے مولانا محمد حسین آزاد نے اپنی کتاب ’آب حیات‘ چھپوائی (اول اشاعت، ۱۸۸۰ء، مرتب) تو اس میں میرزا صاحب کی باتیں ایسے مزے مزے کی لکھیں کہ لوگوں میں میرزا صاحب کا نام اپنے دوستوں کے ناموں سامانوس ہوگیا۔ ابھی کچھ برس پہلے عظیم آباد کے کوئی صاحب ہیں، صلاح الدین خدابخش، انہوں نے مرزا صاحب کا موازنہ جرمن کے کسی بہت بڑے شاعر سے کیا اور لکھا ہے کہ مرزا صاحب کو اس پر تفوق ہے۔ (یہ مضمون ۱۹۱۰ء میں چھپا تھا، اس میں صلاح الدین خدا بخش نے غالب کو عظیم جرمن رومانی شاعرہائنہ (۱۷۹۷ء تا ۱۸۵۶ء) پر فوقیت دی تھی۔ مرتب۔)
میں نے کہیں سنا کہ بھوپال میں کوئی ہونہار نوجوان بجنوری نام کے ہیں۔ انہوں نے مرزا صاحب قبلہ کے بارے میں کچھ لکھا ہے اور ثابت کیا ہے کہ ہمارے صاحب کا مرتبہ کسی یورپین شاعر سے کم نہیں۔ لیکن ان کی یہ تحریر ابھی منظر عام پر نہیں آئی ہے۔ سنا جاتا ہے بجنوری صاحب ان دنوں بہت بیمار ہیں، اللہ انہیں شفا دے۔ (عبدالرحمن بجنوری کی جس تحریر کا ذکر بینی مادھو رسوا نے کیا ہے وہ نامکمل رہی اور بجنوری کے انتقال کے بعد ’محاسن کلام غالب‘ کے نام سے ’نسخۂ حمیدیہ‘ کے دیباچے کے طور پر بھوپال سے ۱۹۲۱ء میں شائع ہوئی اور نقد غالب میں ا ہم مقام کی مستحق قرار پائی۔ بجنوری کا انتقال ۱۹۱۸ء ہی میں ہوگیا۔ اس وقت ان کی عمر صرف ۳۳برس کی تھی۔ مرتب۔)
تھوڑی بہت انگریزی میں نے بھی پڑھی ہے۔ اتنا تو میں ڈنکے کی چوٹ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے کسی انگریزی نظم میں وہ روانی اور وہ شوخی نہیں دیکھی جو میرے صاحب و قبلہ کے اکثر اشعار میں ملتی ہے۔ میرے محبان صادق الوداد حضرت نادر علی خاں نادر کاکوروی اور حضرت درگاسہائے سرور جہان آبادی نے انگریزی کے وافر ترجموں سے دامن اردو کو مالامال کیا ہے۔ لیکن میں دبی زبان سے کہنے کی جرأت کرتا ہوں کہ ان میں سے کوئی نظم مرزا نوشہ یا میر تقی کے مرتبے کو نہیں پہنچتی۔ دوسری زبان سے ترجمہ کرنے میں کچھ نہ کچھ ضائع ضرور ہوتا ہوگا، یہ بات بھی ہے۔
مرزا صاحب کے مشکل اشعار کے معنی تو لوگ خود ان سے بھی پوچھ لیتے تھے لیکن ان کے معتدبہ اشعار اردو کی شرح درگا پرشاد صاحب نادر دہلوی کے ایک لائق شاگرد میاں حلم بریلوی نے لکھی۔ سنا گیا کہ ان کے سارے اردو کلام کی شرح خواجہ بدرالدین راقم نے حیدرآباد جاکر لکھی تھی۔ لیکن وہ مرہون انطباع نہ ہوئی۔ پھر حیدر آباد ہی سے مولوی سید علی حیدر نظم طباطبائی نے اپنی شرح چھپواکر عام کی (اول اشاعت، ۱۹۰۰ء، مرتب۔) مولوی صاحب کی علمیت اور شعر فہمی میں شک کسی کافر کو ہوگا، لیکن ان کی شرح کو غیر جنبہ داری سے پڑھیے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ انہیں مرزا صاحب مغفور سے کچھ کد ہے۔ ستائش وہ خوب کرتے ہیں، نکتے وہ عمدہ نکالتے ہیں۔ لیکن یہ بھی لگتا ہے کہ خواہ مخواہ کی عیب چینی بغیر انہیں چین نہیں۔
کچھ دن ہوئے ایک علی گڑھ کے بی اے پاس صاحب نے، جو کانپور ہی میں مقیم ہیں، میرزا صاحب کے دیوان کے ساتھ بعض بعض اشعار کی شرح بھی شائع کی ہے (اول اشاعت، ۱۹۱۱ء، مرتب۔) حسرت موہانی ان کا نام ہے۔ ان دنوں قومی تحریکات میں حصہ لینے کے باعث جیل خانے میں ہیں۔ بڑے لائق اور گرماگرم شخص ہیں۔ شرحیں ان کی نہایت مختصر لیکن بڑی معنی خیز ہیں۔ شعر کا اچھا ذوق رکھتے ہیں۔ منشی تسلیم لکھنوی کے شاگرد ہیں۔ اس لحاظ سے نواب نسیم دہلوی ان کے دادا استاد ٹھہرے۔ منشی تسلیم صاحب کا ایک شعر مجھے مزہ دیتا ہے،
میں تو ہوں تسلیم شاگرد نسیم دہلوی
مجھ کو طرز شاعران لکھنؤ سے کیا غرض
ان دنوں لکھنؤ میں پھر تھوڑی بہت ٹھنی ہوئی ہے، درحالے کہ میر انشاء اللہ خان انشا نے تو صاف صاف انہیں لکھنؤ والوں کو لائق اعتنا گردانا ہے جو براہ راست دہلی سے آئے ہوں اور لکھنؤ میں جن کے گھر پچاس برس سے زیادہ پرانے نہ ہوں۔ اور یہ انہوں نے اس وقت کہا جب اودھ پر مرزا منگلی کا راج تھا۔ وہ جنت آرام گاہ اپنی زبان کو شاید دہلی ہی کی زبان قرار دیتے تھے۔ (ملاحظہ ہو ’دریاے لطافت‘، محررہ ۱۸۰۷ء، اول اشاعت ۱۸۵۰ء، مرتب۔) اتنا تو میں بھی کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے میرزا صاحب میں ایسا کوئی تعصب نہ تھا۔ وہ شاخ ناسخ کے بھی قائل تھے اور خواجہ آتش کے بھی۔ ایک بار بے خیالی میں انہوں نے مرزا رجب علی بیگ سرور کی تصنیف ’فسانۂ عجائب‘ پر بڑے سخت جملے کہے تھے۔ لیکن ان اقوال میں تعصب نہ تھا، اپنی رائے کا بے لاگ اظہار تھا۔ یہ ضرور ہے کہ مرزا صاحب خود اپنی زبان کے تئیں فرماتے تھے کہ اوروں کی نسبت فصیح تر ہے۔
میرزا صاحب مغفور کے ارتحال کی تاریخیں بہت کہی گئیں۔ مولوی حالی نے غضب کا مرثیہ کہا۔ میرا جی بہت چاہا کہ میں بھی مرثیہ کہوں۔ لیکن کبھی ایک دو مصرعے سے آگے نہ بڑھ سکا۔ خدا معلوم کیوں رقت طاری ہوجاتی۔ لگتا کہ اپنے باپ دادا کا بھی مرثیہ کہہ رہا ہوں۔ مرزا صاحب کے گزرنے کی خبر کے کئی دن بعد تک میری سمجھ میں نہ آتاتھا کہ ان کا تعزیہ کسے دوں۔ آخر دادا میاں کی درگاہ پر پانچ سیر شیرینی اور پانچ سیر کی شیرمالیں فاتحہ کرائیں اور تقسیم کردیں۔ گھر آکر مرزا صاحب کی یادگار تحریر کو آنکھوں سے لگا کر دو آنسو رولیا۔
آج جب کہ نومبر ۱۹۱۸ء کی آخری تاریخ ہے، میں انگریزی حساب سے اٹھتر برس کا ہوگیا۔ اتنی عمر بہت ہوتی ہے، امید ہے کہ جلد ہی میرا بلاوا آجائے گا۔ کہنے کی باتیں تو اور بھی تھیں،
گفتی کہ چرا حال دل خویش نہ گوئی
من خود کنم آغاز بہ پایاں کہ رساند
میں نے وہی باتیں لکھی ہیں جن سے پڑھنے والے (اگر ان پراگندہ خیالیوں کا کوئی پڑھنے والا ہوا) کو یہ تو معلوم ہو کہ میں کون تھا اور کن کن سے شرف ہم کلامی حاصل رہا ہے۔ گزری باتوں کو پچاس سے زیادہ سال ہونے کو آئے، لیکن لگتا ہے ابھی ابھی انہیں خواب میں دیکھ کر اٹھاہوں۔ میرے باپ ماں کی من موہنی صورتیں، دادا جان اور مولوی خادم حسین ناظم کے نورانی چہرے، پوایاں راج کی سرحد پر انگریزی فوج کا ہجوم اور ڈنکا شاہ کا ماتم کرتی ہوئی اور پوایاں کے راجہ کو کوستی ہوئی عورتیں۔ میرزا صاحب کی بارعب شخصیت، جس میں بلا کا حسن بھی تھا اور شوخی کے ساتھ عجب طرح کا حزن بھی۔ نواب ضیاء الدین خان اور منشی شیونرائن آرام، میر کاظم علی داستان گو، دلی کے اجڑے پجڑے کوچہ و بازار، جن میں پھر بھی ایک غرور، ایک گردن افرازی کی شان تھی۔ اور میرا مامن، میرا کمھار دوست، اور وہ جسے بھی ۱۸۵۷ نے کھالیا۔ جس پر کبھی میری نگاہ پڑتی تھی۔ شاہ حاتم نے شاید ہم جیسوں کے ہی لیے کہا تھا،
اس وقت دل مرا ترے پنجے کے بیچ تھا
جس وقت تو نے ہاتھ لگایا تھا ہاتھ کو
سب جان و تن ملا تھا نہ تھا کچھ خلل مگر
دونوں کے دل اس آن ترستے تھے بات کو
انگریز اتنی بڑی لڑائی ہارتے ہارتے جیت گیا۔ جرمن کو بھی شکست ہوئی۔ میرزا صاحب فرماتے تھے کہ غوث علی شاہ صاحب کا قول تھا، انگریز کا اقبال بلند ہے اس لیے اس کی عورتوں پر جن بھوت بھی نہیں آتا۔ اب میں اپنے جیتے جی تو اس اقبال میں گہن لگتے نہ دیکھ سکوں گا۔ اللہ بس باقی ہوس۔