اجتناب کیجیے، احتیاط لازم ، کہیں دیرہو نہ جائے
ایک دانا و بینا شخص اگرجانتے بوجھتے وہ کام کر رہا ہو، جس میں اس کے لئے سخت نقصان چھپا ہوا ہو تو اس کے سوا اور کیا کہاجا سکتا ہے کہ کسی نے اسے ہپناٹائز کر دیا۔ آپ اگر چھپ کر آج کے انسان کا مشاہدہ کریں تو آپ پر انکشاف ہوگا کہ ہم میں سے اکثر ایسی ہی بے سروپا زندگیاں گزار رہے ہیں۔ ہم رات کو جاگتے ہیں ؛حالانکہ ہمارا جسم رات کو سونے کے لئے بنا ہے۔ ہم وہ خوراک کھاتے ہیں، جس کی وجہ سے چند برسوں کے اندر اندر ہم موٹاپے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دو تین دہائیوں میں پھر یہ موٹاپا ہمیں ادھیڑ عمری ہی میں موت کی نیند سلا دیتا ہے۔ کبھی کبھی توایسا لگتاہے کہ پوری کی پوری انسانیت ہپناٹائزڈ ہو چکی۔ ہمارا دشمن خطرناک ٹیکنالوجی سے لیس ہے۔ سب کے ہاتھ میں اسمارٹ فون اور سب کی آنکھوں پر ڈیجیٹل گلاسز چڑھا چکا۔ اپنی مرضی سے اب ہم کچھ سوچ بھی نہیں سکتے۔
موبائل پر واٹس ایپ، فیس بک، وائبراور ای میل پر ہمیں دن رات ایسے لوگوں کے پیغامات موصول ہوتے ہیں، جنہیں ہم جانتے ہی نہیں۔ آپ ان سے پوچھیں کہ تم کون ہو اور میرے نمبر پر یہ غیر ضروری معلومات کیوں بھیج رہے ہو تو وہ ہنس پڑتے ہیں۔ایک بار ایک شخص نے کہا: آپ کو اس لئے اس گروپ میں شامل کیاگیا ہے، تاکہ اچھی معلومات کا تبادلہ ہو سکے۔ آپ جب تک اس گروپ یا اس کنورسیشن کو Leaveنہ کریں، آپ کو پیغامات موصول ہوتے رہیں گے۔ آپ کو ایک جگہ Mention کر دیا گیا ہے تو آپ اپنی جان چھڑا نہیں سکتے اور وہ جان بوجھ کر آپ کو وہاں مینشن کرتے ہیں۔ غیر ضروری انفارمیشن کا ایک سیلاب چوبیس گھنٹے جاری رہتاہے۔ اگر آپ موبائل کی گھنٹی بند کرنا بھول جائیں تو یہ پیغامات رات گئے آپ کو جگا دیتے ہیں۔ اس کے بعد اگر آپ کئی گھنٹے جاگتے رہیں توان کی بلا سے۔ ایسا لگتاہے کہ جیسے انسان کا نادیدہ دشمن اسے اذیت دینے کے لئے زبردستی جگائے رکھتاہے، جیسے ایک زیرِ تفتیش قیدی کو۔
آپ ایک بار انٹرنیٹ پر کوئی چیز کھول کر دیکھ لیں۔ اس کے بعداشتہارات دھڑا دھڑ آپ کو موصول ہوں گے۔ اس خوف سے آپ انٹرنیٹ پر مصنوعات دیکھنا چھوڑ دیں گے۔ کچھ برس ٹھہر جائیے، دن رات آپ کو فون کالز بھی آیا کریں گی۔ موبائل اور لیپ ٹاپ آپس میں جوڑ دیے گئے ہیں۔ آج کا انسان اگر اپنا موبائل فون کہیں پھینک بھی دے تو اس کے بعد اپنے گھراور اپنے معاشرے میں وہ ایک ایلین ہوگا۔ پرانا موبائل خراب ہوتے ہی، نئے موبائل میں سارا ڈیٹا سنکرونائزیشن سے واپس آجاتاہے۔ آپ کچھ بھول بھی نہیں سکتے۔ سوشل میڈیا پر ایسے بے شمار چہرے آپ کو نظر آئیں گے، جنہیں آپ دیکھنا نہیں چاہتے لیکن دیکھنے پر مجبور ہیں۔ آج کا انسان جس غیر ضروری انفارمیشن کے سیلاب میں بہا دیا گیا ہے، وہ اس پر صرف اپنا ردّعمل ہی دے سکتاہے۔ سوچ کچھ نہیں سکتا۔
آج دفتر سے واپسی پر آپ کی بیٹی دوڑ کر آپ کا استقبال نہیں کرتی۔ بیویاں تازہ بنا ہوا کھانا آپ کے سامنے نہیں رکھتیں، بلکہ اکثر اوقات ڈلیوری بوائے یہ زحمت سرانجام دیتاہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جھولوں میں کھیلتے ہوئے بچے موبائل فون میں مگن ہیں۔ آج آپ کے اپنے پرائے ہو چکے اور سوشل میڈیا پر پرائے آپ کے اپنے ہو چکے۔ آپ دن رات ان لوگوں کو اپنے دل کا حال سناتے ہیں، جو آپ کے کچھ بھی نہیں لگتے ؛حتیٰ کہ آج اگر آپ مرجائیں تو ان کی آنکھ سے ایک قطرہ آنسو نہ ٹپکے۔ آپ کے بچوں میں سے ہر ایک ایسی ہی دوستیوں میں مگن ہے، جو دل ضرور بہلاتی ہیں، مصیبت میں کام ہرگز نہیں آتیں۔وہ محض آپ کی خوشیوں میں شریک ہیں۔ پورا دن آپ پاگلوں کی طرح ایسی کوئی چیز کھوجتے ہیں، جسے سوشل میڈیا پر شیئر کیا جا سکے۔
اب گھر ایک جیل ہے۔ ہر کمرے میں اسمارٹ فون ہاتھ میں پکڑے، لیپ ٹاپ گود میں رکھے، ایک اجنبی اپنی قید کاٹ رہا ہے۔ آپ کے بیٹے کو انٹرنیٹ پراتنا کچھ مل جاتاہے، جس کے بعد اسے نصف صدی پرانے باپ کی سست باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں۔
اور موٹاپا؟ فرض کریں کہ آپ ایک دریا میں بہتے چلے جا رہے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ آگے وہ سینکڑوں فٹ گہرائی میں گرنے والا ہے۔ اس کے باوجود آپ اطمینان سے لیٹے ہوئے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کسی معجزے کے منتظر ہیں۔ موٹاپا ایسی ہی ایک خون آشام ڈائن ہے، جو جب تک آپ کے جسم کے ساتھ ایک خوفناک کھلواڑکر کے اسے قبل از وقت موت کے گھاٹ نہ اتار دے، اسے سکون نصیب نہیں ہوتا۔ یہ محض 49برس کی عمر میں نصرت فتح علی خان جیسے لیجنڈ کو نگل گیا۔ آج ہم سب کے پیٹ نکلے ہوئے ہیں اور ہم سب کسی معجزے کے منتظر فاسٹ فوڈ چبا رہے ہیں۔
پہلے خاندان اکھٹے ہو کر پکنک منانے جا یا کرتے۔ آج اگر انہیں زبردستی اکھٹا کربھی دیا جائے تو ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے اسمارٹ فون پر مصروف رہے گا۔ایک ڈیجیٹل زندگی میں وہ کھو چکے، جو بظاہر اصل زندگی سے کہیں خوشنما ہے۔ یہ ڈیجیٹل زندگی ان کی توانائی کھا رہی ہے، ان کا وقت کھا رہی ہے اور انہیں غیر ضروری تنازعات میں الجھا رہی ہے۔
ایک دن آدمی اس نتیجے پر پہنچے گا کہ اسے انسانوں میں غیر ضروری رابطوں کوختم کرنا ہوگا۔ ایسے لوگ ہر دور کی ضرورت رہے ہیں، جو فوکسڈ ہوں۔ ہمیں بہرحال اس پاگل پن کا مقابلہ کرنا ہے۔ ہمیں صحت مند خوراک کھانی ہے۔ ہمیں پیدل چلنا ہے۔ ہمیں عقل کی بات کرنی ہے۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے!