غزہ پر اسرائیلی بمباری: نئی اسرائیلی جارحیت کی وجہ اسلامی جہاد ہے یا انتخابی سیاست؟
پندرہ برس سے زائد قید خانے کی صورت غزہ کی پٹی میں بیس لاکھ سے زائد زندگی جھیلتے انسانوں کو ایک بار پھر اسرائیلی درندگی کی لہر کا سامنا ہے۔ جمعے کے روز بہانہ بنا کر اسرائیلی طیاروں نے غزہ پر بمباری کی اور پندرہ انسانوں کی جان لے لی جن میں ایک پانچ سالہ بچی بھی شامل تھی۔ اسرائیلی درندگی صرف یہیں نہیں رکی بلکہ ہفتے کے روز بھی اس کے طیاروں نے رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنایا۔ دوسرے روز کے حملے پہلے دن سے زیادہ سخت تھے۔
الجزیرہ کے مطابق چوبیس افراد جان کی بازی ہار گئے جن میں چھے بچے شامل تھے۔ غزہ کی وزارت صحت نے کہا کہ صرف دو دن کی بمباری سے کم از کم 203 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ جواب میں فلسطینی تنظیم اسلامک جہاد نے بھی اسرائیل پر سو سے زائد راکٹ مارے لیکن بیشتر اسرائیلی اینٹی مزائل سسٹم آئرن ڈوم نے روک لیے۔ کتنے ان میں سے اسرائیل تک پہنچ پائے اور ان کا کیا نقصان ہوا، اعداد و شمار اب تک میسر نہیں۔ لیکن دونوں طرف کی افواج کے پاس موجود وسائل کا عدم توازن اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ نقصان کس طرف کا زیادہ ہوگا۔ ایک طرف جدید ترین فضائیہ ہے اور دوسری طرف ہلکے پھلکے ہتھیار رکھے مٹھی بھر مجاہدین۔
اسرائیل جس نے پہل کی، نے کہا کہ ہم نے یہ بمباری پیشگی حفاظت کے لیے کی، کیونکہ اسلامی جہاد نامی عسکری تنظیم ہم پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔ اسرائیل نے چار پانچ روز پہلے اسلامک جہاد کے باسٹھ سالہ رہنما باسم السعدی کو مغربی کنارے سے گرفتار کیا تھا۔ جمعے کو اپنی بمباری کے دوران بھی اسرائیلیوں نے اسلامک جہاد کے ایک اور رہنما کو نشانہ بنایا تھا۔
اب اسرائیل تو دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ یہ سب پیش گی حفاظت کے طور پر کر رہا ہے، لیکن اپنی آزاد رائے رکھنے والے بہت سے افراد اور تنظیمیں اسرائیل کے اس دعوے کو مسترد کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تازہ حملے اسرائیل کی مقامی سیاست کا نتیجہ ہیں۔ در اصل اسرائیل میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس وقت کے جز وقتی وزیر اعظم یایر لیپد Yair Lapid دائیں بازو کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے یہ مظالم ڈھا رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے وہ دائیں بازو کو یقین دلا رہے ہیں کہ ان کی پالیسیاں فلسطینیوں کے لیے ویسی ہی سخت ہوں گی جیسی انتہا پسند لوگ چاہتے ہیں۔ اپنے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اسرائیلی وزیراعظم نے اسلامک جہاد کے رہنما کو پہلے گرفتار کروایا اور پھر قتل عام کے لیے بمباری۔ اس وقت اسرائیلیوں نے غزہ کی پٹی کو گھیر رکھا ہے اور میڈیا رپورٹس کے مطابق طبی امداد تک پہنچانا مشکل ہو رہی ہے۔
اسرائیلی بمباری پر مسلم طاقتوں کا روایتی ردعمل:
حقیقت تو یہ ہے کہ مسلم طاقتوں کے پاس فلسطینیوں کے لیے بیان بازی سے بڑھ کر کسی عملی اقدام کا دم خم نہیں رہ گیا۔ تاہم اس بیان بازی میں بھی اب گرم جوشی نظر نہیں آ رہی۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے ۔ دو دن کے دوران صرف ایران کے حکام نے سخت بیان جاری کیے ہیں اور اسرائیل کو سخت نتائج کی دھمکی دی ہے۔ شاید اس کے پیچھے بھی ایران کا اپنا ہی مفاد ہو۔ کیونکہ اسلامی جہاد، جس تنظیم کا نام لے کر اسرائیلی یہ کاروائی کر رہیں ہیں، میڈیا رپورٹس کے مطابق اسے فنڈ ایران کرتا ہے۔ خیر اپنے مفاد کے لیے ہی سہی، ایران نے فلسطینیوں کو احساس تو دلایا کہ وہ تنہا نہیں۔ باقی قوتوں نے گونگلوؤں پر کیسے مٹی جھاڑی ہے آپ خود پڑھ لیں۔
ترکیہ نے کہا کہ وہ بمباری کی شدید مذمت کرتا ہے اور اسرائیلی جارجیت کسی طور بھی قابل قبول نہیں۔ عرب لیگ نے کہا کہ وہ سفاک اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتا ہے۔ مصر نے کہا کہ وہ حالات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسے امید ہے کہ حالات جلد معمول پر آ جائیں گے۔ قطر نے بھی حملوں کی مذمت کی ہے۔ اردن نے فوری حملے روکنے کا مطالبہ کیا۔
بس یہ ٹھنڈی پڑتی بیان بازیاں ہیں۔ لیکن دوسری طرف مجاہدین کی مزاحمت ابھی بھی جوان ہے۔ اسلامک جہاد نے ان حملوں کے جواب میں بیان جاری کیا:"دشمن نے ہمارے لوگوں کو نشانہ بنانے سے جنگ کا آغاز کیا ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی اور اپنے لوگوں کی حفاظت کریں۔ دشمن کو موقع نہ دیں کہ اس کی کاروائیاں کامیاب ہوں، جو کہ صرف ہماری مزاحمت اور ثابت قدمی کو توڑنے کے لیے ہیں۔"