ماحولیاتی تبدیلی سے ہماری نیند کم ہورہی ہے
بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے جہاں ہمارے پسینے چھوٹ گئے وہاں ہماری نیند بھی حرام ہوگئی ہے۔ نہ دن میں چین نہ رات کو آرام۔ شہروں کی نسبت دیہات میں لوڈ شیڈنگ سے زیادہ پریشانی نہیں ہوتی ہے۔ وہاں تو لوگ گھنے درختوں کے نیچے چارپائی بچھاتے ہیں اور نیند کے مزے لوٹتے ہیں۔ اس لیے اگرشہروں میں بھی چَین کی نیند چاہیے تو درخت اگائیے۔ پچھلے دنوں ایک تحقیق نظر سے گزری کہ اگر آپ کو پُرسکون نیند چاہیے تو درخت اگائیے۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ نیند کا شجر کاری سے کیا تعلق ہے۔ آپ کو جواب تو مل گیا ہوگا لیکن ذرا سائنس کی زبان میں سمجھاتے ہیں۔
نیند لوازمات زیست میں سے ایک انتہائی اہم ضرورت ہے ۔ جس طرح کھائے پیئے بغیر زیادہ دیر تک جینے کا تصور نہیں کیا جا سکتا اسی طرح سوئے بغیر زیادہ دیر زندہ رہنا محال ہے ۔
مزید پڑھیے: اچھی نیند کے لیے شاعر کی ضرورت ہے یا ڈاکٹر کی؟
کہتے ہیں کہ نیند تو تختہ دار پر بھی آ جاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پُرسکون نیند کے لیے بھی ایک خاص ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ روشنی، درجہ حرارت اور شور کی قابل برداشت مقدار کی حد تک موجودگی میں نیند کے مزے لیے جاسکتے ہیں لیکن ایک مخصوص حد سے زیادہ ان میں سے کی عامل کی موجودگی ہمیں نیند سے کوسوں دور لے جا سکتی ہے ۔
گرمی زیادہ نیند کم: بچے گرمی میں سوتے ہی نہیں
مذکورہ عوامل میں سے درجہ حرارت ایک اہم عامل ہے ۔ ہماری ماحول میں درجہ حرارت کی کمی بیشی ہماری نیند کو متاثر کرتی ہے ۔ ان دنوں بجلی کی آنکھ مچولی سے پنکھے ، ائیر کولر یا ائیر کنڈیشنر وغیرہ کے بار بار بند ہونے سے ہم پاکستانی عوام اس حقیقت کا دن میں کئی بار تجربہ کرتے ہیں ۔ بچے چونکہ زیادہ حساس ہوتے ہیں اس لیے وہ اس درجہ حرارت کی تبدیلی کو جلدی محسوس کر لیتے ہیں اور ان کی آنکھ ماحول میں گرمی کی تھوڑی سی مقدار بھی بڑھ جانے سے فوراً کھل جاتی ہے۔ اسی لیے آج کل راتوں میں بجلی کے جاتے ہی ہر گھر سے نونہالوں کے الگ الگ قسم کے راگ سنائی دینے لگتے ہیں۔
جنگلات کے کٹاؤ سے نیند کیسے حرام ہوجاتی ہے؟
ماحولیاتی تبدیلیوں (کلائمیٹ چینج) نے بھی ہمارے شہروں کے درجہ حرارت کو بہت متاثر کیا ہے۔ درختوں کی کٹائی، ٹریفک کی زیادتی سے کلوروفلوروکاربنز کی بڑھتی ہوئی مقدار نے گرین ہاؤس ایفکٹ کے مسائل کو جنم دیا ہے۔جس کی وجہ سے ہمارے سیارے کا اوسط درجہ حرارت رفتہ رفتہ بڑھ رہا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث درجہ حرارت میں یہ اضافہ ہماری زندگی کے دیگر پہلوؤں کی طرح ہماری نیند کو بھی بہت بری طرح متاثر کر رہا ہے۔
پچاس سال بعد ہماری نیند کہاں چلی جائے گی؟
یونیورسٹی آف کوپن ہیگن کی ایک تحقیقی ٹیم نے 'ماحولیاتی تبدیلیوں سے بڑھتے ہوئے اس درجہ حرارت کے نیند پر اثرات' سے متعلق ایک ریسرچ کی جو ایک آن لائن ریسرچ جرنل " ون ارتھ" میں شائع ہوئی ۔ اس تحقیق کے مطابق 2099 تک ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بڑھنے والا درجہ حرارت ہماری نیند میں سالانہ 50 سے 59 گھنٹوں کی تخفیف کر دے گا جو ایک رف اندازے کے مطابق ہفتے میں ایک گھنٹہ بنتا ہے ۔ اس تحقیق میں 47000 افراد کا ڈیٹا لیا گیا جو 68 ممالک سے تعلق رکھتے تھے ۔ اس تحقیق میں ٹیم نے مشاہدہ کیا کہ نیند کے دوران اگر گردوپیش کا درجہ حرارت اوسطاً 14 منٹ سے زیادہ دورانیے تک 30 سینٹی گریڈ سے زیادہ رہے تو بہت زیادہ امکانات ہیں کہ نیند کا اوسط سات گھنٹے کا دورانیہ پورا نہیں ہو سکے گا ۔ کیلٹن مائنر (Kelton Minor) جو اس ٹیم کا حصہ اور رپورٹ کے مصنف ہیں اس تحقیق کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ہم نے پہلی بار سیاروی (زمینی) ثبوت فراہم کیا ہے کہ (زمین کے) اوسط درجہ حرارت بڑھنے سے نیند حرام ہوجاتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نیند میں خرابی گرم موسم میں زیادہ ہوجاتی ہے۔
درخت اگاؤ نیند جگاؤ
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ رات کو جب ہم سو رہے ہوتے ہیں تو ہمارا جسم اردگرد کے ماحول میں ہاتھوں اور پیروں کے مقامات سے حرارت خارج کرتا ہے۔ اس عمل کے کامیابی سے جاری رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے گردوپیش کا درجہ حرارت ہمارے جسمانی درجہ حرارت سے کم ہو بصورت دیگر ہماری نیند متاثر ہو سکتی ہے۔ یہ تحقیق ابھی محدود ممالک کے سانپلز تک محدود ہے۔ اس ٹیم کا ارادہ ہے کہ اب غریب ممالک اس کے لوگوں کا ڈیٹا بھی اس میں شامل کیا جائے۔ میری خواہش ہے کہ محققین پاکستان کے لوگوں کا ڈیٹا خاص طور پر اس تحقیق میں شامل کریں۔۔۔ ہو سکتا ہے یہاں بسنے والی مخلوق ان کے نظریات کو یکسر بدل کر رکھ دے!