گرمی بہت ہے
کمرے کا درجہ حرارت معتدل تھا.....
جانے اسے کیوں گرمی کا احساس ہوا اور اس نے اُٹھ کر ایئرکنڈیشنر آن کر دیا۔ بستر پر واپس ٹیک لگا کر اس نے اخبار کی خبر کا بقیہ ٹکڑا اور جس نمبر کے تحت وہ ٹکرا کہیں درمیان والے صفحات میں اشتہاروں کے جنگل میں گم تھا..... تلاش کیا اور خبر مکمل پڑھ لینے کے بعد اس نے پھر پہلے صفحے پر نظر ڈالی..... پہلا صفحہ جس پر ایک آسمان بھر پھیلا کسی موبائل کمپنی کا اشتہار اور اس کے پہلو میں اونگھتی ہیڈ لائن..... اشتہار میں کوئی خاص کشش نہیں تھی..... اوراق پلٹتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ ایئر کنڈیشن سے گرم ہوا کا اخراج ہو رہا ہے..... حالانکہ ایسا ہر گز نہیں تھا۔
یہ وہم ہے میرا..... اس نے اپنے آپ کو تسلی دی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اسے احساس ہوا کہ کمرے میں حبس بتدریج بڑھ رہا ہے..... اسے سانس لینے میں دقت ہو رہی تھی۔ اس نے ایئر کنڈیشن کا ریموٹ کنٹرول اٹھایا اور تھرمواسٹیٹ کو 18پر سیٹ کیا..... پلنگ پر پاؤں لٹکائے اس نے تھوڑا انتظار کیاکہ کمرے کا درجۂ حرارت معمول پر آئے تو انگریزی ناول کا مطالعہ شروع کروں۔ بستر جس پر وہ برسوں سے سونے کا عادی تھا اسے گرم محسوس ہوا..... اس نے پھر خیال کو جھٹکا کہ فوم تو گرم ہوتا ہی ہے۔ شیشے کے جگ میں سے اس نے ٹھنڈا پانی گلاس میں اُنڈیلا اورغٹاغٹ پی گیا..... اس کے گلے میں کانٹے بھر گئے تھے اور کانٹوں کی چُبھن کو اس نے ٹھنڈے پانی سے مارنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش بھی رائیگاں گئی۔ وہ اٹھ کر ایئر کنڈیشن کے قریب گیا، ہوا کو چھو کے محسوس کیا..... ہوا گرم تھی.....
اسی دوران اس کی بیوی نے پورے بدن کروٹ لی۔ کچی نیند ٹوٹنے سے اس کی آنکھوں میں سرخ ڈورے اور خمار تھا۔
’’خیریت.....! آپ سوئے نہیں۔‘‘
’’کمرہ گرم نہیں ہے کیا.....؟‘‘
’’نہیں تو..... میں پاؤں پر کمبل ڈالے سو رہی ہوں۔‘‘
’’میرا دم گُھٹ رہا ہے۔‘‘
’’آپ کو وہم کی بیماری ہے لائٹ بند کیجیے اور سونے کی کوشش کریں.....‘‘اس کی بیوی نے پوری نیند اوڑھ لی۔
وہ کمرے سے باہر نکل آیا۔ بالکنی میں کھڑے ہو کر اس نے آسمان پر آدھے چاند اور سامنے رات کی تاریکی میںآسیب زدہ فلیٹس کی کئی منزلہ عمارتوں پر ایک نظر ڈالی۔ فلیٹس..... اور فلیٹس میں بستے خاندان، کسی کسی کمرے سے جھانکتی روشنی، قریباً ہر فلیٹ میں ایئرکنڈیشن چل رہا تھااوراس مشینی شور نے حشرات الارض کا شور نگل لیا تھا۔ اس کے اپنے اندر بھی اک شور بپا تھا.....
یہ فلیٹس میں چلتے ایئرکنڈیشن میرے اندر کے شور کو نگل کیوں نہیں جاتے، اگر میرے من میں شوکتے شور کو راہ نہ ملی تو یہ مجھے نگل کھائے گا..... اس شور کا کیا بندوبست کیا جائے.....؟
کمرے کے اندر حبس تھا۔ باہر بھی موسم میں حدت تھی۔
درد..... کرب..... بے بسی..... گھٹن..... آنسو.....!
رات کا سنّاٹا اور من میں گڑی یہ درد کی اَنی..... کس کے ساتھ اپنا درد جا بانٹوں.....؟
نہیں نہیں..... یہ میرا درد ہے۔ اسے عام نہیں کرنا۔ خود پینا اور جینا ہے۔
کیابیوی کو جگا کر ساتھ شامل کر لوں.....؟
نہیں..... چین کی نیند کیوں توڑوں بے چاری کی..... سوتی رہے۔
اس نے اپنے وجود کو اپنے ناتواں بازوؤں میں لیااور فرش پر اُکڑوں بیٹھ گیا۔ رات کے سناٹے میں ایئرکنڈیشنروں کا شور تھا۔ اپنے بازو اس نے اپنے ارد گرد اور مضبوطی سے لپیٹے لیکن اپنے آپ کو سنبھال نہ پایا..... اور سارے بندھن ٹوٹ گئے..... وہ رو دیا.....
صبح میں اسے بیٹی کا فون آیا تھا.....
’’بابا..... جس فلیٹ میں ہم رہتے ہیں..... ایئر کنڈیشن نہیں ہے نا..... مجھے بہت گرمی لگتی ہے.....!‘‘