گرم پانی

روشنی پر دھند کی تہ
آئنے کے نقش پھیکے
شیشے کے اس پار ابہام مجرد
کھڑکیوں پر آنسوؤں کی باڑھ
مورتیں ہوں صورتوں سے جیسے عاری
پگھلے چہروں سے تھی ہر تصویر بھاری
اور سکوت
بوجھ ہو گویا بصارت پر نمی
کھڑکی کھلتے ہی مگر
بانہیں پھیلا کر ہوا نے
بڑھ کے آنکھیں چوم لیں
آئنوں کے آنسو پونچھے
رنگ دھوئے
شیشے کی تر دامنی کا قطرہ قطرہ کھینچ ڈالا
کھڑکی کھلتے ہی وہ ساری دھند جیسے
رقص کرتی بادلوں کی اور لپکی
مضمحل چادر نظر کی ہٹتے ہٹتے ہٹ گئی
روشنی پھر منظروں سے پٹ گئی